ایک مستحکم اور پرامن افغانستان چین کے لئے اہم ہے کیونکہ وہ اپنی سرزمین میں انتہا پسندی کی دراندازی کو روکنے کی کوشش میں ہے اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آئی) کی بھرپور تکمیل چاہتا ہے۔ چین نے علاقائیاور عظیم طاقتوں کے ساتھ افغانستان کے امن عمل اور انخلا کے بعد افغانستان کی امداد کے لئے تعاون کیا ہے۔ تاہم، چین کے علاقائی معاشی منصوبوں کی مخالفت کی وجہ سے امریکہ اور بھارت کے ساتھ چین کے بگڑتے ہوئے تعلقات نے چین کو افغانستان سے متعلق معاملات میں زیادہ سخت مؤقف اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ چین نہ صرف پہاڑی سرحد پر سخت حفاظتی اقدامات اٹھانے میں افغان حکام کے ساتھ کام کر رہا ہے بلکہ روس، پاکستان اور ایران سمیت علاقائی طاقتوں کے ساتھ بھی تعاون بڑھا رہا ہے۔ اگرچہ دو علیحدہ گروہوں کی تشکیل سے کسی بھی ملوث فریق کے مفادات کا فائدہ نہیں ہوتا، لیکن امریکہ اور بھارت کے ساتھ چین کے بگڑتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے چین کے زیرقیادت ایک الگ علاقائی بلاک قائم ہو سکتا ہے جس کی توجہ افغانستان میں دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے اور معاشی سرگرمیوں میں اضافے پر مرکوز ہو گی۔
بی آر آئی، ای اے ای یو، اور جنگ کے بعد کے افغانستان میں چین کا کردار
بیجنگ کابل کے ساتھ ہموار تعلقات برقرار رکھ رہا ہے۔ تعلقات کو مستحکم کرنے کی ایک نئی کوشش میں، چینی وزیر خارجہ، وانگ یی نے اپنے افغان ہم منصب سے گفتگو کے دوران چین کو افغانستان کا “انتہائی قابل اعتماد پڑوسی” قرار دیا اور بی آرآئی کے فریم ورک کے تحت تعاون بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے افغانستان کے اندر دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لئے چین کے عزم پر بھی زور دیا۔ افغان وزیر خارجہ نے بیلٹ اینڈ روڈ فریم ورک کے تحت انسداد دہشت گردی کی مشترکہ کوششوں کو گہرا کرنے اور معاشی تعاون کو مستحکم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی۔ امریکی یکطرفی کی مذمت کرتے ہوئے، وانگ اور اس کے روسی ہم منصب نے بڑے بین الاقوامی اور علاقائی امور میں ہم آہنگی کو مستحکم کرنے اور بی آر آئی اور یوریشین اکنامک یونین (ای اے ای یو) کی تعمیر کے مابین تعاون کو فروغ دینے کے عزم کی تجدید کی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چین اور روسی تعاون کو دوبارہ تشکیل دینے کا مطالبہ امریکی خصوصی نمائندہ برائے افغان مفاہمت، زلمے خلیل زاد، اورامریکہ کے نئے قائم کردہ بین الاقوامی ترقیاتی فنانس کارپوریشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے خطے کے دورہ کے کچھ ہی عرصے بعد آیا. اس دورے کے دوران، واشنگٹن نے وسط ایشیائی ریاستوں اور پاکستان کے تعاون سے افغانستان کی معاشی تعمیر پر کام کرنے کے ارادوں کا اعلان کیا۔ بی آر آئی اور ای اے ای یو کے ممکنہ انضمام کے لئے بیجنگ اور ماسکو پہلے ہی پاکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
