Pakistan Supreme Court


پاکستان میں حکمرانوں پر کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات کوئی نئی بات نہیں۔ پچھلی ۶۰ سالہ تاریخ میں تقریبا تمام ہی حکومتیں کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات کی زد میں آتی رہی ہیں مگر یہ الزامات کبھی بھی عدالت میں ثابت نہ کیے جاسکے۔ ۱۹۹۰ کی دہائی میں پاکستان میں کئی منختب حکومتوں کو انہی الزامات کی پاداش میں برخاست کیا گیا- مگر پیپلزپارٹی کی حکومت ہو یا مسلم لیگ کی، عدالت میں کبھی بھی کوئی الزام ثابت نہ کیا جا سکا۔ حال ہی میں عام کیے جانے والا پانامہ کیس کا فیصلہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو کہ ہر طرح سےعدلیہ کا ایک منقسم فیصلہ ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوری نظام نہ تو صحیح طور سے پنپ سکا اور نہ ہی کامیابی سے پختگی کے معیار کو چھو سکا۔ اگرچہ اس ناکامی کا ذمہ دار کسی ایک وجہ یا محرک کوقرارنہیں دیا جا سکتا مگران تمام محرکات میں سب سے اہم وجہ عوام میں شعوری احساس کا فقدان ہے۔ پاکستان کے عوام عمومی اور مجموعی طور پر انصاف، اصولوں اور رفاہ عامہ کے تقاضوں کو ملحوض خاطر رکھتے ہوے ووٹ کا استعمال نہیں کرتے بلکہ اپنے تعصب اور ذاتی مفاد کی بنیاد پر امیدواروں کو منتخب کرتے ہیں۔ چوںکہ پاکستان میں انتخابات میں ذاتی دولت کا بےتحاشہ استعمال ہوتا ہے اس لیے اس بات کا تو تقریبا کوئی امکان نہیں ہوتا کہ منتخب امیدوار اپنی استعمال شدہ دولت کو حکومتی خزانے سے پورا نہیں کریں گے۔ اور پھر ہوتا بھی یہی ہے کہ جب منتخب نمائندے ایک مرتبہ دولت بنانے کے گھن چکر میں پھنس جاتے ہیں تو پھر دولت کی ہوس ان کو آگے ہی آگے دکھیلتی چلی جاتی ہے۔ گویا یہ ایک لامتناہی سلسلہ بن جاتا ہے۔

چونکہ پاکستان کے تفتیشی ادارے نہ صرف یہ کہ حکومتی اثرورسوخ کے زیرسایہ کام کرتے ہیں بلکہ ان اداروں کے سربراہان بھی منتخب نمائدوں کی آشیرباد کے بغیر مقررنہیں ہو سکتے۔ ایسی صورتحال میں ان اداروں سے کرپشن اور بدعنوانی جیسے ان الزامات کی شفاف تحقیقات کرنا جس میں برسراقتدار طبقے کے لوگوں کے نام ہوں مشکل ہی نہیں بلکہ تقریبا ناممکن بھی ہے۔

اگرچہ پانامہ کیس کےفیصلہ کو نہ صرف حکومتی بلکہ حکومت مخالفی اراکان نے اپنی فتح قرار دیا ہے، مگر غیرجانب دار تجزیہ کار اس فیصلے کو مختلف زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے خیال میں اس فیصلے سے کوئی حتمی نتیجا نہیں نکالا جا سکتا اور حتمی نتیجے کے لیےگیند اب ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے کورٹ میں پھینک دی گئی ہے۔ اس بات کے امکان کم ہی ہیں کہ یہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تحقیقات کے بعد کسی حتمی نتیجے پر پہنچ پائے گی۔ اور اگر یہ ٹیم کسی خاطرخواہ نتیجے پر پہنچ بھی گئی تو ایک مرتبہ پھر عدالتی کاروائی شروع ہو جائے گی جو کہ ۲۰۱۸ کےالیکشن تک طول پکڑ سکتی ہے۔ ایسی صورت میں  یہ فیصلہ الیکشن پر اثر انداز ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ پانامہ کیس کا فیصلہ، جو بھی ہو، ان لوگوں کے لیے باعث طمانیت ہو گا جو مسلم لیگ ن کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اوران کے لیے باعث اذیت ہو گا جو حکومت مخالف جماعتوں سے ہمدردی رکھتے ہیں، کیونکہ اس فیصلے سے نہ ہی عوام کی رائے تبدیل ہونے جا رہی ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی منظرنامے پربڑی تبدیلی متوقع ہے۔

***

Image 1: Multan High Court Bar Association, Flickr

Image 2: Sean Gallup, Getty

Share this:  

Related articles

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟ Hindi & Urdu

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟

ایران اور پاکستان کے درمیان حالیہ جیسے کو تیسا حملے …