21618007036_48eacd8198_o-1536×1022

“اب یہ سوال باقی نہیں رہا کہ مضبوط تعلقات کو آنے والی صدی کے لئے مثالی شراکت داری میں تبدیل کرنا آیا امریکہ کے مفاد میں ہے  یا پھر بھارت کے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اس شراکت داری کو کس قدر عزم اور تیزی سے قائم کرتے ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ […] ہمیں جرات مند ہونا چاہئے۔“ اگرچہ ان تاثرات کا اظہار جوبائیڈن نے بطور نائب صدر ستمبر ۲۰۱۴ میں وزیراعظم نریندر مودی کے لئے ظہرانے کی میزبانی کرتے ہوئے کیا تھا تاہم یہ ۲۰۲۱ اور اس کے بعد بھارت امریکہ تعلقات کے حوالے سے ان کی بصیرت کو کوزہ بند کرتے ہیں۔  

بائیڈن نہ صرف نائب امریکی صدر کے طور پر بلکہ امریکی سینٹ میں کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کی قیادت کے سبب بھی بھارت سے نمایاں واقفیت رکھتے ہیں۔ وہ امریکہ بھارت تجارت اور معیشت کو فروغ دینے کے امکانات اور اس میں حائل رکاوٹوں دونوں سے باخبر ہیں، نیز وہ دو طرفہ تزویراتی شراکت داری کے فروغ اور عظیم تر علاقائی تعاون کی حمایت کرچکے ہیں۔ وہ محض دفاع اور معیشت پر مبنی تعلق سے بڑھ کے ایک ایسا وسیع تر تعلق چاہتے ہیں جس میں عوام کا عوام سے تعلق اور سائنٹیفک معاونت جیسا کہ ماحولیاتی تبدیلی وغیرہ بھی شامل ہو۔ یہ خیالات بائیڈن اور نو منتخب نائب صدر کاملا ہیرس کی جانب سے  واشنگٹن- نئی دہلی تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے ترجیحات سے بھی ظاہر ہوتے ہیں۔

تاہم مجموعی طور پر بائیڈن حکومت کی بھارت کی جانب پالیسی کے حوالے سے سب سے اہم عنصر اس کا ماضی سے تسلسل ہوگا۔ صدر جارج ڈبلیو بش کے وقت سے ہر امریکی حکومت کا یہ ہدف رہا ہے کہ وہ بھارت کی بطورعالمی قوت ابھرنے میں اس کی مدد کرے اور بحر ہند میں سلامتی فراہم کار کے طور پر اس کی خودمختار حیثیت میں مزید اضافہ کرے۔ اس مقصد کے لیے یہ حکومتیں اسلحے کی فروخت اور بڑے ہتھیاروں کی مشترکہ تیاری کیلئے بھارتی صلاحیتوں میں اضافہ، بھارت کے ہمراہ مشترکہ عسکری صلاحیتوں کے فروغ کیلئے مشقوں اورکلیدی نوعیت کے معاہدے، کثیرالفریقی اداروں میں بھارتی رکنیت کی حمایت کے ذریعے اسے عالمی سطح پر لانے میں کردار نیز باہمی دلچسپی کے علاقائی مسائل پر نئی دہلی سے مشاورت کرتی رہی ہیں۔

