ہندوستان میں اے آئی ٹی سی اس وقت شہ سرخیوں کا شاخسانہ بنی جب شمال مشرقی ریاست میگھالیہ میں انڈین نیشنل کانگریس کی قانون ساز اسمبلی کی ۱۷ میں سے۱۲ اراکین نے اپنی پارٹی سے منحرف ہو کر اے آئی ٹی سی میں شمولیت اختیارکی اور یہ پارٹی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی بن کر ابھری۔ یہ حیرت انگیزمعاملہ بہت سے دیگر ممبران قانون ساز اسمبلی اور پارلیمنٹ کے ارکان کا اپنی پارٹی چھوڑ کے اے آئی ٹی سی میں شمولیت کے ساتھ بھی پیش آیا۔ اراکین پارلیمنٹ کا ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں اے آئی ٹی سی میں شمولیت اختیار کرنا، جب کے اے آئی ٹی سی ایک علاقائی پارٹی ہے، اسکی قومی اپیل پیدا ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کے اے آئی ٹی سی ایک خاص اپوزیشن پارٹی کے طور پر انڈین نیشنل کانگریس کی جگہ لی سکتی ہے۔ یہ فیصلہ کن تبدیلی ۲۰۲۱ کے علاقائی انتخابات کے بعد سامنے آئی جس میں سپریمو ممتا بینرجی نے علاقائی لیڈر کے طور پر اپنی جگہ مستحکم کی جو بی جے پی کے ماتحت مرکزی حکمت کو بھی چیلنج کر سکتی ہے۔
اے آئی ٹی سی کے عروج کو ہندوستان کی تحریک آزادی کی قیادت کرنے والی مرکزی بائیں بازو کی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے زوال کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کیا جا سکتا۔ ملک گیر انحراف، تاہم، ہندوستان کی سیاست میں ایک طویل مدتی سیاسی خلا کی عکاسی کرتا ہے۔ پچھلی دہائی کے دوران ایک سیاسی وجود کے طور پر انڈین نیشنل کانگریس کے منظم زوال نے ہندوستان کی چھوٹی، علاقائی پارٹیوں کو اپنے ابتدائی علاقائی سیاق و سباق سے آگے بڑھنے پر مجبور کیا ہے۔ اگرچہ اس نے اے آئی ٹی سی کو اپوزیشن کی قیادت کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، لیکن اسے سب سے پہلے اہم ہندوستانی ریاستوں میں اپنی موجودگی کو مضبوط کرنا ہوگا جس میں اتر پردیش جیسی سیاسی طاقت بھی شامل ہے کیونکہ یہ ہندوستانی مقننہ میں کئی اراکین فراہم کرتی ہے۔ اسی طرح، اے آئی ٹی سی کو ایک قومی سیاسی پارٹی کے طور پر اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے شمالی ہندوستان میں عام آدمی پارٹی جیسی علاقائی سیاسی جماعتوں کے ساتھ سیاسی اتحاد بنانے کی بھی ضرورت ہے۔
انڈین نیشنل کانگریس کا زوال
ایک طرف انڈین نیشنل کانگریس نے ہندوستان کو آزادی تک پہنچایا اور کئی دہائیوں تک برسرِ اقتدار رہی، ما سوائے چند مختصر وقفوں کے، خاص طور پر ۱۹۷۵- ۱۹۷۷ کی ایمرجنسی کے بعد ۱۹۹۰ کی دہائی نے کانگریس کے لیے سیاسی قوت کو فیصلہ کن طور پر تبدیل کر دیا۔ اس وقت، سوشلسٹ سماج وادی پارٹی جیسی سیاسی تنظیمیں منظرعام پر آئیں جو ہندوستان میں مختلف ذاتوں خصوصاً دیگر پسماندہ ذاتوں (او بی سی) کی نمائندگی کرنے کا وعدہ کرتی تھیں۔ بابری مسجد کے انہدام اور مندر کی تعمیر کے پس منظرمیں ہونے والی سیاست نے بی جے پی کی سیاسی طاقت کو مضبوط کیا۔
