ہنڈن برگ ریسرچ نے جنوری۲۰۲۳ میں ایک رپورٹ جاری کی جس میں اڈانی گروپ، جو کہ ایشیا کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے، پر اسٹاک معاملات میں ہیراپھیری اور کارپوریٹ دھوکہ دہی کا الزام عائد کیا۔ حائفہ میں واقع اسرائیلی بندرگاہ حاصل کرنے کے چند دن بعد ہی، اڈانی گروپ کے حصص کی قیمت میں ۱۰۰ بلین ڈالر سے زائد کی گراوٹ آ گئی- اس کے نتیجے میں یہ اپنی نصف کے قریب مارکیٹ ویلیو کھو بیٹھا۔ اڈانی نے اگرچہ ان الزامات کو “بھارت پر حملہ” قرار دیتے ہوئے ان کی تردید کی ہے – تاہم یہ پیش رفتیں جنوبی ایشیا کے لیے اہم جغرافیائی سیاسی مضمرات رکھتی ہیں۔
چین، اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے تحت انفرااسٹرکچر کے منصوبوں کے ذریعے سے جنوبی ایشیاء میں اپنے قدموں کے نشان چھوڑ چکا ہے۔ چین کی پالیٹیکل اکانومی کی نوعیت کی بدولت بی آر آئی کے ذریعے بھاری پیمانے پر سرمایہ کاریاں ممکن ہیں، اور وہ نجی سیکٹر کا سہارا لیے بغیر غیر ملکی ساحلوں پر سرکاری سرمائے کو مجتمع کر سکتا ہے۔ علاقائی حریف ہونے کے ناتے، بھارت نے بھی غیر ممالک میں چینی سرمایہ کاری کا جواب غیر ممالک میں اپنی سرمایہ کاری کے ذریعے دیا ہے، گو کہ یہ چینی ماڈل سے مختلف انداز میں ہے۔ بھارت ڈالر کے ڈالر سے موازنے یا کسی بھی پیمانے پر بی آر آئی سے میل نہیں کھاتا۔ چنانچہ نتیجہ یہ ہے کہ اس نے معاونت کے لیے بڑی حد تک نجی شعبے کا رخ کیا۔
بہت سی کمپنیاں، جیسا کہ اڈانی گروپ، جو توانائی اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں کام کرنے والی ایک ملٹی نیشنل کارپوریشن ہے، حکومت کی آواز پر لبیک کہتی دکھائی دیتی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں ان کی سرمایہ کاریوں کے سبب ہی بعض نے اس کے سی ای او، گوتم اڈانی کو خطے میں چینی اثر کے خلاف بھارتی حل قرار دیا ہے۔ کانتی باجپائی جیسے مبصرین کہتے ہیں کہ چین کے خلاف مودی حکومت کی حکمت عملی کو کامیابی کے لیے “ایک اڈانی کی ضرورت” ہے۔
چینی منصوبوں کی طرح، اڈانی کی نجی سرمایہ کاریوں کو بھی میزبان ممالک کی جانب سے ملتی جلتی مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، جو ان منصوبوں کو غالب آتی بھارتی ریاست کی پیش رفتوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تاہم، بھارت اور میزبان ممالک کے درمیان ان غلط فہمیوں کی ممکنہ بنیادی وجہ بھارتی ریاست اور اس کے نجی شعبے کے مابین مفادات کا متزلزل ملاپ ہے۔ جنوبی ایشیا میں چینی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے، بھارت کو چاہیئے کہ وہ نجی شعبے کی فرمز کی جانب سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں سہولیات فراہم کرے اس کےساتھ ہی ساتھ اسے ان جھوٹے دعووں کو رد کرنا چاہیئے کہ یہ کمپنیاں بھارت کی خارجہ پالیسی کے نفاذ کے ہتھیار کے طور پر کام کرتی ہیں۔ میزبان ممالک میں مقامی کمپنیوں کے ہمراہ شراکت داری کی بنیاد پر وجود میں آنے والے منصوبوں کے لیے پہلے سے زیادہ ترغیبات کی فراہمی اس توازن کے حصول کی جانب ایک راستہ ہو سکتا ہے۔
