پاکستان میں حالیہ جاری سیلابوں نے آبادی، ملکی انفراسٹرکچر اور معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔ سیلاب، شدید بارشیں اور گرمی کی لہر کا بڑھتا دورانیہ موسمیاتی تبدیلی کو نظریاتی مباحثے کی فہرست میں شامل ایک نکتے سے نکال کے ملک و قوم پر پڑنے والے ایک واضح بوجھ میں بدل چکا ہے۔ انسانی نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو نقصانات اس قدر گھمبیر ہیں کہ ان کا احاطہ ممکن نہیں۔ لیکن سیاسی اعتبار سے یہ ریاست کے قومی سلامتی ڈھانچے میں موسمیاتی سلامتی کے شعبے کے ناپید ہونے کی بھرپور عکاسی کرتا ہے جو پاکستان کی بقا کے لیے ایک آزمائش ثابت ہو سکتا ہے۔
۲۰۱۰ اور ۲۰۲۲ کے درمیان پاکستان میں تقریباً ہر سال ایک بڑا سیلاب آتا رہا ہے جس سے سینکڑوں جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ بین الاقوامی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (آئی پی سی سی) نے تعداد اور نوعیت میں زیادہ شدت کے حامل موسمیاتی حادثات کے وقوع پذیر ہونے کا اندازہ لگایا ہے۔ اس برس کے موسم گرما میں پاکستان کو گرمی کی مہلک لہر اور مون سون کی غیرمعمولی بارشوں کا سامنا ہوا جو سیلاب کا سبب بنا۔ گلوبل وارمنگ کے خلاف فی الوقت دنیا جس رفتار سے اقدامات کر رہی ہے، اس کے پیش نظر بارش یا برفباری سے جڑی آفات جسا کہ سیلاب کا ۲.۷ فیصد زیادہ خطرہ ہے جبکہ گرمی سے جڑی آفات جیسا کہ ہیٹ ویو کا ۵.۶ فیصد زیادہ خطرہ ہے۔ آئی پی سی سی کے تخمینوں کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آنے والی دہائی میں اس سے ملتی جلتی آفات کا خطرہ دوگنا سے زیادہ ہو سکتا ہے جبکہ اس کے نتیجے میں معاشرتی و معاشی نقصانات ناقابل تصور حد تک بڑھ سکتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات چہار سو پھیلتے اور کئی شعبوں کو متاثر کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ معاشرتی و معاشی نقصانات ریاستی وسائل و سلامتی پر اضافی بوجھ ڈالنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اب محض جغرافیائی سیاسی دشمنیاں ہی ریاست کو درپیش خطرہ نہیں رہی ہیں بلکہ یہ ریاست کو درپیش خطرات کے سلسلے کی محض ایک کڑی رہ گئی ہے۔ قومی سلامتی کو اب ایک جامع روایتی سلامتی و موسمیاتی سلامتی پر مبنی لائحہ عمل کی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ان خطرات کی نشاندہی ہو سکے جو پاکستان پر سب سے زیادہ دباؤ بڑھا رہے ہیں اور اس کی بقا کے لیے خطرہ ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑے خطرات کے تجزیے کے لیے لائحہ عمل
پاکستان کی حالیہ قومی سلامتی پالیسی (این ایس پی) میں ایک “جامع قومی سلامتی” لائحہ عمل متعارف کروایا گیا تھا جس میں کوپن ہیگن اسکول کے جامع سلامتی لائحہ عمل کے تصور کو شامل کیا گیا تھا۔ اس پالیسی کو جاری کرنے والا ادارہ قومی سلامتی ڈویژن اب پہلے کی طرح متحرک نہیں رہا ہے۔ تاہم یہ پالیسی اس اعتبار سے ایک بیش قیمت قدم ہے کہ اس نے فوج اور دفاع کے شعبوں کی اہمیت کو اپنی جگہ برقرار رکھتے ہوئے سماجی، سیاسی، معاشی اور موسمیاتی شعبوں کو قومی سلامتی کے شعبوں میں شامل کرتے ہوئے پاکستان کے سلامتی لائحہ عمل کو وسیع تر کیا تھا۔ این ایس پی کا روایتی سلامتی کے تصور کو وسعت دینا یہ واضح کردیتا ہے کہ انتہائی نوعیت کے موسمیاتی واقعات جیسا کہ سیلاب قومی سلامتی اور بذات خود ریاست کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں۔ تاہم اس امر کی ضرورت ابھی باقی ہے کہ پاکستان کے پہلے سے موجود قومی سلامتی ڈھانچے میں موسمیاتی سلامتی کو پوری قوت کے ساتھ شامل کیا جائے تاکہ این ایس پی کی اس مثبت پیش رفت کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اس پر مسلسل عمل درآمد جاری رہے۔
