۲۵ جولائی کو پاکستان مسلسل دوسری بار جمہوری انتقالِ اقتدار کی طرف بڑھ رہا ہے۔ تاہم اس وقت کی صورتحال انتہائی مبہم ہے اور واضح نتائج بتانا ممکن نہیں۔بظاہر لگتا ہے کہ ان انتخابات میں معلق پارلیمنٹ اور ایک مخلوط حکومت سامنے آئے گی۔ اور اس طرح کی کمزور حکومت خارجہ پالیسی کو درپیش مسائل پر دلیرانہ فیصلے نہیں کر سکے گی ۔ ملک میں مختلف سیاسی سٹیک ہولڈرز کی وجہ سے ایک رفاقتی نظام سامنے آ سکتا ہے جس میں پالیسیوں پر مختلف آراء ہونے کی وجہ سے خارجہ پالیسی کی فیصلہ سازی میں آئندہ حکومت کےلئے شدید مشکل ہو گی۔
موجودہ انتخابی حالات؛
۲۰۱۳ میں پاکستان مسلم لیگ۔ن سادہ اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ میں آئی۔ تاہم گزشتہ برس سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کو بد عنوانی کے الزامات پر عہدے سے ہٹاتے ہوئے تاحیات سرکاری عہدے کےلئے نااہل کر دیا۔ مسلم لیگ۔ن کے کئی عہدیداران اسی طرح کے الزامات پر نااہل ہو چکے ہیں جبکہ کئی نے پارٹی سے راہیں جدا کر لی ہیں۔ اس عمل نے تحریک انصاف کےلئے راہیں کھول دہی ہیں۔
تحریک انصاف عمران خان کی سربراہی میں اہم اپوزیشن جماعت بن کر ابھری ہے۔ عمران کی شہرت کو چند نقاط پر پرکھا جا سکتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ کرکٹ کھلاڑی ہونے کی وجہ سے عمران نے نوجوانوں کو راغب کیا اور نوجوانوں کی تعداد ملک کی ۶۵ فیصد آبادی کے قریب ہے۔ اعدادو شمار کے مطابق تحریک انصاف ۱۸ سے ۲۳ سال کے نوجوانوں میں سے ۲۷ فیصد ووٹ حاصل کرے گی (جو کہ مسلم لیگ۔ن اور پیپلز پارٹی سے زیادہ ہے)۔ دوسرا، عمران خود کو بظاہر کرپٹ نہیں کہتا اور تازہ سیاسی چہرے کے طور پر دکھاتاہے۔ اس لئے عام لوگ ایک موقع دینے کی غرض سے عمران کو ووٹ دے سکتے ہیں کیونکہ عمران نے ممکنہ طور پر خیبر پختونخواہ کی حالات بہتر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور تیسرے، بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران نے ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر لئے ہیں۔ ان عوامل سے لگتا ہے کہ عمران ممکنہ طور پر اکثریت حاصل کر لے گا اور بعد میں آزاد اور چھوٹے گروپوں کی حمائت لے کر حکومت بنا لے گا۔
عمران کی بڑی پریشانی ملک کا سب سے گنجان آباد صوبہ پنجاب ہے۔ روائتی طور پر پنجاب مسلم لیگ۔ن کا گڑھ ہے۔ تاہم سپریم کورٹ کی طرف سے نواز شریف کو دس سال کی سزا دینے پر پارٹی کی مقبولیت میں ممکنہ طور پر کمی آ سکتی ہے ۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ مسلم لیگ۔ن کے آزاد امیدواران جیتنے کے بعد تحریک انصاف سے اتحاد کر لیں اور اس اتحاد میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہو سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی بھی شائد اپنے گڑھ سندھ میں ووٹر کی حمائت کھو رہی ہے جسکی وجہ سے بہت سے لوگ پارٹی کی آپوزیشن کے ساتھ اتحاد کی بات کرتے ہیں۔ یہ سیاسی اتحاد اس بات کا مظہر ہے کہ اب ایک معلق پارلیمنٹ سامنے آئے گی جس سے پاکستان کے عالمی برادری سے تعلقات استوار کرنا مشکل ہو گا اور نئی حکومت کو پہلا سال تو شائد ان چیلنجز کو سمجھنے میں ہی لگ جائے۔
زمینی حقائق؛
آئندہ انتخابات ملکی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی لائیں گے کیونکہ مخلوط حکومت میں پالیسی معاملات پر اختلا فات سامنے آنے کے امکانات ہیں اور پھر چونکہ فوج ہی خارجہ پالیسی کو کنٹرول کرتی ہے تو مخلوط حکومت ان معاملات میں محض خاموش تماشائی ہی رہے۔ اسکے علاوہ آئندہ حکومت کو داخلی مسائل جیسے گرتی برآمدات اور گھٹتے ذرِ مبادلہ کے ذخائر کے علاوہ نوجوانوں کو نوکریاں دینے جیسے معاملات درپیش آئیں گے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نئی حکومت داخلی مسائل میں بری طرح گھری ہو گی اور خارجہ پالیسی سے توجہ ہٹ جائے گی۔ ان حالات میں فوج ممکنہ طور پر خارجہ پالیسی کے معاملات میں مزید ملوث ہو جائے گی۔
