۱۲ اپریل سے ۲۰ اپریل ۲۰۲۱ تک، تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے زیرانتظام پرتشدد مظاہروں کی وجہ سے پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں شہری زندگی رک گئی۔ ٹی ایل پی سڑکوں پر مظاہروں کے لئے دائیں بازو کی مشہور مذہبی اور سیاسی جماعت ہے۔ ۲۰۱۵ میں قائم ہونے والی ٹی ایل پی بریلوی فرقے کی حامل جماعت ہے جو کہ پاکستان کے سب سے بڑے فرقہ وارانہ گروہوں میں سے ایک ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس جماعت کی کم سیاسی کامیابیوں کے باوجود آبادی کے ایک اہم بڑے حصے میں مضبوط ساکھ ہے۔ ماضی میں پارٹی زیادہ تر حکومت مخالف مظاہروں کے ذریعہ اپنے مطالبات کو پورا منوانے میں کامیاب رہی ہے، لیکن مظاہروں کی موجودہ لہر فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے خاکوں کی حمایت کی وجہ سے پیدا ہوئی اور پولیس کے ساتھ پرتشدد جھڑپوں کے بعد ٹی ایل پی پر ایک سرکاری پابندی پر منتج ہوئی۔ پولیس کے خلاف وحشیانہ حملوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنے موقف پر قائم رہنے کی بجائے حکومت نے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے لیئے پاکستانی قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کرکے ٹی ایل پی کے مطالبے کو جزوی طور پر قبول کرلیا۔
انتہا پسندوں کے ناجائز مطالبات کو پورا کرنے سے لے کر طاقت کے استعمال تک، پاکستانی حکومتیں ماضی میں انتہا پسندی کی بنیادی وجہ یعنی ریاستی حمایت یافتہ اسلامی قوم پرستی کو حل کرنے میں بڑی حد تک ناکام رہی ہیں۔ بار بار ہونے والی مذہبی عسکریت پسندی کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے لئے، ریاستی اداروں کو آہستہ آہستہ ملک کو سیکولرائز کرنے کی ضرورت ہے۔ سیکولرائزیشن پر غور کرنا ایک طویل المیعاد عمل ہے اور پاکستان کی موجودہ حکومت پاکستان کی گہری اسلامی شناخت کی تائید کرتی ہے۔ قلیل المعیاد عمل کی صورت میں موجودہ حکومت عسکریت پسندوں کے بارے میں اپنی متنازعہ پالیسی کو ترک کر سکتی ہے اور مذہبی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت اور سفارتکاری کر کہ قومی امن اور سلامتی کی جانب، بار بار دہرائے گئے نیشنل ایکشن پلان کے مطابق پہلا قدم اٹھا سکتی ہے۔ انتہا پسندی کی روک تھام کے لئے مرکوز اور جامع منصوبہ بندی کے بغیر پاکستان کو آئندہ کئی برسوں تک انتہا پسندانہ خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عسکریت پسندی پر روایتی حکمت عملی
۱۹۵۳ میں، پاکستان کی تشکیل کے محض چھ سال بعد، دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے ایک ساتھ مل کر پاکستان میں احمدیہ مذہبی طبقے کے خلاف ایک تحریک شروع کی، جس میں حتمی طور پر احمدیوں کو ان کے اعتقاد کے طور پر غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا کیوںکہ احمدی حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کو آخری نبی نہیں مانتے۔ جیسے ہی لاہور میں پرتشدد فسادات شروع ہوئے، وفاقی حکومت نے مظاہروں کو طاقت کے ساتھ کچلنے کی حکمت عملی اپنائی۔ چونکہ اس مسئلے کے نظریاتی اور معاشرتی پہلوؤں کو حل کرنے کے لئے کوئی قابل عمل پالیسیاں عمل میں نہیں لائی گئیں لہٰذا اس مسئلے نے ۱۹۷۴ میں دوبارہ سر اٹھایا اور پورے پنجاب میں مظاہروں اور مظاہرین کے تشدد کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس بار ریاستی طاقت کا استعمال ناکام ثابت ہوا۔ بالآخر حکومت نے ۷ ستمبر ۱۹۷۴ کواحمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیتے ہوئے مظاہرین کے غیر منطقی مطالبات کو قبول کرلیا۔ لہذا ایک غلط اور خطرناک مثال قائم ہوئی۔
