arg-in-kabul-4c0795-1024

طالبان کی جانب سے 15 اگست2021 کو اشرف غنی کی حکومت کا کامیاب تختہ اُلٹنے نے علاقائی جغرافیائی سیاسی جِہت میں ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی کی۔اسلام آباد کے لیے طالبان کی واپسی کو ابتدائی طور پر ایک تزویراتی فتح کے طور پر دیکھا گیا۔پاکستان میں مذہبی رہنماؤں، سیاست دانوں اور میڈیا اینکرز  نے اعلانیہ جشن منایا جبکہ انٹر سروسز انٹیلی جنس کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی آئی ایس آئی) فیض حمید نے کابل کا تاریخی دورہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ افغان طالبان کے اقتدار میں آنے سے ’’سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔اس سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ پاکستان نے افغانستان میں اپنی تزویراتی عُمُق (اسٹریٹیجک  ڈپتھ) دوبارہ حاصل کر لی ہے۔دوسری جانب بھارت کے لیے، بالخصوص افغانستان کے ترقیاتی اور فوجی تربیتی پروگراموں میں دو دہائیوں کے دوران بھارت کی جانب سے تین بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کو مدِنظر رکھتے ہوئے، طالبان کی اقتدار میں واپسی کو تزویراتی پس قدمی اور سلامتی کے حوالے سے اُبھرتے ہوئے نئے خدشات کے طور پر دیکھا گیا۔تاہم گزشتہ ساڑھے تین سالوں نے ان ابتدائی اندازوں کی نفی کی ہے، جس کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کے مقابلے میں طالبان کی تزویراتی ترجیحات اور ان کے علاقائی مقاصد کے بارے میں بہت سی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔

طالبان کی پاکستان سے حیران کن علیحدگی

گزشتہ تین سالوں میں پاکستان کو طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات میں ایک نئی حقیقت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ان کے تعلقات کی موجودہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ طالبان پاکستان کے خلاف اپنے شکوؤں اور کینے سے آگے نہیں بڑھے اور نہ ہی وہ امریکی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں (پاکستانی) فوج کے کردار کو بھولے ہیں۔پاکستان میں طالبان رہنماؤں کی اسیری اور ان کے امیرِ اعلٰی (سپریم لیڈر ) ملا اختر منصور کے قتل کی یاد ان کے ذہنوں میں تازہ  ہے، جو ہر سال 15 اگست کو ان کی سالانہ فتح کی تقاریر میں دوبارہ سامنے آتی ہے۔اسلام آباد میں طالبان کے سابق سفیر عبدالسلام زیف کی تحریر کردہ سوانح حیات ‘مائی لائف ود دی طالبان‘ (طالبان کے ساتھ میری زندگی) طالبان ممبران میں بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہے، جن میں سے بہت سے افراد نے پاکستانی فوج کی جانب سے ان کی گرفتاری اور مابعد امریکہ حوالگی کی صریح (گرافک) تفصیلات ازبرکر رکھی ہیں۔

گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں پاکستان کو سلامتی سے متعلقہ خطرات میں اضافے کا سامنا کرنا پڑا ہے جس میں  فوجی اہداف بنیادی مرکوز ہیں۔اطلاعات (رپورٹس ) ظاہر کرتی ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی حکمرانی کے پہلے سال میں پاکستان میں حملوں میں دُگنا اضافہ ہوا۔ حال ہی میں عالمی دہشت گردی کےاشاریہ2025 ( گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025) میں پاکستان کو 163 ممالک میں دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہے، جس نے گزشتہ سال کے دوران دہشت گرد حملوں میں ہونے والی اموات میں 45 فیصد اضافے (اور) مجموعی طور پر ہونے والی1,081 ہلاکتوں کی طرف توجہ مبذول کرائی۔

اشاریہ (انڈیکس) کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) دنیا کی چار مہلک ترین دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہے۔گو کہ ٹی ٹی پی نے 2024 میں (شمار میں) سب سے زیادہ حملے کیے ، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) 2025 کے اب تک کے مہلک ترین دہشت گرد حملے کی ذمہ دار ہے ، جس نے ایک مسافر ٹرین کو ہائی جیک (اغوا)  کیا اور یرغمال بنائے گئے 50 پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا دعوٰی کیا۔ پاکستان افغانستان پر بی ایل اے کے عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کرتا ہے اور دعوٰی کرتا ہے کہ یہ جنگجو (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مل کر اور کابل کی سرپرستی میں افغان سرزمین سے کام کرتے ہیں۔

