بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ۲۰۱۴ کے اپنے انتخابی منشور میں، بھارتی جوہری ڈاکٹرائن پر ‘نظرثانی کرنے اور اسے تازہ ترین’ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ نظرثانی کا مقصد اسے ‘موجودہ دور کی آزمائشوں سے مطابقت دینا’ اور تبدیل ہوتے جغرافیائی جمود سے جڑی حقیقتوں’ کے دوران قابلِ بھروسہ ڈیٹرنس کو یقینی بنانا تھا۔ اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے وزیراعظم مودی نے آئندہ انتخابات سے ایک برس قبل ایک دفاعی منصوبہ بندی کی کمیٹی (ڈی پی سی) تشکیل دی تاکہ قومی سلامتی کی حکمت عملی وضع کی جا سکے اور تزویراتی دفاعی جائزہ لیا جائے۔ پھر ۲۰۱۹ میں، بھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے پوکھران کے ایک دورے کے دوران کسی امکانات کی جانب اشارہ کیے بغیر اس امر کی جانب روشنی ڈالی کہ بھارت کا جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کا عزم ‘نو فرسٹ یوز’ حالات و واقعات پر منحصر ہے۔
گو کہ مودی کی قیادت میں بی جے پی کے گزشتہ نو سالہ دورِ اقتدار میں بھارتی جوہری ڈاکٹرائن کو تازہ ترین نہیں کیا گیا، تاہم بھارت اپنے جوہری ڈاکٹرائنز سے انحراف کر چکا ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی جغرافیائی سیاسیات اور ٹیکنالوجی کے ماحول میں، بھارتی جوہری ڈاکٹرائن فرسودہ یا تیزی کے ساتھ ناکارہ ہوتا جا رہا ہے۔
جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی ۲۵ویں سالگرہ بھارت کے لیے اپنے جوہری ڈاکٹرائنز پر پھرتی کے ساتھ نظرثانی کا ایک بہترین موقع ہے تاکہ ڈیٹرنس کی قدر میں اضافہ کیا جا سکے۔ چین کی بڑھتی ہوئی جوہری صلاحیتیوں اور جارحانہ طرزِ فکر کے ساتھ، کمزور جوہری سلامتی کے ماحول میں پاکستان کے جوہری ہتھیاروں پر بڑھتے ہوئے انحصار کے دور میں، اور ابھرتے ہوئے سائبر جوہری اتصال اور مصنوعی ذہانت (اے آئی)-جوہری ڈیٹا سے جڑی آزمائشوں کے ساتھ جنوبی ایشیا ایک جوہری خطرے کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یوں ایک نئے جوہری ڈاکٹرائن کے تصور کے بغیر، ان رجحانات کے نہ صرف بھارتی سلامتی مشکلات کے لیے بلکہ عالمی نظام کے لیے بھی سنگین نتائج ہوں گے۔ نئے جوہری ڈاکٹرائن کو تزویراتی دانش کا حامل، عملی اعتبار سے موثر اور سیاسی طور پر متعلقہ ہونا چاہیئے۔
پرانے ڈاکٹرائنز، نئے چیلنجز
بھارت کا جوہری ڈاکٹرائن اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے پارلیمنٹ میں دیے گئے بیان اور قومی سلامتی مشاورتی بورڈ (این ایس اے بی) کے ایک ڈرافٹ ڈاکٹرائن پر مبنی ہے۔ جنوری ۲۰۰۳ میں کابینہ کمیٹی برائے سلامتی نے اسے بطور قرارداد پیش کیا تھا جو جوہری ڈیٹرنس سے لے کر ہتھیاروں سے چھٹکارے تک آٹھ اہم ستونوں پر مبنی تھا۔ اس کے بعد سے، اس جوہری ڈاکٹرائن نے بھارت کی جوہری ذمہ داریوں اور اظہارِ عداوت کے بجائے صراحت اور شفافیت کا اظہار کیا ہے۔ تاہم موجودہ پس منظر میں اس ڈاکٹرائن کے اہداف اور ستون یا تو بوسیدہ ہو چکے ہیں یا پھر ابتری کا شکار ہیں۔
