بھارت اور چین کے مابین مشرقی لداخ کے علاقے میں متنازعہ سرحد پر تقریباً ایک برس تک فوجوں کے آمنے سامنے رہنے کے بعد واپسی کا پیچیدہ عمل اب بھی جاری ہے۔ بھارت کے وزیر برائے خارجہ امور ایس جے شنکر اور چین کے وزیر خارجہ وانگ یی کے درمیان ایک ٹیلی فونک گفتگو کے بعد بھارت کی وزارت برائے خارجہ امور کی جاری کردہ پریس ریلیز میں سرحد پر ”غیرمعمولی امور“ کا تذکرہ کیا گیا اور زور دیا گیا ہے کہ فوجوں کی واپسی ”تاحال مکمل نہیں ہوئی،“ جو مذاکراتی عمل کی حساس اور پیچیدہ نوعیت کی توثیق کرتا ہے۔ سیاسی بیانات اگرچہ امید دیتے ہیں کہ بھارت اور چین ایک دوسرے سے رابطے میں رہ سکتے ہیں اور جاری خدشات سے نمٹ سکتے ہیں، تاہم یہ سوال اپنی جگہ بدستور باقی ہے کہ سرحدی مذاکراتی عمل بھارت چین تعلقات میں ”معمول“ کو آخرکار کیا شکل دے گا۔ اس معاملے سے نتھی تاریخی پیچیدگیوں کو دیکھتے ہوئے، عملی سطح پر ”غیرمعمولی اختلافات“ کو حل کرنے کی کس حد تک امید ہے؟
فوجوں کی واپسی کے جاری عمل کے ساتھ ساتھ بھارت کو خطے میں چین اور دیگر قوتوں کے ہمراہ اپنے تعلقات کے مستقبل کا تخمینہ لگانے کی جانب بھی دھکیلا جا رہا ہے۔ گلوان کے بعد، بھارت نے اپنی کثیرالاتحادی حکمت عملی کو ”زیادہ واضح اتحاد“ میں تبدیل کرتے ہوئے انڈوپیسیفک ودیگر خطوں میں چین کے ہمراہ وسیع تر تزویراتی مقابلہ رکھنے والے ممالک کے ہمراہ دفاع، سلامتی اور معاشی تعلقات کو ترجیح دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ بھارتی فعالیت میں ایک مخصوص سمت میں روابط کا اضافہ خاص کر امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا سے روابط (جو کہ کواڈ کے شراکت دار ہیں) بلاشبہ چین کو خبردار کرتے ہیں اور اس کے چین بھارت تعلقات کے مستقبل پر دور رس مضمرات ہیں۔
سرحدی مذاکرات: انکار اور اثرات
بھارت چین تعلقات میں سرحدی تنازعہ طویل عرصے سے وجہ اختلاف رہا ہے۔ وزیراعظم نریندرمودی اور صدر ژی جن پنگ کی قیادت میں سفارتی اور سیاسی منصوبوں کے ذریعے ”قابل قبول تصفیے“ تک پہنچنا ان کے درمیان مذاکرات اور روابط کا مرکزی نکتہ بن چکا ہے۔ دونوں ممالک نے تنازعے پر اختلافات سے نمٹنے کے لیے خصوصی نمائندوں کی ملاقاتوں کی اہمیت اور دور رس تزویراتی اختلافات پر تعاون پر زور دیا ہے۔ اس سے زیادہ اہم یہ امر ہے کہ دونوں فریق پرامید ہیں کہ غیر رسمی اجلاس جیسا کہ ووہان اور چنائی میں دیکھے گئے، ان کے ذریعے سے ایسی سیاسی کیمسٹری وجود میں آسکتی ہے جو دوطرفہ تعلقات کو ”نئی منزلوں“ تک لے جاسکتی ہے۔
تاہم گلوان وادی میں جھڑپ نے یہ امر بے حد واضح کردیا ہے کہ اس قسم کے منصوبے نہ تو مکمل طور پر قابل عمل ہیں اور نہ ہی عملی طور پر موثر۔ اب بھارت چین تعلقات میں، (بنیادی طور پر بھارت کے نقطہ نگاہ سے) اہم موڑ اور ان کی ”ترقیاتی شراکت داری“ کی تباہی کے اشارے کے طور پر دیکھے جانے والی اس جھڑپ نے بھارت چین سرحدی تنازعے کی گہرائی کو عیاں کردیا ہے۔ تاہم اہم موڑ ہونے کے باوجود گلوان تنازعے اور افواج کے آمنے سامنے ہونے کو دیگر معاملات سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا بلکہ اسے حالیہ برسوں میں ان بڑھتے ہوئے واقعات سے ملا کے دیکھنا چاہیے جن میں چین کی نیت بھارت چین سرحد پر مختلف علاقوں میں اسٹیٹس کو تبیدل کرنے کی رہی ہے۔ اس پس منظر میں، گلوان تنازعہ محض یہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارت اور چین میں سرحد سے متعلقہ غیرمعمولی تنازعے بدستور غیر حل شدہ رہیں گے اور دو طرفہ نیز علاقائی حرکیات میں مرکزی کردار ادا کریں گے۔
جیسا کہ ۹ اپریل ۲۰۲۱ کو ہونے والی ۱۱ویں کور کمانڈر بات چیت سے ظاہر ہوا کہ قومی قیادت کی متفقہ ہدایات پر توجہ کے ساتھ ساتھ سرحد پر ”امن اور سکون“ کو برقرار رکھنے کے لیے مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ اس کے باوجود بھی چین مبینہ طور پر چار اہم متنازعہ مقامات پر موجود ہے جن میں ہاٹ اسپرنگز میں پیٹرولنگ پوائنٹ۱۵ ( پیپی۱۵) اور گوگرا پوسٹ کے قریب پی پی ۱۷ اے شامل ہیں۔ ستمبر ۲۰۲۰ میں چین اور بھارت کی جانب سے اگرچہ افواج کی فوری واپسی کے بارے میں پانچ نکاتی بیان سامنے آیا تھا، لیکن اس کے چند ہی ہفتے بعد چین کے وزیرخارجہ نے کہا کہ وہ ”برائے نام کہلانے والے لداخ یونین ٹیریٹری“ کو نہیںمانتے۔ اس کے ردعمل میں ۲۹ ستمبر ۲۰۲۰ کو وزارت خارجہ نے سرحدی تنازعہ کے حل (اور مذاکرات کے عمل) کو موثر طور پر جاری نہ رکھنے کا چین کی ”غیرآمادگی“ کو باقاعدہ ذمہ دار ٹھہرایا۔ یہ سفارتی خار اور واپسی کے عمل میں جاری اختلافات اس سیاسی زبان جو ”امن و سکون“ پر زور دیتی ہے اور سرحد پر موجود چیلنجز کے درمیان موجود تضادات کو نمایاں کرتے ہیں۔
اسی طرح، چین بھارت سرحدی مذاکراتی عمل میں ”غیرمعمولی امور“ سے نمٹنے کا تذکرہ بارہا سننے کو ملتا ہے۔ سالہا سال سے متعدد میکنزم (جیسا کہ ایس آرز، ورکنگ میکنزم برائے تعاون و ابلاغ، اور سالانہ دفاعی مذاکرات) اعتماد سازی کے اقدامات (سی بی ایمز) معاہدے اور قرارداد (۱۹۹۳، ۱۹۹۶، ۲۰۰۳، ۲۰۰۵، اور ۲۰۱۳) تنازعے کا حوالہ دینے کیلئے عمومی نکات بن چکے ہیں۔ غیررسمی اجلاس جیسا کہ ”ووہان اسپرٹ،“ چنائی اجلاس (مہابلی پورم) اور ”آستانا اتفاق“ نے بھی سربراہی سطح پر اعتماد سازی کے ذریعے سرحدی تنازعے سے نمٹنے کے لیے مزید کوشش کی ہے۔ لیکن متعدد میکنزم، معاہدے، اعتماد سازی کے اقدامات اور ”غیررسمی“ اجلاسوں کے باوجود دونوں فریق بند گلی میں پھنسے دکھائی دیتے ہیں۔ ماضی کی امید افزاء پیش رفتوں کے باوجود اب یہ سرحدی تنازعے کے ناقابل مفاہمت شکل اختیار کرنے اور عسکری، سفارتی اور سیاسی خواہش کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ جب تک ایل اے سی پر واضح حدبندی نہیں ہوجاتی، جس کے لیے سیاسی، شدید نوعیت کے سفارتی اقدامات اورعلاقے میں موجود افواج کی خواہش اور تعاون کی ضرورت ہے، ایسا دکھائی دیتا ہے کہ دستیاب شدہ میکنیزم موثر طور پر تنازعے کو حل نہیں کرسکتے۔
چینی کردار اور عروج کی نفی؟
