Parliament_House_Islamabad_by_Usman_Ghani-1600×900

پاکستانی سیاست دان اور سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے ۲۶ اکتوبر ۲۰۲۰ کو ایس اے وی کی مدیر منتظم بریگیٹا شوچرٹ اور نائب مدیر سنینا ڈینزیگر سے پاکستان خارجہ پالیسی سے متعلقہ امور پر بات چیت کی۔ اس گفتگو میں دیگر موضوعات کے علاوہ افغان امن عمل میں پاکستان  کے مفادات، پاک بھارت تعلقات میں تناؤ اور چین امریکہ مقابلے کے خطے پر اثرات شامل تھے۔

حال ہی میں طالبان اور افغان حکومت کے مذاکرات کاروں نے بین الافغان مذاکراتی عمل کا آغاز کیا ہے۔ دوہا معاہدے کے لیے طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھانے میں پاکستان کے کردار کو دیکھتے ہوئے موجودہ بات چیت کے نتائج میں پاکستان کا کیا حصہ ہوگا، نیز پاکستان افغانستان کے مستقبل کے متعدد ممکنہ منظر ناموں کے لیئے کیسے تیاری کررہا ہے؟

میرے خیال میں مناسب الفاظ یہ ہوں گے کہ پاکستان درحقیقت طالبان کو مذاکرات کی میز پر نہیں لارہا بلکہ وہ افغان یا افغان طالبان کو میز پر آنے کے لیے حوصلہ افزائی کررہا ہے۔ اس میں دیگر غیر طالبان افراد اور افغان حکومتی اراکین شامل ہیں۔ اس تنازعے میں پاکستان کا مستقل یہ موقف رہا ہے کہ  افغانستان کا تنازعہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے اور مذاکرات بہر آخر وہاں ہونے والے بین الافغان مذاکراتی عمل کی بنیاد پر کامیاب یا ناکام ہوں گے۔

یہ صورتحال پاکستان کی دلچسپی کو حتیٰ کہ بعض اعتبار سے امریکہ سے بھی زیادہ بڑھا دیتی ہے جس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ ہماری ہزاروں کلو میٹر طویل سرحد ہے جو روایتی طور پر غیر محفوظ رہی ہے۔ اب اس پہ باڑ لگائی جارہی ہے اور امید ہے کہ سرحدی انتظامات میں بہتری آرہی ہے تاہم ہم پھر بھی سرحدی علاقوں میں واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ کابل کے بعد سب سے زیادہ ہمارے مفادات ہیں۔ وہاں کسی بھی قسم کے امن کے  یہاں پر مثبت اثرات ہوں گے اور وہاں جنگ کا یہاں منفی اثر پڑے گا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ماضی نے اس منطق کو ثابت کیا ہے اور ہمارے مفادات غیر معمولی حد تک زیادہ ہیں۔

ذاتی طور پر، اور مجھے یقین ہے کہ اس وقت میں زیادہ تر پاکستانیوں کی سوچ کی نمائندگی کررہی ہوں، ہم حقیقتاً یقین رکھتے ہیں کہ یہ وہ نادر لمحہ ہے جو کابل، اسلام آباد اور دیگر دارالحکومتوں میں دہائیوں تک ہونے والی کوششوں کے بعد آیا ہے اور جب ہم ایسے مقام پر پہنچے ہیں کہ جہاں ہر شخص کم از کم اس امر پر اتفاق رکھتا ہے کہ مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا ذریعہ ہیں۔ یہ ایک نادر موقع ہے اور ایک نادر لمحہ ہے اور ہمیں امید ہے کہ چھوٹی موٹی وجوہات اور تنگ ذہنیت مذاکرات کی میز پر موجود اس موقع کو چھین نہیں لیں گی۔