موسمیاتی سلامتی، موسمیاتی تبدیلیوں اور سلامتی کے متعدد شعبوں کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ موسمیاتی سلامتی بنیادی طور پر ان خطرات، خدشات اور اثرات کا جائزہ لیتی ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے سبب مختلف شعبوں پر اور مختلف سطح پر ہو سکتے ہیں۔ اس بارے میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ موسمیاتی سلامتی پہلے سے موجود ایسے مسائل کے بگاڑ سے نمٹتی ہے جو بعد ازاں سلامتی اور تنازعوں جیسی صورتحال کا سبب بنتے ہیں۔ اسے موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب خطرات دوچند ہونے کی کیفیت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ تاہم خطرات دوچند کرنے والا یہ اثر شدید موسمیاتی تبدیلیوں سے رونما ہونے والا واحد اثر نہیں ہے کیونکہ یہ سلامتی کے مختلف شعبوں کے لیے براہ راست خطرہ بھی رکھتا ہے۔
جامع قومی سلامتی پالیسی کو لاحق کثیرالشعبہ جاتی خطرہ
پاکستان میں جاری سیلاب معمول کا واقعہ نہیں ہے۔ بلوچستان جو سب سے زیادہ متاثرہ صوبوں میں سے ایک ہے، خشک سالی، بارشوں کی کمی اور اکثر قحط سالی کا شکار ہونے کے سبب جانا جاتا ہے۔ تاہم اس برس کے مون سون میں پاکستان کے محکمہ موسمیات نے بتایا ہے کہ بلوچستان کو ۳۷۱ فیصد زیادہ بارشوں کا سامنا ہوا جس سے اچانک سیلابی ریلوں اور انسانی جانوں کا بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ موجودہ اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ ۳۳ ملین سے زیادہ لوگ متاثر ہو چکے ہیں جس میں تاحال ایک ہزار سے زائد افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ اس سے ہونے والے معاشی نقصان کا تخمینہ وقت کے ساتھ لگایا جائے گا تاہم ۲۰۱۰ کا سیلاب جسے ۲۰۲۲ کے سیلاب کے مقابلے میں کم شدت کا تصور کیا جاتا ہے اس سے تقریباً ۴۳ بلین ڈالر کا معاشی نقصان ہوا تھا۔ انتہائی نوعیت کی موسمیاتی آفات کی مقدار بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی معاشی قیمت میں فقط اضافہ ہی ہوگا۔
جہاں موسمی آفات سے ہونے والے معاشی نقصانات کا تخمینہ لگایا جاسکتا ہے، وہیں موسمی آفات معاشرتی و سیاسی ہم آہنگی پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔ ۲۰۲۲ کے سیلابوں نے پوری کی پوری آبادیوں کو بے گھر کر دیا ہے، ان کے ذریعہ معاش اور آمدن کے مواقع ختم کر دیے ہیں، اور ہجرت اور شہروں کی جانب رخ کرنے کا عمل جو پہلے ہی انتہائی بلند سطح پر تھا، اس میں اضافہ کر دیا۔ متاثرین کے لیے جو امدادی کاروائیاں کی جا رہی ہیں وہ جامع نہیں ہیں اور متاثرہ آبادیاں یہ محسوس کرتی ہیں کہ ایک ایسی آفت جس کے لیے وہ ذمہ دار بھی نہیں تھے، اس کے بعد ان کی مناسب امداد نہیں کی گئی ۔ ایسی صورتحال میں ریاست کی حیثیت یا حکام پر ان کے یقین پر بدترین اثرات رونما ہو سکتے ہیں اور بڑے پیمانے پر بدامنی کے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی شدید نوعیت کی موسمیاتی آفت کے بعد انفرادی سطح پر لوگوں کا احساسِ خودی مسلسل متغیر پذیر رہتا ہے۔ نسل در نسل چلے آتے گھرانوں کی تباہی، اپنے ملک کے اندر ہی ہجرت اور خیموں کی شکل میں عارضی و ناقص ٹھکانے شناخت کی بنیاد پر بڑے چیلنجز کا موجب ہوں گے اور متاثرہ آبادیوں کے درمیان معاشرتی معاشی عدم تحفظ کا احساس بیدار کریں گے۔ ایسے اثرات سلامتی کے معاشرتی و سیاسی شعبوں کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں اور قومی یکجہتی کے احساس کو بے وقعت کرتے ہیں۔
مزید براں انتہائی نوعیت کے موسمی حادثات مختصرالمدتی امدادی سرگرمیوں اور ریاستی وسائل پر طویل مدت کے لیے بوجھ کا نام ہیں۔ بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے سبب غربت اور بیروزگاری کی شرح بھی بلند ہوتی ہے کیونکہ زیادہ بڑے پیمانے پر لوگ اپنی کفالت کرنے والے افراد سے محروم ہو جاتے ہیں یا موسمی حالات کی وجہ سے پناہ گزین بن جاتے ہیں۔ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ اور انسانی اسمگلنگ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ بچے، خاص کر چھوٹی بچیاں انفرا اسٹرکچر کی تباہی کی وجہ سے اسکول جانا چھوڑ دیتی ہیں۔ صاف پانی اور غذا تک لوگوں کی رسائی کم ہو جاتی ہے، بیماریوں کی شرح بڑھ جاتی ہے اور معیار زندگی گر جاتا ہے اور یہ تمام کے تمام کثیر الشعبہ جاتی مسائل ہیں۔