گلوان کے بعد یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ کیا بھارت اور چین اشتعال انگیزی کو کم کرنے، سرحدی تنازعے کے دیرپا حل تلاش کرنے اور تعلقات کو معمول پرلانے کی خواہش رکھتے ہیں؟ چین کے لیے سرحدی تنازعے پر تصفیہ، مذاکراتی عمل کے فاتح کے طور پر ابھر کے طاقت کا توازن اپنے حق میں جھکانے کی خواہش کا عکاس ہوسکتا ہے۔ بیجنگ کے علاقوں پر نئے اور یکطرفہ دعوے جیسا کہ جون ۲۰۲۰ میں پوری وادی گلوان پر اس نے کیا اور مبینہ طور پر خطے سے اپنی فوجیں نکالنے کے بعد بھوٹان کے علاقے پر اس نے کیا، یہ تجویز کرتے ہیں کہ پر امن تصفیہ ژی جن پنگ کے چین کی ترجیح نہیں ہیں۔ تاہم بھارت نے بھی سیاسی یا عملی تصفیے کی تلاش کے لیے کسی قسم کی مدد نہیں کی ہے؛ خطے میں بھارتی تعمیرات اور چینی ذرائع کے مطابق چینی علاقے میں مداخلت بیجنگ کے لیے سلامتی کے ضمن میں باعث تشویش رہا ہے۔ ایک ایسی ابھرتی ہوئی قوت جہاں فی الوقت قوم پرست حکومت موجود ہے اور جو عالمی سطح پر اپنی حیثیت کو طاقتور بنانا چاہتی ہے، اس تناؤ کی باقاعدہ حکمت عملی کے تحت مخالفت ان خطوط پر استوار ہے جن کا مقصد چینی مفادات کی نفی جبکہ اپنے مفادات کا تحفظ اور فروغ ہے۔ اس سے زیادہ اگر کچھ کہا جا سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ خطے اور بین الاقوامی امور میں بھارت کی ابھرتی ہوئی نمایاں حیثیت کی چین میں قومی سطح پر نفی چین بھارت تعلقات کا کلیدی نکتہ بن رہی ہے۔
چین کی بھارت کے حوالے سے موجودہ دباؤ ڈالنے پر مبنی حکمت عملی کوعلاقے میں اسکے جارحانہ داؤ پیچ کے پس منظر میں بھی لازمی دیکھا جانا چاہیے۔ بحیرہ جنوبی چین میں چینی اقدامات، بحیرہ مشرقی چین اور آبنائے تائیوان میں دعوے، ہانگ کانگ میں کریک ڈاؤن اور مسلسل بڑھتی ہوئی عسکری و معاشی ضربیں بیجنگ کی اپنے پڑوسیوں کے بارے میں نئے زاویہ نگاہ کو نمایاں کرتی ہیں۔ ژی کے نگاہ میں موجودہ جغرافیائی سیاسی ماحول چین کو خود کو منوانے اور کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی حاکمیت کو ظاہر کرنے کے لیے ایک نادر موقع ہے۔ بھارت کو ایشیا میں چین کی راہ میں بطور رکاوٹ کھڑا کرنے کے امریکی عزم سے باخبر ژی دنیا کو یہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ وبا کے باوجود چین دیگر قوتوں کے خلاف علاقائی تنازعوں میں تنہا کھڑا ہوسکتا ہے حتیٰ کہ وہ بھارت کو بطور خطرہ پیش بھی نہیں کرنا چاہتا۔
اسی طرح بھارت بھی عوام میں مقبول رہنما نریندر مودی کی قیادت میں پیچھے نہیں ہٹ رہا ہے، اور اس تاریخی سرحدی تنازعے کو حل کرنے کے لیے کسی قسم کی سیاسی خواہش بدستور غائب ہے۔ سرحد کے موضوع پر مذاکرات اور حل تلاش کرنے کی کوشش کی بجائے بھارت کی ابھرتی ہوئی سوچ بھی چین سے پڑوس میں ابھرتے ہوئے خطرے کے طور پر نمٹنے پر مبنی دکھائی دیتی ہے۔ چین پر نئی دہلی کی پالیسی میں بیجنگ کا خوداعتمادی سے بھرپور رویہ ایک تزویراتی رکاوٹ کے طور پر ابھر کے سامنے آیا ہے جس نے بھارت کو انڈوپیسیفک میں ہم خیال قوتوں خاص کر کواڈ شراکت دارجیسا کہ آسٹریلیا، جاپان اور امریکہ سے مزید قریب کیا ہے۔ بالفاظ دیگر، غیرحل شدہ تنازعے کی غیرمستحکم صورتحال نے بھارت کو چین پر اپنی پالیسی کو تبدیل کرنے پر مجبور کردیا ہے اور اعتماد کی رخصتی، سیاسی سطح پر نفرت اور ایل اے سی پر بڑھتی ہوئی عسکریت اصل پریشانی کا سبب بن رہے ہیں۔ جیسا کہ ایل اے سی تنازعہ اور چین کی بڑھتی ہوئی بحری صلاحیتیں فوری عسکری تشویش کا باعث بن رہی ہیں، ایسے میں نئی دہلی اپنے وسائل کی ترتیب نو، عسکری قوت میں جدت کی کوششوں کو بڑھانے اور اپنے بحری اہداف کو وسعت دینے پر مجبور ہوگا۔ بحرہند میں چین کے بڑھتے ہوئے قدم کو دیکھتے ہوئے بھارت اپنی بحری صلاحیتوں کو وسعت دیتا، بحری معاہدوں پر دستخط کرتا اور (دو فریقی، سہہ فریقی اور کثیر الفریقی) بحری مشقوں میں مصروف دکھائی دیتا ہے جس میں بحری جدت کے لیے بندرگاہوں کی ترقی پر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔
مزید براں، گلوان کے بعد کے دور نے نئی دہلی کو اپنی کثیرالاتحادی حکمت عملی کو ”واضح اتحاد“ میں ڈھلتے دیکھا ہے جس میں انڈوپیسیفک سے تعلق رکھنے والے اہم شراکت داروں کے ہمراہ سلامتی، سیاست اور معاشی تعلقات پر زور ڈالا گیا ہے۔ بھارت، جاپان، آسٹریلیا اور امریکہ پر مشتمل چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ (کواڈ) پر اس کی توجہ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے؛ یہ گروہ انڈوپیسیفک میں سلامتی کے حوالے سے کلیدی نوعیت کے فورم کے طور پر ابھرا ہے جو چین کو سیخ پا کرنے کے لیے کافی ہے۔ ۲۰۱۷ میں گروہ کے دوبارہ متحرک ہونے کے بعد بھارت نے پہلے کواڈ سربراہ اجلاس میں بھی شرکت کی تھی جس کا اختتام گروہ کی جانب سے مشترکہ بیان پر ہوا جو چاروں ممالک کے اتفاق سے پیدا ہونے والی ان کی بڑھتی ہوئی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ بھارت نے ”کواڈ پلس“ منصوبے کی حمایت کے ذریعے کواڈ کی وسیع تر مذاکراتی کوششوں کی حمایت کی ہے اور یوں خطے کے لیے مضبوط خارجہ پالیسی بیان جاری کیا ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ بھارت کے کواڈ شراکت داروں کے ہمراہ سلامتی، دفاع اور معاشی شعبوں میں تعلقات بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس نے ”جامع تزویراتی شراکت داری“ کے ذریعے آسٹریلیا کے ہمراہ تعلقات کو ایک درجہ آگے بڑھایا، جاپان کے ہمراہ ایکویزیشن اینڈ کراس سروسنگ ایگریمنٹ (اے سی ایس اے) کو حتمی شکل دی اور امریکہ کے ہمراہ بیسک ایکسچینج اینڈ کوآپریشن ایگریمنٹ (بیکا) پر دستخط کے ذریعے اسے امریکہ بھارت تعلقات میں چوتھا بنیادی معاہدہ کیا۔ مالابار میں امریکہ جاپان بھارت مشترکہ بحری مشقوں میں آسٹریلیا کی شمولیت نے کواڈ کی مشترکہ بحری طاقتوں میں اضافہ کیا ہے۔ بھارت نے مبینہ طور پر چین سے اپنے تعلقات کے سبب گزشتہ برسوں میں آسٹریلیا کی ان مشقوں میں شمولیت کی مخالفت کی تھی۔ بھارت کے آسٹریلیا جاپان، امریکہ جاپان اور فرانس آسٹریلیا کے ہمراہ سہہ فریقی اتحاد نمایاں ترین اقدامات بن چکے ہیں جو بھارت کے بدلتے اور زیادہ متوجہ سفارتی چہرے کو پیش کرتے ہیں۔ چینی ایپلی کیشنز کی بندش سے لے کر انڈوپیسیفک میں زیادہ بامقصد شراکت داریوں پر عمل درآمد تک، آسٹریلیا اور جاپان کے ہمراہ سپلائی چین ریزیلیئنس انیشی ایٹو کی مدد، اجراء اور اسے آگے لے جانے کے منصوبے نئی دہلی کے ایک ایسے بیانیے کی تعمیر کی جانب اشارہ کرتے ہیں جو چین کی معاشی پیش رفت اور تزویراتی مقاصد کو ٹکر دے سکے۔ کواڈ شراکت داروں (اور دیگر ہم خیال ممالک) کے ہمراہ روابط کے لیے پرجوش آمادگی ظاہر کرتی ہے کہ چین پر بھارتی سفارت کاری گلوان کے بعد کے دور میں بیجنگ کے پراعتماد افعال کو اپنی قومی اور علاقائی سلامتی کے لیے ایک خطرے کے طور پر دیکھتی ہے۔
ایک ٹوٹا پھوٹا مستقبل؟
گلوان نے ایک بار پھر بھارتی تزویراتی سوچ میں موجود اس یقین کو دوہرایا ہے کہ سرحدی تنازعے کو بھارت چین تعلقات پر اثرانداز ہونے سے روکنا ممکن نہیں۔ زیادہ جھڑپوں کے امکانات کے ساتھ سرحدی صورتحال مسلسل سلگتی رہے گی۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی جولائی ۲۰۲۱ میں صد سالہ جشن منانے کا ارادہ رکھتی ہے اور ژی جن پنگ ایک زیادہ طاقتور اور عظیم چینی قوت کو ظاہر کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، ایسے میں بیجنگ بھارتی خواہشات کے سامنے سر تسلیم خم کرنے یا اپنے مفادات پر دباؤ قبول کرنے کے لیے پہلے سے بھی کم آمادہ ہوگا۔ مزید براں انتشار کا شکار باہمی اعتماد کی فضا میں مزید مداخلت اور جارحیت کے لیے ہوشیار بھارت، چین کے ہمراہ ایک محدود جنگ (یا گلوان جیسے ٹکراؤ) کے امکانات کو رد نہیں کرسکتا اور ایسے میں اس کی جانب سے سرحدی انفراسٹرکچر کو مضبوط کرنے کا امکان موجود ہے جو کہ ممکنہ طور پر صورتحال میں مزید اشتعال کا باعث ہوگا۔
اس قسم کی صورتحال میں چین بھارت دستیاب لائحہ عمل پرانے ہوتے جارہے ہیں اور فوری طور پر تنازعے پر تصفیہ ممکن نہیں ہے۔ تاہم اگر مشورے جاری رہیں اور دونوں فریق اپنے سامنے موجود حقائق کے پیش نظر سیاسی عزم کو زندہ کریں تو ایسے میں بفرزونز کی حامل مقابلتاً مستحکم سرحدی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ یہ اگرچہ بھارت کے لیے تو مکمل طور پر نہیں تاہم چین کے لیے فتح ہو سکتی ہے۔ اہم ترین امر یہ ہے کہ چین بھارت سرحدی مذاکرات میں نفی اور خطے میں طاقت کی حرکیات کو سرکاری سطح پر تسلیم نہ کیا جانا دو طرفہ تعلقات کے مستقبل کی پیشنگوئی کو نہ صرف مشکل بنا دیتا ہے بلکہ انہیں بے حد غیرمستحکم بھی کردیتا ہے۔ یہ غیریقینی کیفیت بھارت چین تعلقات میں تیزی کے ساتھ نیا معمول بنتی جارہی ہے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: DESHAKALYAN CHOWDHURY/AFP via Getty Images
Image 2: Prime Minister’s Office, India via Press Information BureauPosted in: China, Galwan One Year Series, India, Indo-Pacific, Ladakh, Negotiations