چینی اور بھارتی سرمایہ کاریاں
غیر مستحکم قرضے، چینی بی آر آئی سرمایہ کاری میں بار بار سامنے آنے والی ایک خصوصیت ہے۔ ذرائع ابلاغ میں “قرضوں کے جال کی سفارت کاری” جیسی اصطلاح چینی قرضوں اور سرمایہ کاری کو بیان کرنے کے لیے بارہا استعمال ہوئی ہے۔ جب سری لنکا کی ہمبنٹوٹا بندرگاہ، کولمبو کے قرضوں کی ادائیگی سے قاصر ہونے کے سبب ۹۹ برس کے لیے چین کو لیز پر دی گئی، تو سینکڑوں افراد اس کے خلاف احتجاجاً سری لنکن پولیس کے مقابل آ گئے تھے۔ اپریل ۲۰۲۲ میں سری لنکا کے دیوالیہ پن کے لیے بہت سے جہاں چین کو قصور وار ٹھہراتے ہیں، وہیں داخلی عناصر نے بھی ایک ناقابل تردید اہم کردار ادا کیا تھا۔
تاہم اس کے باوجود، چین کو ذمہ دار ٹھہرانے کے عمومی جذبات اپنی جگہ بدستور موجود ہیں۔ شاناکیان رسمانیکم نامی ایک سری لنکن قانون ساز نے دھمکی دی تھی کہ اگر بیجنگ سری لنکا کے قرضے منسوخ کرنے یا ان کی واپسی کے طریقے کار کی ترتیب نو کے لیے رضامند نہ ہوا تو وہ “چین گھر جاؤ” مہم چلائیں گے۔ بعض عوامی حلقے ۴.۷ بلین ڈالر سے تجاوز کرتے چینی قرضوں پر بے چینی ظاہر کر چکے ہیں جبکہ دسمبر ۲۰۲۲ میں داخلی سطح پر معمولی نوعیت کے احتجاجی مظاہرے بھی دیکھنے کو ملے۔ یہ مظاہرے اگرچہ نئے نہیں، تاہم بڑھتے ہوئے قرضے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے حوالے سے عوام میں عدم اطمینان کے پھیلاؤ کا سبب ہو سکتے ہیں۔
ماضی میں، بھارتی سرکار کے زیر نگرانی چلنے والی کمپنیاں جنوبی ایشیا میں انفرااسٹرکچر پر مبنی ڈپلومیسی کی قیادت کر چکی ہیں تاہم بھارت میں غربت اور کمزور انفرااسٹرکچر کے خلاف داخلی سطح پر جاری جدوجہد نے نجی سیکٹر کے لیے در وا کیے کہ وہ بھارتی خارجہ محاز پر سرمایہ کاری میں قیادت کرے اور چینی سرکاری قیادت میں موجود انٹرپرائزز کے مضبوط نیٹ ورک کا مقابلہ کرے۔
اڈانی کو وزیراعظم مودی کے ہمراہ ان کے قریبی تعلقات کی وجہ سے بھارت کی حکمت عملی کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جاتا رہا ہے۔ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد، اڈانی کے اثاثوں میں ۲۰۰ فیصد اضافہ ہوا کیونکہ ان کی کمپنی نے مودی کی قیادت میں بڑے پیمانے پر آنے والی نجکاری کی لہر کے دوران متعدد منصوبوں کے لیے سرکاری ٹھیکے حاصل کیے۔ یہ تعلقات محض اقتصادی بنیادوں پر قائم نہیں – مودی ۲۰۱۴ میں عام انتخابات کی مہم کے دوران اڈانی کے ذاتی طیارے پر سفر کرتے رہے ہیں۔
