
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی غیر متواتر دوسری مدّت (ٹرم)کے لئے حلف اٹھانے کے تین ہفتوں کے اندر ہی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو سرکاری ورکنگ وزٹ کے لئے وائٹ ہاؤس مدعو کیا گیا ۔ یہ متوقع دورہ امریکی پالیسی میں ظاہرہونے والی کچھ بڑی تبدیلیوں کو ،جن میں سے کئی کاعندیہ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں مسلسل دیا جاتا رہاتھا، سمجھنے کی عالمی کوشش کے دوران پیش آیا۔ان (تبدیلیوں) میں ایسی مشکلات اور ایسے (سازگار) مواقع بھی شامل تھے جن کی بھارت نے اُمید بھی رکھی تھی اور اُن کے لیے خود کو تیار بھی کر رکھا تھا۔تاہم اب جبکہ یورپ امریکہ کے بحر اوقیانوس کے پار تعلقات پر ازسرنو کام کرنے سے نبرد آزما ہے،بھارت امریکہ تعلقات کو بڑی حد تک مثبت سمجھا گیا ہے۔ وزیر اعظم مودی کے حالیہ دورہ امریکہ نے نئی دہلی کی متوقع مشکلات (چیلنجز) کی محتاط خوش انتظامی ظاہر کی ہے (اور) اس پیش قدمی کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے جو ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران بھارت امریکہ تعلقات کی علامت تھی۔تاہم مناسب تزویراتی اعتماد کا فقدان، کم از کم دفاعی تعاون کے ضمن میں، برقرار ہے۔
باہمی مقاصد کے حصول کا عزمِ مصمم
مودی کے دورے سے پہلے اور اس کے دوران (کیے گئے) واشنگٹن اور نئی دہلی کے اہم اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دونوں فریقین کچھ شعبوں میں اختلافات کے باوجودفیوچر فارورڈ (کامیابی کے حصول کے لیے طویل المدّتی منصوبہ بندی) تعلقات استوار کرنے کے خواہاں ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کے لیے بنیادی تشویش ان (ٹرمپ)کا قصور وار ریاستوں پر جوابی محصولات عائد کرکے امریکی برآمدات پر عائد”غیر منصفانہ” محصولات کو ختم کرنے کا وعدہ تھا۔نئی دہلی بالخصوص ان کے نشانے کی زد پر تھا (کیونکہ) ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بھارت کو ’ٹیرف کنگ‘ قرار دیا تھا اور مودی سے ملاقات کے باوجود بھی ملک پر سخت جوابی محصولات عائد کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا تھا۔ تاہم بھارت اور امریکہ تعلقات میں محصولات کا مخصوص مسئلہ دیرینہ ہے، جس کو دونوں (فریقین) نے دوسرے شعبوں میں وسیع تر دوطرفہ تعلقات کو آگے بڑھاتے ہوئے مؤخرکرنا سیکھ لیا ہے۔ مثلاً 2019 میں وزیر اعظم مودی کے دورۂ واشنگٹن سے چند گھنٹے قبل ٹرمپ نے الزام عائد کیا کہ ’بھارت امریکی مصنوعات پر محصولات عائد کرکے خوش باش‘ ہو رہا ہے جوکہ’ اب قابلِ قبول نہیں‘ ہے۔اگرچہ ٹرمپ نے اُس سال بھارت کے ترجیحی تجارتی برتاؤکو ختم کر دیا تھا اور دونوں ریاستوں نے ایک دوسرے پر جوابی محصولات عائد کرنے کے ادوار کا تبادلہ کیا تھا، تاہم اس نے مجموعی طور پر دوطرفہ تعلقات اور خاص طور پر مودی ٹرمپ تعلقات کی مضبوط مثبت راہ پر منفی اثر نہیں ڈالا۔