بھارتی جوہری ڈاکٹرائن کی ناکامی تین عناصر کے ذریعے بیان ہوتی ہے – چین اور پاکستان کے خلاف شکست و ریخت کا شکار ہوتی ڈیٹرنس (ڈاکٹرائن کے ستون ۱، ۲، اور ۳)؛ کارروائی کے محدود اصول اور جوہری استعمال کا دائرۂ کار (ڈاکٹرائن کے ستون ۵،۴،اور ۶)؛ اور ڈاکٹرائن کے تحت عزائم نیز میزائل ٹیکنالوجیز پر کنٹرول و جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا کےحصول کے درمیان پالیسی اقدامات میں عدم مطابقت (ستون ۷ اور ۸ )۔ ت
اولاً یہ کہ بھارت کے قابل بھروسہ کم از کم ڈیٹرنس (سی ایم ڈی)، ‘نو فرسٹ یوز (این ایف یو)’ اور بڑے پیمانے پر جوابی کارروائی پر مبنی اس کے ڈاکٹرائن کے اصول اس کے مخالفین – چین اور پاکستان کا راستہ روکنے کے لیے ناکافی ہیں۔ چین کی اپنے جوہری ہتھیاروں اور ڈلیوری سسٹمز میں اضافے کے لیے تگ و دو سی ایم ڈی کو برقرار رکھنے کے بھارتی عزم کی نفی کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ، روایتی عسکری صلاحیتوں میں عدم مطابقت چین کی ‘سلامی سلائسنگ‘ (بڑا اثر پیدا کرنے کے لیے حکمت عملی کے تحت اٹھائے گئے چھوٹے چھوٹے اقدامات) کا راستہ روکنے کے لیے بھارت کے روایتی جوابات کو محدود کرتی ہے۔ لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر اسٹیٹس کو میں تبدیلی کے لیے چین کی جانب سے تسلسل کے ساتھ اکسائے جانے سے این ایف ایو کے اصل مقاصد اور اس کے متعلقہ ہونے پر سوالیہ نشان اٹھتے ہیں۔ کم سے کم سطح پر رکھنا اور این ایف یو کا لائحہ عمل چین کی جانب سے طیش دلانے کے عمل کے سدباب کے لیے تصور کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں چین کے خلاف جوہری دھمکیوں کی اپیل کرنا بھارتی تزویراتی سوچ میں شجر ممنوعہ بن چکا ہے۔ یہ سوچ موجود ڈاکٹرائنز کے ذریعے وجود میں آئی ہے اور چین کا راستہ روکنے کے لیے جوہری ہتھیاروں کی مکمل صلاحیتوں کی راہ میں حائل ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، چین نے مدبرانہ طور پر بھارت کو جوہری دھمکی دی ہے تاکہ وہ عسکری سطح پر جاری مذاکراتی عمل پر اثرانداز ہو سکے۔ چین نے مستقبل میں خطے میں جوہری ہتھیاروں کی تنصیب کا بھی اشارہ دیا ہے۔
اسی طرح، پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل برائے تزویراتی منصوبہ بندی کا ڈویژن بھارت کے خلاف جوہری ڈیٹرنس کے خلاف اپنے فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس ڈاکٹرائن کی حدود میں توسیع کے لیے مکالمے کا ایک سلسلہ شروع کر چکے ہیں۔ جنرل قدوائی دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان کے پاس سفر سے ۱۷۰۸ میل تک ‘بھرپور جوابی کارروائی’ کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ عندیہ دیتا ہے کہ پاکستان بھارت کی روایتی عسکری برتری کے خلاف سلامتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اپنے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کو زیادہ سے زیادہ بڑھائے گا۔ یوں چین کی جانب سے دھمکی آمیز اشارے اور پاکستان کی جوہری ہتھیاروں کے گرد گھومتی سلامتی حکمت عملی کے خلاف سی ایم ڈی، این ایف یو اور بھرپور بدلے کے اصولوں پر نظرثانی ضروری ہو چکی ہے۔
