Pakistan Flag Cityscape

پاکستانی قوم آپریشن ضربِ عضب کی کامیابیوں سے مکمل مستفید نہ ہوئی تھی کہ دہشت گردوں نے ملک کے طول و عرض میں سفاکانہ کاروائیوں سے ضربِ عضب کے حاصل شدہ اہداف پر سوالیہ نشان ثبت کر دیا ہے۔ گذشتہ مہینے ملک کے چاروں صوبوں کے بڑے شہروں لاہور، کوئٹہ، پشاور اور جامشورو(سہون شریف) یکےبعد دیگرے دہشت گردی کا شکار ہوئے جس میں کم و بیش ۱۰۰ افراد جان سے گئے۔ معمولی مگر انسانی جانوں کے ضیاع پر مشتمل دہشت گردی کے چند واقعات ڈیرہ غازی خان اور مہمند ایجنسی میں بھی ہوئے (جن میں بالترتیب ۴ اور ۵ افراد جاں بحق ہوئے)  تا ہم  سہون شریف اور لاہور کے بڑے نقصانات کی وجہ سے ان واقعات کو میڈیا میں نسبتاً کم جگہ  ملی۔

ان حملوں کےبعد تین طرح کی بحث نے پھر سے زور پکڑا ہے ۱) کیا تازہ کاروائیوں میں بیرونی ہاتھ باالخصوص بھارت یا افغانستان ملوث ہے؟ ۲) کیا ضربِ عضب کے بعد دہشت گردوں نے ایک بار پھر خود کو منظم کر لیا ہے؟ ۳) کیا داعش نے واقعی پاکستان میں اپنا نیٹ ورک قائم کر لیا ہے؟ ان سوالوں کو علیحده علیحده زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھنےکی ضرورت ہے۔

عمومی جائزہ لیا جائے تو پہلے سوال کا جواب آسانی سے “ہاں” میں ملتا ہے۔ ایک بڑی تعداد اس بات پر متفق ہے کہ ملک میں ہونے والی تمام کاروائیوں میں بھارتی ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔اور جب سے  بھارت افغان تعلقات میں گرمجوشی دیکھنے میں آئی ہے تب سے پاکستان کی مغربی سرحد بھی شدید خطرات سے دوچار ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی “را” نے افغانستان میں پنجے مظبوط کیے ہیں جس سے پاکستان میں  بھارتی و افغانی مداخلت  خاصی گہری ہو گئی ہے۔ اس نقطہ نظر میں وزن ہے تاہم   قبائلی علاقوں میں ایک عشرے سے جاری  شورش ، ناقص سہولیات  اور محدود سیاسی و سماجی اختیارات  نے پہلے عدم تحفظ   و محرومیت کو جنم دیا اور پھر کچھ نا دیدہ وقوتوں نے انہی لوگوں کو استعمال کر لیا۔امریکی ڈرون حملوں میں دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ جب معصوم شہری بھی مارے جاتے ہیں تو  بدلے کی چنگاری جنم لیتی ہے اور ایک مرتبہ پھر نا دیدہ طاقتیں اپنے مقاصد کےلئے اس چنگاری کو سلگاتی ہیں جسکا نتیجہ آخرکار دہشت گردی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔اس  ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے دہشت گردی کا الزام یکمشت  بھارت و افغانستان پر عائد کرنا حقائق سے پہلو تہی کرنے کی مترادف ہے۔

دوسرا سوال دہشت گردوں کے پھر سے متحد ہونے کا ہے۔ضربِ عضب شروع ہوئے دو سال سے ذیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے اور اس دوران پاکستان میں  دہشت گردی کے واقعات میں خاصی کمی ہوئی ہے۔ دہشت گردوں کی بڑی تعداد ماری گئی یا سرحد پار افغانستان  جا چھپی۔تاہم حالیہ ۵ دنوں میں ۹ حملوں نے آپریشن کی کامیابی کے دعوے کو چھلنی کر دیا ہے۔ ایسا کیونکر ممکن ہوا؟ اس کا جواب شائد “نیشنل ایکشن پلان” پر مؤثر عمل درآمد نہ ہونا ہے۔ ۲۰ نکاتی نیشنل ایکشن پلان ۲۰۱۴ میں، آرمی پبلک سکول پر سفاکانہ حملے کےبعد سیاسی و عسکری قیادت کی مشترکہ کوششوں سے بنایا گیا ۔لیکن پلان  پر من و عن عمل  سیاسی مصلحتوں  اچھے برے طالبان کی تمیز اور مدارس کی جامع و مؤثر دیکھ بھال نہ ہونے کی بھینٹ چڑھ گیا۔نتیجتاً  دہشت گردوں کو اپنی بکھری صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کا موقع مل گیا  اور اب وہ دوبارہ سے  شدت پسند کاروائیاں کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔

داعش سے متعلق بحث حالیہ حملوں سے قبل ذیادہ تر مفروضوں پر مبنی تھی۔ مزید براں کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اور فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ آئی-ایس-پی-آر کئی مرتبہ داعش کی ملک میں موجودگی کی تردید کرتے رہے ہیں۔ تاہم داعش نے دربار سہون شریف  پر حملے کی نہ صرف ذمہ داری قبول کی بلکہ مزید کاروائیوں کا عندیہ بھی دیا ہے۔ داعش کی طرف سے یہ اعلان یقیناً قانون نافذ کرنے والے اداروں کےلئے ایک نیا امتحان ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے سرحدی و قبائلی علاقہ جات  پیچیدہ،ناہموارمحلِ وقوع اور دونوں حکومتوں کے مابین تلخ تعلقات داعش کویہاں پنپنے کےلئے بہترین  مواقع مہیا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں ایک طبقہ داعش کے نظریہ اور کاروائیوں کا مکمل حمائتی ہے اور بہت سے مدارس اس نظریہ کی ترویج بھی کرتے ہیں –عراق اور شام میں امریکہ و دیگر ملکوں کی فوجی کاروائیوں  سے داعش کا وجود اور آپریشن متاثر ہوا ہے جسکے بعد تنظیم یقیناً دیگر علاقوں کا رخ کر رہی ہی۔ داعش کا پاکستان میں  پنجے گاڑنا آسان بھی ہے اور خارج از امکان بھی نہیں۔

اگرچہ دہشت گردی کی حالیہ لہر نے   سکیورٹی اداروں کو مزید چوکنا کر دیا ہے اور ملک کے طول وعرض میں  کومبنگ آپریشن بھی شروع ہو چکے ہیں تاہم اس جنگ کو جیتنے کےلئے اصل مسائل  کو دیکھنا ہو گا۔  ایسے افراد، مدارس اور پالیسیوں کی بیخ کنی کرنی ہو گی جو نیشنل ایکشن پلان پر صحیح معنوں میں عمل نہیں کرنے دے پا رہے۔ اچھے برے طالبان کی تمیز بھی دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں رکاوٹ کا باعث ہے۔  پاکستانی سیاسی اور عسکری پالیسی سازوں کو اب یہ بات بھی سمجھنی ہو گی کہ افغانستان حکومت سے تعلقات کو منقطع کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ دہشت گردی کی لعنت سے چھٹکارا دوطرفہ تعاون اور باہمی مشاورت سے ہی ممکن ہو سکےگا۔

Image 1: Flickr, bm1632

Image 2: Getty, Asif Hassan

Posted in:  
Share this:  

Related articles

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا Hindi & Urdu

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا

کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے…

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…