صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے انتخابی وعدے پر عمل کرتےہوئےامریکہ کو ایران کے ساتھ جوہری ڈیل سے الگ کر لیا ہے۔ نتیجتاً اب امریکہ ایران پر دوبارہ کڑی معاشی پاندیاں عائد کر دے گا اسکے باوجود کہ ایران کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزی کے ثبوت نہیں ہیں اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی–اے–ای–اے) نے بھی ایران کی طرف سے معاہدے کی پاسداری کی تصدیق کی ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایران کے حمائتی ملکوں پر بھی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی ہے جس کے جنوبی ایشیا کی تزویراتی صورتحال اور برصغیر سے متعلق ٹرمپ انتظامیہ کی نئی پالیسی پر بھی دیر پا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
تہران جنوبی ایشیا میں ایک اہم اور حقیقت پسند کردار ہے جس نے امریکہ کے ساتھ گزشتہ عشرہ میں تعلقات خراب ہوتے ہوئے بھی اپنے مفادات کا بڑی تدبیر کے ساتھ تحفظ کیا ہے۔ ۱۱/۹ کے بعد ایران ایک مخمصے کا شکار رہا کیونکہ اس نے ساری صورتحال میں خود کو عراق اور افغانستان کے بیچ پھسا ہوا دیکھا کیونکہ دونوں ملکوں میں ستمبر ۲۰۰۱ کے حملوں کے بعد کثیر امریکی افواج کا پڑاؤ دیکھنے میں آیا۔ اس صورتحال میں تہران نے اپنے اقدامت کو علاقے میں بتدریج بڑھایا ، جیسا کہ کابل میں حکومت کی حمائت اورحالیہ سالوں میں طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کرنا۔ اسی طرح جب عالمی برادری نے ایران پر تیل سے متعلق کڑی پاندیاں عائد کیں تو ایران نے بھارت کو اپنی پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی جاری رکھی۔ماضی میں زبردست امریکی دباؤ کے اندر رہتے ہوئے ایران کی طرف سے تزویراتی مفادات کے پھیلائے جانے کے افغانستان کی کشیدگی اور جنوبی ایشیا کی سکیورٹی صورتحال پر براہِ راست اثرات پڑتے ہیں۔
افغانستان کا گرم موسمِ گرما اور ایران؛
افغانستان اس وقت طالبان کی طرف سے شروع کئے گئے ‘سپرنگ آفینسو‘ (بہار کے حملے) کی زد میں ہے اور ماضی کی طرح رمضان کے مقدس مہینہ ہونے کے باوجود سیز فائر (جنگ بندی) نہیں ہوئی ہے۔ تازہ حملہ رات گئے جلال آباد میں ایک کرکٹ میچ پر کیا گیا جس میں کم از کم ۸ افراد جاں بحق ہو گئے۔ کشیدگی میں اضافہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب افغان حکومت خاصے عرصہ سے تعطل کا شکار پارلیمانی انتخابات کو اکتوبر میں منعقد کرانے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ طالبان کی طرف سے سیاسی عمل کو سبوتاژ کرنے میں انکا فائدہ ہے چونکہ وہ اس عمل کو غیر قانونی سمجھتے ہیں اور انکو (اس سوچ اور حملوں میں) مبینہ طور پر ایران کی مدد حاصل ہے۔ چونکہ واشنگٹن اور تہران کے بیچ جوہری معاہدے کی ناکامی کی وجہ سے اختلافات بڑھ رہے ہیں تو ایسی صورتحال میں ایران افغانستان کے انتخابات کو نشانے پر رکھ کر امریکہ کے وہاں (افغانستان) پر سکیورٹی اور استحکام کے دعوں کو چھلنی کر سکتا ہے۔ ایران کی طالبان کو بڑھتی حمائت سے طالبان بات چیت کے بجائے لڑائی کو ترجیح دے سکتے ہیں اور اس سے امریکی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے چونکہ وہ باغی گروہوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششیں کرتا رہا ہے۔
چاہ بہار سے متعلق ابہام؛