بطور وزیرخارجہ آپ کے دور میں پاکستان اور بھارت نے دو طرفہ تعلقات کے ضمن میں اعتماد سازی کے اقدامات اور تجارتی پابندیوں میں نرمی کی صورت میں اہم فیصلے کیے، تاہم فی الوقت پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات گزشتہ کئی برسوں کی نچلی ترین سطح پر ہیں۔ تعلقات میں اس گراوٹ کے کیا نقصانات ہیں اور اعتماد کے فقدان سے نمٹنے کیلئے دونوں فریق کون سے اقدام اٹھا سکتے ہیں؟

میں ان لوگوں میں سے ہوں جو بلاشبہ یقین رکھتے ہیں کہ خواہ آپ کا دشمن پاگل پن کے راستے پر ہی کیوں نہ ہو، آپ کو ہر قسم کے بحران سے نکلنے کے لیے مذاکرات کے راستے پر چلنے کی اپنی پیشکش پر ڈٹے رہنا چاہئے۔ میں اب سمجھتی ہوں کہ  وزیراعظم مودی کی موجودگی میں کسی بھی مثبت پہلو کے پیدا ہونے کی امید رکھنا لاحاصل ہے اور عقلمندی اسی میں ہے کہ غیریقینی بدترین صورتحال کے لیے تیار رہا جائے۔ کسی بھی تحفے کا انتظار یا مثبت سمت میں پیش رفت کی امید درحقیقت اس ماحول سے بے خبری ہے جس میں آپ اس وقت ہیں۔ میرے خیال سے وزیراعظم مودی اس وقت دنیا میں موجود ان رہنماؤں کے ٹولے کا حصہ ہیں جو اپنی موجودہ حیثیت کے فائدے کے لیے اپنے ملک کو لمبے عرصے کے لیے تکلیف میں ڈال سکتے ہیں۔

ایسا ملک جس کی قیادت ایک ایسے شخص کے سپرد ہو جو عوام کو اکھٹا کرنے کے بجائے ٹکڑوں یا مذہبی گروہوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، وہ ملک غلط رہنما کے ہاتھ میں ہے اور وہ غلط سمت میں جائے گا۔ میں سمجھتی ہوں کہ وزیراعظم مودی تیزی کے ساتھ کئی دہائیوں پر مشتمل اس کام کو ختم کررہے ہیں جو نہرو اور منموہن سنگھ اور حتیٰ کہ اندرا گاندھی اور اس سے پہلے گاندھی نے بھارت کو روشن مثال بنانے کے لیے کیا تھا۔ ہم، پاکستان میں بھارت کو سیکولر ریاست کے طور پر آگے بڑھنے کیلیے بطور مثال اور ایک ایسی ریاست کی اہم مثال کے طور پیش کرتے تھے کہ جس نے اپنے آئین کو سنجیدگی کے ساتھ لیا اور جو اصولوں کے مطابق چلتی ہے۔ میں اب اس نقطے پر ہوں کہ جہاں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب کچھ درست طریقے سے کرسکتے ہیں لیکن اس کے باوجود حالات بہتری کی جانب نہیں بڑھیں گے۔ نتائج  تبدیل نہیں ہوں گے  کیونکہ  بھارت میں وہ ہے جسے میں “ڈیوائڈر ان چیف” سمجھتی ہوں۔

میرے خیال میں اس وقت جو کچھ بھارت میں ہو رہا ہے اس کے اثرات تقریباً اس سے ملتے جلتے ہیں جو افغانستان میں ہوچکا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا تبصرہ ہے۔ میں بطور وزیرخارجہ بھی ہمیشہ یہ کہتی رہی ہوں کہ ہماری مشرقی سرحد سے زیادہ یہ ہماری مغربی سرحد ہے جو ہماری نیندیں اڑنے کا باعث ہونی چاہیے۔ اب میں کسی قسم کے امکان کو رد نہیں کروں گی۔ پاکستانی علاقے میں جنگی جہاز بھیجنا ایسا واقعہ ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال موجود نہیں۔ یہ بہت آسانی کے ساتھ جنگ چھیڑ سکتا تھا اور جنگ کسی قسم کے جوہری شعلے بھڑکا سکتی تھی۔ مودی کی ذاتی سیاست ان کے ملک کی ترجیحات اور خطے کے مستقبل میں سرایت کررہی ہے اور ایسے مقام پر ہونا خطرے سے کم نہیں۔

