۲۰۲۱ کے سیاسی منظرنامے پر بھارت ایک بار پھر وہیں کھڑا دکھائی دیتا ہے جہاں سے اس نے سفر کا آغآز کیا تھا۔ سال کا آغاز کسانوں کے احتجاج سے ہوا تھا اور اب ایسے وقت میں یہ انجام کو پہنچ رہا ہے جب حکومت بالآخر ان تین زراعتی قوانین سے پیچھے ہٹ رہی ہے جس نے ہزاروں کی تعداد میں کسانوں کو ریاست کے درالحکومت کی جانب سفر پر مجبور کیا تھا۔
نریندر مودی کی قیادت میں حکومت، جس کی ویسے تو ایسی حکومت کے طور پر تشہیر کی جاتی ہے جو معترضین کے سامنے جھکے بغیرایجنڈے کے تحت آگے بڑھتی ہے، تاہم وہ مخالفت کرنے والوں کو ”ملک دشمن“ قرار دینے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کریک ڈاؤن پرڈٹی رہی۔ اب جب ۲۰۲۲ میں بھارت کی کلیدی ریاستیں انتخابات کی جانب بڑھ رہی ہیں نیز کووڈ ۱۹ کی دوسری المناک لہر کے پس منظر میں حکومت کا پیچھے ہٹنا ایک مناسب چال محسوس ہوتا ہے تاکہ شکستوں کے اس سلسلے کے دہرانے سے بچا جاسکے جو اسے ۲۰۲۱ میں مغربی بنگال اور کیرالہ میں دیکھنے کو ملیں۔ سال بھر جاری رہنے والے کسانوں کے احتجاج اور کووڈ ۱۹ کی مہلک گیر لہر کے دوران اختلاف رائے، مظاہرے، سوشل میڈیا اور آزاد صحافت کیخلاف حکومتی شکنجے میں سختی، ۲۰۲۱ کے بھارت کی نشانیاں ہیں جس کے ۲۰۲۲ میں مزید رفتار پکڑنے کا امکان ہے۔
زراعت کے قوانین بھارتی سیاست کے بارے میں کیا بتاتے ہیں
جہاں یہ زراعت کے قوانین بھارت کے شعبہ زراعت، جو ملک میں سب سے زیادہ نوکریاں پیدا کرنے کاعمل مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے، اس کے بارے میں موزوں سوال اٹھاتا ہے، وہیں جس طرز پر یہ ”اصلاحات“ متعارف کروائیں گئیں نیز کسی قسم کی مخالفت پر حکومت کا جوابی ردعمل بھارت میں سیاست کے درپردہ سلگتے جذبات کو بھی پیش منظر پر لاتا ہے۔ اولاً، باوجودیکہ بھارت کے علاقائی سپرپاور ہونے کے بارے میں بارہا بات کی جاتی ہے، بڑی طاقت کے بارے میں بحث بھارت کے سماجی تانے بانے کی پیچیدگیوں کو چھپا دیتی ہے۔ دیہی بھارت عرصے سے بھارتی سیاست کے نتائج طے کرتا آ رہا ہے۔ یہ اس امر سے واضح ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں اکثریت برقرار رکھنے کی خواہاں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت میں حکومت اترپردیش اور پنجاب کے ریاستی انتخابات میں کسانوں کی ناراضگی کی متحمل نہیں ہو سکی۔ پیچھے ہٹنے کا وقت اس حکمت عملی پر مبنی سوچ کا عکاس ہے۔
دوئم، بی جے پی کی حکومت نے ایسے بلوں کی منظوری کے لیے آرڈیننس پر انحصار کیا جو بھارت کی آبادی کی اکثریت پر براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ پارلیمان کے اعتمادسازی کے کردار کو پس پشت ڈالنا اور اس کے بجائے آرڈیننس کا سہارا لینا، خواہ یہ وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بارے میں حالیہ بل ہوں یا مالیاتی قوانین، یہ ایک ایسا رجحان ہے جو بی جے پی کے دور میں بھی