حالیہ سالوں میں ایران اور بھارت نے ایرانی جنوب مغربی بندرگاہ چاہ بہار پرمشترکہ سرمایہ کاری کی ہے اور یہ بندرگاہ افغانستان اور وسطی ایشیا کےلئے اہم تجارتی راستہ ہے۔ چاہ بہار کو پاکستان میں چینی سرمایہ کاری سے بننے والی گوادر بندرگاہ کا مقابلہ کہا جا رہا ہے۔ چاہ بہار کا فعال ہونا اور ایران–بھارت تعلقات میں وسعت دراصل امریکہ کی طرف سے ایران پر پابندیوں میں نرمی کا نتیجہ تھا۔ جیسے ہی ایران کو عالمی سطح پر ابھرنے کا دوبارہ موقع فراہم کیا گیا، عالمی کمپنیوں اور حکومتوں نے ایران کے ساتھ حکومتی اور پرائیویٹ سکیٹر میں کمرشل شراکت داری شروع کر دی۔۲۰۱۶ میں بھارت نے چاہ بہار کی دو برتھوں کو قائم کرنے کےلئے ایران کے ساتھ ۵۰۰ ملین ڈالر کا معاہدہ کیا اور گزشتہ دسمبر میں اس کے افتتاح سے کام کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ اس سے چند مہینے پہلے بھارت نے پاکستان کو ایک طرف رکھتے ہوئے گندم کی ایک کھیپ افغانستان براستہ چاہ بہار بھیجی۔
تاہم نئی پابندیوں سے چاہ بہار پر کام کی رفتار سست پڑ جائے گی کیونکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ایران سے تعلقات کا ازسرِ نو جائزہ لیں گی۔ کچھ اطلاعات ابھی سے سامنے آئی ہیں کہ چینی اور فنش فرمز نے بندرگاہ پر تعمیراتی کام روک دیا ہے۔ امریکہ کی غیر یقینی پالیسی بھارت کی ایران میں سرمایہ کاری کو بھی متاثر کرے گی ۔ اس سے افغان تاجر ایک بار پھر پاکستان کا رخ کریں گے اور نتیجتاً اسلام آباد کو کھوئی ہوئی افغان مارکیٹ دوبارہ میسر آ جائے گی۔
پاکستان کےلئے اشارہ؛
صدر ٹرمپ کا جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن سے انخلاء اور جوہری پابندیوں کو ایران پر دوبارہ لاگو کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عالمی برادری کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ مزید سخت فیصلے بھی کریں گے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ پاکستان ان فیصلوں کو غور سے جانچ رہا ہو گا بالخصوص وہ معاملہ کہ جس میں امریکہ نے خود کو جوہری ڈیل سے الگ کر لیا۔ اسلام آباد امریکہ کی طرف سے جنوبی ایشیا کی نئی پالیسی کے اعلان کے بعد سے ٹرمپ کی توجہ کا مرکز رہا ہے اور چونکہ دونوں ملکوں کے تعلقات گراوٹ کا شکار ہیں تو پاکستان کو کسی بھی برے وقت اور جان بولٹن کی زیرِ سربراہی نیشنل سکیورٹی کونسل کے فیصلوں کےلئے تیار رہنا چاہیئے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان سخت معاشی پابندیوں کی زد میں آ سکتا ہے اور معاشی استحکام کےلئے اسے نئے راستے تلاش کر نا پڑیں گے وہ بھی ایسی کیفیت میں جب عالمی مالیاتی اداروں (ورلد بینک اور آئی ایم ایف) پر امریکی اثرورسوخ ہے۔ مزید برآں اسلام آباد اپنے بیانیے کو واشنگٹن کے خلاف سخت کرے گا جس ے افغان جنگ پر اثرات مرتب ہوں گے۔
بہر حال آنے والے مہینوں میں ایران پر دباؤ بڑھنے سے پاکستان کےلئے افغانستان میں تزویراتی مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ چاہ بہار کے ذریعے افغانستان کے پاس پاکستان کو چھوڑتے ہوئے بھارت پہنچنے کا ایک متبادل راستہ ہے۔ تاہم اب جبکہ چاہ بہار پابندیوں کی زد میں آ سکتا ہے تو افغانستان دوبارہ پاکستان پر منحصر ہو سکتا ہے۔ لیکن پاکستان نے بھی افغانستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی قیمت چکائی ہے۔ ممکنہ معاشی روابط کی بحالی کے بعد دونوں ملکوں کو سیاسی معاملات بھی طے کرنا چاہئیں۔ حالیہ ہفتوں میں اسلام آباد اور کابل کے بیچ اعتماد کے فقدان کو دور کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں ۔اس عمل کی کامیابی اور پھر امریکہ–ایران تلخی سے پاکستان کثیر نوعیت کے تزویراتی فوائد حاصل کر سکتا ہے۔
خلاصہ؛
ٹرمپ انتظامیہ کی جنوبی ایشیائی پالیسی اب ایران سے نتھی ہے کیونکہ ایران پر پابندیوں کے اجراء کے جنوبی ایشیا کی سکیورٹی پر براہِ راست اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکہ کی دوبارہ ایران کو دباؤ میں لانے کی پالیسی سے بھارت بھی متاثر ہو گا ۔ تاہم اس صورتحال میں پاکستان کےلئے ٹرمپ–بولٹن گٹھ جوڑ اور دباؤ سے نبرد آزما ہونے اور افغانستان میں تزویراتی جگہ بنانے کا موقع ہے ۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Gage Skidmore via Flickr (cropped)
Image 2: Narendra Modi via Flickr