raheel-sharif-960×540

نومبر ۲۱،  ۲۰۱۶ کو آئی ایس پی آر نے اعلان کیا کہ جنرل راحیل شریف اپنے دورِ اقتدار کے الودائی دوروں کا آغار کر رہے ہیں۔ اس اعلان سے جنرل شریف کی ریٹائرمنٹ    کے بارے میں مہینوں سےجاری  شبہات  آخرکار اپنے اختتام کو پہنچے۔ جنرل شریف کی ریٹائرمنٹ کا موضوع نہ صرف پاکستان میں بلکہ بھارت میں بھی بہت اہمیت اختیار کر چکا تھا۔ سرحد کی دونوں اطراف میڈیا جنرل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بارے میں اندازے لگانے میں مصروف تھا۔ موجودہ حالات میں کچھ عناصر جنرل شریف کی توسیع کی طرف اشارہ کر رہے تھے، مثلاً مضبوط عوامی حمایت، تناؤ کا شکار پاک و ہند تعلقات، اور جنرل شریف کے بارے میں مثبت امریکی رائے۔ تاہم، اسلام آباد ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے  جس میں جنرل شریف کو فیلڈ مارشل بننے کی استدعا مسترد کی گئ،  کی روشنی میں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ تقریباً یقینی تھی۔

کچھ توقعات یہ  بھی تھیں کہ نواز شریف یا تو جنرل شریف کو توسیع دیں گے، یا انہیں فیلڈ مارشل کے اعزازی عہدے کی پیشکش کریں گے۔ ایسا دعویٰ ایک معروف صحافی رؤف کلاسرا نے اپنے ٹیلی وژن پروگرام “مقابل” میں کیا۔ اسی طرح اگست میں “ڈیلی ٹائمز” کی ایک خبر میں سینئر صحافی عارف نظامی نے کہا کہ ۶ ستمبر تک جنرل شریف کے بطورِ فیلڈ مارشل تقرری کا اعلان کر دیا جائے گا۔  تاہم، عدالت کے فیصلے کے مطابق ہائی کورٹ ایوانِ بالا کو جنرل شریف کو فیلڈ مارشل مقرر کرنے کی ہدایت نہیں دے سکتا۔ ایسا کرنے کے لئے پارلیمان کو ایک نیا قانون تشکیل کرنا ہوگا کیونکہ آیئن میں فیلڈ مارشل کا عہدہ دیئے جانے سے متعلق کوئی شق موجود ہی نہیں ہے۔

اس کے برعکس، چند اہم شواہد جنرل شریف کی ریٹائرمنٹ کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ سینئر صحافی انصار عباسی نے جنوری ۲۰۱۶ میں “دی نیوز” میں شائع ہونے والے مضمون میں دعویٰ کیا کہ ۲۰۱۰ کے ایک انٹرویو میں نواز شریف نے نہ صرف فوجی توسیع کے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا، بلکہ یہ بھی کہا کہ حکومت کو جنرل شریف کے پیشروجرنل کیانی کی توسیع نہیں کرنی چاہیئے تھی۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جنرل شریف خود بیان جاری کر چکے تھے کہ وہ اپنے وقت پر ریٹائر ہوں گے۔ یہ موقف انہوں نے اپنے دور کے آغاز سے ہی مسلسل برقرار رکھا ہے۔

تو پھر اس بات پر یقین کرنا اتنا مشکل کیوں ہو رہا تھا کہ جنرل شریف واقعی توسیع نہیں چاہتے؟ اس کی وجہ غالباً جنرل شریف سے پہلے جنرل کیانی اور جنرل مشرف دونوں کو ملنے والی توسیع میں پنہاں ہے- اکتوبر ۲۰۰۱ میں جنرل مشرف نے اپنے لئے غیر معینہ مدت تک توسیع حاصل کی۔تاہم  اس کے فوری بعد ہی ان کے زوال کا آغاز ہو گیا۔ ۲۰۰۷ تک جنرل مشرف نے فوجی عہدہ چھوڑنے کا وعدہ کرنے کے باوجود اپنا آرمی چیف کا درجہ برقرار رکھتے ہوئے خود کو صدر مقرر کر لیا۔ دوسری جانب کچھ خبروں کے مطابق جنرل کیانی ابتدائی طور پر توسیع حاصل کرنے کے خواہشمند نہ تھے اور یہ مطالبہ انہوں نے صرف اپنے دور کے اختتام پر کیا۔ مگر ان کے لئے بھی توسیع کے بعد مسائل سامنے آنا شروع ہو گئے۔ مثلاً ۲۰۱۴ میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے میجر جنرل اطہر عباس، آئی ایس پی آر کے سابق ڈائریکٹر جنرل نے جنرل کیانی پرالزام لگایا کہ انہوں نے شمالی وزیرستان میں عسکری آپریشن شروع کرنے میں جھجک دکھائی، جبکہ فوج آپریشن کرنے کا فیصلہ کئی برس قبل کر چکی تھی۔