افغانستان کی تعمیر نو کے لئے آزاد ماڈل استعمال کرنے سے واشنگٹن کی ترجیح عدم تعاون سے مقابلے میں موقف کی تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے وسطی ایشیائی ریاستوں اور پاکستان پر یقینی طور پر اضافی دباؤ پڑتا ہے۔ اول، ان ریاستوں کو واشنگٹن اور بیجنگ-ماسکو کی تعمیر نو کی کوششوں کے درمیان انتخاب کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ دوئم، ان ترقی پذیر ممالک کی بیک وقت دونوں میگا منصوبوں پر عمل درآمد کرنے کی گنجائش ناکافی ہے۔ یہ بھی امکان موجود ہے کہ بڑی طاقتوں کے بہت سارے منصوبے ایک دوسرے کو پوشیدہ کر سکتے ہیں. جس کے نتیجے میں بیک وقت دونوں منصوبوں پر عمل درآمد ایک فیاسکو میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ مزید اہم بات یہ کہ مستقبل کے الگ الگ ماڈل کی دوڑ سے جاری افغان امن عمل پر علاقائی تعاون کو کمزور کرنے کا خطرہ ہے۔
علاقائی پولرائزیشن کے خطرات
چونکہ بی آرآئ اور ای اے ای یو کو ضم کرنے کا انحصار ایک مستحکم افغانستان پر ہے، لہذا چین اور روس افغانستان میں انفراسٹرکچر کے متعدد منصوبوں میں توسیع کرکے امریکی زیر قیادت افغان امن عمل کی حمایت کر رہے ہیں۔ تاہم، امریکہ اور بھارت ، امریکہ کا سب سے قابل اعتماد علاقائی اتحادی، سی پیک، بی آر آئی کے اہم منصوبے کی مذمت کرتے رہے ہیں۔ ہندوستان کی مخالفت کا ایک حصہ اس حقیقت پر مبنی ہے کہ سی پیک گلگت بلتستان (جی بی) کے متنازعہ علاقے سے گزرتا ہے۔ اگست ۲۰۱۹ میں بھارت کی جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی نے، تاہم، پاکستان کو گلگت بلتستان کو ایک مکمل صوبہ بنانے پر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ آنے والے مہینوں میں اس طرح کی کسی بھی پیشرفت، خاص کر سی پیک کو تسلیم کرنے کے متعلق، واشنگٹن اور نئی دہلی کے رد عمل کو دیکھنا اہم ہوگا۔
سی پیک سے اختلاف کے علاوہ، امریکہ اور ہندوستان خطے میں شدت پسند دہشت گردوں کے بارے میں متحد بیانیہ رکھتے ہیں۔ حالیہ منعقدہ “انسداد دہشت گردی مشترکہ ورکنگ گروپ” کے بعد جاری مشترکہ بیان میں ہندوستان اور امریکہ دونوں نے پاکستان کے خلاف خیلات کا اظہار کیا۔ تاہم قابل غور بات یہ ہے کہ امریکہ اور بین الاقوامی برادری اس سے قبل افغانستان کے امن عمل میں اور مقامی عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائیوں میں پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کرچکی ہے۔ اگرچہ امریکہ اور پاکستان نے حال ہی میں افغانستان میں امن کے لئے تعاون کیا ہے، امریکہ نے ” دہشت گردی کی کفیل ریاست” کے بیانیے کے تحت اسلام آباد کو الگ تھلگ کرنے کے ہندوستان کے اقدامات پر اتفاق کیا ہے، جس سے امریکہ اور پاکستان کی شراکت داری قلیل مدتی، کمزور اور نازک ہو رہی ہے۔ امریکہ اور بھارت کے مشترکہ بیان کے جواب میں، چین نے واشنگٹن سے کہا کہ وہ نہ صرف انسداد دہشت گردی کے بارے میں دوہرے معیارات کو ترک کرے بلکہ دہشت گردی کو کسی خاص ملک کے ساتھ نہ جوڑے۔ بیجنگ نے سہ فریقی طریقہ کار کے ذریعے اسلام آباد اور کابل کے مابین ہم آہنگی تعلقات کو برقرار رکھنے کے عزم کا بھی اظہار کیا ہے۔ افغان زیرملکیت اور افغان زیرقیادت امن عمل کے لئے واضح تعاون کے ساتھ، چین اور پاکستان افغانستان کے بارے میں مشترکہ اور مربوط پوزیشن رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ چین اور بھارت کے بگڑتے تعلقات کے نتیجے میں، افغانستان میں ہندوستان کی موجودگی میں کمی چین اور پاکستان دونوں کے لئے بھی ایک مشترکہ مقصد ہوگا۔
تاہم، امریکہ افغانستان میں نئی دہلی کی موجودگی کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے، پاکستان کی طرف سے ان دلائل کے باوجود کہ ہندوستان طالبان، پاکستان اور چین کے ساتھ علاقائی دشمنیوں کی وجہ سے برا کردار ادا کرسکتا ہے۔ پاکستان میں افغانستان میں مضبوط ہندوستانی کردار پر تشویش کا اظہار اعلی پاکستانی عہدے داروں کے الزامات سے ہوتا ہے کہ بھارت افغانستان سے پاکستان میں ریاستی دہشت گردی کی سرپرستی کرتا رہا ہے۔ بہر حال، واشنگٹن کی نئی دہلی کے لئے حمایت نے ہندوستان کی طرف سے کابل میں حکام کے ساتھ کے بے پناہ تعاون میں اہم کردار ادا کیا ہے، بالخصوص فوجی ڈومین میں۔ کچھ ذرائع کے مطابق ، امریکی اور افغان حکام نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی فوج تعینات کرے۔ اگرچہ نئی دہلی تاریخی طور پر اس طرح کے کسی بھی نظریے کے خلاف مزاحمت کرتی رہی ہے، اس کی موجودہ لڑاکا قیادت اور طالبان کی ہندستان سے پراہراست جنگ کرنت کی ہچکچاہٹ کے مد نظر، بھارت کو فوج کی تعیناتی کے آخری راستے کا انتخاب کرنے پر اکسا سکتا ہے۔ تاہم، اس قسم کی پیشرفت طالبان، پاکستان اور چین کو بھڑکا سکتی ہے اور جامع جنگ بندی تک پہنچنے کے امکانات کو مزید خراب کرسکتی ہے۔
طالبان کی ہندوستان کے ساتھ دشمنی میں شدت کا ایک ممکنہ سبب نئی دہلی کی طرف سے باغی گروپ سے لڑنے کے لئے افغان حکومت کی افواج کو فوجی سازوسامان کی منتقلی ہے۔ دوسری جانب، نئی دہلی، طالبان کی طرف سے پاکستان کی حمایت کی وجہ سے، افغان حکومت کو اپنی فوجی مدد کا جواز پیش کرتی ہے۔ تاہم، ایک ابتدائی بڑے نان نیٹو اتحادی کی حیثیت سے پاکستان امریکہ کی کڑی نگاہ کا مرکز رہا، جس سے شورش پسندوں
کی حمایت کرنے کے امکانات میں کمی آئی۔ اسکے علاوہ ۲۰۱۴ کے بعد کی انتہا پسندی کے بارے میں پاکستان کی پالیسیوں میں فیصلہ کن تبدیلی اور ایف اے ٹی ایف جیسے بین الاقوامی گروہوں کی کڑی نگرانی کی وجہ سے اسلام آباد کی طالبان کو عسکری اور مالی مدد کے امکانات میں مزید کمی آئی۔ تاہم، افغانستان پر سوویت حملے کے دوران پاکستان نے افغان مجاہدین اور امریکہ کی حمایت کرنے والے تاریخی کردار کے پیش نظر، اسلام آباد طالبان کی قیادت پر کچھ خاص اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ طالبان، پاکستان اور ہندوستان کے مابین کچھ مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کی جدوجہد میں، سفیر خلیل زاد نے پچھلے دو مہینوں میں دوحہ، اسلام آباد اور نئی دہلی کے دورے کیے ہیں۔
