۱۹۹۸ میں جوہری طاقت ہونے کے اعلان کے بعد سے تاحال، پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والے سنگین ترین اور تازہ ترین بحران کو ایک برس ہوچکا ہے۔ تاہم تناؤ میں کمی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ گزشتہ برس لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر سیز فائر کی خلاف ورزی کے واقعات میں اضافہ ہوا، نیز بھارتی قیادت خطرے مول لینے کیلئے زیادہ تیار دکھائی دی جو چند بیانات سے ظاہر ہوا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے بیان دیا کہ بھارت پاکستان کیخلاف جنگ کو سات سے دس دنوں میں نمٹا سکتا ہے، اور بھارتی وزیرخارجہ اور آرمی چیف نے دعوے کیے کہ پاکستانی زیرانتظام کشمیر دراصل بھارت کا حصہ ہے۔ پاکستان کی جانب سے وزیراعظم عمران خان نے خبردار کیا کہ کشمیر تنازعے کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی بھارتی کوشش کشیدگی میں تیز اضافہ کرسکتی ہے۔
بھارت اور پاکستان کے مابین جاری تناؤ کو دیکھتے ہوئے یہ سوال اٹھانا ضروری ہے کہ گزشتہ سال کے اہم ترین بحران سے دونوں فریقوں نے کیا سبق سیکھا، نیز یہ کہ یہ اسباق ایک دوسرے سے کس حد تک مطابقت رکھتے ہیں۔ پاکستان کی جانب، اس بحران میں متعدد اسباق پوشیدہ ہیں بشمول: ۱) فل سپیکٹرم ڈیٹرنس ڈاکٹرائن کی ضرورت کی تصدیق، ۲) پاکستان کیخلاف تباہ کن حملوں کی بھارتی خواہش اور ”کوئڈ پرو کو پلس“ پالیسی کے تحت جواب دینے کا پاکستانی عزم مستقبل میں خطرناک اشتعال انگیزی کا خطرہ بڑھا سکتا ہے، ۳) بھارتی جانب سے روایتی عسکری صلاحیتوں میں تیز رفتار اضافہ کے سبب بڑھتے خطرات نیز پیشگی حملے کے بڑھتے امکانات۔
بحران کا جائزہ
بحران کا آغاز ماضی کے متعدد بحرانوں سے ملتا جلتا تھا یعنی کہ بھارتی زیرانتظام جموں و کشمیر میں ایک خود کش بم دھماکہ۔ اس واقعے میں حملہ بھارتی زیرانتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک کشمیری نوجوان کی جانب سے فوجی گاڑیوں کے قافلے پر کیا گیا جس میں بھارتی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے ۴۰ سے زائد جوان مارے گئے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے تاہم کالعدم قرار دیئے گئے جنگجو گروہ جیش محمد (جے ای ایم) کی جانب سے ریلیز کردہ ویڈیو پیغام میں ڈار کے تنظیم سے تعلق کے دعوے کے بعد واقعے کا الزام پاکستان پر دھر دیا گیا۔
دو ہفتے بعد، ۲۶ فروری کو بھارتی فضائیہ نے بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فاصلے سے نشانہ بنانے والے ہتھیاروں کی مدد سے حملہ کیا۔ اکثریت کی رائے میں بھارت کی جانب سے خطرہ مول لینے کا سبب آنے والے ملکی انتخابات نیز بھارتی پالیسی میں تبدیلی تھے جو ستمبر ۲۰۱۶ میں اڑی سیکٹر میں دہشت گردی کا نشانہ بننے کے بعد سے جاری ہے۔ اڑی کے بعد بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ سرجیکل سٹرائیکس کی ہیں جس دعوے سے پاکستان نے شدید اختلاف کیا تھا۔ تاہم پاکستان کی جانب سے ان حملوں سے انکار اور جوابی ردعمل نہ دینے کے باعث بھارت کو پلوامہ حملے کے بعد شہہ ملی اور یہی وجہ تھی کہ ایسا محسوس ہوا کہ پاکستان کیلئے بالاکوٹ حملے کے بعد ردعمل دینا ضروری ہوگیا تھا۔
