49004168668_d8cbc311ae_o-1095×616-1
Families are relocated because of flooding and landslides in Balukhali Rohingya refugee camp in Cox’s Bazar, Bangladesh


گزشتہ ماہ بنگلہ دیش جانے والے ایک امریکی وفد کے تین روزہ دورے کے دوران، پناہ گزین اور موسمیاتی تبدیلی، دونوں ہی سفارتی ایجنڈے پر نمایاں دکھائی دیے۔ وفد کے شرکاء نے بنگلہ دیش کو موسم کے باعث ساتویں نمبر پر سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ملک قرار دیا جبکہ واشنگٹن نے بنگلہ دیش کو موسمی تبدیلی سے نمٹنے میں مدد دینے کا عہد کیا۔ انہوں نے روہنگیا پناہ گزینوں کے بحران پر بھی گفتگو کی۔ گو کہ پناہ گزین اور موسمیاتی تبدیلی علیحدہ علیحدہ مقام پر تبادلہ خیال کے متقاضی ہیں، تاہم دونوں کو ایک دوہری آزمائش کے طور پر سمجھنے کی ضرورت بڑھ رہی ہے، بالخصوص ایسے وقت میں کہ جب یہ متعدد ریاستوں کو متاثر کر رہے ہیں۔سال


۲۰۲۲ میں، ۷.۱ ملین بنگلہ دیشی موسم سے متعلقہ واقعات کے نتیجے میں بے گھر ہوئے تھے، پیشنگوئیوں کے مطابق ۲۰۵۰ تک یہ تعداد بڑھ کر تقریباً دوگنا ہو جائے گی۔ بین الاقوامی ترقی کی ایک امریکی ایجنسی کی رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ۹۰ ملین بنگلہ دیشی (آبادی کا ۵۶ فیصد) “موسمی خطرات سے دوچار خطے” قرار دیے جانے والے علاقوں میں رہتے ہیں۔ ان میں سے نصف “بے حد زیادہ خطرات” والے خطے ہیں۔


یہ مسئلہ قومی سرحدوں تک محدود بھی نہیں جیسا کہ سندربنز میں موسمیاتی وجوہ کی بناء پر جاری نقل مکانی سے ظاہر ہوتا ہے، دنیا میں مینگروو کا سب سے بڑا جنگل بنگلہ دیش اور بھارت میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ جنگل قدرتی آفات جیسا کہ سائیکلونز اور سیلابوں کے خلاف اہم نوعیت کے دفاع کی پہلی قطار میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ تاہم بڑھتی ہوئی سطح سمندر اور شدت اختیار کرتے سائیکلونز اس کی ماحولیاتی سالمیت پر سمجھوتہ کر رہے ہیں، جس سے یہ کمزور سے کمزور تر ہو رہا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش، دونوں جگہ سرحد پر رہنے والے شہری نقل مکانی پر مجبور ہیں۔


اگرچہ یہ بے گھری زیادہ تر داخلی سطح پر ہے، تاہم ایک نمایاں تعداد آخر کار بنگلہ دیش سے بھارت منتقل ہو جاتی ہے۔ ایسی نقل و حرکت کا بلادستاویز انجام پانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تعداد کی تصدیق ہونا باقی ہے لیکن ایشیائی ڈویلپمنٹ بینک کے مطابق، یہ میکسیکن- امریکہ سرحد پر سرحد پار کرنے والے پناہ گزینوں کی تعداد کو پیچھے چھوڑتے ہوئے “دنیا کا سب سے بڑا بین الاقوامی نقل مکانی کا سلسلہ” ترتیب دیتے ہیں۔