مئی ۱۹۹۴ میں موجودہ خیبر پختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن میں تحریک نفاذ شریعت محمدی (ٹی این ایس ایم) کے نام سے ایک اور انتہا پسند تحریک شرعی قوانین کے نفاذ کے مشن سے شروع ہوئی۔ صوفی محمد ایک شدت پسند پاکستانی مولوی تھا جس نے پاکستان فوج کے ذریعہ افغانستان میں روس کے خلاف لڑنے کے لئے تربیت حاصل کی تھی، اس نے طالبان کے افغانستان میں قائم شدہ اسلامی نظام کی طرح پاکستان میں بھی ایک اسلامی نظام نافذ کرنے کے لئے لوگوں کو متحرک کرنا شروع کیا۔ اس مسئلے کے بارے میں حکومت کے نقطہ نظر میں کسی تسلسل کا فقدان تھا۔ حکومت ان کے مطالبات کو تسلیم کرنے سے لے کر ان کے حامیوں کو گرفتار کرنے تک بھی گئی۔ جب صوفی محمد جیل میں تھا تو ٹی این ایس ایم نے ۲۰۰۷ میں اپنی تحریک کے احیاء کے لیئے سخت گیر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں شمولیت اختیار کر لی جو کہ پاکستان میں موجود ایک دہشت گرد تنظیم تھی۔ مذاکرات کی چند ناکام کوششوں کے بعد حکومتِ پاکستان نے علاقے میں امن لانے کے لیئے ٹی این ایس ایم اور ٹی ٹی پی اتحاد کے خلاف فوجی آپریشن کا انعقاد کیا۔
اسی طرح لال مسجد جو کہ اسلام آباد کی ایک مسجد اور مدرسہ پر مشتمل ہے مبینہ طور پر طالبان کے لئے عسکریت پسندوں اور خودکش بمباروں کی تربیت میں ملوث تھی۔ اس معاملے میں حکومت نے ابتدائی طور پر راضی رکھنے کی پالیسی پر عمل کیا تھا اور یہاں تک کہ پولیس نے مسجد کے ۲۰۰۵ کے لندن بم دھماکوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی وجہ سے چھاپہ مارنے کی پولیس کی کوشش پر مسجد حکام سے معذرت بھی کی تھی۔ ۲۰۰۷ میں جب مسجد کے حکام نے ملکی اور غیر ملکی شہریوں کو مسجد کے جاری شدہ سخت مذہبی ضابطہ کی پیروی نہ کرنے پر ہراساں اور اغوا کر کے حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنا شروع کیا تو حکومت کو مداخلت کرنا ہی پڑی۔ اغوا شدگان کی رہائی کے لئے گفت و شنید سے کسی معاہدے تک نہ پہنچ سکنے کے بعد انسداد دہشت گردی کا ایک آپریشن شروع کیا گیا جس میں متعدد جانوں کی قیمت ادا کرنا پڑی۔ متعدد پاکستانیوں کے لیئے مقدس مسجد کا احاطے میں پرتشدد واقعات اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کی شہرت کے لیئے ایک شدید دھچکا تھے ۔ یہ تینوں معاملات واضح کرتے ہیں کہ حکومت دو انتہائی آپشنوں کے مابین ہی گھومتی رہی ہے: اوّل عسکریت پسندوں کے مطالبات ماننا یا دوم یہ کہ مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف وسیع پیمانے پر فوجی کارروائیاں کرنا۔ ابھی تک ان دونوں آپشنز نے کوئی خاطر خواہ کام کیا ہے، نہ ہی مستقبل میں کریں گے۔
ناقص ردِعمل کا تسلسل
امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ داری اور ٹی ایل پی کی وسیع پیمانے پر مقبولیت کے درمیان پھنسی ہوئی موجودہ پاکستانی حکومت ماضی کی حکومتوں کی غلطیوں کو دہراتی آ رہی ہے۔ جب ٹی ایل پی ۲۰۱۵ میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر، جو کہ پاکستان کے توہین رسالت کے قوانین پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت پر آواز اٹھانے کی وجہ سے مارے گئے، کے قاتل کی رہائی کے مطالبے کو لے کر ابھری تو اس وقت کی حکمران پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت توہین رسالت کے موضوع پر کسی موثر حکمت کے ساتھ عوام کو راضی کرنے سے قاصر تھی۔ ۲۰۱۷ میں جب ٹی ایل پی کے مظاہرین نے اسلام آباد میں فیض آباد انٹرچینج کو بند کیا اور انتخابی ایکٹ ۲۰۱۷ میں پیغمبر محمد صلى الله عليه وسلم کے ختمِ نبوت کے بارے میں ایک شق میں الفاظ کی تبدیلی کے خلاف احتجاج کیا تو پاکستانی فوج نے مداخلت کی اور حکومت اور مظاہرین کے مابین معاہدہ کروایا اور احتجاج ختم کرنے کے لئے انتہا پسندوں کو رشوت تک دی۔ فوج کی اس مداخلت نے حکومتی اختیار کو نہ صرف مجروح کیا بلکہ یہ معاہدہ مظاہرین کے حق میں تھا جو کہ وزیر قانون زاہد حامد کے استعفیٰ کا باعث بنا۔