اسلام آباد متواتر کابل کو اپنے بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کا ذمہ دار قرار دیتا رہا ہے اور افغانستان میں سرگرم ایک درجن سے زائد دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں کو روکنے میں طالبان کی ناکامی پر تنقید کرتا رہا ہے۔جواباً طالبان نے 11 فروری کو ہونے والے قندوز بم دھماکے جیسے حملوں  کو منظم کرنے میں’’بیرونی عناصر‘‘(ایکسٹرنل ایجنٹس) پر انگلیاں اُٹھائی  ہیں۔ افغانستان میں”بیرونی عناصر” کا صیغہ ماضی میں (بھی) پاکستان کی آئی ایس آئی کے لئے ایک کنایہ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان سرحدی جھڑپیں معمول بن چکی ہیں اور دونوں فریقین اکثر فائرنگ کا تبادلہ اور ایک دوسرے کی سیکیورٹی چوکیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔گزشتہ سال جب پاکستان نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے خفیہ ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے فضائی حملہ کیا تو اس وقت کشیدگی مزید بڑھ گئی۔طالبان نے اسے افغانستان کی علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا اور اس کا جواب دینے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے دعوٰی کیا کہ حملے میں بے گناہ خواتین اور بچے ہلاک ہوئے، جِسے انہوں نے ’’صریحاً جارحانہ اقدام‘‘ قرار دے کر اُس کی مذمت کی۔ تاہم بھارت نے کابل کا ساتھ دیا اور پاکستان کے طریقِ عمل کی مذمت کی جبکہ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا، ’’اپنی داخلی ناکامیوں کا الزام اپنے ہمسایوں پر دھرناپاکستان کی دیرینہ روایت ہے‘‘۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران بھارت کابل سے متعلق
 اپنے سفارتی نقطۂِ نظر کا ازسرِنو جائزہ لیتا اور تعدیل کرتا جا رہا ہے۔اکتوبر 2023 میں سابق افغان سفارت کاروں کے بیانات کے مطابق طالبان کے دباؤ  کے زیرِ اثر ایک اقدام کے طور پر دہلی میں اسلامی جمہوریہ افغانستان کا سفارت خانہ بند کر دیا گیا تھا۔جنوری 2025 میں بھارت کے سیکریٹری خارجہ اور طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد طالبان نے اعلانیہ بھارت کو ایک ’’اہم علاقائی اور اقتصادی طاقت‘‘ قرار دیا ۔

بھارتی علاقائی عملیت پسندی (پریگمیٹزم) اور طالبان

سفارتی راہیں (چینلز) کُھلی رکھنا بھارت اور طالبان دونوں کے لئے مفیدہے۔بھارت کے لیے کابل میں موجودگی افغانستان میں چینی اثر و رسوخ کی کسی ممکنہ توسیع کا براہ راست مشاہدہ یقینی بناتی ہے۔مزید برآں نئی دہلی افغان سرزمین سے پیدا ہونے والے کسی بھی ممکنہ سلامتی سے متعلق خدشے سےمحتاط ہے۔ایک اور ممکنہ تزویراتی ملحوظ چابہار بندرگاہ ہے، جسے بھارت نے وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کے لیے پاکستان کی کراچی بندرگاہ کو بائی پاس (نظر انداز کرکے ضمنی راستہ اختیار) کرنے کے لیے تیار کیا ہے۔چابہار سے ازبکستان اور تاجکستان تک کا مختصر ترین راستہ افغانستان سے گزرتا ہے جس کی وجہ سے طالبان کے ساتھ مستقل روابط بھارت کے لیے ایک معقول انتخاب بن جاتے ہیں۔

طالبان کے لیے بھارت کے ساتھ تعلقات سفارتی اور معاشی دونوں طرح  سے مفید ہیں۔
نئی دہلی کے ساتھ روابط استوار رکھنا بین الاقوامی سطح پر علاقائی قبولیت کا تاثر دیتا ہے جبکہ اندرون ملک معمول کی صورتحال اور استحکام ظاہرکرتا ہے۔ معاشی طور پر طالبان افغانستان کے تجارتی راستوں کو متنوع بنانے، پاکستان پر انحصار میں کمی لانے اور اسلام آباد کی طرف سے سرحدی گزرگاہوں چمن اور طورخم کی بارہا بندش کے اثرات کو کم  کرنے کے لیے چابہار کو فعال کرنا چاہتے ہیں۔

علاقائی تجارت میں طالبان کی بڑھتی ہوئی دلچسپی، بالخصوص چا بہار کے ذریعے ،بھارت کے طویل المدتی اقتصادی عزائم سے مطابقت رکھتی ہے۔مزید برآں طالبان چابہار کے ذریعے امریکی پابندیوں سے افغان تجارت کی استثنا کو برقرار رکھنے میں سفارتی گٹھ جوڑ  کے لیے بھارت سے اُمید رکھ سکتے ہیں۔