یہ الزامات بھی سامنے آ چکے ہیں کہ بھارت نے غیر ملکی حکومتوں کو اڈانی کو معاہدوں سے نوازنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ جون ۲۰۲۲ میں ایک ایسی دستاویز منظرعام پر آئی تھی جہاں سری لنکا میں الیکٹرسٹی بورڈ کے سربراہ نے یہ کہا تھا کہ کیسے بھارتی حکومت کے ایماء پر اڈانی کو ایک بجلی کا منصوبہ عطا کیا گیا۔ دونوں حکومتوں نے فوری طور پر اس کی تردید کی، اور الیکٹرسٹی بورڈ کے زیرِ بحث سربراہ نے بعد ازاں اپنا دعویٰ واپس لے لیا اور “مستعفی” ہو گئے۔ اس طرح کی پیش رفتوں نے میزبان ممالک میں بھارتی منصوبوں کے بارے میں رائے پر منفی اثرات ڈالے، جو اب انہیں ایک دباوٴ ڈالنے والی اور حاکمانہ رویہ رکھنے والی بھارتی ریاست سے نتھی کرتے ہیں۔
سری لنکا میں یہ اڈانی گروپ کا پہلا بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا متنازعہ منصوبہ نہیں۔ ۲۰۱۹ میں اس گروپ کو کولمبو بندرگار پر مشرقی کنٹینر ٹرمینل کی تیاری اور چلانے کا ٹھیکہ ملا تھا۔ سمانتھا کسٹر کا کہنا ہے کہ “چینی بندرگاہ منصوبے کے قریب اپنی ہی کمپنی کے ذریعے ایک بندرگاہ کی تیاری میں بھارت کا اپنا مفاد پنہاں ہے۔” یہ منصوبہ ۲۰۲۱ میں راجاپاکسے حکومت کی جانب سے منسوخ کر دیا گیا تھا اور اس کی جگہ مغربی کنٹینر ٹرمینل کا معاہدہ کیا گیا تھا۔
مزید براں، چینی منصوبوں کی طرح اڈانی کے اقدامات کو بھی مظاہروں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات کا سامنا ہوا ہے۔ سری لنکن مشرقی کنٹینر منصوبے کے خاتمے کی بنیادی وجہ بھی مقامی تاجر یونینز کی جانب سے مبینہ “بھارتی حکومتی دباؤ” کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاج تھے کہ جن کے کارکنوں نے غیر معینہ مدت کے لیے ہڑتال کی دھمکی دی تھی۔ جون ۲۰۲۲ میں ایک مقامی قانون سازی کہ جس نے مقابلے کی فضا میں کمی لاتے ہوئے ہوا اور شمسی توانائی کے منصوبے تفویض کیے تھے، اس کے خلاف سیلون الیکٹرسٹی بورڈ انجینیئرز یونین نے ہڑتال کی دھمکی دی تھی، اور منار اور پونیرن میں اڈانی گروپ کو ٹھیکے دینے پر خصوصاً اپنی ناپسندیدگی ظاہر کی تھی۔ اڈانی کو “تحفتاً” یہ منصوبے نوازے جانے پر برہم یونین نے مطالبہ کیا تھا کہ سری لنکن حکومت ٹینڈر کے مرحلے میں وسیع تر مقابلے کی اجازت دے۔ مظاہروں میں نعروں نے پہلے متذکرہ “چین گھر جاؤ” کے نعروں کی یاد تازہ کر دی، جس کی جگہ اب “اڈانی کو روکو” نے لے لی تھی۔
اڈانی نے بنگلہ دیش میں بجلی کے بحران کے جواب میں جھاڑکھنڈ میں واقع کوئلے سے چلنے والے پاور اسٹیشن سے بجلی برآمد کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم تجزیہ کاروں کی رائے میں بجلی کی مقامی قیمتوں کے مقابلے میں تقریباً پانچ گنا زیادہ قیمت پر اڈانی کی بجلی کی خریداری کے ذریعے بنگلہ دیش لٹ رہا تھا۔ اس صورتحال کا بنگلہ دیش میں مثبت انداز میں خیرمقدم نہیں کیا گیا،اور وہاں پاور ڈویلپمنٹ بورڈ نے حال ہی میں مطالبہ کیا ہے کہ معاہدے پر نظر ثانی کی جائے۔ یہاں اڈانی کے خلاف پایا جانے والا غم و غصہ مستقبل میں بھارتی سرمایہ کاریوں کے بارے میں تاثر پر بھی اثرانداز ہو سکتا ہے، جس کا کسی حد تک بھارت کو ادراک بھی ہو چکا ہے، اور اس کی وزارت خارجہ نے جلد ہی منصوبے اور حکومت کے درمیان کسی بھی تعلق سے انکار کر دیا۔