پلوامہ حملے کے بعد تناؤ میں اضافے کے دوران، پاکستان کی اعلیٰ ترین سیاسی قیادت نے بھارت کو خبردار کیا تھا کہ وہ کسی بھی فوجی کارروائی سے باز رہے، بصورت دیگر وہ جوابی کارروائی کیلئے مجبور ہوگا۔ یوں اگرچہ پاکستان، بھارت کے ان دعووں کی تردید کرچکا تھا جن کے مطابق بھارت نے جیش محمد کے جہادی کیمپ کو نشانہ بنایا (بعض مغربی تجزیہ کار بھی بذریعہ سیٹیلائیٹ بنائی گئی تصاویر کی روشنی میں اسی جانب اشارہ کرچکے ہیں) تاہم اب اگر یہ جوابی کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کرتا تو یہ اس کی ساکھ کیلئے المیہ ہوتا۔ لہذا، پاک فضائیہ نے ۲۷ فروری کی صبح لائن آف کنٹرول کے پار کشمیر کے راجوڑی سیکٹر کو نشانہ بناتے ہوئے جوابی کارروائی کی جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے لڑاکہ طیاروں کے درمیان فضا میں جھڑپ ہوئی۔ پاکستان نے دعویٰ کیا کہ اس نے بھارتی فوجی تنصیبات کو جانتے بوجھتے نشانہ نہیں بنایا البتہ بھارت کی جانب سے مزید کسی جارحیت کی صورت میں جوابی کارروائی کیلئے اپنی صلاحیت اور نیت واضح کی۔ دونوں ممالک کے درمیان فضا میں ہونے والی لڑائی کے بعد اسلام آباد کی جانب سے گرفتار کئے گئے پائلٹ کی واپسی درحقیقت وہ فیصلہ تھا جس نے بحران میں کمی کیلئے باعزت راستہ فراہم کردیا۔
”جوہری بلف“ اور ”کوئڈ پروکو پلس“
بھارتی تزویراتی حلقوں نے بالاکوٹ بیانیئے کو توڑنے مروڑنے میں پھرتی دکھاتے ہوئے یہ دعویٰ کرڈالا کہ ان حملوں نے پاکستان کے ”جوہری بلف“ کو آشکار کردیا ہے اور بھارت اس سے یہ نتیجہ اخذ کررہا ہے کہ پاکستان کا جوہری ڈیٹرنس ناکام ہوگیا ہے۔ تاہم پاکستان کے نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ تزویراتی تجزیہ غلط تھا۔ ڈیٹرنس کی ناکامی کے بھارتی دعووں میں پاکستان کے فل سپیکٹرم ڈیٹرنس ڈاکٹرائن (ایف ایس ڈی) کے جوہری پہلو اور نصر میزائل (جو ”ٹیکٹیکل“ جوہری ہتھیار کے نام سے معروف ہے) جو بھارت کے جارحانہ کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن (سی ایس ڈی) کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار کیا گیا تھا، پر ضرورت سے زیادہ زور دیا گیا۔ ایک طرف جہاں پاکستان کا فل سپیکٹرم ڈاکٹرائن جوہری طاقتی ڈھانچے میں شامل عناصر پر زور دیتا ہے، وہیں یہ ڈاکٹرائن روایتی طاقت کے استعمال کے بارے میں بھی ہے۔ نیز یہ ہر قسم کی دھمکی، بشمول تزویراتی، آپریشنل اور ٹیکٹیکل، کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بحران کے بارے میں وہ تجزیئے جو یہ دلیل دیتے ہیں کہ پاکستان کے ”جوہری بلف“ کو بے نقاب کردیا گیا وہ نہ صرف پاکستان کے ایف ایس ڈی کو سمجھنے میں غلطی پر ہیں بلکہ مستقبل میں اشتعال انگیزی کیلئے پر خطر ماحول بھی بناتے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان کیلئے اس بحران نے اس یقین کی تصدیق کرڈالی کہ ایف ایس ڈی نے کامیابی کے ساتھ ڈیٹرنس کو قائم کیا ہے اور ”کولڈ سٹارٹ کے اوپر کولڈ واٹر“ ڈال دیا ہے۔ تقریباً دو دہائیوں تک ڈاکٹرائن کی جنگی مشق کرنے کے بعد بھارت نے دوران بحران بین الاقوامی سرحد پار سی ایس ڈی کے اطلاق کے بارے میں زیادہ سوچ بچار نہیں کی جس سے پاکستان کے اس خیال کو مضبوطی ملتی ہے کہ نصر میزائل ہی نے بھارت کی جانب سے محدود پیمانے پر سرحدی خلاف ورزی کے خطرے کے خلاف موثر ڈیٹرنس فراہم کی ہے۔