 علاوہ ازیں، ممکن ہے کہ طالبان بھارت کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کو مستقبل میں اپنے فضائی دفاع کو بہتر بنانے کے امکانی موقع کے طور پر دیکھتے ہوں۔(طالبان)حکومت کے قائم مقام وزیر دفاع ملا یعقوب نے ڈرونز کی مسلسل موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے بارہا افغانستان کی فضائی حدود کو ’’مقبوضہ‘‘قرار دیا ہے۔جولائی 2023 میں سینئر طالبان رہنما عباس ستنکزئی نے ہمسایہ ممالک (کی جانب سے) ڈرون بھیجنے پر افغان فضائی حدود کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا۔دریں اثنا طالبان کی وزارت دفاع کےشعبۂ نقل و حمل (لاجسٹکس ڈپارٹمنٹ) کے سربراہ نے روس سے فضائی دفاعی نظام خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔تاہم، طالبان کی مالی اور تکنیکی مجبوریوں کے پیش نظرروسی (دفاعی) نظام کا حصول اور اسے چلانا محال نظر آتا ہے۔اس کے برعکس بھارت کا حال ہی میں تیار کردہ انتہائی مختصر فاصلے تک مار کرنے والا ایئر ڈیفنس سسٹم (وی ایس ایچ او آر اے ڈی) طالبان کو درپیش ڈرون خطرات کے خلاف زیادہ قابل عمل آپشن ثابت ہوسکتا ہے۔

طالبان کا قوم پرستانہ موقف اور پاکستان کا تذبذب

حالیہ تاریخ کے علاوہ  ایسے دیگر محرکات بھی موجود ہیں جو پاکستان سے متعلق طالبان پالیسیوں کو ڈھالتے ہیں۔ ایک اہم داخلی محرک پیادہ فوج اور مدرسوں سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو مطمئن کرنے کے لیے جہادیوں  کے حامی مضبوط موقف کو برقرار رکھنے کی ان کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، طالبان کی عبوری انتظامیہ کے اہم عہدے دار، جیسے قائم مقام وزیر دفاع مجاہد، جو طالبان کے بانی اور مرحوم رہنما ملا عمر کے بیٹے ہیں، “قومی مفادات” اور “علاقائی سالمیت” کے الفاظ اپنا کر، جن کی نسبت ماضی میں سابقہ افغان حکومتوں کے ساتھ تھی، شہری افغان قوم پرستوں کے ساتھ مشترکہ تعلق پیدا کرنے کے خواہاں ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان تنازع کی ایک اور وجہ ڈیورنڈ لائن ہے۔شہری افغان قوم پرستی کے بنیادی نظریوں میں سے ایک ڈیورنڈ لائن کو پاکستان کے ساتھ ایک بین الاقوامی سرحد کے طور پر مسترد کرنا ہے۔دسمبر 2023 میں طالبان کے قائم مقام وزیر برائے سرحدی اور قبائلی امور، نور اللّٰہ نوری نے طورخم کراسنگ کے ٹیلی وائزڈ دورے کے دوران اس  موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا، “ہمارا پاکستان کے ساتھ زیرو پوائنٹ نہیں ہے۔ ڈیورنڈ لائن ایک فرضی لائن ہے”۔

ماضی میں سابقہ افغان حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے پاکستان نے سرحدوں کی بندش اور افغان مہاجرین کی جبری وطن واپسی کی دھمکی کو آلۂ کار بنایاہے ۔تاہم گزشتہ تین سالوں نےظاہر کیاہے کہ ان  حربوں کا طالبان پر بہت کم اثر ہے۔ 2023 سے اب تک تقریباً ایک ملین افغان پناہ گزینوں کو جبری طور پر وطن واپس بھیجنے کے باوجود پاکستان طالبان سے اہم مراعات حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ 2025 تک باقی افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے منصوبوں سے پاکستان کے اثر و رسوخ میں ممکنہ طور پرمزید کمی آئے گی جبکہ کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ اگر پاکستان دباؤ ڈالنے کے اپنے حربوں کو ترک کر دیتا ہے، تو  بھی اس سے طالبان کابھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے سے پیچھے ہٹنےکا امکان نہیں ہے۔

