800px-Shahbag_Projonmo_Square_Uprising_Demanding_Death_Penalty_of_the_War_Criminals_of_1971_in_Bangladesh_29

 جنوری ۷، ۲۰۲۴ کو ہونے والے عام انتخابات کے پیش نظر بنگلہ دیش کی سیاست ۲۰۲۳ کے دوران انتہائی متلوّن رہی۔ اس سال بنگلہ دیش کی داخلی سیاست کاایک امتیازی وصف بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی قیادت میں حزب اختلاف کی ریلیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد تھی۔ ۲۰۲۳ میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان اور حکومتی اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے سرگرم کارکنان  کے درمیان پرتشدد جھڑپوں میں اضافہ ہوا اور ساتھ ہی حزب اختلاف کے رہنماؤں اور مظاہرین کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی قیادت میں بنگلہ دیش عوامی لیگ (اے ایل) کی جانب سے آمرانہ سیاسی ہتھکنڈوں کا کھلم کھلا استعمال بڑھتا چلا جا رہا ہے۔


بنگلہ دیش کی برسرِ اقتدار جماعت کو امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے دباؤ کا سامنا ہے جو آزادانہ، منصفانہ اور مشمولہ انتخابات پر زور دیتے ہیں۔  زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے اور ترسیلاتِ زر میں کمی کے رجحان کے نتیجے میں افراطِ زر اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کے باعث معاشی صورتحال بدستور غیر مستحکم ہے۔
ملک میں حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں  کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ اور حکمراں جماعت کی جانب سے افراتفری کی بنیادی وجوہات پر توجہ دینے کے امکانات نہ ہونے کے باعث آنے والے سال میں یہ بحرانات مزید بڑھ جائیں گے۔

ہنگامہ خیز داخلی سیاست


سال ۲۰۲۳ کے آغاز سے حزب اختلاف کی جماعتوں نے وزیر اعظم شیخ حسینہ سے استعفیٰ دینے اور انتخابات کی نگرانی کے لیے ایک عبوری غیر جانبدار حکومت قائم کرنے کا مطالبہ شدید ترکر دیا تھا۔ ۲۰۱۴ اور ۲۰۱۸ کے دونوں قومی انتخابات میں عوامی لیگ کی کامیابی کے بعد، جنہیں بین الاقوامی تنظیموں نے نہ تو آزادانہ اور نہ ہی منصفانہ گردانا، حزب اختلاف نے ان تجاویز کے لئے نمایاں حمایت حاصل کی۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے اگرچہ ابھی تک ایک مشترکہ اتحاد تشکیل نہیں دیا ہے، لیکن اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ عوامی لیگ کی حکومت کے تحت انتخابات ناقابل قبول ہیں جس کا نتیجہ محض چوتھی مسلسل مدت کے لئے وزیر اعظم حسینہ واجد کا انتخاب ہو گا۔ توقع ہےکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، سول انتظامیہ اور عدلیہ جیسے ریاستی ادارے گزشتہ دونوں انتخابات کی طرح حکمران جماعت کی انتخابی کامیابی کی حمایت کریں گے۔

 اکتوبر ۲۸، ۲۰۲۳ تک  اس سال حزب اختلاف کی جانب سے نکالی جانے والی ریلیاں فسادات میں تبدیل نہیں ہوئیں۔ پولیس نے بی این پی کی سیاسی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے بہانے،
ایک طرف حکمراں جماعت کےسرگرم کارکنان اور پولیس کے درمیان  اور دوسری طرف بی این پی کارکنان کے درمیان جھڑپوں کے ذریعے بی این پی کی زیر قیادت ریلی کو شدید طاقت کے ساتھ منتشر کیا ۔ آنے والے ہفتوں میں حکومت نے حزب اختلاف کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کا آغاز کیا۔ ریلی سے چند ہفتے قبل بی این پی کے سینکڑوں کارکنان کی  گرفتاری کے علاوہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پارٹی کے سیکریٹری جنرل، مرزا فخرالاسلام عالمگیر سمیت بی این پی کی تقریباََ تمام مرکزی قیادت کو گرفتار کیا، جن پر آتش زنی، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ارکان کے خلاف تشدد کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ دسمبر کے وسط تک  قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ۲۰ ہزار سے زائد حزب اختلاف کے کارکنان کو گرفتار کیا اور ۷ جنوری ۲۰۲۴ کو ہونے والے انتخابات سے قبل مزید افراد کو الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔حکمران جماعت اے ایل (عوامی لیگ) میں قیادت کے اہم عہدے پر فائز کابینہ کے ایک وزیر نے ۱۷ دسمبر ۲۰۲۳ کو ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں اعتراف کیا کہ بی این پی کارکنان کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکنے کے لیے گرفتار کیا گیا تھا، جس سےاشارۃََ یہ ظاہر ہوتاہے کہ ان کے خلاف آتش زنی اور تشدد کے الزامات غیر حقیقی ہیں۔