gen-sharif-kerry-768x512

ان مثالوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جنرل شریف کی توسیع سے صرف فوج  کی پوزیشن کمزور ہوتی۔ “سول سروس” کے تجربے سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے،کہ جہاں سیاسی حکومتوں کے  عموماً توسیع دینے کی وجہ سے سول سروس کی آزادی اور خود مختاری کوسخت نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح فوج میں توسیع عام ہونے کی وجہ سے جونیئر افسران کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں جس کی وجہ سے افسران کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ جنرل شریف کی توسیع سے ان فوجیوں اور کمانڈرز کی حوصلہ شکنی ہوتی جنہوں نے آپریشن ضربِ عضب میں اہم خدمات سرانجام دی ہیں۔ ان کمانڈرز میں وہ پانچ افراد بھی شامل تھے جو آرمی چیف کے عہدے کےلئے امیدوار ہیں۔ اگر جنرل شریف توسیع قبول کر لیتے تو وہ اُنہی افسران کے ساتھ تنازعات پیدا کر لیتے جن کے ساتھ مل کر اِنہیں کام کرنا ہوتا۔

جنرل شریف کے ریٹائرمنٹ کے فیصلے سے عسکری اور سیاسی “اسٹیبلشمنٹ” میں کافی مثبت اثرات رونما ہوئے ہیں۔ اس اعلان سے فوج کی ساکھ بہتر ہوئی ہے  کیونکہ اس سے فوج کی ایک ادارے کی حیثیت سے اہمیت ظاہر ہوئی ہے۔ جنرل شریف کے اعلان کا سیاسی رہنماؤں نے بھی خیر مقدم کیا ہے، جس میں پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان اور پیپلز پارٹی کے سربراہ اور سابق صدرآصف علی زرداری شامل ہیں۔ یاد رہے کہ ریٹائرمنٹ کا اعلان کرنے سے جنرل شریف کا بطورِ چیف باقی وقت بےفائدہ ہر گز نہیں ہوا، جیسا کہ کچھ مبصرین کی رائے تھی۔ مثلاً کوئٹہ میں عسکریت پسند حملے کے بعد جنرل شریف نے بذاتِ خود کوئٹہ جا کر صورتِحال کا جائزہ لیا اور نواز شریف کے ساتھ اعلیٰ سطح کے اجلاس میں شرکت بھی کی۔

جنرل مشرف اور جنرل کیانی کی مثالوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی طور پر مضبوط رہنما بھی خوشامد کا شکار ہو سکتے ہیں۔ مغالطے میں مبتلا عوام اور خوش آمدیوں نے جنرل شریف کی توسیع کو قومی سلامتی کا مسئلہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی مگر ایسا کرنے سے صرف جنرل شریف کی مقبولیت کو نقصان پہنچتا۔     جنرل شریف دو دہائیوں میں وہ  پہلے آرمی  چیف ہیں جنہوں نے اپنے وقت پر ریٹائرمنٹ قبول کی۔انکے اس فیصلے ،بلکہ انکے پورے دورِ اقتدار سے فوج ایک ادارے کی حیثیت سے مضبوط ہوئی ہے۔  تاریخ جنرل شریف کی ان خدمات کوفراموش  نہیں کرے گی، اور ان کے نقش و قدم پر چلنا آسان نہ ہو گا۔

Click here to read an earlier version of this article in English

***

Share this:  

Related articles

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟ Hindi & Urdu

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟

ایران اور پاکستان کے درمیان حالیہ جیسے کو تیسا حملے …