فراموش شدہ متاثرین؟


سرحد پار نقل مکانی قانونی ابہام اور انسانی حقوق سے وابستہ آزمائشوں سے پُر ہے۔ عالمی برادری کو فوری طور پر یہ تعین کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا “موسمی پناہ گزین” “قانونی طور پر تحفظ یافتہ کا اسٹیٹس” (جو بذات خود بعض کی جانب سے مسئلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے) پانے کے حقدار ہیں اور اگر وہ نہیں ہیں تو پھر ان کے تحفظ اور معاونت کے لیے متبادل قانونی میکنزم ترتیب دیے جائیں۔ چونکہ ایسا کوئی واضح قانونی لائحہ عمل موجود نہیں کہ جس میں حکومتیں یا بین الاقوامی ادارے موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بے گھر ہونے والے پناہ گزینوں کو درجہ بند کرنے اور ان کے لیے کارروائی کرنے کے قابل ہو سکیں، یہی وجہ ہے کہ بہت سے قانون کی برزخ میں پھنسے رہتے ہیں۔ موسمیاتی پناہ گزین تسلیم شدہ شہریت یا آبادکاری کے حقوق کے بغیر اکثر کمزور پڑ جاتے ہیں؛ خواہ یہ رضاکارانہ ہو یا پھر جبری، انہیں افسر شاہی کی بے یقینیوں کی بھول بھلیوں سے گزرنا پڑتا ہے، جو انہیں “فراموش شدہ متاثرین” کے کردار میں ڈھال دیتی ہے اور انہیں استحصال اور نظرانداز ہونے کے خطرے سے دوچار کر دیتی ہے۔ موسمیاتی پناہ گزینوں کو قانونی طور پر تحفظ یافتہ کی حیثیت سے نوازنے کے لیے فیصلہ، داخلی سطح پر بے گھری کا شکار افراد کے جامع ڈیٹا کی بنیاد پر ہونا چاہیئے اور اسے موسمیاتی تبدیلیوں پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کے ٹھوس میکنزم کے ذریعے نافذ ہونا چاہیئے۔ اس فیصلے کو پیچیدہ کرنے والی حقیقت یہ ہے کہ نقل مکانی بذات خود موسمیاتی مطابقت اختیار کرنے کی ایک شکل ہے۔ قدرتی آفات کا زیادہ خطرہ رکھنے والےکمزور علاقوں سے لوگوں اور انفرااسٹرکچر کی نئے مقامات پر منتقلی پر مبنی ایک پیشگی فعال حکمت عملی کی صورت میں، ماحولیاتی توازن کے اعتبار سے کمزور علاقوں سے طے شدہ واپسی کو وسیع تر ماحولیاتی مطابقت کی حکمت عملیوں میں ضم ہونا چاہیئے۔


بھارت اور بنگلہ دیش کی، عالمی قانون کے تحت پناہ گزینوں کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ اور یہ حقیقت کہ دونوں ممالک میں سے کوئی بھی ۱۹۵۱ کے پناہ گزین کنونشن کا دستخط کنندہ نہیں، نقل مکانی سے جڑی آزمائشوں پر بین السرحدی تعاون کی راہ میں نمایاں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ قانونی تحفظ کی عدم موجودگی ماحولیاتی پناہ گزینوں کو بے یقینی کی کیفیت میں لاکھڑا کرتا ہے، جہاں ان کے پاس اپنے حقوق کو منوانے یا بنیادی خدمات تک رسائی کے لیے معمولی وسائل ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالی بشمول انسانی اسمگلنگ اور جدید غلامی، نیز مکانوں، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم تک ناکافی رسائی اس کمزور طبقے میں عام پائے جانے والے معاملات ہیں۔


تاہم، قانونی تعریف کے بغیر بھی، بہت سے ایسے اقدامات ہیں جو اٹھائے جا سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی موثر ترین پیش رفتوں میں سے ایک اس کا قومی مسابقتی پروگرام برائے ایکشن ہے، جو آب و ہوا اور انسانی مطابقتی حکمت عملیاں وضع کرتا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد ایسی کمیونٹیز کو مضبوطی بخشنا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے خطرے سے دوچار ہیں، انہیں تبدیل ہوتی آب و ہوا کی کیفیات سے مطابقت اختیار کرنے کے لیے ضروری ہتھیار اور وسائل فراہم کرنا ہے۔