دریں اثنا، خطے میں واشنگٹن کی پیچیدہ پالیسیوں کے مدنظر، بیجنگ اور تہران کئی ارب ڈالر کے اسٹریٹجک اور معاشی تعاون کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ چونکہ ایک مستحکم افغانستان چین اور ایران کے مابین براہ راست زمینی رسائی کو یقینی بناتا ہے، لہذا دونوں ممالک افغانستان کے اندر اسٹریٹجک اور معاشی امور کے سلسلے میں تعاون کو مزید بڑھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ تاہم، امریکہ پہلے ہی افغانستان میں ایرانی مداخلت کے خلاف مزاحم ہے۔ خطے میں چین اور ایران کے درمیان تعاون سے واشنگٹن کے تصادم آمیز سلوک میں شدت آئے گی اور افغانستان کی معاشی تعمیر نو کے لئے تعاون کے امکانات مزید خراب ہو جائیں گے۔
افغانستان کے مستقبل میں چین کا کردار
بہر حال، پرامن افغانستان کے حصول کے لئے چین کے زیرقیادت علاقائی کوششیں ملوث ریاستوں کے لئے جیت کا سبب بن سکتی ہیں۔ ایران اور پاکستان لاکھوں افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لئے کام کر سکیں گے۔ دریں اثنا، روس اور چین اپنے معاشی منصوبوں کو عملی شکل دینے کو یقینی بناسکتے ہیں اور یوں اپنی قومی طاقت میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ مستحکم افغانستان کے نتیجے میں چین، روس، ایران اور پاکستان کے لئے پیدا ہونے والا روشن مستقبل امریکہ اور بھارت کو مخالف کیمپ میں رکھے گا۔ اس صورت میں، افغانستان سے مکمل طور پر امریکی انخلا کے امکانات کم لگتے ہیں کیونکہ اس سے ایسی خلاء باقی رہ جائے گی جو اس کا اسٹریٹجک حریف چین بھر سکتا ہے۔ تاہم، اگر نئی دہلی افغانستان میں قابل ذکر موجودگی اپنائے تو واشنگٹن کے لئے مکمل انخلا قابل قبول ہوسکتا ہے۔ یہ ایشیاء بحر الکاہل کے خطے میں امریکہ کی ہندوستان پر مبنی پالیسیوں کے مطابق ہوگا۔
اس کے باوجود، دہائیوں کی بدامنی سے افغانستان کو دور کرنے اور علاقائی استحکام کے ایک نئے دور کی ابتدا کے لئے، امریکہ اور ہندوستان کو بی آر آئی کے اعتراف پر نظر ثانی کرنے، دہشت گردی کو ایک مخصوص ملک سے جوڑنے کے نظریے کو ترک کرنے، اور مشترکہ علاقائی انسداد دہشتگردی کے طریقے تجویز کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس مقصد کے لئے، بیجنگ اقتصادی بحالی کے لئے امریکیوں کے آزاد ماڈل کا انتظام اور افغانستان میں ہندوستانی موجودگی پر راضی ہوکر انخلا کے بعد افغانستان میں امریکہ کے ساتھ تعاون کرسکتا ہے-علاقائی اتفاق رائے تک نہ پہنچنے اور جلد بازی سے دستبرداری کا عمل افغانستان میں پراکسی جنگوں، دہشت گردی کی سرگرمیوں اور معاشی جنگ کا امکان بڑھاتا ہے۔ تاہم، آئندہ امریکی صدارتی انتخابات میں قیادت کی تبدیلی سے جنگ زدہ ملک میں مستقبل کے ایسے حالات کے امکانات کم ہوسکتے ہیں۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Ninara via Flickr
Image 2: DFID – UK Department for International Development via Flickr