مستقبل میں اس بحران میں اضافے یا بات چیت کے ممکنہ ذرائع کی غیر موجودگی کے حوالے سے کیا مزید کوئی تشویش پائی جاتی ہے؟

اگر میں صورتحال کے غیر یقینی ہونے کو صفر سے دس تک کے پیمانے پر پرکھوں تو میں اسے آٹھ پر رکھوں گی۔ یہ میں ان اقدامات کی غیر یقینی نوعیت کی بناء پر کہہ رہی ہوں جو کہ ملکی مفادات کی خاطر نہیں بلکہ ان کے سیاسی فائدے کی خاطر اٹھائے جاسکتے ہیں۔

مودی نے کشمیر میں جو کچھ کیا وہ ایسا قدم ہے جس پر ماضی میں کسی نے غور نہیں کیا تھا اور انہوں نے اسے بھڑکایا اور اس امر کو یقینی بنایا کہ وہاں پر افراتفری، خون ریزی اور مزید تقسیم اور بدامنی رونما ہو۔ انہوں نے جو طریقے اپنائے ہیں وہ ریاستی دہشتگردی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ یہ خطرناک رجحان ہے۔ ۲۰۱۹ میں جو کچھ ہوچکا ہے اس کے بعد ممکنات کی حدود سے کیا کچھ باہر ہے، اس حوالے سے زیادہ امید دکھائی نہیں دیتی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ممکنات کی حدود میں سب کچھ آجاتا ہے، ایک بھرپور جنگ، ممکنہ طور پر جوہری شعلے بھی بھڑک سکتے ہیں۔ پاکستان نے ۲۰۱۹ میں پائلٹ کی واپسی کے ذریعے جس طرح ردعمل دیا مجھے اس پر فخر محسوس ہوتا ہے کیونکہ کوئی واویلا نہیں کیا گیا کیونکہ ہم تناؤ میں کمی چاہتے تھے۔

بعض پہلوؤں سے ۲۰۱۹ کا بحران ایک ایسے موقع کی مانند ہے جو ہاتھ سے نکل گیا۔ خان صاحب اگرچہ سیاست کرنا پسند کرتے ہیں؛ جب بھارت کا سوال آیا تو وہ خاصے مدلل بھی تھے اور انہوں نے بحران کے دوران درست سمت میں قیادت کی اور حزب اختلاف نے اس راستے پر چلنے میں ان کی مکمل حمایت کی۔ بعض پہلوؤں سے یہ ایک گنوایا گیا موقع ہے کیونکہ بھارت کے ساتھ اور خطے کو معمول پر لانے کے حوالے سے میرے خیال میں  پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر ہیں۔ ہم نے ماضی سے سیکھا ہے کہ ہمیں تجارت کو معمول پر لانے اور لوگوں کے لوگوں سے تعلقات برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں اپنی مدت میں ویزہ معاہدہ کے لیے بھارت سے مذاکرات پر بہت فخر محسوس کرتی ہوں۔ مجھے فخر ہے کہ  بھارت کے ساتھ تجارت کو معمول پر لانے کے لیے مذاکرات کیے جو کہ ۱۹۶۵ کے بعد پہلی بار ہوئے تھے اور یہ بہت بڑی بات ہے۔

اگر مودی کی سیاست کا دور شروع نہ ہوتا تو یہ وہ سمت ہے جس جانب ہم رخ کرسکتے تھے۔ وہ اپنی حکمت عملی کی وجہ سے صرف پاک بھارت تعلقات میں ہی رکاوٹ نہیں ڈال رہے بلکہ پورے خطے کی بطور اکائی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

امریکہ اپنی حکمت عملی کو عظیم طاقتوں کے مابین مقابلے کی نگاہ سے ممکنہ حد تک تشکیل دے رہا ہے۔ چین کے پاکستان کے اہم شراکت دار ہونے کے باعث امریکہ کی جانب سے اس مقابلے پر مبنی لائحہ عمل کے پاکستان کیلئے کیا مضمرات ہیں اور پاکستان امریکہ کی جانب سے چین سے تعلقات پر چھان بین میں اضافے پر کیسے ردعمل دے سکتا ہے؟