دوئم یہ کہ بھارت کا مشترکہ عسکری ڈاکٹرائن یہ دعویٰ کرتا ہے کہ تزویراتی فورس کمانڈ (ایس ایف سی) ‘بھارت کے تمام جوہری ہتھیاروں اور ڈلیوری سسٹمز کو اپنے کنٹرول میں رکھتی ہے’۔ اس کے برعکس جوہری ڈاکٹرائن جوہری وار ہیڈز اور ڈلیوری سسٹمز کے علیحدہ ہونے کا تاثر دیتا ہے۔ مزید براں، تینوں سطح سے جوہری حملہ کرنے کی صلاحیت کے باوجود، بھارت کے جوہری کمانڈ اینڈ کنٹرول کے ڈھانچے نئے تنظیمی رواجوں کے مطابق اور نظام ابلاغ کے تحت ان کے نظم و نسق چلانے کے بارے میں سوالات اٹھاتے ہیں۔ مزید برآں، بھارتی جوہری تنصیبات پر سائبر اور مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے حملوں کے منڈلاتے خطرے تمام ممکنات پر غور کے لیے ڈاکٹرائن کے سنجیدہ جائزے کا تقاضہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بھارت نے اپنے خلاف حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں سے حملے کی روک تھام کے لیے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا اختیار چنا ہے۔ تاہم یہ ڈاکٹرائنز جوہری سائبر اتصال/حملے کے حوالے سے خاموش ہیں حالانکہ یہ خطرات زیادہ واضح ہیں اور یہ جوہری ڈیٹرنس اور سلامتی کے حوالے سے سنگین نتائج رکھتے ہیں۔
سوئم یہ کہ دفاعی شعبے میں برآمدات کے حوالے سے بھارت ‘کے دھماکہ خیز نمو کے لیے نئے عزم’ میں مشرقی ایشیائی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کو میزائل سسٹمز اور ٹیکنالوجیز جیسا کہ براہموس کی برآمد شامل ہے۔ بادی النظر میں یہ بھارت کے جوہری ڈاکٹرائن ‘جوہری اور میزائل سے متعلقہ سامان اور ٹیکنالوجیز کی برآمد پر سختی سے پابندی جاری رکھنے’ کے عزم کی نفی کرتا ہے۔ مزید برآں، بھارت دفاعی برآمدات میں اضافے کے لیے جن پالیسی اہداف کا ارادہ رکھتا ہے، یہ ان میں توسیع کو محدود کرتا ہے، جو کہ مقامی دفاعی ایکوسسٹم کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ ہتھیاروں سے چھٹکارے کے محاذ پر جوہری ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے (ٹی پی این ڈبلیو) کے خلاف بھارتی موقف اور جوہری ہتھیاروں سے چھٹکارے کی تحریک کو فعال کرنے کے معاملے میں اس کی قنوطیت پسندی ڈاکٹرائن کے حوالے سے اس کے عزائم سے متصادم ہیں۔ یہ کوتاہیاں اور مشکلات ‘ڈاکٹرائن-حکمت عملی-منصوبہ بندی’ کے آپس میں غیر منقطع ہونے کا اشارہ دیتی ہیں۔
ایک نیا جوہری ڈاکٹرائن
ماہرین یہ ٹھوس موقف رکھتے ہیں کہ بھارت اپنے اعلان کردہ جوہری ڈاکٹرائن سے انحراف کر چکا ہے۔ تاہم، حکومت نے نہ تو اس انحراف کا اعتراف کیا ہے اور نہ ہی اپنے اصل ڈاکٹرائنز کی وضاحت کی ہے۔ بغیر اعلان کے انحراف ڈیٹرنس کے لیے تباہ کن اور جوہری خطرے کو سنگین کرتا ہے۔ ایک ایسا نیا جوہری ڈاکٹرائن جو عصر حاضر کے جوہری خطرات کا احاطہ کرتا ہو، وہ نئے بھارت کے عزائم، ذمہ داریوں اور تخصیص کردہ سرخ لکیروں کی جانب اشارہ کرے گا۔ یہ غلط تعبیروں اور غلط فہمیوں کو محدود کرنے کے ذریعے ہتھیاروں کی دوڑ کو روک سکتا ہے۔ یہ خطے میں موجود جوہری ممالک کو اس جانب رغبت دلوا سکتا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کا بہترین استعمال کریں، جوہری سلامتی کی ثقافت کو فروغ دیں اور خطرات میں کمی کے اقدامات میں بہتری لائیں۔ یہ جارح جوہری ریاستوں کے مابین جوہری مذاکرات کے لیے محرک بھی بن سکتا ہے۔