جاری رہا اور یہ جمہوری عمل کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ زراعتی قوانین جو مظاہرین کے مطابق انہیں سرمایہ دارانہ قوتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے، ملک کو اس قابل بنا سکتے تھے کہ وہ کھیتی باڑی کے لیے حکومتی سبسڈی کے اثرات کا دوبارہ جائزہ لے سکیں جس نے گزشتہ کچھ دہائیوں میں بنجر اور نیم بنجرعلاقوں میں زیادہ پانی پینے والی فصلوں کی کاشت کی جانب رغبت دلوائی ہے اور زرعی منڈیوں کو قابو میں رکھنے والے مڈل مین کا کردار ختم کر دیا ہے۔ حکومت کا زراعتی قوانین کو واپس لینا، جن کی بڑی اصلاحات کے طور پر تشہیر کی گئی تھی، اس حوالے سے سوالات کھڑے کرتا ہے کہ کیا مستقبل میں ناراض شہری بندوق کی نوک پر غیرمعروف فیصلے کروائیں گے خاص کر وہ جن کا ہدف نقصان برداشت کرنے والی ریاستی املاک ہوں۔
آزادیء اظہار شکنجے میں
زراعتی قوانین کیخلاف تحریک کے طاقت پکڑنے سے روکنے کے لیے حکومت نے ایکٹوسٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کیخلاف کریک ڈاؤن کیا۔ جہاں عوامی سطح پر مقبول بین الاقوامی شخصیات کی جانب سے اس مقصد کی حمایت نے حکومتی غصے کو بھڑکایا، وہیں بہت سے بھارتی ایکٹوسٹ، مثلاً ۲۲ سالہ دیشا راوی بغاوت اور مجرمانہ سازش کے الزام میں گرفتار ہوئیں، جو حکومت کا مخالفین کو نشانہ بنانے کے وسیع تر منصوبے کا ایک حصہ تھا۔ یہ کبھی کبھار اکا دکا ہونے والے واقعات نہیں تھے۔ حکومت نے الزام لگایا کہ ”ذاتی مفادات کا حامل گروہ“ بھارت مخالف جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کر رہا تھا اور سوشل میڈیا کا میدان جنگ کے طور پر غلط استعمال کر رہا تھا۔
حالیہ برسوں میں سوشل میڈیا، مظاہرین سے سختی سے نمٹنے یا ان کیخلاف جارحانہ ردعمل کے حوالے سے رائے عامہ کو یکجا کرنے میں بے حد اہم رہا ہے، ۲۰۲۰ میں امریکہ میں بلیک لائیوز میٹر کے سلسلے میں کیے گئے احتجاج اور بھارت میں اینٹی سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ (سی اے اے) کیخلاف مظاہروں میں یہ نمایاں دکھائی دیا۔ یہ پس منظر حکومت کو ایسے پلیٹ فارمز پرقابو پانے کے لیے مضبوط میکنزم متعارف کروانے کی راہ دکھاتا ہے۔۲۰۲۱ میں بھارت نے نئے سوشل میڈیا قوانین متعارف کروائے تھے جو ان پلیٹ فارمز کو پابند بناتے ہیں کہ وہ حکومت کے ساتھ مسلسل تعاون کریں اور مقررہ مدت کے دوران معلومات کی فراہمی کی درخواست پر عمل کریں۔ معلومات کے ماخذ کا پتہ لگانے اور اسے بے نقاب کرنے کی نئی شرط کا دائرہ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز تک وسیع ہے، جو آن لائن مخالفین سے ان کے بے نشان ہونے کی خاصیت کو چھین لیتا ہے۔
یہ رجحان رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی سالانہ آزادی صحافت کی درجہ بندی کی نگاہوں میں بھی آچکا ہے جبکہ بھارت آزادی صحافت کے عالمی انڈیکس پر بھی مسلسل نیچے آرہا ہے اور اسے ”صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک“ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