انڈین نیشنل کانگریس نے ۲۰۰۴ میں ہندوستان میں ہونے والے عام انتخابات جیتنے کے بعد دوبارہ سیاسی قوت اور اقتدار حاصل کیا جو اگلی دہائی تک برقرار رکھا۔ تاہم ۲۰۱۰ کی دہائی کے اوائل تک، آئی این سی کی زیرقیادت حکومت کے خلاف لگائے گئے بدعنوانی کے الزامات، کمزور ہوتی ہوئی معیشت، اور گاندھی خاندان کی غیر مقبولیت، جس نے برسوں سے پارٹی کی قیادت کی تھی، نے وزیر اعظم نریندرمودی کی قیادت میں بی جے پی کے عروج کو ممکن بنایا ہے. رائے دہندگان نے مودی کوریاست گجرات (جس نے مودی دور میں نمایاں صنعتی ترقی کی) کے قابل منتظم اور وزیر اعلیٰ کے طور پر دیکھا۔ مودی کی پرکشش شخصیت نے انڈین نیشنل کانگریس کے امیدوار راہول گاندھی کی سختی اور ترشی کو متنازعہ کردیا۔ گاندھی کو نااہل، نا تجربہ کار لیڈر، اور خاندانی امیدوار کے طور پر دیکھا گیا، جس نے ۲۰۱۴ کے ہندوستان کے عام انتخابات کے دوران مودی کی حمایت کو تقویت بخشی۔
تاہم، بی جے پی کا عروج اپوزیشن جماعتوں کی منظم کمزوری ہونے کے ساتھ وقوع پزیر ہوا۔ بی جے پی نے اپنے ہندوتوا ایجنڈے، دیگر پسماندہ ذاتوں اور مذہبی اقلیتی برادریوں کو شامل کرنے کے ارادے کو وسعت دے کر اہم ریاستوں میں اقتدار حاصل کیا، جس سے وہ سیاسی طور پر کمزور بھی ہوئے۔ اس طرح بی جے پی نے صرف اے آئی ٹی سی جیسی فریق مخالف پارٹیوں کے لیے قومی سطح پر پسماندہ لوگوں کے مفادات کی نمائندگی فراہم کر کے خود کو غیر ہندوؤں سے مزید دور کر دیا ہے۔
ممتا بینرجی اور اے آئی ٹی سی کا عروج
اے آئی ٹی سی ایک بنیادی سطح کی پارٹی ہے جو ملک کی مجموعی ترقی میں یقین رکھتی ہے اور اقلیتوں سمیت تمام برادریوں کے مفاد کی نمائندگی کرتی ہے۔ پارٹی ایک لبرل نظریے کی پیروکاری اور وکالت کرتی ہے جو اسے ایک ایسے وقت میں بی جے پی کے لیے ایک قابل عمل جوابی بیانیہ مہیا کرتی ہے جب حکومت ہندوستان میں تفرقہ بازی کا پرچار کر رہی ہے۔
چونکہ خواتین ووٹرز کو ہندوستانی سیاست میں ایک اہم ووٹ بینک کے طور پر سمجھا جاتا ہے اور سیاسی بے حرمتی اور توہین نے اقلیتی خواتین کو کمزور کردیا ہے، ممتا بینرجی خود کو ایک خاتون لیڈر، جو ان کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہیں، کے طور پر پیش کرسکتی ہیں۔ وہ موجودہ دور میں ہندوستان کی واحد خاتون وزیر اعلیٰ ہیں اور اپنی مقبول سماجی منصوبوں کی کامیابی کی وجہ سے پہلے ہی مغربی بنگال میں خواتین ووٹرز کی وفاداری حاصل کر چکی ہیں۔
موجودہ ووٹروں کی ضروریات کے تئیں بے حس ہونے کی بنا پر انڈین نیشنل کانگریس پر صریحاً تنقید کرتے ہوئے، بینرجی نے اے آئی ٹی سی کو انڈین نیشنل کانگریس کی میراث کے حقیقی وارث کے طور پر پیش کیا ہے۔ ایک ایسی پارٹی کے طور پر جو ”سماجی طور پر منصفانہ سروس ڈیلیوری ماڈل“ کوبروے کار لاتے ہوئے ووٹر پر حکومت کرتی ہے اورخواتین کی جامع فلاحی اسکیموں پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ صنعتی ترقی ان کے گورننس/انتظامی ماڈل کا ایک اور محور ہے جس کا مقصد سرمایادار کی سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے، یہاں تک کہ بڑے کاروباری اداروں کو مغربی بنگال میں کاروبار کی بنیاد مل سکے۔ اگر وہ قومی سطح پر اقتدارکے لیے منتخب ہو جاتی ہیں، تو ان سے توقع ہے کہ وہ اسی انتظامی ماڈل کو دہرائیں گی اور باہم تعاون پر مبنی وفاقیت کا دفاع کرتے ہوے علاقائی جماعتوں کو فیصلہ سازی کا زیادہ اختیار فراہم کریں گی۔ ان کا ریاستی حکومتوں کے تئیں مفاہمت پر مبنی نقطہ نظر ان کے اتحادیوں کو فتح یاب کروا سکتا ہے کیونکہ ریاستی حکومتوں کے کئی سالوں سے ٹیکس لگانے اور وسائل کی تقسیم جیسے اہم مسائل پر بحث مباحثہ نے ہندوستانی سیاست کے نیم وفاقی ڈھانچے کو بگاڑ دیا ہے۔
آخر کار، اے آئی ٹی سی نے گوا، منی پور اور دیگر ہندوستانی ریاستوں میں حامیوں کو متاثر کرکے اپنی ساخت میں اضافہ کیا ہے اور بینرجی کی کوششوں نے ان کی تعریف حاصل کی ہے۔ ایک ہندی اخبار نے یہاں تک کہا کہ بنگال کی بیٹی میں (اپنے قومی عزائم کے واضح حوالے سے) بھارت کی بیٹی بننے کی صلاحیت ہے۔
قومی سطح پر اے آئی ٹی سی کی محدود موجودگی/نمائندگی
اس کے باوجود، اے آئی ٹی سی کی علاقائی بنیاد کو دیکھتے ہوئے بھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا دیگر علاقائی جماعتوں کوضم کرنے کی کوششیں مغربی بنگال سے آگے بینرجی کی سیاسی جماعت کے لیے انتخابی مینڈیٹ میں اضافہ فراہم کریں گی۔
آئی ٹی سی کے پاس فی الحال اتر پردیش، راجستھان اور گجرات جیسی ریاستوں سمیت شمالی ہندوستان میں اپنی کم نمائندگی کی وجہ سے قومی سطح پر سیاسی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے کے لیے مناسب اثر و رسوخ نہیں ہے۔ یہ ریاستیں مجموعی طور پر ۱۲۰ سے زیادہ ممبران پارلیمنٹ لوک سبھا بھیجتی ہیں۔ اے آئی ٹی سی کو اروند کیجریوال کی قیادت والی اے اے پی کے ساتھ اتحاد کرنا چاہئے تاکہ اتر پردیش اور اتراکھنڈ جیسی ریاستوں میں قدم جما سکیں، جہاں اے اے پی تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے دائرے میں اپنے ترقیاتی اقدامات پر توجہ مرکوز کرکے بی جے پی کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ یہ ممکنہ طور پر بی جے پی کے ساتھ نظریاتی جنگ میں شامل ہونے سے زیادہ موثر حکمت عملی ہے۔ اسی طرح، اے آئی ٹی سی قومی سطح پر ایک پائیدار اتحاد بنانے اور ہندی ریاستوں میں عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے انڈین نیشنل کانگریس اور علاقائی جماعتوں جیسے سماج وادی پارٹی کے ساتھ بات چیت کر سکتی ہے۔
اے آئی ٹی سی، فی الحال فوری طور پر، ہندوستان کی مشرقی اور شمال مشرقی ریاستوں میں ایک سیاسی کھلاڑی کے طور پر اپنی پوزیشن مضبوط کر سکتی ہے۔ وہ ان ریاستوں میں لگاتار انتخابات جیت کر ہی اپنی سیاسی حیثیت کو مستحکم کر سکتی ہے۔ شمال مشرق — جسے روایتی طور پر ہندوستانی سیاست میں ایک سیاسی قوت کے طور پر نظر انداز کیا گیا ہے — کو ممتا بینرجی کی صورت میں سیاسی رہنما مل سکتا ہے۔ سات شمال مشرقی ریاستیں، جو اتحادی مغربی بنگال کے ساتھ شراکت میں ہیں، اس عمل میں قومی سیاست میں ایک بڑا حصہ بن سکتی ہیں۔
***
Click here to read this article in English.