پولیس نے بی این پی ہیڈکوارٹرز اور ۵۳ ضلعی دفاتر کو سیل کر دیا ہے تاکہ کسی بھی سیاسی سرگرمی کو روکا جا سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ برسرِ اقتدار پارٹی نے حزب اختلاف کی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے عدلیہ کو بھی ہتھیار بنالیا ہے، کیونکہ برق رفتاری سے فیصلے سنائے گئے ہیں، جس پرمعین طریقۂ کار کو طرح دینے کا الزام لگتا ہے۔ بی این پی کے حامی وکلاء کے ایک فورم کے مطابق عدلیہ نے اگست سے اب تک ۱۲۰۰ سے زائد کارکنان کو مجرم قرار دیا ہے۔


حکومت کی جانب سے ان قانونی اور ماورائے قانون اقدامات کے ساتھ حزب اختلاف کے امیدواروں پر دباؤ بھی ڈالا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ برسرِ اقتدرجماعت  ایک طاقتور سیاسی حزب اختلاف کےرُوپ کا ڈھونگ رچا رہی ہے۔ جبر کی دیگر مثالوں میں سے ایک یہ ہے کہ حکمراں جماعت کے ایک رہنما نے اعتراف کیا کہ جیلوں میں قید حزب اختلاف کے رہنماؤں کو یقین دلایا گیا تھا کہ اگر وہ انتخابات میں حصہ لینے پر راضی ہو گئے تو انہیں رہا کر دیا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق تینوں ایجنسیوں کے سربراہان نے انتخابی شیڈول کے اعلان سے قبل چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) سے ملاقات کی جس کے بعد انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی اس عمل میں شریک ہوگئی ہیں۔ عوامی لیگ نے آزاد امیدواروں کے طور پر ‘ڈمی امیدوار’ بھی کھڑے کیے ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ نشستیں بانٹ لی ہیں۔  بی این پی کے ایک نائب صدر، جنہیں ۲۸ اکتوبر کی ریلی کے دوران گرفتار کیا گیا تھا، کو انتخابی نامزدگی کے وقتِ مقررہ سے ایک دن قبل ڈرامائی انداز میں ضمانت دے دی گئی اور وہ حکمران جماعت کے امیدوار بن گئے۔ کچھ دیگر افراد اور جماعتیں دباؤ کے سامنے جھک گئیں: ۴۳ رجسٹرڈ جماعتوں میں سے ۲۹ نے انتخابات میں حصہ لیا، جبکہ بی این پی سمیت ۱۵ جماعتوں نے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ سال کے آخر میں ملک ایسے انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے جس کے بارے میں تمام مبصرین کا خیال ہے کہ یہ موجودہ وزیر اعظم حسینہ واجد کو فتح دلائے گا۔

جابرانہ قانون کی ملمع کاری


اگست ۲۰۲۳ میں حکومت نے متنازعہ ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ (ڈی ایس اے) ختم کردیا اور اس کی جگہ سائبر سیکیورٹی ایکٹ (سی ایس اے) کے نام سے ایک نیا قانون متعارف کرایا جو اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنے اور میڈیا  کی زباں بندی کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ اکتوبر ۲۰۱۸ میں متعارف کرائے جانے کے بعد سے اندرون و بیرون ملک بین الاقوامیاور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے ڈی ایس اے کو وسیع پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ یہ عوامی لیگ اور اس کے حامیوں کے لیے پریس کی اظہارِ رائے کی) آزادی اور حکومت پر تنقیدی آن لائن اظہارِ رائے کو دبانے کا ایک ذریعہ ہے۔ اگرچہ حکومت نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ اس نے قانون کا غلط استعمال کیا ہے، تاہم وزیر قانون انیس الحق نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ اکتوبر ۲۰۱۸ اور جنوری ۲۰۲۳ کے درمیان اس قانون کے تحت کم از کم ۷۰۰۰ مقدمات درج کیے گئے۔