کووڈ ۱۹ کی ایک مہلک لہر
اپنا اچھا تاثر پیش کرنے اور میڈیا کو ضابطے کے تحت لانے کی کوششیں، کووڈ ۱۹ کی مہلک لہر کیخلاف بھارتی حکومتی ردعمل کو بھی بیان کرتی ہیں۔ وبا پھیلنے پر ویکسی نیشن کی معمولی شرح اور کووڈ ۱۹ پروٹوکولز پرناقص عمل درآمد خاص کر ہندو مذہبی تہوار کے آس پاس پروٹوکولز کی خلاف ورزی کے سبب بھارتیوں کو نقصان اٹھانا پڑا۔ مارچ اور جون کے درمیان ملک نے تقریباً ۲ لاکھ کے قریب اموات دیکھیں۔ اکثریت کی جانب سے اس تعداد کواصل سے کم قرار دیا گیا۔ وفاقی حکومت بجائے اس کے کہ ایک مرکزی منصوبہ بناتی جس کے تحت ادویات کی سپلائی چین اور طبی آکسیجن کی کمی میں تیزی لاتی، ویکسین لگوانے کے عمل کو تیز کرتی اور تیزی سے نیچے گرتے جی ڈی پی کو سنبھالتی، وفاقی حکومت نے ریاستوں کو عملی اقدامات کے لیے انفرادی حیثیت میں حکمت عملی ترتیب دینے کا حکم دے دیا۔ ایسے وقت میں جب کووڈ ۱۹ کی ادویات کے لیے خام مال کی قیمتیں بڑھ رہی تھیں، بھارت نے اینٹی فنگل ادویات اور حتیٰ کہ وائرس سے جلد صحتیابی کے لیے ضروری بنیادی لوازمات کی بلیک مارکیٹ کو بھی پھلتے پھولتے دیکھا جس نے صورتحال کو مزید ابتر کیا۔
حکومتی نااہلی کی عکاسی اس امر سے ہوتی تھی کہ شہری ہسپتالوں میں دستیاب بیڈ، آکسیجن سلنڈر کے انتظام اور ریمڈی سویئر انجکشن کے لیے سوشل میڈیا کا رخ کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اندازہ لگانے اور وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں حکومتی ناکامی کیخلاف آن لائن (اور پرنٹ میں) بڑھتی ہوئی تنقید حکومت کے لیے نیک شگون نہ تھی، سو اس نے جس طرح کسانوں کے حق میں مظاہروں سے نمٹا تھا، اسی طرح کووڈ ۱۹ کے وسائل کے حوالے سے سوشل میڈیا پوسٹس کیخلاف کریک ڈاؤن کیا۔ اگرچہ بی جے پی حکمرانوں اور سیکیورٹی افسران نے دھوکہ دہی اور بلیک مارکیٹنگ کا حوالہ دیا تاہم یہ شکنجہ خالصتاً نیک نیتی سے نہیں کسا گیا۔ اور ایک بار پھر حکومت کی معمولی کوششوں پر تنقید کرنے والے صحافی غداری کے الزامات کی زد میں آگئے۔
اچھا تاثر پیش کرنے پر توجہ جب ناکافی وسائل و معلومات کے ساتھ یکجا ہوئے تو وائرس سرحدوں کے پار تیزی سے پھیلنے اور بھارت کے پڑوسیوں کو متاثر کرنے لگا۔ اسی کے ساتھ ویکسین ڈپلومیسی جس کے بارے میں بھارت کے رہنماؤں کو امید تھی کہ وہ قوم کے تشخص اور پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات دونوں کو مضبوط کرے گی، اس کی رفتار سست ہوگئی، کیونکہ بھارت ۱۸ سے ۴۴ برس کے درمیان کے اپنے شہریوں کے لیے ویکسین پروگرام میں سرعت لے آیا۔
ریاستی انتخابات اور مذہبی تقسیم