یہ امر اب ثابت ہوچکا ہے کہ کڑے نظریاتی اختلافات کے باوجود بھی اوباما، بائیڈن اور ٹرمپ، پینس حکومت کی بھارت کے حوالے سے پالیسیز میں کس قدر مماثلت تھی۔ اومابا بائیڈن انتظامیہ نے بھارت کو جدید اسلحہ اور سازو سامان جیسا کہ نگرانی کرنے والے ایئرکرافٹ اور حملے کی صلاحیت سے لیس ہیلی کاپٹرز فروخت کیے نیز بھارت کو اہم ”دفاعی شراکت دار“ قرار دیا۔ اس حکومت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کی مستقل نشست کیلئے حمایت کی، جوہری سپلائرز گروپ میں شمولیت یقینی بنانے کیلئے (اگرچہ ناکام) کوشش کی نیز میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول ریجیم اور ویزینار معاہدے میں شمولیت یقینی بنائی۔ اوباما بائیڈن حکومت نے بھارت کے ہمراہ مشترکہ تزویراتی ویژن برائے ایشیا پسیفک اینڈ انڈین اوشیئن ریجن بھی جاری کیا جو کہ انڈوپیسیفک خطے میں دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کا سرکاری سطح پر پہلا باقاعدہ اعلان ہے۔ مزید براں انہوں نے ڈیفینس ٹیکنالوجی اینڈ ٹریڈ انیشی ایٹو(ڈی ٹی ٹی آئی) کے لیئے پیش رفت کا آغاز کیا جس کا مقصد دفاعی ساز و سامان کی مشترکہ پیداوار اور مشترکہ بڑھوتری  کی راہ میں حائل بیوروکریسی کی رکاوٹوں کو دور کرنا تھا۔ وہ لاجسٹکس ایکسچینج میمورنڈم آف ایگریمنٹ پر بھی دستخط کرچکے ہیں جو امریکہ اور بھارت کو توانائی کے دوبارہ حصول، مرمت و بحالی اور ساز وسامان کی عمومی ذخیرہ اندوزی کی غرض سے ایک دوسرے کے عسکری ٹھکانوں تک رسائی کی اجازت دیتا ہے۔ 

اسلحے کی فروخت، سفارتی سطح پر بھارتی حمایت کی بات ہو یا  ۲۰۱۸ اور ۲۰۲۰ میں بنیادی معاہدوں کے سلسلے کے باقی ماندہ دو معاہدوں پر دستخطوں کے ذریعے انڈوپیسیفک میں معاونت اور دوطرفہ باہمی تعاون یا پھر اوباما بائیڈن دور کے سٹریٹیجک اینڈ کمرشل ڈائیلاگ کے سلسلے کی ٹو پلس ٹو مکالمے کی صورت میں تشکیل نو، دونوں ممالک کے درمیان روابط کا یہ سلسلہ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں بھی یا تو برقرار رہا یا پھر اس میں اضافہ ہوا۔

بائیڈن ، ٹرمپ سے ورثے میں گہرے اور زیادہ مربوط تعلقات پائیں گے جسے امید ہے کہ وہ اسی طرز پر آگے بڑھائیں گے اور اپنے پیش رو کی مانند اسے جاری رکھیں گے۔ درحقیقت وہ مشترکہ اقدار اور مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے دو طرفہ تجارت کو بہتر بنانے، دہشتگردی کے مقابلے کیلئے تعاون میں اضافے اور بھارت امریکہ تزویراتی اور عالمی شراکت داری کو فروغ دینے کا وعدہ کرچکے ہیں۔ بائیڈن-ہیرس انتخابی مہم کیلئے خارجہ پالیسی کے مشیر اینٹونی بلنکن بائیڈن-ہیرس انتظامیہ کی جانب سے اس تعلق کو دی جانے والی اہمیت کو واضح کرنے کیلئے کہہ چکے ہیں کہ ”غالباً ایسی کوئی بھی مشترکہ آزمائش نہیں ہے جسے ہم بھارت کے بغیر حل کرسکیں۔“