ابتدائی سرد جنگ کے دور کی زبان کا استعمال جاری رکھتے ہوئے بھاری جوابی کارروائی کے بجائے، نئے ڈاکٹرائن کو پالیسی اہداف، حکمت عملی اور سنجیدہ نوعیت کے جوہری خطرات اور لچک دار جوابی کارروائیوں کی روک تھام کے طریقوں میں نیا پن لانا چاہیئے۔ یہ تصور اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ بھارت ایک قومی سلامتی پالیسی نہ وضع کر لے جس میں جوہری ہتھیاروں کا کردار واضح کیا گیا ہو۔ بدقسمتی سے بھارت کو اپنا قومی سلامتی ڈاکٹرائن (این ایس ڈی) جاری کرنا ابھی باقی ہے جو سیاسی طبقے میں مہارتوں کے فقدان اور ذمہ داری اٹھانے سے ہچکچاہٹ کے سبب تاخیر کا شکار ہے۔ اپنی تخلیق کے پانچ برس بعد ڈی پی سی کو اس بارے میں نظرثانی کرنی چاہیئے کہ وہ ایک این ایس ڈی اور نتیجتاً ایک جوہری ڈاکٹرائن فراہم کرنے کے قابل کیوں نہیں ہو سکا نیز اس ادراک کی ضرورت ہے کہ مزید سستی بدترین نتائج کا سبب ہو گی۔
ایک مجوزہ جوہری ڈاکٹرائن کو بھارت کو لاحق بڑے جوہری خطرات کی نشاندہی کرنا چاہیئے اور اس کے مطابق ردعمل تشکیل دینے چاہیئیں۔ مثال کے طور پر، چین کی جانب سے جوہری عسکری طاقت کے استعمال کی دھمکیوں کے جواب میں، بھارت کا جوہری ڈاکٹرائن ایک روایتی-جوہری انضمام کے ڈاکٹرائن کو منتخب کر سکتا ہے۔ پاکستان کے ضمن میں ایک بھارتی جوہری ڈاکٹرائن کو روایتی دھمکیوں کے مقابلے میں اصل خطرات کا پتہ لگانے کے ذریعے جوہری دھمکیوں کا سدباب کرنا چاہیئے۔ مزید برآں، اس ضمن میں ٹیکنالوجی کے حامل اقدامات کے ذریعے جوہری دہشت گردی اور سرحد پار دہشت گردی کا مقابلے کے لیے ایک اندازاً ردعمل کی تشکیل مددگار ہو گی۔ ہتھیاروں کے اہم سسٹمز کی درجہ بندی، درکار ٹیکنالوجیز کا حصول اور تعیناتیوں کے اصولوں کی تنظیم نو وہ اصول و قواعد بن سکتے ہیں کہ جو مختلف ڈاکٹرائنز کے لائحہ عمل تشکیل دے سکیں۔
اس کے علاوہ، جوہری ہتھیاروں کے نظاموں کی نگرانی کے لیے جدید ترین سائبر اسپیس کے اصولوں کو ضم کرنا؛ جوہری اور دیگر شعبہ جات کے ماہرین/اداروں کے درمیان روابط پر غور کرنا؛ اے آئی کی طاقت سے لیس نظاموں میں نئی روایات کا تصور؛میزائل کی برآمد کی پالیسیوں کو مدلل بنانا؛ اور جوہری ذمہ داری کے فریم ورک کے تحت جوہری ڈاکٹرائنز کی پڑتال وہ کچھ ٹھوس تصورات ہیں کہ جو جوہری ڈاکٹرائن کو ایک نئی جلا بخش سکتے ہیں۔ اس طرح، نظرثانی موجودہ ڈاکٹرائنز کی نئے سرے سے سمت بندی کرے گی تاکہ ڈیٹرنس کو مختلف نوع کے خطرات کے لیے قابل بھروسہ بنا سکے اور ان نئے چیلنجز سے نمٹ سکے جن کا سامنا آج جنوب مشرقی ایشیا کر رہا ہے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Pallava Bagla/Corbis via Getty Images
Image 2: Emmanuel Dunand/AFP via Getty Images