بی جے پی کے انتخابی ہتھیاروں میں مذہبی تقسیم کا مرکزی کردار جاری رہا: جماعت نے آسام، مغربی بنگال، تامل ناڈو اور کیرالہ کے ریاستی انتخابات میں گروہی بنیادوں پر ان دراڑوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، خاص کر دوسری لہر کے دوران وبا کو قابو میں رکھنے میں اپنی ناکامی سے توجہ ہٹانے کے لیے اسے استعمال کیا۔
یہ مذہبی دراڑیں انتخابی نتائج میں واضح تھیں۔ آسام جو بھارت کے شمال مشرق میں ایک ہندو اکثریتی ریاست ہے، اور مسلمانوں کی آبادی کم ہے وہاں بی جے پی کے زیر قبضہ حلقوں کی تعداد میں معمولی اضافہ دیکھنے کو ملا۔ آسام میں انتخابات کے بعد ہونے والے ایک پول کے مطابق بی جے پی ۶۷ فیصد ہندو افراد کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی جبکہ حزب اختلاف کا اتحاد ریاست کے ۸۱ فیصد مسلمانوں کے ووٹ بٹور پایا۔
بی جے پی کی یہ ترکیب جہاں آسام میں اس کے حق میں کام کرگئی وہیں مغربی بنگال، تامل ناڈو اور کیرالہ میں یہ اس کا نشان قائم کرنے میں ناکام رہی۔ یہ تمام وہ ریاستیں ہیں جو ہندی اسپیکنگ بیلٹ میں بی جے پی کے روایتی مضبوط گڑھ سے باہر تھیں۔ یہ وہ ریاستیں ہیں جن کی اپنی منفرد علاقائی شناخت ہے اور مقامی مسائل نے بی جے پی کو مسلسل اثرورسوخ قائم کرنے سے باز رکھا ہے حالانکہ یہاں بھی اپنی نوعیت کی مذہبی تقسیم کے رجحانات دکھائی دیتے ہیں۔
۲۰۲۲ میں بھی بی جے پی کے اپنی آزمودہ ہندومسلم تقسیم کی ترکیب کو استعمال میں لانے کا امکان ہے خاص کر ایسے میں کہ جب ہندی بیلٹ پر موجود ریاستیں انتخابات میں حصہ لینے جا رہی ہیں۔ اترکھنڈ، اترپردیش، گجرات، ہیماچل پردیش اور گوا حالیہ برسوں میں بی جے پی کا گڑھ بن کے ابھرے ہیں۔ اترپردیش جو کہ متنازعہ ایودھیہ مندر– بابری مسجد تنازعہ کا مرکز بھی ہے، وہاں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہندو قوم پرست پالیسیوں بشمول شہر کے نام کی تبدیلی اور ہندو مقدس شہروں میں گوشت پر پابندی لگانے میں کامیاب ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ اترپردیش پارلیمنٹ کے ایوان بالا و زیریں میں ۱۱۱ سیٹوں کا اضافہ کرتا ہے جو کہ بھارت کی دوسری سب سے بڑی ریاست کے مقابلے میں دوگنا نشستیں ہیں اور بی جے پی کو پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت برقرار رکھنے کے قابل بنا دیں گی۔
بھارتی سلامتی کے مستقبل پر عدم تحفظ
داخلی رجحانات کے اثرات بھارت کی خارجہ و سیکیورٹی پالیسی تک پھیل چکے ہیں کیونکہ افغانستان میں تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال اور چین کے ہمراہ تعلقات میں برف نے دائیں بازو کے ہندو گروہوں اور وفاقی مضبوطی کے حق میں کردار ادا کیا ہے۔ امریکہ کا افغانستان میں دو دہائیوں پر محیط مشن سے ہاتھ واپس کھینچنا اور نتیجے میں طالبان کے قبضے نے بھارت کے اندر ہمیشہ سے موجود اس خوف کو مزید بڑھا دیا ہے کہ ایک غیرمستحکم پڑوسی ملک اسلامی انتہا پسندوں کے قابو میں ہے۔ بے چینی کی یہ فضا بھارت میں ہندو دائیں بازو کی سرگرمیوں میں اضافے کے لیے عین مناسب ماحول ہے۔ ہندووتا کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ زیادہ عسکریت پسند ہندو قیادت کے بغیر بھارت بھی اسلام پسندوں اور دہشتگرد سرگرمیوں کا شکار ہوجائے گا۔