مشترکہ بیان دونوں ریاستوں کے اپنے داخلی قانونی بنیادی نظام (فریم ورک) میں نمایاں تبدیلیاں لانے کے ارادے کی عکاسی کرتا ہے تاکہ دو مخصوص شعبوں، دفاعی تجارت اور غیر فوجی جوہری (سول نیوکلیئر ) تعاون میں جدّت لائی جا سکے
ٹرمپ کو اپنی وابستگی (کمٹمنٹ) کا واضح عندیہ دینے کے لیے اس بار نئی دہلی نے دورے کے موقع پر امریکہ سے درآمد کی جانے والی کم از کم 30 اشیاء پر محصولات میں فوری طور پر کمی کرکے متوقع اثرات کی شدّت کو کسی حد تک زائل کیا۔ مثلاً 13 فروری کو، جبکہ وزیر اعظم مودی واشنگٹن میں موجود تھے، آبکاری محصول (ایکسائز) میں مراعات کے خلاف بھارتی شراب کی صنعت کے احتجاج کے باوجود ،بوربن پر محصولات کو150 فیصد سے کم کرکے 50 فیصد کر دیا گیا تھا۔ مزید برآں، توقع ہے کہ ٹرمپ کے کچھ جوابی محصولات سے بھارت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ دونوں ریاستوں کا برآمدی کردار (پروفائل )مختلف ہے۔
زیادہ اہم امریہ ہے کہ مودی کے دورے کے اختتام پر دونوں ممالک کی طرف سے جاری کردہ مشترکہ بیان دونوں ریاستوں کے اپنے داخلی قانونی بنیادی نظام (فریم ورک) میں نمایاں تبدیلیاں لانے کے ارادے کی عکاسی کرتا ہے تاکہ دو مخصوص شعبوں، دفاعی تجارت اور غیر فوجی جوہری (سول نیوکلیئر ) تعاون میں جدّت لائی جا سکے۔ 2025 کے مشترکہ بیان میں دفاعی تعاون کے لئے 10 سالہ منصوبے ( فریم ورک) کی تجدید کے ارادےکا اعلان کیا گیا تھا۔ یہ بیان خصوصی طور پرامریکہ کی جانب سے اس کے انٹرنیشنل ٹریفک ان آرمز ریگولیشنز (اسلحے کے بین الاقوامی برآمدی قوانین) پر نظرِ ثانی کرنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔باوجود اس امر کے کہ بھارت ایس ٹی اے -1 کی منظوری کا حامل ایک اہم دفاعی شراکت دار ہے اور گزشتہ دہائی میں دفاعی تجارت میں اضافہ ہوا ہے، اس سے پہلے کےتمام مشترکہ بیانات اس قول و قرار(کمٹمنٹ) کی حد تک نہ پہنچے تھے، جس کے باعث دفاعی تعلقات پر سوالات اٹھ رہے تھے۔ بھارت کو دفاعی (سازوسامان کی) فروخت میں اضافے پر ٹرمپ کی خاص توجہ اور گزشتہ سال امریکہ سے میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول رجیم کیٹیگری ون سسٹم (ایم کیو-9 بی) کی کامیاب خریداری کے پیش نظر بھارت پر عائد اسلحے کی فروخت پر پابندیوں میں وسیع پیمانے پر نرمی امریکی پالیسی کی منطقی پیش رفت ہے۔
