بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے زیرِ قیادت بھارتی حکومت اور میڈیا نے گلگت بلتستان (جی بی) سے متعلق بحث و مباحثہ میں نمایاں اضافہ کیا ہے، جو متنازعہ سابقہ ریاست جموں و کشمیر (جے اینڈ کے) کے شمال مغربی حصے میں واقع علاقہ ہے۔ گو کہ کشمیر کی حیثیت کا سوال تقسیمِ ہند کے بعد ہی سے بھارت اور پاکستان دونوں میں قوم پرستانہ بیان بازی پر حاوی رہا ، (اس نے)روایتی تنازعات کو جنم دیا اور جوہری کشیدگی میں اضافے کے خطرے کو بڑھایا ، تاہم گلگت بلتستان حال ہی میں ایک مرکزی نکتۂ بحث کے طور پر ابھرا ہے۔ میڈیا کی نشر و تشہیر (کوریج )کے ساتھ ساتھ سرکاری بھارتی بیانات کے تجزیے سے علم ہوتا ہے کہ بی جے پی عوامی حمایت کی لَو زیادہ اُٹھانےکے لئے پالیسی مبادلۂ افکار میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے سوال کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ اس کا حالیہ اظہار بی جے پی کے سیاست دانوں کی جانب سے حال ہی میں ختم ہونے والے بھارتی انتخابات کے دوران اس علاقے پردوبارہ قبضہ حاصل کرنے کے بارے میں بڑھتے ہوئے جارحانہ بیانات ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اپنے رائے دہندگان کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بی جے پی کی قیادت میں بھارت پاکستان کے خلاف پہلےصرفِ نظر کیے گئے علاقائی دعاوِی کی تجدید کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بی جے پی ووٹ (حاصل کرنے) کے لئے گلگت بلتستان کے مسئلے سےفائدہ اٹھا رہی ہو لیکن نادانستہ طور پر اس مسئلے پر کارروائی کی داخلی توقعات کو بڑھا سکتی ہے ، جس سےعلاقائی استحکام پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔
اگرچہ گلگت بلتستان پاکستان کے زیرِ انتظام ہے لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی 1948 کی قرارداد کی وجہ سے اس کی آئینی حیثیت تعطل کا شکار ہے جس میں پاکستان اور بھارت کی حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ علاقائی تنازعہ کو حل کرنے کے لئے جموں و کشمیر کے پورے خطے میں استصواب رائے کرائیں۔ سرکاری سطح پر پاکستان اس قرارداد کی حمایت کرتا ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں اس کی سعی گلگت بلتستان کو “عبوری صوبائی حیثیت” دینے کی ہے تاکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد پر عمل درآمد ہونےتک خطے کے عوام کو نمائندگی اور انتظامی خودمختاری فراہم کی جا سکے۔
بی جے پی کے زیر قیادت بھارتی حکومت کی گلگت بلتستان سے متعلق سیاسی بیان بازی میں اضافہ انہی پاکستانی کوششوں کے ردِّعمل میں ہوا ہے، جسے بھارتی قیادت اپنے علاقائی دعاوِی کے لیے ایک دعوتِ مبارزت ( چیلنج) کے طور پر دیکھتی ہے۔ اگرچہ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ عوام کی خواہشات کے مطابق گلگت بلتستان پر اختیارات کو مرکزیت دینا چاہتے ہیں، تاہم بھارت ان اقدامات کو قابل اعتراض سمجھتا ہے کیونکہ وہ گلگت بلتستان سمیت جموں و کشمیر کے پورے خطے کو اپنا جُزوِ لازم سمجھتا ہے۔
گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس ایکٹ 2009 ء نے اس خطے کو ایک مقامی قانون ساز اسمبلی اور ایک وزیر اعلیٰ فراہم کیا تھا لیکن گلگت بلتستان آرڈر 2018 نے اسمبلی کے زیادہ تر اختیارات چھین لیے۔ اس کے بجائے، خطے پر وفاقی اختیارات ( کنٹرول) کو بڑھانے کے لئے 2018 کے حکم نامے (آرڈر)نے وزیر اعظم کو مکمل اختیارِ اعلیٰ ( ایگزیکٹو اتھارٹی) دیا جبکہ غیر مقامی افراد کو پولیس چیف، چیف سیکریٹری، ہوم سیکریٹری اور گلگت بلتستان کی سپریم آپیلٹ کورٹ میں چیف جج کے عہدوں پر تفویض کیا۔ پاکستان کی سیاسی و سفارتی اشرافیہ اور گلگت بلتستان کے عوام دونوں اس وقت سے گلگت بلتستان کو “عبوری” صوبہ قرار دینے کی وکالت کر رہے ہیں۔ عبوری صوبائی حیثیت کا مطلب یہ ہوگا کہ گلگت بلتستان قومی اسمبلی کے اور عام انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے جبکہ ساتھ ہی پاکستان ایک حتمی استصواب رائے کے لیے (بھی) تیارہے۔ عمران خان کی حکومت نے گلگت بلتستان کو یہ درجہ دینے کے ارادے کا عندیہ دیا تھا لیکن اندرونِ ملک سیاسی عدم استحکام کی بدولت اسے (یہ درجہ) اب تک نہیں دیا گیا۔
گلگت بلتستان سے متعلق بھارتی بیان بازی کا ارتقاء
سال 1947سے لے کر 2010 کی دہائی کے اواخر تک گلگت بلتستان بھارتی سیاسی مبادلۂ افکار یا میڈیا میں شاذ و نادر ہی اہم موضوعِٔ بحث رہا ہے۔ بھارتی محققین نے اسے “فراموش شُدہ کشمیر” تک بھی کہا ۔ تاہم اس دوران گاہے بہ گاہے اس کے حوالے آتے رہے۔ 1990 کی دہائی کے اواخر اور 2000 کی دہائی کے وسط میں کشمیر پر خفیہ و غیر سرکاری ( بیک چینل) مذاکرات اور حالیہ برسوں میں علاقے میں چین کے بنیادی ڈھانچے (انفرا اسٹرکچر)کی تعمیر نے خطے پرسیکیورٹی اور انٹیلی جنس ماہرین کی توجہ مبذول کی۔ انہوں نے یہ نقطہ نظر پیش کیا کہ گلگت بلتستان کشمیر کا ایک حصہ ہے اور اس لئے بھارت کا جُزوِ لازم ہے۔مضامین میں گلگت بلتستان اور لداخ کے لوگوں کے درمیان ثقافتی مماثلت کابھی جائزہ لیا گیا تاکہ اس خیال کو تقویت ملے کہ یہ خطہ بھارت کا قدرتی حصہ ہے۔ انڈین ڈیفنس ریویو، ایک جریدہ جس کے بیشتر مضمون نگار سابقہ فوجی و انٹیلی جنس افسران ہیں، کے 2013 میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ خطے میں بھارتی اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے گلگت بلتستان کے لوگوں کو چین کی موجودگی کے خلاف نیابت ( پراکسی )کے طور پر استعمال کرے۔
تاہم 2013 کے بعد بی جے پی اقتدار میں واپس آئی اور جیسے جیسے اس کے قوم پرستی کے مارکہ نے مقبولیت حاصل کی، بھارت میں گلگت بلتستان کے بارے میں گفتگو زیادہ جارحانہ ہوگئی۔ 2016 میں مودی نے بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر اپنی تقریر میں گلگت بلتستان کے عوام کا براہ راست حوالہ دیا جس سے بھارتی بیان بازی میں تبدیلی کا عندیہ ملا اور خطے کو توجہ ملی۔ اس کے بعد سے بی جے پی کی حکومت نے سیاسی اور سفارتی دونوں سطحوں پر گلگت بلتستان پر بھارت کے دَعاوِی کو بار بار جِتلایاہے۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے 2022 میں کہا : “ہم نے ابھی جموں و کشمیر اور لداخ میں ترقی کا سفر شروع کیا ہے۔ جب ہم گلگت اور بلتستان پہنچیں گے تو ہم اپنا مقصد حاصل کر لیں گے”۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھارتی پارلیمنٹ میں زور دے کر کہا ہے کہ ‘پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے’ اور انہوں نے اپنی تقاریر میں بار بار کہا ہے کہ ‘ہم اسے واپس لیں گے’ جس میں گلگت بلتستان بھی شامل ہے۔ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے بارڈر سیکورٹی فورس کے افسران سے بات کرتے ہوئے بھارت کی “افغانستان کے ساتھ 106 کلومیٹر طویل غیر متصل سرحد” کا ذکر کیا، جو گلگت بلتستان کی افغان سرحد کی طرف واضح اشارہ ہے۔ حال ہی میں جب پاکستان میں (تعینات) امریکی سفیر نے اس خطے کا دورہ کیا تو نئی دہلی نے اس دورے کو نامناسب قرار دیتے ہوئے احتجاج کیا کہ گلگت بلتستان ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کے تمام تر (علاقے )پر بھارت دعویدار ہے۔
