
جوہری سپلائر گروپ کی سول میں ہونے والی حالیہ ملاقات میں شامل ۴۸ ممالک نے بھارت کی رکنیت کی درخواست پر کوئی بھی حتمی فیصلہ لینے سے گریز کیا۔ یہ ایک اہم نقطہ ہے، کیونکہ آجکل اکثر یہ کہا جا رہا ہے کہ بھارت اپنی پرزور سفارتی کوششوں اور وزیرِ اعظم مودی کے خاص عالمی دورے کے باوجود رکنیت حاصل کرنے میں ناکام ہوا۔ یقیناً بھارت کی نمایاں اور زوردار “لابینگ” کی وجہ سے جوہری سپلائر گروپ کا فیصلہ بھارت کے لیے شرمندگی کا باعث بنا، مگر حقیقت یہ ہے کہ جوہری سپلائر گروپ نے اپنا فیصلہ سفارت اور سیاست نہیں بلکہ کچھ اصل خدشات کی روشنی میں کیا۔ بھارت کے اس تجربے سے پاکستان اپنی نیوکلر سپلائر گروپ رکنیت کی درخواست کے معاملے میں کچھ اہم سبق سیکھ سکتا ہے۔
جوہری سپلائر گروپ ۱۹۷۴ میں بھارت کے کۓ جانے والے ایٹمی تجربے کے جواب میں تشکیل کیا گیا۔ بھارت کا نیوکلیر ٹیسٹ پرامن نیوکلیر ٹیکنالوجی کے جارحانہ عسکری استعمال کی ایک خطرناک مثال تھا اور اسی وجہ سے عالمی برادری نے جوہری معلومات اور ٹیکنالوجی کی برآمد کو فوری محدود کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ آج نیوکلر سپلائر گروپ کو جوہری عدم پھیلاؤ سے وابستہ کئی نئے اْبھرتے ہوئے سوالات کا سامنا ہے۔ یہ سوالات پاکستان اور بھارت کی رکنیت کی درخواست کی وجہ سے نئی روشنی میں آرہے ہیں۔ بھارت اور پاکستان دونوں ہی اپنی رکنیت حاصل کرنے کی کاوش میں مشکلات سے دوچار ہیں۔
بھارت کے بیانات کے مطابق چین اور پاکستان نے مل کر بھارت کی رکنیت حاصل کرنے کی کوششوں میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ ایسے بیانات، جو کہ دراصل حقائق نہیں، بھارت کے اپنے خوائف پر مبنی ہیں، جوہری سپلائر گروپ کے اہم مشن کو کمزور کرتے ہیں۔ ایسے بیانات اس بات کو بھی نظر انداز کرتے ہیں کے کسی بھی ملک کی نیوکلر سپلائر گروپ رکنیت سے پہلے بھرپور تحقیقات اور مباحثات ضروری ہوتی ہیں، جس کے بعد ہی کسی ملک کو رکن تسلیم کیا جا سکتا ہے اور جوہری ٹیکنالوجی اور جوہری عالمی مارکیٹس تک رسائ دی جا سکتی ہے۔
جوہری سپلائر گروپ کے تمام فیصلے مکمل اتفاقِ رائے کے بعد لئے جاتے ہیں، یعنی رکنیت حاصل کرنے کے لئے کسی بھی ملک کوپہلے تمام جوہری سپلائر گروپ ارکان کی حمایت حاصل کرنا ہو گی۔ پاکستان اور بھارت کی رکنیت کی درخواست کی وجہ سے جوہری سپلائر گروپ کے مستقبل کے بارے میں ایک بحث چھڑ چکی ہے۔ چین بھارت کی درخواست کا مخالف صرف اس وجہ سے ہے کہ بھارت نے آج تک “نان پرولیفریشن ٹریٹی،” یعنی جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط نہیں کیئے۔ چین کی وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ عہدہ دار وانگ قن نے کہا کہ کسی بھی درخواست گزار ملک کا “نان پرولیفریشن ٹریٹی” پر دستخط کیا ہونا ضروری ہے۔ پاکستان نے بھی آج تک “نان پرولیفریشن ٹریٹی” پر دستخط نہیں کۓ ہیں۔ چین کے اس بیان کے بعد یہ کہنا غلط ہو گا کہ پاکستان اور چین نے مل کر بھارت کی رکنیت کو روکا ہے، کیونکہ چین کا کھلا موقف پاکستان کی رکنیت کی بھی برابر مخالفت کرتا ہے۔ بھارت کی درخواست کی مخالفت میں چین کا ساتھ اْن ممالک نے بھی دیا جو عموماً بھارت کی طرف دوستانہ رویّہ اختیار کرتے ہیں، جیسا کہ برازیل، آسٹریا، سویٹزرلینڈ، نیوزیلینڈ، آئرلینڈ، اور ترکی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جوہری سپلائر گروپ کے ارکان کے درمیان جوہری عدم پھیلاؤ کے مختلف پہلووں پر ایک گہری بحث جاری ہے۔