 ان آزمائشوں میں غالباً سب سے بڑی آزمائش چین ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک مسلسل ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ اوباما- بائیڈن انتظامیہ کے دور سے واشنگٹن میں چین کے حوالے سے موقف تبدیل ہوچکا ہے اور اب ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز دونوں اس امر پر زور دے رہے ہیں کہ چینی رویئے کو تبدیل کرنے اور معتدل بنانے کیلئے سفارتی روابط اور معاشی چھوٹ کی حوصلہ افزائی کرنے کی دہائیوں پرانی حکمت عملی کارآمد نہیں اور اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی سوچ نے ٹرمپ انتظامیہ کو ۲۰۱۸ کی قومی دفاعی حکمت عملی میں چین کو ایک ”تزویراتی حریف“ قرار دینے اور ہم خیال ممالک جیسا کہ آسٹریلیا، بھارت اور جاپان کے ہمراہ چینی آزمائش سے نمٹنے کیلئے ایک انڈو پیسیفک حکمت عملی ترتیب دینے پر راغب کیا۔ بائیڈن کے زیر حکومت یہ امریکی سوچ اگرچہ ظاہری طور پر محسوس نہ بھی ہو تو بھی جاری رہنے کا امکان ہے، اس جانب اشارہ وزیر دفاع کے لئے ان کے ممکنہ انتخاب میشیل فلورنوائے سے ملتا ہے۔ مزید براں بائیڈن کا یہ موقف کہ طاقت کو جمہوریت سے ملا دینے سے چینی آزمائش کیخلاف امریکی طاقت دوگنا ہوجاتی ہے اور جمہوری قوتوں کے اجلاس کیلئے میزبانی کی پیشکش یہ تجویز کرتے ہیں کہ وہ کواڈ کو مزید قوت بخشیں گے۔ اور اگرچہ بھارت  ٹرمپ انتظامیہ کے دور کے مقابلے میں بیجنگ کیخلاف اس قدرگھن گھرج والا امریکی بیانیہ اور کھلم کھلا حمایت شائد نہ دیکھ سکے  تاہم بائیڈن بھارتی صلاحیتوں کو بڑھاوا دینے کیلئے کوشش جیسا کہ انٹیلی جنس تبادلے وغیرہ کو جاری رکھیں گے تاکہ ”اسے اپنے خطے اور سرحدوں پر درپیش خطرات سے نمٹنے“ میں مدد دی جاسکے۔

جہاں تک درپیش آزمائشوں کا تعلق ہے تو مودی حکومت کی کشمیر کے حوالے سے سوچ یا شہریت ترمیمی ایکٹ کے حوالے سے بائیڈن – ہیرس انتظامیہ کی جانب سے ممکنہ سختی کے پیش نظر بھارت میں پائی جانے والی سراسیمگی غیر ضروری ہے۔ یہ تعلق مشترکہ تزویراتی مفادات کی بنیاد پر قائم ہے اور دونوں فریق چین کی جانب سے درپیش آزمائش کو صاف صاف سمجھتے ہیں۔ یہ تعلق اتنا غیر اہم نہیں کہ اسے ہاتھوں سے جانے دیا جائے اور چینی آزمائش دونوں فریقوں کو اپنے اختلافات حل کرنے پر اکسائے گی۔ بنیادی طور پر گزشتہ دو امریکی ادوار میں یہی ہوا ہے۔ بھارت میں ہونے والی بعض پیش رفتوں پر چوکنا دکھائی دینے کے باوجود اوباما اور ٹرمپ دونوں انتظامیہ نے تعلقات کی وسیع تر اہمیت کو سمجھتے ہوئے بھارت کے ساتھ کام جاری رکھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بائیڈن، ہیرس یا امریکی کانگریس میں ان کے ڈیموکریٹک ساتھی تشویش کا اظہار نہیں کریں گے بلکہ تھوڑے بہت اختلافات بھی ہوسکتے ہیں تاہم جیسا کہ بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ نئی دہلی اور واشنگٹن ”تمام مسائل پر ایمانداری سے بات چیت کریں گے جیسا کہ قریبی دوست کرتے ہیں۔“