نئے سائبر سکیورٹی ایکٹ، جسے انسانی حقوق کے مبصرین نے “نئی بوتل، پرانی شراب” کے طور پر بیان کیا ہے، میں پچھلے قانون کی تمام جابرانہ دفعات شامل ہیں۔ یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو مقدمے سے پہلے محض شک یا الزام کی بنیاد پر گرفتار کر سکتے ہیں اور بغیر کسی وارنٹ کے ان کی  ڈیوائسز ضبط کر سکتے ہیں۔ مارچ میں حکام نے ملک کے سب سے زیادہ گردش کرنے والے اخبار کے مدیر مطیع الرحمان، جنہیں وسیع حلقے میں محترم اور باعزّت مانا جاتا ہے،  اور اسی اخبار کے ایک رپورٹر کو گرفتار کیا، جس کے بعد اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے بنگلہ دیش سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس قانون کو فوری طور پر معطل کرے۔

عظیم طاقتوں کے مابین رسہ کشی


آزاد، منصفانہ اور مشمولہ انتخابات کے انعقاد کی امریکی درخواست پر امریکہ اور وزیر اعظم حسینہ واجد کے درمیان کشیدہ تعلقات اور روس، چین اور بھارت  جیسے شراکت داروں کی جانب سے فراہم کی جانے والی سفارتی حمایت ہند و بحرالکاہل کے خطے میں بنگلہ دیش کی بڑھتی ہوئی اہمیت اور جغرافیائی سیاسی مسابقت کے مقام کے طور پر اسے درپیش چناؤ کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ مئی میں امریکی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ نئی ویزا پالیسی اور وائٹ ہاؤس کے ڈیموکریسی سمٹ میں بنگلہ دیش کو شرکت کی دعوت نہ دینا، امریکہ اور بنگلہ دیش کے مابین کشیدہ تعلقات کو ظاہر کرتے ہیں۔ نئی ویزا پالیسی میں کہا گیا ہے کہ امریکہ بنگلہ دیش میں جمہوری انتخابی عمل میں رکاوٹ ڈالنے والے کسی بھی شخص کو ویزا دینے سے انکار کرے گا۔ کئی اعلیٰ سطحی سفارتی ملاقاتوں کے دوران امریکی حکام نے وزیر اعظم حسینہ واجد اور دیگر سرکاری عہدیداران  کو متنبہ کیا کہ کسی بھی ملک میں جمہوریت کی بُردگی واشنگٹن کی اس ملک کے ساتھ تعاون کرنے کی صلاحیت کو محدود کر دیتی ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے مشمولہ انتخابات کے مطالبے کے جواب میں وزیر اعظم حسینہ واجد نے الزام عائد کیا کہ واشنگٹن انہیں اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتا، ساتھ ہی انہوں نے امریکہ کی جانب سے بنگلہ دیش کی ریپڈ ایکشن بٹالین پر عائد پابندیوں کا بھی حوالہ دیا۔


روس نے وزیر اعظم حسینہ واجد کاساتھ دیتے ہوئے الزام لگایا کہ واشنگٹن بنگلہ دیش کی سیاست میں مداخلت کر رہا ہے۔ چین نے برسرِ اقتدار جماعت  کی قطعی حمایت کی پیشکش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ بنگلہ دیش کا استحکام ایک معاشی شراکت دار کی حیثیت کے طور پر اس کی ترجیح ہے۔ ۲۰۰۹ کے بعد سے حسینہ حکومت کے بنیادی پشتیبان بھارت نے سفارتی حمایت کا اظہار کیا اور انہیں ستمبر میں نئی دہلی میں ہونے والے جی ۲۰ سربراہ اجلاس میں بطور  مبصر شرکت کی دعوت دی۔ عوامی لیگ کی حکومت کے لیے چین کی حمایت تین عوامل پر مشتمل ہے: بنگلہ دیش ۲۰۱۶ سے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) پر بحر ہند کے باب کے طور پر شریکِ معاہدہ ہے، اس نے انفرا اسٹرکچر کے کئی  منصوبوں میں نمایاں سرمایہ کاری کی ہے، اور وہ بنگلہ دیش کے ساتھ شراکت داری کو خطے میں بھارت اور امریکہ کے اثر و رسوخ کو روکنے کے ایک موقع کے طور پر دیکھتا ہے۔