دونوں فریقین کے اتفاق کرنے کے 20 سال بعد بالآخر بھارت، اپنے طور پراپنے داخلی قانونی نظام ( فریم ورک) میں امریکہ کے ساتھ غیر فوجی جوہری (سول نیوکلیئر) تعاون شروع کرنے کی بے مثال کوشش کر رہا ہے۔ مشترکہ بیان میں بھارت کےاپنے ایٹومِک انرجی ایکٹ (جوہری توانائی قانون) اورسِول لائبیلیٹی فور نیوکلیئر ڈیمج ایکٹ (شہری ذمہ داری برائے جوہری مضرت قانون) میں ترمیم کے ارادے کو، جس کا اعلان بھارتی حکومت نے اس ماہ کے اوائل میں اپنے 2025 کے بجٹ کے جُزکے طور پر کیا تھا،تسلیم کیا گیا ہے۔ بھارت کا لائبیلیٹی لاء (ذمہ داری/جواب دہی کا قانون ) بین الاقوامی معیار ات سے مطابقت نہ رکھنے کے باعث بدنام ہے اور بھارت امریکہ 123 سِول نیوکلیئر ایگریمنٹ کو مکمل طور پر فعال کرنے میں اہم رکاوٹ رہا ہے۔ ویسٹنگ ہاؤس اور نیوکلیئر پاور کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ کے مابین اس سے قبل کی جانے والی کوششیں، جنہیں 2023 میں مودی بائیڈن مشترکہ بیان میں نمایاں کیا گیا تھا، اسی رکاوٹ کی یرغمال رہیں۔لہٰذا بھارت کی جانب سے یہ اہم قانونی اقدام امریکہ اور بھارت کے مابین جوہری توانائی کے شعبے میں تعاون کی راہیں کھول سکتا ہے۔
تصفیہ طلب مسائل
تاہم مودی کے دورے کے بعد امریکہ بھارت باہمی تعلقات میں اب بھی کئی غیر یقینی پہلوموجود ہیں۔
بھارت کے اندر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ دوطرفہ تعلقات کے لیےکسی حقیقی تزویراتی مقصد یا ہدف کے بغیر بھارت امریکہ تعلقات میں تنہا پسندی پر ٹرمپ کی توجہ اور ان کی چین پالیسی پر تذبذب کے باعث ایک ٹھہراؤ سا آ گیاہے ۔بھارت اور چین کے درمیان ثالثی کے لئے مودی کے دورے کے دوران ان کی تجویز، جو کہ 2020 میں اس سے مماثل تجویز کا اعادہ تھا، اس امر کی عکاس ہے۔چین کے بارے میں ٹرمپ کے ابہام نے(خطۂ) بحر ہند و بحرالکاہل کے بارے میں ان کے نقطۂ نظر سے متعلق بھی سوالات اٹھائے ہیں، جہاں ایک طرف انہوں نے خطے میں امریکی سیکیورٹی (ارکانِ عملہ)کی موجودگی کو کم کرنے کو نمایاں کرتے ہوئے کچھ بیانات دیئے ہیں تاہم دوسری طرف وہ کواڈ کو “سیکیورٹی پارٹنرشپ” کے طور پر فروغ دینے کے خواہاں ہیں۔
اگر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو ایف-35 کی مخالفت نئی دہلی کی اپنی مشہور تزویراتی خودمختاری برقرار نہ رکھ پانے کی تشویش سے وابستہ ہے، اس (تشویش) کو تقویت دینےمیں بھارتی دفتر شاہی( بیوروکریٹک) کا امریکہ پر پُراناعدم اعتماد شامل ہے جو ماضی میں نئی دہلی پر اسلحے کی پابندیوں کے باعث اب بھی برقرار ہے اور اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھارت اب بھی واشنگٹن کے ساتھ اپنی وابستگی کے لیے حقیقی حدود کا اطلاق کرتا ہے