بھارت میں مہاتما گاندھی قومی دیہی ملازمت کی ضمانت کا ایکٹ ۲۰۰۵ (ایم جی این آر ای جی اے) سندر بن جیسے خطرے سے دوچار علاقوں میں مینگروو کے جنگلات دوبارہ سے اگانے اور آرگینک فارمنگ کی وکالت کرتا ہے تاکہ ماحولیاتی توازن اور معاشی اعتبار سے لچک اور آفات کے لیے تیاری کی جا سکے۔ بدقسمتی سے ایم جی این آر ای جی اے کو اجرت کی کم شرح، تاخیر سے ادائیگیوں، سسٹم میں رساؤ، اور خشک سالی کا باضابطہ اعلان کرنے میں انتظامی تاخیر سمیت نمایاں رکاوٹیں درپیش رہی ہیں۔ ایم جی این آر ای جی اے جیسی پیش رفتوں کو ماحولیاتی وجوہات کی بناء پر ہونے والے نقل مکانی سے نمٹنے کے لیے مناسب طور پر استعمال میں لانے سے قبل انہیں موثر طور پر انتظامیہ کے تحت لانے کی ضرورت ہے۔

ایک بین الاقوامی مسئلہ، بین الاقوامی ردعمل کا متقاضی ہوتا ہے


سندربن میں مسلسل جاری آزمائشیں اور گورننس کی ناکامی اس امر پر زور دیتی ہے کہ خطے میں موجود ممالک کو مشترکہ مسائل درپیش ہیں اور لہذا انہیں، ان سے نمٹنے کے لیے گورننس کے مشترکہ میکنزم استعمال میں لانے چاہئیں – باوجود اس کے کہ موجودہ ادارہ جات پوری طرح مفید نہیں ہیں۔ بنگلہ دیش اور بھارت جہاں سندربن میں حیاتیاتی تنوع کی بحالی کے لیے تعاون کر رہے ہیں، وہیں اس کے رہائشیوں کے مصائب پالیسی پر گفت و شنید سے عنقاء ہیں۔

 

علاقائی بین الحکومتی تنظیمیں جیسا کہ جنوبی ایشیائی تنظیم برائے علاقائی تعاون (سارک) اور کثیر شعبہ جاتی، تکنیکی، اور معاشی تعاون کے لیے خلیج بنگال پیش رفت (بمسٹیک) ایسے پلیٹ فارمز فراہم کر سکتی ہیں کہ جہاں بھارت اور بنگلہ دیش موسمیاتی نقل مکانی کی نگرانی کے لیے تجاویز پر تبادلہ خیال کر سکتے ہیں۔ یہ اس لیے بالخصوص اہم ہے کیونکہ جب ایک مرتبہ موسمیاتی نقل مکانی جیسے مسائل سرحد پار تک پھیل جاتے ہیں، تو پھر ان سے سیاسی میدان میں نمٹنا زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بھارت کا شہریتی ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کو نافذ کرنا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ بنگلہ دیش سے غیر قانونی نقل مکانی کے بارے میں تفرقے کا باعث بننے والی بیان بازی، سرحد پار بنگلہ دیش سے نقل مکانی کو مزید بدنام بنا دیتی ہے۔ یہ عناصر سفارتی تعلقات کو داغدار کرتے ہیں اور موسمیاتی وجوہات کی بناء پر ہونے والی نقل مکانی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔


تاہم دستیاب لائحہ عمل کو استعمال کرنے کے ممکنہ فوائد کے باوجود بھی، خطے کی جغرافیائی سیاسی حرکیات کا مطلب یہ ہے کہ وہ اتنے مفید نہیں ہیں جتنا کہ وہ ہو سکتے ہیں۔ فی الوقت وہ موسمیاتی پناہ گزینوں کے بہاؤ سے نمٹنے کے لیے ضروری تعاون اور وسائل کی تفویض کاری میں سہولت کاری کرنے میں مسلسل ناکامی سے دوچار ہیں۔ گوررنس میں موجود یہ فرق نہ صرف پائیدار حل تلاش کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ میزبان ریاست پر بھی آنے والے نقل مکینوں کے انتظام کا غیر ضروری بوجھ ڈالتا ہے۔