اس اہم بات چیت میں جوہری سپلائر گروپ کے اندر کئی مختلف راۓ پائی جاتی ہیں۔ مثلاً روس ، جس کے نقتہِ نظرسے کئی ممالک متّفق ہیں، کے وزیرِ خارجہ نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوۓ کہا کہ جن ممالک نے “نان پرولیفریشن ٹریٹی” پر دستخط نہیں کۓ ان کے لۓ جوہری سپلائر گروپ میں داخلے کے لۓ خاص طریقہ کار قائم کۓ جانے چاہیئں۔ دوسری طرف امریکہ اور چند اور ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت کو رکنیت ملنی چاہیۓ، کیونکہ اس عمل کے زریعے باقی غیرممبران کے لۓ جوہری سپلائر گروپ میں داخلے کا راستہ کھلے گا۔ ایک اور موقف ترکی کا ہے، جو پاکستان کی درخواست کی حمایت کرتا ہے، اور چاہتا ہے کے پاکستان اور بھارت کے درخواستوں پر ایک ساتھ غور اور فیصلہ کیا جاۓ۔ جوہری سپلائر گروپ میں موجود ان مختلف آراء سے ظاہر ہوتا ہے کہ رکنیت کے معاملات پر بحث ابھی کسی نتیجے پر پہنچنے سے دور ہے۔ اگر چین اس ساری بات چیت میں بالکل خاموش رہتا، تب بھی نیوکلر سپلائر گروپ بھارت کی درخواست کے معاملے میں اتّفاقِ راۓ تک نہ پہنچ پاتا۔ جوہری سپلائر گروپ اس وقت ایک اہم مکالمے میں ہے اور اسے پورا ہونے میں ابھی کچھ اور وقت لگے گا۔
بھارت کے اس تجربے سے پاکستان اپنی جوہری سپلائر گروپ کی درخواست کے لۓ چند اہم سبق سیکھ سکتا ہے۔ پاکستان کو اپنی رکنیت کو بھارت کے مدِّ برابر نہیں دیکھنا چاہئے۔ بھارت تو رکنیت ملنے سے پہلے ہی وہ جوہری تجارت کے فائدے اٹھا رہا ہے جو صرف جوہری سپلائر گروپ کے ارکان کو ملتے ہیں۔ ۲۰۰۸ میں امریکہ کے ساتھ کئے جانے والے جوہری معاہدے کے تحت بھارت کو”نان پرولیفریشن ٹریٹی” پر دستخط نہ کرنے کے باوجود جوہری تجارت میں حصہ لینے کی اجازت ہے۔ بھارت نے بہت عقلمندی سے اس چھوٹ کا فائدہ اٹھایا ہے اور اس وجہ سے ممکنہ طور پر روس، فرانس، اور امریکہ کی مدد سے بھارت میں نئے جوہری ریکٹر تعمیر کۓ جا سکتے ہیں۔ اگر پاکستان بھارت کے برابر ہونا چاہتا ہے تو اسے اپنے آپ کو اس مقام پر پہنچانا ہو گا جہاں بھارت ۲۰۰۸ میں تھا۔ پاکستان کو کامیاب سفارتکاری کے زریعے بھارت جیسا جوہری “وییور” یا چھوٹ حاصل کرنی ہو گی۔
جوہری سپلائر گروپ کی اگلی ملاقات ۲۰۱۷- ۲۰۱۸ میں سویٹزرلینڈ میں ہو گی۔ ابھی یہ کہنا قبل اذ وقت ہو گا کہ اس ملاقات میں بھارت اور پاکستان کی رکنیت پرپھر بحث ہو گی۔ اگر ایسا ہوا تو دونوں ہمسایہ ممالک کو نیوکلر سپلائر گروپ میں ہونے والے مباحثات کا پورا منظر سمجھ کر اپنے آپ کو ایک ذمہ دار عالمی ریاست کی طرح پیش کرنا ہو گا۔
***
Editor’s Note: Click here to read this article in English