سب سے پہلے تو یہ کہ میں نہیں سمجھتی کہ پاکستان جیسے ملک کو دونوں میں سے انتخاب کے لیے کہا جانا چاہئے۔ پاکستان وہ ملک ہے جس کے چین کے ساتھ بہت پرانے تزویراتی تعلقات ہیں۔ دونوں ممالک سے خوشگوار تعلقات کے حامل ملک کے طور پر پاکستان کی قدر و قیمت صرف نکسن انتظامیہ کے دور میں چین سے رابطوں کے آغاز پر ثابت ہوئی، جسے پاکستان نے ہی ممکن بنایا تھا۔ حتیٰ کہ آپ جب بیرون ملک دشمن بناتے ہیں تو بھی آپ چاہتے ہیں کہ دیگر ممالک جن سے کسی حد تک دوستانہ تعلقات ہوں وہ دوسروں سے دوستانہ تعلق رکھیں۔ پاکستانی نقطہ نگاہ سے تزویراتی اعتبار سے پاکستان کو کبھی بھی اس مقام پر نہیں ہونا چاہیے جہاں اسے ایک پر دوسرے کو چننا پڑے کیونکہ پاکستان کے چین سے تعلقات کی نوعیت ان تعلقات سے یکسر مختلف ہے جو اس کے امریکہ کے ساتھ ہیں۔ دونوں  ہی اہم ہیں اور میرے خیال سے دونوں سےعین مناسب نوعیت کے تعلقات کو جاری رکھنا معقول، ممکن اور قابل عمل ہے۔ وہ ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں۔

میرا خیال ہے کہ جو راستہ امریکہ نے چنا ہے وہ  عدم استحکام لائے گا اور دنیا میں جنگ جیسے رجحانات کا باعث ہوگا اور میرا خیال ہے کہ یہ راستہ امریکہ کے بطور عالمی رہنما کردار کے خاتمے کی جانب جاتا ہے اور اس کے بارے میں یہ تاثر پیش کرتا ہے کہ وہ عالمی قوت کے بطور اپنے کردار جسے تاحال کوئی خطرہ نہیں، اسے کھونے سے خوفزدہ ہے۔ امریکہ جس انداز میں چین سے مقابلے کو پیش کر رہا ہے وہ دراصل اسے اس مقام سے نیچے لے جاتا ہے، جس کا وہ حقدار ہے۔

مثال کے طور پر مجھے یاد ہے کہ میں اس وقت حیرت زدہ ہوئی تھی جب وزیرخارجہ پومپیو نے میونخ میں اپنی گفتگو کے تیس منٹ میں سے زیادہ تر وقت چین کو نیچا دکھانے اور اس کی تذلیل میں صرف کیا۔ یہ ایسا محسوس ہوا کہ ایک چھوٹی سی طاقت ایک ایسی قوت سے مقابلہ کرنا چاہ رہی ہے جسے وہ ابھرتا ہوا سمجھتی ہے۔ بطور قیادت جو کردار ہونا چاہیے، یہ اس کے عین برخلاف تھا۔

ہمارے خطے میں چین کو ایک اچھی قوت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور میں صرف پاکستان کی بات نہیں کررہی ہوں۔ تاہم یورپ اور امریکہ کے اندر چین کے بارے میں تصور بہت مختلف ہے اور چین کے بارے میں یہ تصور اس حد تک بڑھا چڑھا دیا گیا ہے کہ یہ ان تمام دوسری آزمائشوں پر حاوی ہوگیا ہے جن کی جانب ہمیں دیکھنے اور ان سے مل کے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ نے چین اور جے سی پی او اے سے پیچھے ہٹنے کے ذریعے ایران کے ساتھ جس طرح نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے، وہ درحقیقت مخالفین سے روابط ختم کرنے، انہیں تنہا کرتے ہوئے انہیں ممکنہ بدترین حد تک کمزور کرنے کی خواہش پر مبنی حکمت عملی تھی۔ یہ اوباما کی اس حکمت عملی سے یکسر مختلف تھی جو کہ ان کے ساتھ روابط قائم کرنے، انہیں عالمی نظام اور تنظیموں وغیرہ کا حصہ بنانے اور ایسی چیزیں جو کہ مشترکہ فائدے کی ہیں مثلاً ماحولیاتی تبدیلی  ان کے لیے انہیں ہر ممکن حد تک استعمال میں لانے کی تھی۔