اگرچہ پہلے زیادہ تر دفاعی ماہرین اس مسئلے پر لکھتے تھے ، لیکن اس عرصہ میں بھارتی خبر رساں اداروں (نیوز میڈیا) نے بھی گلگت بلتستان (سے متعلقہ مواد) کی تیزی سے نشرو اشاعت( کور کرنا) شروع کردی اور اس معاملے کی نشر وتشہیر ( کوریج )میں حکومتی ضابطوں کی سختی سے پابندی کی۔ مثلاََ 2006 میں انڈین ڈیفنس ریویو میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں گلگت بلتستان اور لداخ کے لوگوں کے مابین محض ثقافتی تعلق داری اخذکرنے پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ تاہم 2016 میں را کے سابق سربراہ سنجیو ترپاٹھی نے دی وائر میں لکھا: ’’وزیر اعظم نریندر مودی کا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر (پی او کے) ، بشمول گلگت بلتستان ، پر زیادہ جارحانہ رویہ اپنانا ،بھارتی سفارتی سلاح خانے کا،اگرچہ تاخیری ،تاہم ایک اہم اضافہ ہےـ۔ـ‘‘ 2013 سے 2024 تک بھارتی خبر رساں اداروں (میڈیا) اور فکر گاہوں (تھنک ٹینکس )نے گلگت بلتستان میں سماجی اضطراب کو اجاگر کیا؛ گلگت بلتستان کے آئینی تعطل کونمایاں کیا؛ گلگت بلتستان کے عوام کو بھارت کے ساتھ انضمام کے خواہاں کے طور پر پیش کیا؛ اور پاک چین اقتصادی راہداری کو گلگت بلتستان کے عوام کے مفادات کو نظر انداز کرنے کے مترادف قرار دیا۔ بھارتی میڈیا نے گلگت بلتستان کی بھارت کے لیے تزویراتی (اسٹریٹیجک) اہمیت؛ گلگت بلتستان (جی بی)میں انسانی حقوق؛ گلگت بلتستان بطور بھارت کے جُزوِ لازم کے؛ اور گلگت بلتستان میں پاکستان بطور ایک دخیل کار کے، جیسے موضوعات کا بھی احاطہ کیا۔ اس طرح بی جے پی کی سیاسی قیل و قال کے ساتھ ساتھ بھارتی میڈیا کے بیانیے نے بھی گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ ظاہر کیا ہے، جہاں کے لوگ پاکستان سے نجات چاہتے ہیں۔
گلگت بلتستان کے بُھولے بسرے معاملے کو از سرِ نو اُچھالنے کے پیچھے ، بالخصوص خود کو انڈین نیشنل کانگریس سے الگ کرنے اور خود کو بھارت کی علاقائی خودمختاری کے مضبوط ضامن کے طور پر پیش کرنے کے ایک طریقے کے طور پر، بی جے پی کی حکمتِ عملی انتخابی (الیکٹورل) نظر آتی ہے۔ 1990 کی دہائی سے بی جے پی کا انتخابی پیغام اکثر پاکستان مخالف اور مسلم مخالف رہا ہے، جس سے پارٹی کو انتخابی حمایت حاصل ہوتی ہے، جبکہ انڈین نیشنل کانگریس کو بھارت کے علاقائی تنازعات کو حل کرنے میں غیر مؤثر ہونےکے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اپنے قوم پرست حلقے میں حمایت بڑھانے کے لیے، بی جے پی جارحانہ بیان بازی کے ذریعے گلگت بلتستان کے مسئلے کو بھڑکانا چاہتی ہے، اس امید کے ساتھ کہ پارٹی کو انتخابی فوائد حاصل ہوں گے۔
بی جے پی کی آئندہ گلگت حکمتِ عملی
انتخابی فائدے کے لیے متنازعہ علاقائی تنازعہ کو از سر نو اُچھالنا ایک ایسی حکمت عملی ہے جسے بی جے پی نے اور مواقع پربھی استعمال کیا ہے، جیسا کہ مودی کا یہ الزام کہ کانگریس نے غیر آباد کچاتھیوو جزیرہ سری لنکا کو دے دیا، جو بھارت کی جنوبی ریاست تامل ناڈو میں ایک جذباتی مسئلہ ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے: کیا گلگت بلتستان کے مسئلے کو ووٹوں کے لئے استعمال کرنا محض بی جے پی کی کوتاہ نظر انتخابی حکمت عملی ہے؟ یا یہ ممکنہ طور پر پاکستان کے ساتھ گفت و شنیدکے ذریعے تنازعہ کو حل کرنے کے کانگریس کے اعتدال پسند طرزِنظر سے ہٹ کر زیادہ جارحانہ عمل پر مبنی لائحۂ عمل کی طرف جھکاؤ کے لئے جانچ پڑتال ہے؟ ایسا ظاہر ہوتاہے کہ بی جے پی علاقائی استحکام پر مرتب ہونےوالے اثرات کی پرواہ کیے بغیر ، ممکنہ طور پر میڈیا پر اثر ڈالتے ہوئے کہ اس رائے کو پروان چڑھایا جا سکے، محض اس بیان بازی کو استعمال کر رہی ہے تاکہ داخلی سیاست میں بیانیے کا کھیل جیت سکے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پارٹی کا کوئی تحریری منشور یا سرکاری دستاویز گلگت بلتستان سے متعلق بی جے پی کے آئندہ لائحۂ عمل کی نشاندہی نہیں کرتی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مودی کا اپنی تیسری مدت (ٹرم) میں علاقائی دعویٰ کو جاری رکھنا بہت حد تک ناممکن ہے۔ یہ امر کہ منشور میں اس مسئلے کا ذکر کیا گیا ہے یا نہیں، اہم ہے کیونکہ بی جے پی نے اپنی تمام اہم امتیازی پالیسیوں (فلیگ شپ پالیسیز)- دفعہ 370 کی منسوخی ، یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ اور سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ – کو مکمل کرنے سے پہلے، پچھلے انتخابات کے دوران پارٹی منشور میں شامل کیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے گلگت بلتستان پر قبضے کی فوجی کوشش کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار ایک مزاحم (ڈیٹیرنٹ)کے طور پر کام کرتے ہیں، اور ایسا کرنے سے گلگت بلتستان میں اپنی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لئے چین کے ملوث ہونے کا خدشہ بڑھ جائے گا۔
گو کہ مستقبل قریب میں بھارت کی جانب سے گلگت بلتستان پر قبضہ کرنے کے لیے فوجی کارروائی کے امکانات کم ہیں، پھر بھی دیگر علاقائی کھلاڑیوں کو گلگت بلتستان کے بارے میں اس کے دعاوِی پر توجہ دینی چاہیے۔ بھارتی قیادت کی جانب سے یک طرفہ طور پر کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد پاکستان کو بھارت پر اعتماد نہیں کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پابند ی کرے گا۔ گلگت بلتستان سے متعلق اشتعال انگیز بیانات دے کربظاہر بی جے پی نے ایک اور محاذ کھول دیا ہے، جس سے پاکستان آزردگی کا شکارہو گیا ہے۔
پاکستان کے علاوہ بھارت کے چین، سری لنکا اور نیپال کے ساتھ بھی علاقائی تنازعات جاری ہیں۔ اگرچہ چین کے علاوہ ممالک کا گلگت بلتستان کے ساتھ کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے ، لیکن وہ غالباََ علاقائیت اور خودمختاری پر بی جے پی کے زیرِ قیادت بھارت کے جارحانہ بیانات کی نگرانی کریں گے۔ مودی کی زیر قیادت نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے اقتدار میں آنے کی توقع کے ساتھ، اگر انتخابات کے بعد یہ علاقائی دعاوِی (ٹیریٹورئیل اسرشنز)ختم بھی ہو جائیں، تب بھی بھارتی رائے دہندگان پر ان دعاوِی کے دیرپا اثرات ختم ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اگر اس مسئلے کو بھارت کے عوامی قیل و قال میں زندہ رکھا جاتا ہے اور مستقبل میں انتخابی سیاست کے لیے ان بیانات کو دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے تو غالباََ رائے دہندگان ان مقاصد کے حصول کے لیے اقدامات کی توقع کر سکتے ہیں جس کے علاقائی استحکام پر ممکنہ طور پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Biafio Glacier, Gilgit Baltistan via Wikimedia Commons
Image 2: Pakistan flag in Nanga Parbat via Wikimedia Commons