اس کے باوجود امریکی داخلی امور اور سیاست کی وجہ سے دیگر اہم آزمائشیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ بائیڈن اور ہیرس ایسے وقت میں اقتدار سنبھال رہے ہیں جب کرونا وائرس کی بے قابو وبا اور ۱۱ ملین سے زائد مریضوں، دشواری سے دوچار معیشت جبکہ قطبیت اور نسلی تقسیم بلند سطح پر ہونے کے باعث بطورخاص امریکہ کیلئے بے چینی کا وقت ہے۔ یہ بحران پالیسی سازی کے ضمن میں اہم توجہ کے متقاضی ہوں گے اور بعض اطلاعات کے مطابق مشیروں کا اندازہ ہے کہ بائیڈن – ہیرس انتظامیہ خارجہ پالیسی کے مقابلے میں داخلی امور پر اپنے وقت کے پانچ میں سے چار حصے صرف کر دیں گے۔ اگرچہ واشنگٹن کی بیوروکریسی میں بھارت امریکہ تعلقات کو باقاعدہ ادارہ جاتی شکل ملنے سے صورتحال کی سنگینی کم ہوسکتی ہے تاہم نئی دہلی کو کم از کم کچھ وقت کے لئے منقسم توجہ کے حامل امریکہ کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ علاوہ ازیں، اگر ریپبلکنز امریکی سینٹ پر درحقیقت اپنا قابو برقرار رکھتے ہیں تو ایسے میں بائیڈن- ہیرس انتظامیہ  کا بعض ایسے امور پر ایجنڈا سردخانے کی نظر ہوسکتا ہے جو دراصل بھارت کے لئے اہمیت کے حامل ہوسکتے ہیں جیسا کہ امیگیریشن کا مسئلہ۔ آخر میں یہ کہ نئی دہلی کے لئے اس امر کے بھی مضمرات ہوسکتے ہیں کہ واشنگٹن کیسے بیک وقت ماحولیاتی تبدیلی اور جوہری عدم پھیلاؤ جیسے امور پر تعاون کشید کرنے کے ساتھ ساتھ بیجنگ اور ماسکو کے ہمراہ اپنے تزویراتی مقابلے کو متوازن کرتا ہے۔

سب سے آخر میں یہ امر بھی یکساں اہمیت رکھتا ہے کہ نئی دہلی نئی انتظامیہ کے ساتھ برتاؤ کیلئے کیسے رویہ کا انتخاب کرتا ہے۔ اوباما حکومت نے نئی دہلی کو، ایشیا کو متوازن بنانے کیلئے حکمت عملی میں ریڑھ کی ہڈی کے طور پر شناخت کیا تھا اور بحر ہند کے علاقے میں اس کی جانب سے زیادہ بوجھ بانٹے جانے کی خواہش کی تھی تاہم نئی دہلی اس کے لئے تیار نہیں تھا۔ گزشتہ کچھ برس میں چینی جارحانہ رویئے سے یہ یقینی دکھائی دیتا ہے کہ اس بار بھارت زیادہ پر آمادہ شراکت دار ہوگا۔ خاص کر ایسے میں کہ جب واشنگٹن آئندہ چند ماہ کے لئے داخلی بحرانوں سے نمٹنے میں مصروف ہوگا، نئی دہلی علاقائی اور عالمی سطح پر زیادہ ذمہ داری اٹھانے میں اپنی دلچسپی ظاہر کرسکتا ہے۔ اس کیلئے وہ کواڈ اور کواڈ پلس جیسے فورمز کی سربراہی کیلئے ایجنڈا طے کرنے اور ان کی سربراہی کے علاوہ غیر امریکی گروہ جیسا کہ سپلائی چین ریزیلی اینس انیشی ایٹو کو مضبوط بنا سکتا ہے تاکہ مشترکہ اہداف کو مزید آگے لے جایا جا سکے۔

***

.Click here to read this article in English

Image 1: U.S. Embassy New Delhi via Flickr

Image 2: U.S. Department of State via Flickr

Share this:  

Related articles

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا Hindi & Urdu

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا

کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے…

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…