national narrative

پاکستان میں توہینِ رسالت سے متعلق  عوامی احتجاج کی لہرجسکی زد میں وزیرِ قانون زاہد حامد بھی آئے، گزشتہ ماہ کے آخر میں اختتام پذیر ہوئی۔ خادم حسین رضوی  کی قائم کردہ  سخت گیر جماعت تحریک لبیک یا رسول اللہ نے ملک بھر میں مظاہرے کئے اور بالآخر  حکومت کے ساتھ فوج کی ثالثی  پر ایک معاہدہ کر لیا۔

تحریک لبیک نے اپنی سیاسی موجودگی و اہمیت لاہور میں ستمبر میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں ۷۰۰۰ سے زائد ووٹ لے کر ثابت کی۔ تحریک لبیک کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد اچھی خاصی  منظم جماعتوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعتِ اسلامی کے ووٹوں سے زائد تھی۔ نومبر کے ذیادہ تر حصے میں تحریک لبیک کے سینکڑوں مظاہرین نے دارلحکومت کی مرکزی شاہراہ اسلام آباد ہائی وے کو بند کئے رکھا  اور وزیرِ قانون زاہد حامد کو ہٹائے جانے کے ساتھ ساتھ قانون سازوں کے حلف میں  ختمِ نبوت کی شک (جو حضرت محمدﷺ کو آخری نبی ماننے پر ایمان لانےسے متعلق ہے) میں ترمیم کرنے والوں کے خلاف بھی سخت کاروائی کا مطالبہ کیا۔ اگرچہ حکومتِ پاکستان نے ا س ترمیم کو  کلیریکل غلطی مانتے ہوئے  حلف کے الفاظ کو اصلی حالت میں بحال کر دیا تاہم احتجاجی عناصر نے اس سارے عمل کو رد کرتے ہوئے توہینِ رسالت سمجھا اور احتجاج کرتے باہر نکل آئے۔

جہاں ایک طرف احتجاجیوں نے اپنا احتجاج زاہد حامد کے استعفیٰ پر ختم کر دیا وہیں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ملک کی ایک کثیر تعداد مذہبی انتہا پسندی کے خطرے سے دوچار ہے۔ اس  خطرے کی بنیاد دراصل سوشل میڈیا ہے۔ اسلام آباد کے مظاہرین نےسوشل میڈیا کے ذرائع جیسا کہ فیس بک، توئٹر، یو ٹیوب اور وٹس ایپ کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز مواد کی ترویج کی جسے بسا اوقات (سوشل میڈیا پر)  براہ ِراست بھی چلایا گیا۔ کئی ذرائع کے مطابق تحریکِ لبیک کے حمائتیوں نے لوگوں کو تشدد پر اکسایا جس کے نتیجے میں لوگوں کی جائدادوں کو جلایا گیا، پولیس اور ممبران اسمبلی پر حملے ہوئے اور کم از کم ۶ مظاہرین کی موت بھی واقع ہوئی۔

اگرچہ آن لائن  تیز تر اور کانٹ چھانٹ کے بغیر معلومات اور خبروں  سے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ مستفید ہوتا ہے تاہم جب اسی آڑ میں کچھ عناصر تشدد کی ترویج کرتے ہیں تو انتظامیہ کو مناسب اقدامات کرنے ہوں گے۔ پاکستانی حکومت کو پر تشدد نظریے کو روکنے کےلئے ملکی قوانین اور عالمی فرمز کی تکنیکی خدمات لے کر  اقدامات کرنے چاہیئں۔ جہاں بہت سارے ملک اس مخمصے میں رہتے ہیں کہ قومی سلامتی اور اظہارِ رائے کی آذادی میں توازن کیسے برقرار رکھا جائے، پاکستانی حکومت کےلئے بھی یہ لازم ہے کہ  بنیاد پرستی اور تشدد پر اکسانے جیسے مسائل سے نمٹنے کےلئے واضح حکمتِ عملی اختیار کرے۔

تحریکِ لبیک مظاہرے اور سوشل میڈیا کےلئے کمزور قانون سازی؛

نفرت انگیز تقاریر اور مذہبی جذبات کو ہوا دینے والے مواد کی روک تھام سے متعلق حکومتی کوششیں ناکافی ہیں۔ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ“(پیایسیاے) ۲۰۱۶ اور نیشنل ایکشن پلان  دونوں میں  نفرت انگیز تقاریر کو  روائتی اور آن لائن میڈیا پر روکنے کی دفعات موجود  ہیں۔ حکومت پاکستان کے پاس نیکٹا اور فیڈرل انوسٹیگیشن ایجنسی (ایف-آئی-اے)  کے نام سے ادارے بھی  موجود ہے جن کا کام انسدادِ انتہا پسندی اور نفرت بھری تقاریر کی روک تھام ہے۔

