دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ خراسان (آئی ایس کے پی) ایک ایسے وقت میں مسلسل شہہ سرخیوں کا حصہ بن رہی ہے جب امریکہ افغانستان سے اپنا انخلاء مکمل کررہا ہے ۔ ۲۶ اگست کو آئی ایس کے پی نے کابل ہوائی اڈے پر ایک خودکش دھماکہ کیا جس میں ۱۳ امریکی عہدیداران اور کم از کم ۹۰ افغان شہریوں سمیت ۱۷۵ افراد مارے گئے۔ دھماکہ، آئی ایس کے پی کی جانب سے کابل ایئرپورٹ کو حملے میں نشانہ بنانے کی پیشگی اطلاعات موصول ہونے کے بعد انخلاء کے عمل کے دوران ہوا۔ حملے میں ہونے والے بھاری جانی نقصان، اس کی نمایاں نوعیت اور حالیہ برسوں میں آئی ایس کے پی کو ہونے والے نقصانات کے پیش نظر یہ دکھائی دیتا ہے کہ اگرچہ آئی ایس کے پی سے لاحق خطرات کسی حد تک معدوم پڑ چکے ہیں، گروہ اپنی مستقل سفاکیت کا مظاہرہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
طے شدہ منصوبے کے تحت امریکہ کی واپسی کے بعد طالبان انتظامی و سلامتی امور کے لیے روایتی کردار نبھانے کے خواہاں ہیں، ایسے میں آئی ایس کے پی کے حملوں میں تیزی آنے کا امکان ہے۔ آئی ایس کے پی انسداد دہشتگردی (سی ٹی) کے خلاف طالبان کے کمزور وسائل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی صلاحیتوں اور بھرتیوں کے عمل کو بہتر بنائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہوائی اڈے پر حملے اور طالبان کے مقابلتاً معتدل موقف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں پروپیگنڈا مقاصد کے لیے استعمال میں لائے گی۔
سلامتی کی صورتحال پر اثرات
۲۶ اگست کے دھماکے آئی ایس کے پی کے لیے ایک اہم موڑ ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ ایک حملے میں ہی بیک وقت امریکی افواج، مغربی حکام اور طالبان کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ یہ حملہ نہ صرف مغرب کو نشانہ بنانے کے خواہشمند مجاہدین کے ذہن میں ان کے تشخص کو توانا کرے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بم دھماکوں سے آئی ایس کے پی کے اراکین کے حوصلے بھی بلند ہوں گے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں مارے جانے والے امریکی سپاہ کی تعداد کے اعتبار سے کابل بم دھماکے بدترین تھے ایسے میں مجاہدین آئی ایس کے پی کو مہلک ترین دہشتگرد گروہ تصور کرسکتے ہیں۔ یہ حملہ آئی ایس کے پی کے اراکین کو کامیابی سے بدلہ لینے کی تسکین بھی فراہم کرسکتا ہے کیونکہ صوبہ کنار اور ننگرہار میں آئی ایس کے پی کی شکست میں طالبان نے امریکی افواج کی مدد سے اہم کردار ادا کیا تھا۔ مبینہ طور پر طالبان نے افغانستان پر حالیہ قبضے کے بعد آئی ایس کے پی کے سابق رہنما کو افغان جیل میں سزائے موت بھی دی گئی۔
فروری ۲۰۲۰ میں امن معاہدے پر دستخط کے بعد سے آئی ایس کے پی کی سرگرمیاں یہ اشارہ دیتی ہیں کہ اس گروہ نے امریکی انخلاء کے عمل کے دوران سلامتی کی نازک صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ ۲۰۲۰ کے دوران آئی ایس کے پی نے اپنے نئے رہنما کی قیادت میں شہری علاقوں میں نہایت مہارت سے حملوں کی منصوبہ بندی کی جس میں جلال آباد قید خانے، اہل تشیع خصوصاً ہزارہ شعیہ برادری اور کابل کے مختلف علاقوں کو نشانہ بنایا گیا نیز سویلین گاڑیوں پر نصب لانچر سسٹمز کے ذریعے راکٹ حملے کیے گئے جنہوں نے کابل کے قدرے محفوظ علاقے ”گرین زون“ کو نشانہ بنایا۔ ”گرین زون“ پر علیحدہ علیحدہ حملوں میں آئی ایس کے پی نے غیرملکی سفارت خانوں، بگرام ایئربیس اور صدارتی محل کو نشانہ بنایا (آئی ایس کے پی کی جانب سے ایسا ہی ایک حملہ حال ہی میں ۲۹ اگست کو کیا گیا)۔ آئی ایس کے پی نے نظروں میں آنے، بھرتی کے خواہشمند افراد کی توجہ پانے اور بڑے شہروں میں اپنے جال کو مضبوط کرنے کے لیے مضافات کی جگہ شہری علاقوں کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
ہوائی اڈے پر بم دھماکوں کے بعد آئی ایس کے پی کے پروپیگنڈے نے اس کے ماضی کے پیغامات کو دوہرایا اور انہیں تقویت دی جس کے مطابق طالبان امریکہ و پاکستان کے پٹھو ہیں۔ انہوں نے طالبان کی جانب سے شعیہ برادری سے تعاون (جو کہ طالبان کے قبضے کے بعد محرم کے جلوسوں میں دیکھنے کو ملا) پر تنقید کی اور طالبان اور مغرب کے مابین بات چیت کی مذمت کی۔ آئی ایس کے پی کیخلاف لڑائی میں طالبان اور غیرملکی قوتوں کے مابین تعاون کا کوئی بھی اشارہ اسے اپنے پروپیگنڈے کو فروغ دینے میں مدد دے گا۔ مبینہ آئی ایس کے پی اہداف پر امریکی جوابی فضائی حملے میں مبینہ سویلین ہلاکتیں اور اس واقعے کے بعد طالبان کی قدرے خاموشی آئی ایس کے پی کے دعووں کو مزید تقویت دے گی اور بھرتیوں میں مدد دے گی۔
ہوائی اڈے پر بم حملے اور راکٹوں سے حملے جیسے واقعات نیز آئی ایس کے پی کے مبینہ کمانڈر کے ایک امریکی نیوز نیٹ ورک کو کابل ہوٹل میں دیے گئے حالیہ انٹرویو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کابل اور دیگر شہری مراکز میں سیکیورٹی کو چکمہ دینا مشکل نہیں ہےخاص کر طالبان کے قبضے سے پیدا ہونے والی بدامنی کے دوران۔
آئی ایس کے پی کا ممکنہ لائحہ عمل
آئی ایس کے پی، ۲۰۱۵ کے اوائل میں افغانستان میں پہلی بار اپنے ظہور کے بعد سے خود کو غیرمحسوس طور پر تبدیل کرچکی ہے اور مشرقی افغانستان کے خطے پر قابض ایک برائے نام ریاست اسلامی سے بدل کے ایک خفیہ عسکری جال کی صورت میں موجودہ شکل اختیار کرچکی ہے۔ امریکی افواج، افغان سیکیورٹی افواج اور طالبان نے آئی ایس کے پی کے عملی وجود اور طاقت کو نمایاں طور پر ختم کیا۔ تاہم امریکی انخلاء اور اس سے قبل امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی نے آئی ایس کے پی کو دوبارہ مجتمع ہونے کا موقع فراہم کردیا کیونکہ افغان سیکیورٹی افواج کو طالبان کی جارحیت کا مقابلہ کرنے میں دقت کا سامنا تھا۔ امریکہ طالبان بات چیت نے بھی افغان حکومت اور امریکہ کے درمیان کسی درجے تک دراڑ پیدا کی۔ آئی ایس کے پی نے بھی علاقوں پر تسلط کے بجائے اپنے اراکین کی بقا کو ترجیح دی جبکہ ساتھ ہی ساتھ شہری علاقوں میں اپنے نیٹ ورکس کو بھی مضبوط کیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جون میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ آئی ایس کے پی کا ۱۵۰۰ سے ۲۲۰۰ جنگجوؤں پر مشتمل ننگرھار اور کنار صوبے میں ایک مرکزی گروہ ہے لیکن وہ مرکز سے ادھر ادھر پھیل جانے پر مجبور ہوگئے تھے۔ فی الحال، یہ گروہ ملک بھر میں پھیلے سیل اور چھوٹے یونٹس پر مشتمل ہے جو کہ خودمختار حیثیت میں کام کرتے ہیں۔