غیر سرکاری اور ترقیاتی تنظیمیں گورننس میں پائے جانے والے اس خلاء کو پر کرنے میں اہم تر ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ تنظیمیں انسانی امداد کی فراہمی، پناہ گزینوں کے حقوق کے تحفظ اور جس وقت حکومت سرحد پار تعاون میں معاونت کرنے میں ناکام ہو جائے تو یہ کردار نبھانے کے ذریعے کوششوں میں پیش پیش ہیں۔ بنگلہ دیش اور بھارت میں موجود، موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت اور آفت کے خطرات میں تخفیف پر توجہ دینے والی ایک بین الاقوامی این جی او پریکٹیکل ایکشن سرحد پار تعاون اور دونوں ممالک کے درمیان معلومات کے اشتراک کو کامیابی سے فروغ دیتی ہے۔انگیج4 سندربنز ایک اور بین السرحدی پیش رفت ہے جو بھارت اور بنگلہ دیش دونوں جگہ سندربن کی کمیونٹیز میں سماجی لچک پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔


اپنے اہم کردار کے باوجود بھی یہ تنطیمیں جامع گورننس کا متبادل نہیں۔ ان کی سرگرمیوں کو گورننس کے وسیع تر فریم ورکس میں مربوط ہونا چاہیئے تاکہ تسسل، طویل المدتی پائیداری اور قومی و بین الاقوامی قانون سے مطابقت کو یقینی بنایا جائے۔ مزید برآں، این جی او کی مہارتوں اور زمینی حقائق کے بارے میں علم سے فائدہ اٹھانا بھی گورننس کی پالیسیز کی تشکیل سازی کے لیے ضروری ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش اور بین الاقوامی اداروں کو ایسے میکنزم قائم کرنا ہوں گے کہ جن کےذریعے سے ان کی بصیرت کو ہر سطح پر فیصلہ سازی میں شامل کیا جا سکے۔

موسمیاتی بحران پناہ گزینوں کا بحران ہے


محققین کی جانب سے معاونت یافتہ حل کی ضرورت کا ادراک کرنے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈھاکہ سے تعلق رکھنے والی این جی او ساجدہ فاؤنڈیشن جو بھارت اور بنگلہ دیش کی حکومتوں پر زور دیتی ہے کہ وہ سندربن کے جنگلات کے بارے میں “ایک مشترکہ قدرتی اثاثے” کے طور پر سوچیں، اس محاذ پر پیش رفت کر رہی ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین تعاون کے دیگر ممکنہ مقامات میں دو طرفہ معاہدہ جات شامل ہیں کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان اتحادی اور پڑوسی ہونے کے باوجود بھی پناہ گزین یا موسمی تبدیلی کے بارے میں کوئی معاہدہ موجود نہیں۔ یہ معاہدہ جات تعاون، معلومات کے تبادلے اور پناہ گزینوں کے بہاؤ سے نمٹنے اور متاثرہ کمیونٹیز کی مدد کے لیے مشترکہ پیش رفتوں کے لیے فریم ورکس ترتیب دے سکتے ہیں۔