 بدلتا ہوا جغرافیائی سیاسی منظر نامہ

آنے والے برسوں میں  امکان ہے کہ طالبان، ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی قسم کےرسمی تعلقات کاانکار کرتے رہیں گے اورپاکستان کی حمایت میں گروپ کے خلاف کسی فیصلہ کن کارروائی سے گریز کریں گے۔پاکستان کے ساتھ طورخم کراسنگ پر حالیہ جھڑپوں اور تجارتی  بندش نے تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا ہے، جس کی وجہ سے طالبان نے مزید جارحانہ رویہ اختیار کر لیاہے۔مزید برآں، 1990 کی دہائی میں طالبان کی کارکردگی (ٹریک ریکارڈ) اور امریکہ کے ساتھ دوحہ مذاکرات کے دوران ان کے سخت موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کا پاکستان کو رعایت دینے کا امکان نہیں ہے ۔

اس سے طالبان کے لئے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار رکھنے کی اہمیت مزید اجاگر ہوتی ہے۔امکان ہے کہ گزشتہ دسمبر میں افغانستان کے اندر پاکستانی فضائی حملوں نے طالبان کی جلد از جلد فضائی دفاعی نظام حاصل کرنے کی ضرورت کو بڑھا دیا ۔دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے تعلقات کو مضبوط بنانا طالبان رہنماؤں کو اپنی عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے بغیر بھارت کے ساتھ بات چیت کرنے کا مذہبی جواز فراہم کرتا ہے۔لہٰذا بھارت کی جانب سے فضائی دفاعی نظام کی فروخت پر بات چیت کا کوئی بھی عندیہ تزویراتی طور پر طالبان اور بھارت کو قریب لائے گا۔تاہم 2021 سے پہلے افغانستان میں بھارتی سفارت کاروں اور شہریوں کے خلاف طالبان کے حملوں کو مدِنظر رکھتےہوئے، یہ نئی دہلی کے لئے ایک بڑا قدم ہوگا اور فی الحال اس نوعیت کے کسی امر پر غور کرنے کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔

دوسری جانب انسانی حقوق کے عالمی منشور اور انسانی حقوق کے دیگر بڑے  معاہدوں (کنونشنز) پر دستخط کنندہ کی بھارتی حیثیت اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے لیے تگ و دو،اسے طالبان حکومت کو مکمل طور پر تسلیم کرنے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔تاہم وہ طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے پہلے ہی کچھ اقدامات کر رہا ہے۔

اس عیاں ہوتی حقیقت میں پاکستان کو ایک اہم فیصلے کا سامنا ہے کہ آیا وہ اپنے نقطۂِ نظر کا ازسرِنو جائزہ لے اور طالبان کے ساتھ مزید مساوی شرائط پر بات چیت کرے یا مزید سرد مہری کا خطرہ مول لے کیونکہ افغانستان کے نئے حکمران متبادل علاقائی اتحاد تشکیل دے رہے ہیں اور پاکستان میں  پیش کاروں (پراکسیز) کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

بھارت اور پاکستان کے علاوہ طالبان ازبکستان اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ بھی مضبوط تعلقات کے خواہاں ہیں اور اپنے تجارتی راستوں کے لیے سلامتی (سیکیورٹی) کی یقین دہانی بھی کراتے ہیں۔یہ ارتقا پذیر محرکات ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں: طالبان پر پاکستان کا اغلب اثر و رسوخ کم ہوتا جا رہا ہے، جبکہ بھارت اور دیگر علاقائی شرکت دار اس خلا کو پُر کرنے کے لیے خود کوتزویراتی طور پر تیار کر رہے ہیں۔

***

This article is a translation. Click here to read the original in English.


Image 1: Afghan imagery archive via Pickryl

Image 2: Amohammadid via Wikimedia Commons

Share this:  

Related articles

श्रीलंका की विदेश नीति का पुनर्मूल्यांकन? दिसानायके का युग Hindi & Urdu

श्रीलंका की विदेश नीति का पुनर्मूल्यांकन? दिसानायके का युग

सितंबर 2024 में, गंभीर राष्ट्रीय आर्थिक संकट प्रारम्भ होने के…

भारत और चीन के बीच मालदीव अपने संबंध कैसे सफलतापूर्वक संचालित कर सकता है Hindi & Urdu

भारत और चीन के बीच मालदीव अपने संबंध कैसे सफलतापूर्वक संचालित कर सकता है

जनवरी 2025 में मालदीव के विदेश और रक्षा मंत्रियों ने…

ٹرمپ مودی ملاقات: تصفیہ طلب مسائل موجود مگر ارادے پھر بھی بلند Hindi & Urdu

ٹرمپ مودی ملاقات: تصفیہ طلب مسائل موجود مگر ارادے پھر بھی بلند

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی غیر متواتر دوسری مدّت (ٹرم)کے…