بالاکوٹ حملے پر پاکستانی ردعمل یہ تجویز کرتا ہے کہ مستقبل میں پاکستان ایسے کسی بھی سرحد پار سے کئے گئے حملے کے جواب میں اپنے طاقتور روایتی ہتھیاروں پر زیادہ انحصار کرے گا جن کے استعمال کی مشق متعدد فوجی مشقوں میں کی جاتی رہی ہے۔ پاکستان کی موجودہ روایتی ڈیٹرنس کی حکمت عملی ایک نئے جنگی نظریئے پر مبنی ہے جو بیک وقت بری، بحری اور فضائی تینوں سپاہ کے انضمام کے ذریعے ردعمل تجویز کرتا ہے۔ عزمِ نو مشق، ہائی مارک ڈرلز، سٹرائیک آف تھنڈر ڈرلز اور سی سپارک مشق اسی نظریئے کے تحت حرکت میں آنے کیلئے درکار وقت کو کم کرنے نیزآپریشن کیلئے فوج کی تین شاخوں کے مابین انضمام کو بہتر بنانے کیلئے منعقد ہوئی تھیں۔ پاکستان کے سٹریٹیجک پلانز ڈویژن کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور نیشنل کمانڈ اتھاڑی کے موجودہ مشیر ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل خالد قدوائی نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے روایتی فوجی حملے کی صورت میں پاکستان ”کوئڈ پرو کو پلس“ حکمت عملی اپنائے گا۔ پاکستان کے تزویراتی حلقوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اس قسم کی حکمت عملی بھارت کو پاکستان کیخلاف کسی قسم کی جنگی کاروائی کرنے سے روک سکتی ہے یا پھر کم از کم اس جارحیت کو محدود رکھنے پر مجبور کرے گی۔
اشتعال انگیزی سے کیسے نبٹیں؟ پاکستان کیلئے سبق
بحران کے بعد سال بھر کے دوران سامنے آنے والے ثبوت یہ اشارہ دیتے ہیں کہ ایسے متعدد مواقع آئے جب کشیدگی کے مزید خطرناک دور میں داخل ہونے سے بال بال بچا گیا۔ اس جیسی زیادہ تراضافی معلومات پاکستان کے اس پختہ یقین کی تصدیق کرتی ہیں کہ بھارت میں مہم جوئی کی مخالفت میں کمی آرہی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اولاً پاکستان کی جانب سے بھارتی پائلٹ کی گرفتاری کے بعد بھارت نے میزائل کے ذریعے ردعمل دینے کی دھمکی دی جس پر پاکستان نے جوابی کارروائی میں میزائل استعمال کرنے کا عزم ظاہر کیا۔
دوئم، بحران میں کمی کے فوری بعد مبینہ طور پاک بحریہ کی جانب سے بھارتی آبدوز پکڑے جانے کے بعد اسے سطح آب پر آنے پر مجبور کیا گیا تاہم اسے نشانہ نہیں بنایا گیا۔ اگر پاکستان کی جانب سے جانتے بوجھتے یا اندازے کی غلطی کی بنا پر اس آبدوز کو نشانہ بنایا گیا ہوتا تو اسکے نتیجے میں اشتعال انگیزی میں اضافہ ہوسکتا تھا اور کشیدگی پوری سمندری حدود میں پھیل سکتی تھی۔ اور آخری دلیل یہ ہے کہ پلوامہ حملے کے بعد بھارتی بحریہ کی جانب سے منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں اس امر کا انکشاف ہوا تھا کہ بحران کے آغاز میں بھارت نے اپنے بحری بیڑے اور ایئرکرافٹ کیریئرز کے ساتھ ساتھ اپنی جوہری آبدوز اری ہانتھ کو بھی لاکھڑا کیا تھا۔ اس سے پاکستان میں پائے جانے والے اس تاثر کی تائید ہوئی ہے کہ بھارتی تزویراتی میدان کے اعلیٰ حکام یا تو پیشگی حملوں کے خیال پر کام کررہے تھے یا پھر جارحانہ حملوں کے اس اکھاڑے کو وسیع کرتے ہوئے بحری فوج کو بھی اس میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ فضائی اور بحری علاقوں میں بھارتی جوہری ہتھیاروں کی تنصیب نیز بیک وقت شہری و فوجی استعمال کے قابل ٹیکنالوجی کا فوجی مقاصد کیلئے استعمال جیسا کہ میراج ۲۰۰۰ (جو کہ جوہری ہتھیار لے جاسکتا ہے) اور زمین سے فضاء میں مار کرنے والے میزائل (سیمز) پاکستان کے اس تاثر کی توثیق کرتے ہیں کہ بھارت حفاظتی پیشگی حملے کی حکمت عملی کی طرف جارہا ہے۔ ایسی ٹیکنالوجی کا حصول یا تلاش جو کہ پیشگی استعمال کی صورت میں زیادہ موثر ہو جیسا کہ بیلسٹک میزائل ڈیفنس، گائیڈڈ ہتھیار، ہائیپرسونک کروز میزائل نیز زیادہ بہتر انٹیلی جنس، سرویلنس اور ری کونیسنز (آئی ایس آر) بھارت کے اس اعتماد میں اضافہ کریں گے کہ وہ مستقبل میں پاکستان کی کمر توڑ دینے کے قابل پیشگی حملہ کامیابی کے ساتھ کرسکتا ہے۔