ایک اور بالواسطہ خطرہ فوج کو ہوتا ہے۔ فوج نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ادارہ برائے انسانی مدد و قدرتی آفات (ایچ اے ڈی آر) کے تحت ایک متحرک اور جامع کردار ادا کیا ہے۔ فوج نے بلوچستان کے ڈسٹرکٹ لسبیلہ میں امدادی سرگرمیوں کی نگرانی میں اعلیٰ سطحی افسران کھوئے ہیں جس میں ۱۲ کور کے کمانڈر (جو ایک لیفٹیننٹ جنرل تھے) شامل ہیں۔ آئی پی سی سی کی رپورٹس کے مطابق قدرتی آفات میں اضافے کے اندازوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایچ اے ڈی آر کی ضرورت میں وقت کے ساتھ ساتھ محض اضافہ ہوگا۔ ایچ اے ڈی آر کے لیے فوجی وسائل میں اضافے کے سبب دیگر بحرانوں میں اس کے ردعمل میں کمی آئے گی اور فوج کے پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کے کردار میں رکاوٹ آئے گی۔
مستقبل کے لیے لائحہ عمل
ملک میں شدید نوعیت کی موسمی آفات سے مختلف شعبہ جات پر پڑنے والے منفی اثرات کے باعث پاکستان کی جامع قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔ اب یہ محض معاشی سلامتی بمقابلہ روایتی سلامتی کا معاملہ نہیں رہا ہے۔ قومی سلامتی ان میں سے کسی ایک کی بنیاد پر نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ قومی طاقت تمام عناصر اور وسائل پر مبنی ہوتی ہے جو ریاست کو اپنے مفادات کے حصول کے قابل بناتے ہیں۔ لہذا یہ تمام عناصر، وسائل اور شعبہ جات اس کی سلامتی میں حصے دارہیں۔ گویا کثیرالشعبہ جاتی خطروں کی اس بساط سے نمٹنے کے لیے قومی سلامتی کو اس جامع نگاہ سے دیکھا جانا ضروری ہے کہ جس میں تمام شعبہ جات پر یکساں توجہ ہو جبکہ موسمیاتی سلامتی کو اس کی شدت اور فوری نوعیت کی وجہ سے ترجیح دی جائے۔ این ایس پی نے اس معاملے پر باضابطہ طور پر گفت و شنید شروع کی لیکن قومی سلامتی کو لاحق خطرات کی سنگینی کے سبب موسمیاتی شعبہ پر اس کی توجہ ناکافی رہی۔ اس کی بنیادی وجہ پالیسی سازوں کی موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑے خطرات پر محدود توجہ ہے جیسا کہ وہ دیگر شعبہ جات کو ان تبدیلیوں سے لاحق خطرات کا تخمینہ لگائے بغیر صرف غذا، پانی اور توانائی کے شعبے پر اس کے اثرات پر توجہ دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کو ریاست کی بقا کو لاحق خطرے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا ہے۔ تاہم جیسا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والی آفات کے خطرات مسلسل بڑھ رہے ہیں ایسے میں ایسی ٹھوس پالیسیوں کا نفاذ ضروری ہوگا کہ جو موسمیاتی تبدیلیوں کے کثیرالشعبہ جاتی اثرات سے نمٹنے پرتوجہ مرکوز رکھے۔
آنے والے وقتوں میں پاکستان کو اس زاویہ نگاہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے کہ جس سے وہ سیاسی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں اور موسمیاتی اقدامات کو دیکھتا ہے۔ موسمیاتی بحران سے براہ راست متاثر ہونے والے افراد کی ضروریات سے نمٹنے کے لیے ایک بین الضابطہ نقطہ نگاہ ترتیب دینا ناگزیر ہے۔ عملی شکل میں ڈھالے جانے پر یہ متعلقین سے روابط قائم کرنے،عملی احتساب کے لائحہ عمل یا حکومتی سرگرمیوں میں موسمیاتی اقدامات کی شمولیت کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات اور سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی تیاری سے آگے بڑھتے ہوئے اس کے نفاذ کے لیے کام ہی تعمیری نتائج کی کنجی ہوگا۔ پالیسیوں کے نفاذ میں شعبہ جاتی تخصیص ہونی چاہیئے کیونکہ معاشرتی و سیاسی شعبہ جات میں اٹھائے جانے والے موسمیاتی اقدامات معاشی یا دفاعی شعبوں کی ضروریات سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ این ایس پی کے تشکیل کردہ ماڈل پر عمل کرے اور سلامتی کے تمام شعبوں میں سرکاری و نجی متعلقین سے رابطے کرے تاکہ ملک کے لیے ہر شعبے کو لاحق خطرات کی علیحدہ علیحدہ پروفائل تیار کی جا سکے۔ اس کے بعد ہی نفاذ کے پس پشت تمام شعبہ جات کے متعلقین ہوں گے جبکہ موسمیاتی نزاکتوں اور موسم سے موافقت کے فروغ پر توجہ ہوگی۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Irin Photos via Flikr
Image 2: Oxfam International via Flikr