اس سب کے باوجود حکومت نے تحریکِ لبیک کے دھرنے کے دوران  اُنکی طرف سے آن لائن انتہا پسندی کی روک تھام کےلئے کچھ نہیں کیا۔ قانونی  اختیار ہونے کے باوجود ایف-آئی-اے اور نیکٹا نے کوئی ایکشن نہ لیا۔ اس قسم کے مسئلے کا شکار محض پاکستان ہی نہیں  بلکہ بہت سے ممالک  ہیں اور وہ اس سے مناسب انداز میں نمٹنے کا طریقہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ تاہم تحریکِ لبیک کی طرف سے زبانی و تحریری خطرات اور نفرت انگیز تقاریر کے ساتھ ساتھ مظاہرین کو  متحرک ہونے سے روکنےمیں ناکامی کےلئے یہ کوئی معقول بہانہ نہیں ہے۔ پی-ای-سی-اے۲۰۱۶ کے مطابق حکومتِ پاکستان کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ نفرت بھری تقریروں  اور انتہا پسندانہ پراپیگنڈہ کو آئین کے آرٹیکل ۱۹ (جو پاکستانی شہریوں کو آذادانہ اظہارِ رائے کی آذادی دیتا ہے) کی اصل ماہئیت پر سمجھوتہ کئے بغیر روکے۔ یہ درست ہے کہ بسا اوقات اظہارِ رائے  کی آذادی اور نفرت آمیز تقریر میں تفریق کرنا ایک مشکل کام ہے  تاہم اس معاملے پر حکومت کو  واضح حکمتِ عملی اپناتے ہوئے  دیکھنا ہو گا کہ وہ انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کو  کیسے استعمال کر سکتی ہے۔

انسدادِ دہشت گردی اور  آذادنہ اظہارِ رائے میں توازن:

پاکستان میں سِول سوسائٹی نے پی-ای-سی-اے کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ یہ قانون شائد افراد کی آذادنہ اظہارِ رائے اور معلومات تک رسائی میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ اس قانون کا غلط یا حد سے ذیادہ استعمال دیکھتے ہوئے حکومت کو آن لائن پُر تشدد  بیانیہ کی بیخ کنی کےلئے محض پی-ای-سی-اے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیئے۔

مثال کے طور پر پاکستان کو سوشل میڈیا کے ماخذ ین سے رابطہ کرنا چاہیئے کہ ڈیجیٹل مواد جو  تشدد پر ابھارتا ہے کو کیسے روکا جا ئے۔ اگرچہ فیس بک ٹوئٹر اور گوگل نے پہلے ہی  انتہا پسندی کی روک تھام کےلئے گلوبل انٹرنیٹ فورم ٹو کاؤنٹر ٹیررِزم جیسے فورمز کا اجرا کر دیا ہےتاہم ان کمپنیوں اور پاکستانی حکام کے مابین اس معاملے پر  ہم آہنگی کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کو ان کمپنیوں کے ساتھ تعاون بڑھاتے ہوئے پُر تشدد مواد کی آن لائن تشہیر  روکنے کےلئے  اقدامات کرنے چاہیئں۔ بروقت اور صحیح اقدامات سے پُر تشدد نظریات کی نفی اور سوشل میڈیا تک پورے ملک میں  درست رسائی ممکن ہوگی۔

حکام کو انتہا پسندی کی روک تھام کےلئے اعتدال پسند پیغامات  کی ترویج کو دوسرے آپشن کے طور پر دیکھنا چاہیئے۔ نیکٹا اور سِول سوسائٹی کی مدد سے  اعتدال پسند مسلم  سکالرز کے پیغامات کو سماجی رابطے کی ویب سائٹس  پر ڈالنا چاہیئے تا کہ وہاں سے انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔

خلاصہ یہ ہے کہ سماجی رابطے پر بنیاد پرست اور انتہا پسند  پراپیگنڈہ کا پھیلاؤ پاکستانی معاشرے کی رگوں میں آہستہ آہستہ زہر کی طرح رچ بس جائے گا تا آنکہ فعال، تخلیقی اور بر وقت اقدامات نہیں کئے جاتے۔ اگرچہ اسلام آباد میں مظاہرے کا اختتام ہو چکا ہے تاہم اس طرح کے واقعات پاکستان کے  مختلف ا لرائے سماجی   سیٹ اپ کو خطرے میں ڈال دیں گے  اور ان کے خلاف اقدامات کچھ اسطرح سے ہونے چاہیئں کہ انفرادی اظہارِ رائے کو زک نہ پہنچے لیکن انسدادِ انتہا پسندی اور پُر تشدد پیغامت کی روک تھام ضرور ممکن ہو سکے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: bm1632 via Flickr (cropped)

Image 2: Aamir Qureshi via Getty

Share this:  

Related articles