ghani-2-rajeshswar-1600×900

نئی  امریکی انتظامیہ کے پہلے ۹ مہینے کے دوران پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں قابل ذکر سرد مہری دیکھی گئی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ   نے افغان پالیسی سے متعلق  اپنی تقریر میں پاکستان سے متعلق تنقید کے نشتر چلائے۔ تاہم صدر ٹرمپ کی طالبان سے الحاق شدہ گروپ حقانی نیٹ ورک کی گرفت سے کینیڈین جوڑےکی بازیابی  پر بیان کو ذیادہ  مثبت  انداز میں لیا گیا۔انکا کہنا تھا کہ “پاکستانی حکومت کے تعاون کا مطلب ہے کہ وہ  امریکہ  کی ڈومور کی خواہش پر کان دھر رہا ہے اور جس سے خطے میں سکیورٹی یقینی بنائی جا سکے گی”۔عین ممکن ہے کہ پاکستانی ریاست پر امریکہ کی طرف سے یہ تازہ اعتماد  دونوں ملکوں کے درمیان خلیج کم کر دے لیکن اس کا انحصار اس امر پر ہے کہ دونوں اطراف سے اس نئے تعاون کو کیسےآگے بڑھایا جاتا ہے۔

پاک-امریکہ تعلقات کی صورتحال کا دارومدار حالیہ چار ملکی کوآرڈینیشن گروپ  ( جو افغانستان، پاکستان، چین اور امریکہ کے نمائندوں پر مشتمل ہے اور جس کا مقصد افغان حکومت اور طالبان کے مابین بات چیت کو دیکھنا ہے) کے اجلاس پر ہے  جسکا کابل سے باہر اچھا خاصا سیاسی و علاقائی اثر ہے۔  اومان کے شہر  مسقط میں  ہونے والا حالیہ اجلاس ۲۰۱۵کے بعد اس گروپ کا چھٹا اجلا س تھا۔

قابلِ غور یہ بات تھی کہ طالبان مسقط میں ہونے والی بات چیت میں شامل نہیں ہوئے۔ اس اجلاس سے ایک ہفتے قبل طالبان نے اپنی  بیٹھک میں مسقط اجلاس میں شمولیت نہ کرنے کا فیصلہ کیا حالانکہ ان کو مدعو بھی کیا گیا تھا۔ طالبان کی عدم شرکت مئی ۲۰۱۶ میں پاکستان(کوئٹہ) میں امریکی ڈرون حملےمیں اُنکے رہنما ملا اختر منصور کے مارے جانے کا ردِ عمل ہو سکتا ہے۔ طالبان کی عدم شرکت، اس فورم کی ناقابلِ بھروسہ ساخت اور پاک-امریکہ تعلقات میں حالیہ تناؤ کے باوجود   یہ پلیٹ فارم چار ملکوں کو امن عمل سے متعلق اپنے اختلافات کو کم کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اسی لئے اس فورم کی  کامیابی و ناکامی کا دارومدار  دو عناصر پر  ہے_ پاک-افغان دوطرفہ تعلقات، اور  یہ کہ پاکستان ٹرمپ انتظامیہ کی دہشت گردگروہوں (جو افغانستان کے اندر حملہ آور ہوتے ہیں) سے نمٹنے کے نئے عزم کو کس حد تک سنجیدہ لیتا ہے۔

پاکافغان تعلقات

شائد پاک-افغان تعلقات کی اہمیت کی وجہ تھی کہ افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے چار ملکی بات چیت سے قبل کہا کہ” پاک-افغان تعلقات کو زیرِ بحث لایا جائے گا”۔  افغانستان کے پاکستان سے ساتھ دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ طالبان کے معاملے پر بھی دیرینہ مسائل ہیں۔ افغان حکومت نے بالخصوص پاکستانی حکام پر طالبان عناصر کو  مغربی قبائلی پٹی پرمحفوظ پناہ گاہیں مہیا کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ جب ہم افغان حکومت اور آرمی پر پے درپے حملے دیکھتے ہیں تو یہ الزامات اہمیت اختیار کر جاتے ہیں چونکہ ابھی گزشتہ دنوں ہی ایک حملے میں  افغان سکیورٹی فورسز کے ۵۸ جوان جاں بحق ہو گئے تھے۔