امریکی پالیسی کے حوالے سے موجودہ سوچ کا پوری دنیا پر اثر ہورہا ہے اور یہ عالمی نظام پر پہلے ہی اثرانداز ہوچکی ہے اور یہ اس پر جسے ہم مشترکہ مفادات کہتے ہیں، جیسا کہ  ماحولیاتی تبدیلی اور تجارت اس پر بھی پہلے ہی اثرات مرتب کرچکی ہے۔

آپ کے خیال میں آئندہ دو تین برس کے لیے  پاکستان کی خارجہ حکمت عملی  کے مرکزی  اہداف کیا ہیں  اور یہ آپ کے بطور وزیر خارجہ وقت سے کیسے تبدیل ہوئے ہیں؟

فی الوقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک کلیدی پہلو خطے میں صورتحال کو معمول پر لانا ہے۔ لیکن ہم خطے میں صرف ایک ملک ہیں۔ دیگر رہنما کس طرح عمل کرتے اور ردعمل دیتے ہیں اس کا یہاں مستقبل میں کیا ہوگا، اس پر بڑا اثر ہوگا۔

جس وقت میں وزارت میں تھی، اس وقت ہماری اولین، دوسری اور تیسری ترجیح خطے اور خطے کے اندر ہمارے تعلقات کو جس حد تک بھی ممکن ہو، معمول پر لانا تھی۔ میں صاف صاف یہ کہا کرتی تھی کہ میں واشنگنٹن اور لندن کے ساتھ بہتر تعلقات  سے پہلے کابل اور دہلی کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتی ہوں۔

میرے خیال میں اہداف اب بھی ملتے جلتے ہیں، کم از کم مثالی صورتحال میں۔ خطہ معمول پر نہیں آیا ہے، اگر کچھ ہوا ہے تو وہ یہ کہ یہاں لگی آگ میں مزید شدت آئی ہے۔ میرے خیال میں جب تک خطے کے حالات معمول پر نہیں آجاتے، تب تک حکمت عملی کے حوالے سے یہی اہم ترین ہدف رہے گا۔

پاکستان کے لیے دوسرا ہدف امریکہ اور چین کے مابین توازن قائم کرنا ہے جو کہ غیر معمولی حد تک اہم ہے۔ پاکستان کے اپنے اہداف بھی ہیں۔ ہمارے خارجہ پالیسی اہداف اسی خطے سے شروع ہونے چاہیں جس میں ہمارے قریبی پڑوسی ایران، بھارت، افغانستان اور چین آتے ہیں۔ میں جیسا کہ بطور وزیرخارجہ کہا کرتی تھی کہ ہمارے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ ہم ہر ممکن حد تک بہترین تعلقات جاری رکھیں کیونکہ ہماری ان کے ساتھ مشترکہ سرحدیں ہیں۔

اس کے بعد وسیع تر خطہ آتا ہے جس میں آپ کے پاس ترکی، روس، وسط ایشیائی ریاستیں، بنگلہ دیش وغیرہ آتے ہیں، جو کہ ہماری ترجیح نمبر دو ہونے چاہیں۔ اس کے بعد ظاہر ہے کہ وہ ممالک آجاتے ہیں جوکہ فاصلے پر ہیں لیکن غیرمعمولی طور پر اہم ہیں اور لہذا ہمیں ان کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ پاک امریکہ تعلقات میں موجود آزمائش وہ کردار جو امریکہ نے بھارت کو اس خطے کے محافظ کے طور پر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