خارجہ پالیسی کے چیلنجز؛
پاکستان کو بیرونی محاذ پر زبردست چیلنجز کا سامنا ہے۔ افغان مسئلے کے اثرات، امریکہ کے ساتھ سرد مہری، بھارت سے گرما گرمی اور کشمیر میں بدلتے رجحانا ت ان چیلنجز کی چند مثالیں ہیں۔ اس لئے یہ نئی حکومت پر منحصر ہو گا وہ امریکہ، افغانستان، بھارت اور چین کے ساتھ کیسے مراسم بناتی ہے۔
جو بھی حکومت آئی اس کےلئے سب سے اہم امریکہ کے ساتھ بگڑے ہوئے تعلقات ہوں گے۔ پاکستان کے اصرار کہ اس نے حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے خلاف موثر کاروائیاں کی ہیں، امریکہ کو راضی کرنے کےلئے ناکافی ہے۔ مزید برآں زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ افغانستان میں مسلسل شورش سے امریکہ کا پاکستان پر دباؤ برقرار ہے کیونکہ پاک-افغان سرحد پر دہشت گردی پاک-امریکہ تعلقات میں تلخی کا باعث ہے۔ دونوں ملکوں کی تلخی کو کم کرنے کا دارومدار پاکستان پر ہے کہ وہ امریکہ سے کیسے شراکت داری کرتا ہے۔ جب تک آئندہ حکومت واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنے کے اقدامات نہیں کرتی تو پاکستان کو امریکہ کی جنوبی ایشیائی تزویراتی پالیسی میں نمایاں مقام نہیں ملے گا۔
اس دوران سرحد کے آر پار دہشت گردی، کشمیر کی گھمبیر صورتحال، کلبھوشن یادیو معاملے اور سی-پیک (جسکی بھارت شدید مخالفت کرتا ہے) کی وجہ سے پاک۔بھارت تعلقات بھی خراب تر ہو رہے ہیں۔ ان معاملات پر کسی حادثاتی کشیدگی سے بچاؤ کےلئے آئندہ حکومت کےلئے یہ اہم ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرے۔ مذاکرات میں دہشت گردی سے نمٹنے کےلئے دوطرفہ تعاون اور کشمیر میں بات چیت کے ذریعے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے جیسے اقدامت اٹھائے جا سکتے ہیں۔ معاشی معاملات کی درستگی کےلئے آئندہ حکومت کو بھارت کے سی۔پیک سے متعلق ابہام کو دور کرنا چاہیئے تاکہ منصوبے سے فوائد حاصل ہو سکیں اور مجموعی طور پر خطے میں استحکام آ سکے۔ سی۔پیک پاکستان کی درمیانی درجے کی معاشی حکمتِ عملی میں اہم ہے۔ اس سے متعلقہ بہت سے منصوبے آئندہ پالیمنٹ کی مدت کے دوران مکمل ہو رہے ہوں گے اس لئے اگلی حکومت کو علاقائی اور عالمی برادری کی حمائت حاصل کرنی ہو گی۔
آگے بڑھنے کا راستہ:نئی دہلی اور واشنگٹن سے تعلقات کی بحالی؛
اگلی حکومت کو ہر طرح سے خارجہ پالیسی کےلئے ایک ایسا ایجنڈا تشکیل دینا ہو گا جس میں داخلی، علاقائی، اور عالمی عوامل کو مدِ نظر رکھا جا سکے۔ یہ کام مخلوط حکومت کےلئے مختلف سیاسی ایجنڈوں کی بدولت مشکل ہو گا تاہم ایک مربوط خارجہ پالیسی ملکی سلامتی اور عا لمی سطح پر ملکی تاثر کو مضبوط بنانے کےلئے ناگزیر ہے۔ اس کےلئے اگلی حکومت کو خاجہ پالیسی میں اصلاحات لاتے ہوئے بھارت کے ساتھ مذاکرت کے دروازے کھولنے ہوں گے اور امریکہ کے ساتھ روابط کو صحیح ڈگر پر لانا ہوگا۔
ایڈیٹر نوٹ؛ پاکستان ۲۵ جولائی کو انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے اور تاریخ میں یہ محض دوسرا کامیاب انتقالِ اقتدار ہو گا۔ ساؤتھ ایشیئن وائسز کے مصنفین عمیر جمال، فرحان صدیقی، حمزہ رفعت، رضوانہ عباسی اور کشور منیر ممکنہ اثرات اور نتائج کا ملکی معاشی ایجنڈے، خارجہ پالیسی اور دیگر سٹیک ہولڈرز جیسے فوج اور مذہبی جماعتوں کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں۔ مکمل سیریز پڑھنے کےلئے یہاں کلک کریں۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Shahzeb Younas via Flickr
Image 2: Stefan Krasowski via Flickr