غیرممالک میں بھارتی سرمایہ کاریوں کو سمجھنے کی کوشش
مودی حکومت کی سفارت کاری کو آگے بڑھانے میں اڈانی کے منصوبوں کی سوال اٹھائے جانے لائق اثرانگیزی کے علاوہ، اس امر کی تصدیق بھی مشکل ہے کہ آیا ان منصوبوں میں دراصل ایسی کوئی تحریک موجود تھی کہ نہیں۔ بظاہر، یہ منصوبے محض مفادات میں اتفاق کا ایک نتیجہ دکھائی دیتے ہیں۔ ٹم بکلی یہ دلیل دیتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے ہمراہ توانائی کے منصوبے میں سہولت کاری کے لیے تیار کیا جانے والا پلانٹ دراصل اڈانی کی آسٹریلیا میں موجود متنازعہ کارمیچیل کوئلے کی کان کو سہارا دینے کے لیے ہے۔ فنانشل ٹائمز کے ساتھ ایک انٹریو میں اڈانی اپنے منصوبوں کو معقول کاروباری معاہدے قرار دیتے ہیں جو بھارت کے مفادات میں بھی مدد دیتے ہیں، انہوں نے وضاحت کی کہ “ہم (اڈانی گروپ) ایک ملک کا کردار ادا نہیں کرتے ہیں۔”
اڈانی کا وزیر اعظم مودی کے ہمراہ تعلق بھی شائد ایسے ہی کسی اتفاق پر مبنی ہے۔ صحافی آر این بھاسکر جو اڈانی کی خودنوشت کے مصنف ہیں، اڈانی کے عروج کو ان کے سیاسی تعلقات کو عمدگی سے متوازن کرنے کی صلاحیت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ بھاسکر یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر کل کو حزب اختلاف اقتدار میں آجائے، تو اڈانی ان کے بھی اتنا ہی قریب ہوں گے۔
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بی آر آئی کے خلاف بھارتی حکمت عملی میں اڈانی کی شمولیت نے شہہ مات کے بجائے تعطل کی فضا پیدا کی ہے۔ ایک حاکمانہ مزاج رکھنے والے “بڑے بھائی” کے تاثر کے تاریخی چیلنج کی موجودگی میں، بھارت کو ان خدشات کی نفی کرنی چاہیئے؛ اور اس کے لیے اڈانی جیسی کمپنیوں اور میزبان ممالک میں موجود مقامی کمپنیوں کے درمیان شراکت داری کے لیے ترغیب دلا کر میزبان ممالک کی خودمختاری کی تائید کرنی چاہیئے۔ ترغیبات کی فراہمی سے حکومت کا کردار بھی ایک غیرمستحکم مفادات کے اتفاقات کے بجائے ایک معتبر کردار میں تبدیل ہو گا۔
اس سے بھارت کے باقی کے نجی شعبے کی جانب سے بھی مزید دلچسپی دیکھنے کو ملے گی اور مقابلے کی فضا بڑھے گی، جو کہ انتہائی اہم ہے کیونکہ بھارتی حکومت کو اڈانی کے ذریعے فوائد بٹورنے کی کسی بھی کوشش میں اس امر سے باخبر رہنا چاہیئے کہ وہ ان کے ہاتھوں میں طاقت کا کسی قدر ارتکاز کر رہے ہیں۔ ہائیڈن برگ کے الزامات اور اقرباپروری کے حوالے سے موجود خدشات کی روشنی میں بھارت کے لیے یہ یقینی بنانا لازم ہو چکا ہے کہ یہ بیرون ملک اقتصادی اہداف کا پیچھے کرنے کے ذریعے اثرو رسوخ قائم کرنے میں داخلی سطح ہر حمایت نہ کھو بیٹھے، جو بعد ازاں اس کی خارجہ پالیسی کے لیے منفی مضمرات کا سبب ہو سکتی ہے
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Indian coal mine via Flickr
Image 2: Stop Adani via Flickr