آئی ایس کے پی بدلتی ہوئی سیاسی حرکیات کے مطابق خود کو ڈھالتی رہتی ہے۔ آئی ایس کے پی کے ایک کمانڈر کا امریکی ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو ایک حالیہ انٹرویو یہ ظاہر کرتا ہے کہ شائد آئی ایس کے پی بھی اپنے پیغام کو پھیلانے کے لیے مغربی میڈیا سے روابط کی طالبان کی حکمت عملی کو مستعار لے رہی ہے۔ ایسا محسوس نہیں ہوتا ہے کہ آئی ایس کے پی طالبان کے لیے کسی نمایاں عسکری آزمائش کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ موخرالذکر بہتر اسلحے، تربیت اور وسائل سے لیس ہیں۔ طالبان سے براہ راست جھڑپوں سے گریز کے ذریعے آئی ایس کے پی ناصرف ممکنہ نقصانات میں تخفیف کررہی ہے بلکہ اسی کے ساتھ ساتھ وہ اہم نوعیت کے اہداف کو نشانہ بنانے پر توجہ رکھ کے اپنی پہچان بھی کروا رہی ہے۔ فی الحال کے لیے، امکان ہے کہ آئی ایس کے پی طویل عرصے تک زیرزمین رہنے والی ایک شورش کے طور پربرقرار رہے گی اور اپنی روایتی کمزوریوں کو پورا کرنے کے لیے دہشتگردی کی غیرمتوازن حکمت عملی جیسا کہ بم دھماکے، فدائین (خودکش) حملے اور اعلیٰ عہدیداران کا قتل جاری رکھے گی۔
طالبان کو آئی ایس کے پی سے لاحق بنیادی خطرہ اس کا نظریاتی اختلاف ہے۔ آئی ایس کے پی، کے عالمی جہاد کے عزائم طالبان کے اسلامی قوم پرستی سے متصادم ہیں۔ عالمی سطح پر قبولیت کے لیے طالبان کو خواتین کے حقوق، خارجہ تعلقات اور مذہبی اقلیتوں سے متعلقہ بنیاد پرست روایات کو ترک کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگرچہ طالبان سے بڑے پیمانے پر آئی ایس کے پی میں شمولیت کے ابھی تک ثبوت نہیں ہیں لیکن یہ صورتحال گروہ کے اندر دراڑ ڈال سکتی ہے اور آئی ایس کے پی کو سہارا دے سکتی ہے۔ طالبان سے جڑے گروہ جیسا کہ القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان بھی طالبان کے نظریے میں غیرمحسوس ارتقاء کو ناپسند کرسکتے ہیں۔ یہ تمام پیش رفت اس امر پر منحصر ہے کہ مستقبل میں طالبان خود کو کیسے دنیا اور اپنے اراکین کے سامنے پیش کرتے ہیں، اسی کے ساتھ ساتھ یہ امریکی انخلاء کے بعد کے سیاسی منظر نامے پر بھی منحصر ہے۔
جہادی فورمز پر پہلے سے ہی طالبان کی فتح سے پرجوش بنیاد پرستوں کی افغانستان منتقلی کی حوصلہ افزائی پر مبنی بات چیت میں اضافہ ہوچکا ہے۔ طالبان کی انسداد دہشتگردی کی صلاحیتوں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں اور افغانستان میں بیرونی طاقتوں کی موجودگی کے بغیر خطرات کو بھانپنے کی صلاحیت مکنہ طور پر کم ہوسکتی ہے۔ گو کہ افغانستان سے بیرون ملک آئی ایس کے پی کے حملوں کے امکانات بہت معمولی ہیں لیکن گزشتہ برس جرمنی میں حملے کی ایک کوشش کو ناکام بنایا جانا عالمی دہشتگردی کے امکانات کو ظاہر کرتا ہے۔ طالبان کے دور حکومت میں ناختم ہونے والی افراتفری، مسلح مزاحمت اور سیاسی بے چینی آئی ایس کے پی کو حملے کرنے اور طاقت پکڑنے کے موقع فراہم کرسکتی ہے۔ آنے والے مہینوں میں ملک اور خطے میں دہشتگردی کے خطرے میں کمی یا شدت سے طالبان کی آئی ایس کے پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کو کچلنے کی صلاحیتوں کی جانچ ہوجائے گی۔
***
Click here to read this article in English.