جہاں افغان حکومت یہ الزام عائد کرتی ہے کہ پاکستانی و افغان طالبان کے آپس میں باہمی روابط ہیں، کچھ اشارے ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کا ( طالبان) حقانی نیٹ ورک پر اثر ماند پڑ رہا ہے۔ ۲۰۱۴ میں آرمی پبلک سکول پر حملے میں ۱۳۱ بچے شہید ہو گئے تھے اور یہ حملہ پاکستانی طالبان کے رہنما ملا فضل اللہ کے کہنے پر کیا گیا تھا۔ پاکستانی حکام حقانی نیٹ ورک کے فضل اللہ (یا پاکستانی طالبان) سے تعاون کو روکنے میں ناکام رہے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ فضل اللہ افغانستان میں چھپے بیٹھا ہے۔ یہ مسائل مصالحت سے متعلق  چار ملکی پلیٹ فارم سے کسی بھی بات چیت کو خطرات سے دوچار کر دیتےہیں ۔

پاکامریکہ تعلقات میں حائل خلیج کو روکنا؛

پاکستان کے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات بھی چار ملکی کوآرڈنیشن گروپ  کے مستقبل اور افغان امن عمل کےلئے اہمیت کے حامل ہیں۔ چاہے صدر ٹرمپ امداد کی منسوخی یا معطلی کی دھمکیوں کی پالیسی اپنائیں یا دیگر طریقوں سے پاکستانی  تعمیل حاصل کریں، یہ بات یقینی ہے کہ اُنکی  دھمکی آمیز لہجے نے پاکستانی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ  کو متوجہ کر دیا ہے۔ مسقط اجلاس اور پاکستانی وزیرِ خارجہ خواجہ آصف اور وزیرِ داخلہ احسن اقبال کی امریکہ یاترا  اور پھر صدر ٹرمپ کی سخت زبان پر پاکستانی ردِ عمل  کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ واقعات اہم ہیں چونکہ پاک-امریکہ تعاون نہ صرف افغان امن عمل بلکہ خطے کے استحکام کےلئے بھی   ضروری ہے۔ اور صدر ٹرمپ کی اپنے مغویوں کی رہائی کی بعد گفتگو میں تبدیلی  اسی تناظر میں ہے۔ پاکستان بھی اس خیر سگالی کو بہتر انداز میں چلانے کا خواہاں ہے۔ پاکستانی آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی اس مہینے کو اوائل میں افغانستان کا دورہ دونوں ملکوں کے بیچ برف پگھلانے کا باعث بنا۔ امریکی وزیرِ دفاع جنرل میٹس کا کہنا تھا کہ”پاکستانی آرمی چیف کے افغانستان کے دورے کے بعدکابل میں   دراصل ایک امید پائی جاتی  کہ اس سے ایک نئے باب کا اضافہ ہو گا“۔ بظاہر لگتا ہے کہ  اس حالیہ خیر سگالی سے  مسقط میں بات چیت کی راہ ہموار ہوئی۔

تاہم کسی بھی قسم کی پاک-امریکہ مفاہمت کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرے گی جیسا کہ امریکی ارادوں کے بارے میں پاکستانی عوام میں بد اعتمادی اور خود پاکستان کے اندر عسکری اور سول اداروں کے بیچ اعتماد کا فقدان۔ اسکے ساتھ ہی یہ بات بھی واضح ہوئی ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ تقریباً ہر معاملے میں غیر روائتی ثابت ہوئے ہیں اور امریکہ کے کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات کو جانچنا غیر متوقع ہو گیا ہے۔ اس غیر یقینی کی فضاء میں چار ملکی کو آرڈینیشن گروپ کےلئے ایک موقع پیدا ہوا ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرتے ہوئے صحیح اور بامعنی بات چیت کی راہ ہموار کر سکے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: DFID, via Flickr.

Image 2: Noorullah Shirzada via Getty Images.

Share this:  

Related articles

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا Hindi & Urdu

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا

کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے…

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…