یقیناً یہ امریکہ کی چین کو محدود رکھنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے اور اس کے ان تعلقات پر منفی اثرات ہوئے ہیں جو پاکستان کے امریکہ کے ساتھ ہیں۔ اسے اس قدر تقسیم کا باعث نہیں ہونا چاہیے، جس قدر کہ یہ ماضی میں تھا اور میرے خیال میں اس پر بہتر انداز میں عمل کیا جاسکتا تھا۔

کووڈ ۱۹ کا پاکستان میں خاص کر زور کمزور پڑ رہا ہے تاہم وبا کے دنیا بھر کی معیشتوں پر اثراانداز ہونے کا امکان ہے۔ کووڈ کے معیشت پر اثرات کے حوالے سے پاکستان کو کن سب سے بڑی آزمائشوں کا سامنا ہے، کیا معاشی مواقع کے حوالے سے امید کی کوئی کرن نظر آتی ہے؟

روشنی کی کوئی کرن دکھائی دینے یا معاشی مواقع کے بطور حقیقت دکھائی دینے سے قبل بہت کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے۔ فی الوقت پاکستان کے لیے سب سے بڑی آزمائش ٹیکس وصولی کے شعبے میں خود کفیل ہونا اور آئی ایم ایف پروگرام کے خاتمے کے ہر چھ ماہ بعد ہی خود کو دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانے والی ریاست بننے سے روکنا ہے۔ اس کا تعلق ادائیگیوں میں توازن کے مسئلے سے ہے جس کا تعلق آپ کی برآمدات کی صلاحیت سے ہے جوکہ بے حد اہم ہیں اور جس میں اضافے کی ضرورت ہے۔

اس کیلئے سرمایہ کار، خواہ ان کا تعلق پاکستان سے ہو یا بیرون ملک سے، انہیں پاکستانی معاشی ماحول میں مقابلے کی فضا میسر ہونا انتہائی اہم ہے۔ اس کا مطلب ماحول دوست اور خاص کر توانائی کی بچت کے حامل مواقع اور حکومتی پابندیوں کا ہرممکن حد تک خاتمہ ہے۔ فی الوقت ہم ضرورت سے زیادہ پابندیوں میں جکڑی معیشت ہیں۔

اس سب کی بڑی وجہ معاشرتی طور پر لاحق آزمائشیں بھی ہے۔ نوکریاں پیدا کرنا معاشرتی لحاظ سے بڑی آزمائش ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک بڑا معاشی موقع بھی ہے لیکن آپ جھوٹے معاشی مواقع اور نوکریاں نہیں پیدا کرسکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا تھا تاہم ابھی تک جو ادارے وہ بند کرچکے ہیں، اس کے ذریعے سے وہ تاحال  دس لاکھ افراد سے نوکریاں چھین چکے ہیں اور نجی شعبے میں حسب ضرورت مواقع پیدا نہیں ہورہے ہیں۔

اس کے لیے بین الاقوامی سطح اور قومی سطح دونوں جگہ پر بہت سی چیزوں کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ میں فی الحال امید کی کرن نہیں دیکھتی ہوں۔ میرے خیال میں ہم امید کررہے ہیں کہ کووڈ ۱۹ کی دوسری لہر ہمیں اس سے زیادہ نقصان نہ پہنچائے جتنا کہ پہلی لہر نے پہنچایا تھا۔  پہلی لہر کے دوران ہم خوش قسمت رہے کہ کم از کم اگر ہماری معیشت میں بڑھوتری نہیں ہوئی تو اس میں سکڑاؤ بھی نہیں آیا جس کا تجربہ ہمیں موجودہ حکومت کے پہلے برس میں ہوچکا ہے۔ لہذا ہم بہترین کی امید کرتے ہیں۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Usman Ghani via Wikimedia Commons

Image 2: Foreign, Commonwealth, and Development Office via Flickr

Share this:  

Related articles

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا Hindi & Urdu

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا

کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے…

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…