مزید برآں، بھارت اور بنگلہ دیش بھر میں علاقائی ٹاسک فورسز تخلیق کرنا جو سرکاری ایجنسیز، بین الاقوامی تنظیمیوں، سول سوسائٹی کے گروہوں اور متاثرہ کمیونٹیز کے نمائندگان پر مبنی ہوں، معاونت یافتہ ردعمل اور فیصلہ سازی میں سہولت پیدا کر سکتے ہیں۔ ایسے علاقے جو خطرے سے دوچار ہوں، وہاں مضبوط گھر، پیشگی انتباہ کے بہتر نظام اور بہتری یافتہ زرعی طریقۂ جات سمیت انفرااسٹرکچر اور صلاحیتوں میں اضافے کے لیے سرمایہ کاری بھی سرحد پار نقل مکانی کی روک تھام کے لیے اشد ضروری ہے۔ وسائل اور مہارتوں کے اشتراک کے ذریعے، بھارت اور بنگلہ دیش اپنی کوششوں کے اثرات کو زیادہ سے زیادہ حد تک بڑھا سکتے ہیں اور زیادہ لچکدار کمیونٹیز تخلیق کر سکتے ہیں۔


اضافی بین الاقوامی معاونت نیز موسمیاتی مطابقت اختیار کرنے اور پناہ گزینی کے انتظامات کی کوششوں کے لیے فنڈنگ کی وکالت بھی انتہائی ضروری ہے۔ کانفرنس آف دی پارٹیز (سی او پی)، جی ۲۰، اور عالم جنوب کی آواز کا اعلامیہ جیسی تقریبات میں عالم جنوب کی باقاعدگی سے وکالت کی صورت میں دونوں ہی ریاستوں کے پاس وہ ادارہ جاتی تجربہ موجود ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ آگے بڑھ سکتی ہیں۔ تاہم رسمی طور پر ایک متحدہ محاذ پیش کرنے کے ذریعے بھارت اور بنگلہ دیش عالمی منظرنامے پر اپنی آواز کو دوچند کر سکتے ہیں اور اپنی مشترکہ آزمائوشوں کے لیے وسائل کو متحرک کر سکتے ہیں۔


موسمیاتی تبدیلیوں کے انتظام کے لیے امریکی معاونت، جیسا کہ بنگلہ دیش کے ہمراہ فروری میں اس کی ملاقات کے بعد عہد کیا گیا تھا، خوش آئند ہے، تاہم موسمیاتی بحران تیزی کے ساتھ پناہ گزینوں کے بحران میں تبدیل ہو رہا ہے۔ علاقائی تعاون بھی بین الاقوامی تعاون جتنا ہی اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم بھارت اور بنگلہ دیش کو عالمی اتفاق رائے پیدا ہونے کا انتظار نہیں کرنا چاہیئے۔ مشترکہ پیش رفتوں اور معاونت یافتہ اقدامات کے ذریعے، وہ دونوں مقامات یعنی داخلی اور مشترکہ سرحدوں پر موسمی وجوہات کے سبب ہونے والی نقل مکانی سے نمٹنے کے لیے ایک پیشگی فعال قیادت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔

***

Click here to read this article in English.

This article, originally published in English, is part of a joint series between South Asian Voices and The Third Pole on Climate Diplomacy in South Asia.

Image 1: Climate Migrants via Flickr.
Image 2: Climate crises submerging houses in Bangladesh via Flickr.

Share this:  

Related articles

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے Hindi & Urdu

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف رواں ماہ کے اوائل میں صدر شی جن پنگ اور دیگر اعلیٰ چینی حکام سے ملاقاتوں کے بعد تقریباََ خالی ہاتھ وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ چین نے واضح انضباطِ اوقات ( ٹائم لائن) کے تحت پاکستان میں بڑے منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری کا وعدہ نہیں کیا۔ اس […]

آبدوزیں بحرہند میں ہندوستان کی ابھرتی ہوئی قوت کی کلید ہیں Hindi & Urdu

آبدوزیں بحرہند میں ہندوستان کی ابھرتی ہوئی قوت کی کلید ہیں

شمال مغربی بحر ہند میں سمندری تجارت گزشتہ چھ ماہ…

بی جے پی کے زیرِقیادت گلگت بلتستان پر بھارتی  بیان بازی Hindi & Urdu

بی جے پی کے زیرِقیادت گلگت بلتستان پر بھارتی  بیان بازی

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے زیرِ قیادت بھارتی…