حال ہی میں جب ٹی ایل پی نے پاکستان سے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے اور فرانسیسی مصنوعات پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تو حکومت نے ابتدائی طور پر ٹی ایل پی کی قیادت کو یہ یقین دہانی کراتے ہوئے وقت حاصل کرنے کی کوشش کی کہ وہ 20 اپریل تک پارلیمنٹ کے ذریعہ ان کا مطالبہ پورا کریں گے۔ ٹی ایل پی سے کسی عملی حل پر بات چیت کرنے کی بجائے حکومت نے اس معاملے پر کسی بھی بحث میں تاخیر کی۔ آخری تاریخ قریب آتے ہی ٹی ایل پی کے نئے سربراہ سعد حسین رضوی نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں پارٹی کارکنوں کو احتجاج کے لئے تیار ہونے کی ہدایات دی گئیں۔ بغیر کسی ممکنہ نقصانات پر غور کیے حکومت نے سعد رضوی کو ۱۲ اپریل کو گرفتار کر لیا۔
حکومت کی حکمت عملی میں ظاہری بدلاؤ کے نتیجے میں ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے جس کے بعد بڑے شہری مراکز اور شاہراہوں میں سڑکیں بند ہوگئیں، املاک کی تباہی اور پولیس سے پرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب حکومت نے مظاہرین کے خلاف ٹی ایل پی پر پابندی عائد کرنے اور واضح طور پر طاقت کا استعمال کرنے کا اعلان کیا تو وزیر اعظم عمران خان نے کچھ دیر بعد ہی ٹویٹر پر ٹی ایل پی کے فرانسیسی مخالف بیانیہ کی توثیق کردی۔ ٹی ایل پی کی گرفتار قیادت کو رہا کردیا گیا اور حکومت نے فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے امکان پر بات کرنے کے لئے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی۔ تاہم طالبان کے لئے عمران خان کی ہمدردی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس پالیسی میں تبدیلی حیرت انگیز نہیں ہے، اسی وجہ سے عمران خان ٹی ایل پی کا مقابلہ کرنے کے لئے بالکل اہل نہیں ہے۔
حاصلِ بحث
ظاہراً اور بدقسمتی سے، پاکستانی حکومتیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنے سے انکاری ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ ٹی ایل پی کو ختم کرنے کا کوئی فوجی حل نہیں ہوسکتا کیونکہ پارٹی کا ملک بھر میں وسیع پیمانے پر پھیلاؤ ہے۔ پاک فوج ملک کے اسلامی اور قوم پرست بیانیے کی معمار ہونے کے ناطے توہین رسالت کے حساس معاملے پر اس گروہ کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے سے گریزاں ہو سکتی ہے۔ دوئم یہ کہ عسکریت پسندوں کے دباؤ پر پسپا ہونا کوئی حل نہیں ہے یا تو اس سے پاکستان کا بین الاقوامی تشخص خراب ہو گا یا پھر عسکریت پسندوں کی طاقت ایسے ہی برقرار رہ سکے گی۔ ٹی ایل پی پر پابندی لگانا بھی بے معنی ہے کیونکہ اس سے قبل پاکستان کالعدم مذہبی عسکریت پسند گروہوں کے ممبروں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیتا رہا ہے۔ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کا مسئلہ ملک کی مذہبی سیاسی اور قومی شناخت میں پیوست ہے۔ اس شناخت کی ایک نئی تعریف کرنے کے لئے وقت اور ہمت دونوں کی ضرورت ہوگی۔ کم از کم موجودہ حکومت اگر کچھ کر سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی مناسبت سے شدت پسندوں کے خلاف اقدامات اٹھائے جائیں، مدرسوں کو قانون کے دائرہ میں لانے اور ٹی ایل پی جیسی کالعدم تنظیموں کے دوبارہ ابھرنے کو روکنے سے یہ عمل شروع کیا جائے۔
عسکریت پسندی کی طرف دونوں روایتی طرز عمل، منانا اور فوجی طاقت کا استعمال، حکومت کی طاقت کو کمزور کرتے ہیں۔ مطمئن کرنے یا منانے کی پالیسی ریاستی اختیار پر سوال اٹھاتی ہے اور دوسرے مذہبی گروہوں کو اپنے مطالبات منوانے کے لیئے پرتشدد فسادات اور مظاہروں میں ملوث ہونے کی ترغیب دیتی ہے ۔ دوسری طرف فوجی آپریشن کی وجہ سے عوام میں ہمدردی بڑھتی ہے اور وہ عسکریت کی جانب مائل ہوتے ہیں۔ حل اعتدال پسندی میں پوشیدہ ہے، جو کہ مندرجہ بالا دونوں انتہاؤں کے مابین ہے۔ اس سنجیدہ مسئلے کے عملی حل تک پہنچنے کے لئے سفارتی ذرائع کو بروئے کار لانا ہوگا اس طرح کی سفارتی کوشش میں مستقل مزاجی، تسلسل اور تمام بڑے مذہبی اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت کی ضرورت ہے، یہ بات بھی شامل حال رکھنی ہو گی کہ کوئی بھی مذہبی گروہ قانون سے بالاتر نہیں ہے، اور سب کو جمہوریت اور انصاف کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Kanwar Rehman Khan via Wikimedia Commons
Image 2: Imran Khan Offical via Facebook