طالبان کی گزشتہ حکومت کے خاتمے اور کابل میں ایک جمہوری دور قائم کیے جانے کے بعد بھارت نے افغانستان حکومت کے ہمراہ مضبوط تعلقات قائم کیے تھے۔ بھارت نے سمجھ لیا تھا کہ پاکستان سے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے خطے میں دوست ممالک سے تعلقات بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اب طالبان کی قیادت میں ایک ایسی حکومت جو اسلام آباد سے دوستانہ تعلق میں دکھائی دیتی ہے، بھارت خود کو بڑھتی ہوئی جارحیت کے حامل پڑوسیوں میں پاتا ہے۔ اس کی مغربی سرحدوں پر پاکستان کا جبکہ اس کے مشرقی اور شمال مشرقی سرحدوں پر پاکستان کے پرانے اتحادی چین کا پہرہ ہے جس کے ہمراہ بھارت کے تعلقات سردمہری کا شکار ہیں۔ لداخ میں اپریل اور جون ۲۰۲۰ کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے منفی اثرات ۲۰۲۱ میں بھی جاری رہے۔ دونوں ممالک میں تناؤ برقرار رہنے کے سبب بھارت نے پہاڑوں پر اپنے حملوں کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے مزید ۱۰ ہزار سپاہی تعینات کیے۔
کیا ۲۰۲۲ میں لہروں کا رخ بدل جائے گا؟
اس برس نے بھارت کی معیشت، صحت عامہ اور اس کے سماجی و سیاسی تانے بانے کو آزمائشوں سے دوچار کیا ہے۔ امکان ہے کہ ۲۰۲۲ ان رجحانات کے مزید گہرے ہونے کا باعث ہوگا۔ دنیا بھر میں اومی کرون کے بڑھتے ہوئے کیسز کے سبب بھارت میں کووڈ ۱۹ کی تیسری لہر کا ممکنہ خطرہ بڑھ رہا ہے۔ یہ بھارت کی معیشت کی بحالی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ چین کے ہمراہ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئے دفاعی اخراجات میں اضافہ محض بوجھ میں مزید اضافے کا سبب ہوگا۔
اگرچہ بی جے پی حکومت ہچکولے کھاتی معیشت اور بلند شرح بیروزگاری کے سبب دباؤ محسوس کرسکتی ہے، تاہم سیاسی میدان میں اسے کوئی بڑا دھچکہ پہنچنے کا امکان نہیں ہے۔ اس کی تقسیم کی ترکیب ۲۰۲۲ میں انتخابی عمل میں قدم رکھنے والی بہت سے ریاستوں کے لیے نیک شگون دکھائی دیتی ہے۔ پنجاب میں جہاں یہ زراعتی قوانین کی وجہ سے کمزور پڑتی دکھائی دیتی ہے، اقتدار میں موجود انڈین نیشنل کانگرس (آئی این سی) کو مسلسل اندرونی انتشار اور رخنے کا سامنا ہے ایسے میں بی جے پی کی مضبوطی کے امکانات ہیں۔ اترپردیش میں باوجودیکہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے آپس میں اتحاد کیا ہے، ان جماعتوں کے پاس ماسوائے بی جے پی مخالف ایجنڈے کے کوئی مشترکہ لائحہ عمل دکھائی نہیں دیتا ہے؛ کیا ووٹرز کے لیے یہ کافی ہوگا؟
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Narinder Nanu/AFP via Getty Images
Image 2: NurPhoto via Getty Images