موثر ڈٹرنس قابل بھروسہ روایتی اور تزویراتی صلاحیتوں پر منحصر ہوتی ہے۔ حالیہ بحران سے ملنے والا ایک سبق یہ بھی ہے کہ اگرچہ پاکستان اور بھارت کے مابین طاقت کی روایتی عدم مطابقت فی الحال فیصلہ کن نہیں تاہم بھارت کی جدید ہتھیاروں کی خریداری (بشمول جدید ترین لڑاکا طیارے، سپرسونک وہیکلز، اینٹی سب میرین وار فیئر اور پی ۸۱ اور زیرالتوا ایس ۴۰۰ جیسے پلیٹ فارمز) جن کے بارے میں بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ چین کا مقابلہ کرنے کیلئے ہیں، لیکن اس خریداری پر مستقبل میں پاکستانی تجزیہ کاروں کی نگاہ رہے گی۔ اس بحران نے بھارتی دفاعی طاقتوں کو یہ موقع بھی فراہم کیا ہے کہ وہ جدید ترین ملٹری کی افادیت کیلئے اپنی مثال دے سکیں۔ مزید براں، امریکہ جیسے غیر ملکی سپلائرز کی چین کیخلاف بھارت کو کھڑا کرنے کی خواہش بھی دہلی کو فوجی اسلحے کی بڑے پیمانے پر فراہمی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ مستقبل میں یہ خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ یا بڑے پیمانے پر عدم توازن کا باعث بن سکتا ہے۔
بحران کے استحکام کو مستقبل میں لاحق خطرات
اس بحران میں پاکستان کیلئے جو مرکزی سبق دکھائی دیتا ہے وہ یہ ہے کہ جب تک پاکستان روایتی نیز تزویراتی صلاحیتوں کے اعتبار سے فل سپیکٹرم ڈیٹرنس کے موثر ہونے کو یقینی بنائے رکھے گا، ڈیٹرنس برقرار رہے گی۔ اس بحران سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ بھارت پاکستان کیخلاف جوہری جنگ کی حد کو چھوئے بغیر پاکستان کیخلاف محدود جنگ چھیڑنے کیلئے مواقع کی تلاش میں رہے گا، جس کیخلاف پاکستان کو بھرپور ڈیٹرنس کی حکمت عملی جیسا کہ اس کی ”کوئڈ پرو کو پلس“ پالیسی سے عیاں ہے اس کے تحت ردعمل دینا ہوگا۔
پلوامہ حملے کے بعد بھارتی جوابی کاروائی اور بعد ازاں پاکستانی ردعمل کی صورت میں اس بحران کے ذریعے ”محدود ردعمل“ دینے کیلئے فضائی طاقت کا نیا طرزِ استعمال دیکھنے کو ملا ہے ۔ فضائی لڑائی کی رفتار اور اس میں تیز اضافے کے ممکنہ خطرے کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ردعمل دینے کی مختلف اشکال میں یہ ایک خطرناک اضافہ ہے۔ جدید لڑاکا طیاروں اور فوج میں تیزی سے آتی جدت کے سبب اس قسم کی فضائی طاقت کے اظہار میں محض اضافہ ہی ہوگا۔ اس حوالے سے پاکستان کو ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنی سپاہ کو جدید ترین بنانے کی جانب توجہ دینا ہوگی تاکہ مستقبل میں ہر قسم کے خطرات کیخلاف ڈیٹرنس یقینی بنایا جاسکے۔
جنوبی ایشیا میں اگر آئندہ بحران انہی خطوط پر ہوا، اور اگر بھارت ”پاکستان کو سزا دینے“ کیلئے مزید طریقوں پرغور اورردعمل میں پاکستان اپنے ”عزم“ کے اظہارپر ڈٹا رہتا ہے تو ایسے میں کشیدگی میں اضافے کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ خطرناک اشتعال انگیزی کے یہ امکانات تجویز کرتے ہیں کہ مستقبل میں بحران کو حل کرنے کیلئے مضبوط دو طرفہ میکنزم ترتیب دیا جائے۔
***
.Click here to read this article in English
Image 1: Government of Pakistan
Image 2: Dmitriy Fomin via Flickr