لیکن اس سے بھی زیادہ خاص مسئلہ دفاع سے متعلق بھارت اور امریکہ کے مابین تزویراتی وابستگی (الائنمنٹ) میں فرق ہے۔ بھارت کو ایف 35 لائٹننگ 2 فروخت کرنےکی ٹرمپ کی زبانی تجویز کی روشنی میں ففتھ جنریشن(پانچویں نسل) لڑاکا طیاروں کی خریداری جو نئی دہلی کے لیے گمبھیر اُلجھن ہے، اس مسئلے کی سب سے بہتر مثال ہے۔ امریکہ نے “ففتھ جنریشن لڑاکا طیاروں کی ۔۔۔بھارت کوسپردگی کے بارے میں اپنی پالیسی کاجائزہ لینے” کی یقین دہانی کرائی ہے۔چونکہ مودی کے دورے سے محض چند دن قبل ہی امریکی ایف-35 اور روسی ایس یو-57 نےایرو انڈیا میں پہلی بار ایک ہی ٹارمیک (جہاز اُتارنے کی پٹی) استعمال کیا تھا، اس لیے اس تجویز نے بھارت میں لڑاکا طیاروں سے متعلقہ بحث کو مزید گرما دیا۔ بھارتی فضائیہ اپنےاسکواڈرن (فضائی دستہ) کی تیزی سے کم ہوتی استعداد کے باعث سنگین بحران کا شکار ہے، (کیونکہ) منظور شدہ 42 اسکواڈرنز کو اگلی دو دہائیوں میں حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ پریشان کن امریہ ہے کہ آئی اے ایف کو ایک ایسے وقت میں لڑاکا طیاروں کی جنریشنز میں اُلجھنے کا بھی خدشہ ہے جب چین پہلے ہی بڑی تعداد میں ففتھ جنریشن کے لڑاکا طیارے (اپنے فضائی دستے میں) شامل کر چکا ہے اور پاکستان بیجنگ سے جے-35 خریدنے کے لئے بالکل تیار ہے۔ بھارت کے تذبذب میں اضافہ اس کے مقامی ففتھ جنریشن جیٹ کے (تیارہونے میں) طویل نظام الاوقات ( ٹائم لائن ) کے باعث ہے (جو رجائیت پسند اندازے کے مطابق ایک دہائی بعد ہی پرواز کے لئے تیار ہو گا)۔ لہٰذا واشنگٹن کے ساتھ ایک دفع الوقتی معاملے کے طور پر بھارت کے لیے اُڑان بھرنے کے قابل چند ایف-35 لڑاکا طیاروں کے لیے حکومت تاحکومت معاہدہ تزویراتی اہمیت رکھتا ہے، (جیسا کہ)اس نے 2016 میں فرانس سے 36 رافیل لڑاکا طیارے خریدتے وقت اسی اختیارکو منتخب کیا تھا۔ گزشتہ دہائی میں خاص طور پر امریکہ /مغربی دفاعی سازوسامان کے ساتھ بھارت کی بڑھتی ہوئی طمانیت کو دیکھتے ہوئے اس سے ایف-35 کے معاملے کو بھی تقویت ملے گی۔

اس کے باوجود بھارت میں ہونے والی بحث میں ایف-35 سے متعلقہ تکنیکی مشکلات [چیلنجز] (یہ بھارت کے غیر امریکی لڑاکا طیاروں کے متنوع [فضائی] دستےکے ساتھ موزونی طور پر ضم نہیں ہو سکتا) اور اقتصادی رکاوٹیں (لڑاکا طیارے کی اکائی[یونٹ] اور دیکھ بھال کے بے تحاشا اخراجات) نمایاں ہیں۔ یہ کسی بھی غیر ملکی پلیٹ فارم کے لیے، جن پر بھارت غور کر سکتا ہے بشمول روسی ایس یو-57 کے (مثلاً اس کی درپردگی [سٹیلتھ] کی صلاحیت میں کمی کے باعث)، فطری مسائل ہیں تاہم ایف-35 کو (اس سے بھی) زیادہ سنجیدہ تنقید کا سامنا ہے۔ سینئر بھارتی سابقہ فوجی افسران اور تجزیہ کاروں نے ایف-35 طیاروں کےبطور اصل صارف (اینڈ یوزر) استعمال پر ممکنہ پابندیوں اور مستقبل میں بھارت کے فالتو پُرزہ جات (اسپیئر پارٹس) کے لیے امریکہ پر انحصار پر تشویش کا اظہار کیا ہے، جنہیں (اسپیئر پارٹس) واشنگٹن پابندیوں یا تاخیر کے ذریعے روک کر دباؤ ڈال سکتا ہے۔ اگر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو ایف-35 کی مخالفت نئی دہلی کی اپنی مشہور تزویراتی خودمختاری برقرار نہ رکھ پانے کی تشویش سے وابستہ ہے، اس (تشویش) کو تقویت دینے میں بھارتی دفتر شاہی ( بیوروکریٹک) کا امریکہ پر پُراناعدم اعتماد شامل ہے جو ماضی میں نئی دہلی پر اسلحے کی پابندیوں کے باعث اب بھی برقرار ہے اور اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھارت اب بھی واشنگٹن کے ساتھ اپنی وابستگی کے لیے حقیقی حدود کا اطلاق کرتا ہے۔ جب بھارت کی دفاعی تیاری کی بات آتی ہے تو یہ اندیشہ بڑھ جاتا ہے اور بحران کے دوران غیر ملکی انحصار سے بچنے کے لئے نئی دہلی کی مقامی صنعتی پیداوار (مینوفیکچرنگ) پر بڑھتے ہوئے زور اور فنیات (ٹیکنالوجی) کی منتقلی پر اصرار کی وضاحت کرتا ہے۔
مستقبلات
مودی ٹرمپ دورے نے ثابت کیا کہ دوطرفہ تعلقات میں کسی بھی بحران سے بچنے کے لیے، خواہ وہ معاشی ہو یا سیاسی، کافی احتیاطی پیش قدمیاں موجود ہیں۔ خصوصاًمؤخر الذکر کا اظہار بھارت کے اس انتخاب سے ہوا کہ وہ غیر قانونی بھارتی تارکینِ وطن کی امریکہ سے (ہتھکڑیوں میں) جلاوطنی پر کُھل کر تنقید نہیں کرتا، حالانکہ اس نے اندرونِ ملک ایک مختصر سیاسی طوفان بھی برپا کیا تھا۔ گو کہ بھارت اور امریکہ غیر فوجی اور فوجی دائرۂ کار (ڈومینز ) میں تزویراتی ٹیکنالوجی کی مد میں نئے تعاون کی طرف دیکھ رہے ہیں، تاہم بحران سے بچتے ہوئے، ٹرمپ انتظامیہ کے کئی سینئر عہدیداران کے لین دین اور بھارت نواز کردار سے فائدہ اٹھانے پر توجہ برقرار ہے۔غیر فوجی جوہری توانائی طویل عرصے سے منتظر تعاون کی اجازت دےتو سکتی ہے لیکن بھارت کی طرف سے گو کہ ارادہ واضح (مشہور) ہے تاہم قانون سازی اوردفتر ی نظام (بیوروکریٹک ) میں تبدیلیوں کے اثرات ابھی تک سامنےنہیں آئے۔مزید برآں بھارت کے پاس بائیڈن کے دور میں اپنے جغرافیائی سیاسی انتخاب کی توثیق کا دعویٰ کرنے کی کافی وجوہات موجود ہیں، جیسا کہ روس سے متعلق ٹرمپ کے نئے نقطہ نظر کے مطابق روس یوکرین کے مابین نئی دہلی کا توازن قائم رکھنا۔کامیابی کی اس سے مماثل وجہ بھارت مشرق وسطیٰ اقتصادی راہداری (بائیڈن دور کا اِقدام جسے جاری رکھنے کا ٹرمپ انتظامیہ نے عہد کیا ہے) جیسے کثیر الجہتی اقدامات پر قائم رہنے میں بھی ہے۔تاہم تشکیلِ نو شُدہ نئے دفاعی اور تکنیکی اقدامات امریکہ اور بھارت کے درمیان گہرے تزویراتی اعتماد کو جنم دیتے ہیں یا نہیں، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آیا دونوں ریاستیں، جیسا کہ بھارتی مبصر سی۔ راجہ موہن کا کہنا ہے، مزید عالمی جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں سے پہلے “چیزوں کو تیزی سے مکمل” کر پاتی ہیں یا نہیں۔
***
This article is a translation. Click here to read the original article in English.
Image 1: President Donald J. Trump via X
Image 2: U.S. Air Force photo by Master Sgt. Donald R. Allen via Wikimedia Commons