معیشت کا شدید بحران

بنگلہ دیش کی معیشت گزشتہ سال بین الاقوامی مالیاتی فنڈ جیسے کثیر الجہتی اداروں سے ملنے والی مدد کے باوجود بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔ آئی ایم ایف نے جنوری میں ۴.۷ بلین امریکی ڈالر کے پیکج کی منظوری دی ،جس میں ساڑھے تین سال کی مدت میں جاری کی جانے والی سات میں سے دو قسطیں ادا کی گئیں۔ تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے دوسری قسط جاری کرنے سے قبل یہ نوٹ کیا گیا کہ بنگلہ دیش ان مطلوبہ اصلاحات کو لاگو  کرنے میں ناکام رہا ہے جو آئی ایم ایف کی امداد کا ناگزیر حصّہ ہیں۔ ان شرائط میں سے ایک غیر ملکی ذخائر  کی بہتر سطح کو برقرار رکھنا تھا، جو فروری ۲۰۲۳ میں ۳۲ بلین امریکی ڈالر کی بلند سطح سے گھٹ کر ۱۶ بلین امریکی ڈالر سے بھی کم رہ گئی۔


علاوہ ازیں حکومت نے مختلف ترقیاتی منصوبوں کے سرمائے اور درآمدات کی ادائیگی کے لئے اندرون اور بیرون ملک ذرائع سے قرضے لینا جاری رکھا، جس سے اس کا بیرونی قرضہ  (ایکسٹرنل ڈیٹ)اکتوبر تک ۱۰۰ بلین  امریکی ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ اس حکمت عملی کے ساتھ ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش پر واجب الادا  دوطرفہ اور کثیر الجہتی قرض دہندگان کا قرضہ موجودہ مالی سال میں ۲.۸ بلین امریکی  ڈالر سے بڑھ کر ۳.۶ بلین امریکی ڈالر ہو جائے گا۔ قرضوں کی ذمہ داریوں کی اتنی زیادہ شرح بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر کو نچوڑ  دے گی، افراط زر میں مزید اضافہ کرے گی اور آنے والے سال میں اشیائے ضروریہ کی پہلے سے ہی بلندقیمتیں  مزیدبڑھ جائیں گی۔


زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، قرضوں کی ذمہ داریوں میں اضافے اور بڑھتے ہوئے اندرون اور بیرون ملک قرضوں کے پیش نظر حکومت نے امپورٹ کنٹرول پالیسی اپنائی۔ اس سے معاشی ترقی کو نقصان پہنچ رہا ہے، جس کی وجہ سے افراط زر ۹ فیصد سے بڑھ گیاہے اور خوراک اور ایندھن جیسی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ برآمدات، ترسیلات زر، تجارت اور قلیل المدتی قرضہ جات  کا حجم بھی  بنگلہ دیش کے لیے اپنے قرضوں کی ادائیگی اور اہم درآمدات کی لاگت کو متوازن کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے تین ریٹنگ کمپنیوں نے بنگلہ دیش کی سوویرن کریڈٹ ریٹنگ کو کم کر دیا ہے۔  یہ ایک واضح علامت ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کار توقع کر رہے ہیں کہ آنے والے سال میں بنگلہ دیش کی معیشت مزید زدپذیر ہو گی۔

لمحۂ فیصلہ


جیسا کہ بنگلہ دیش نئے سال میں داخل ہو رہا ہے، ملک میں منعقد ہونے والے  انتخابات ممکنہ طور پر برسرِ اقتدارجماعت کو فتح دلائیں گے۔ اس بات کے شواہد سامنے آ رہے ہیں کہ انتخابات نہ تو آزادانہ ہوں گے اور نہ ہی منصفانہ، اور یہاں تک کہ بین الاقوامی میڈیا نے بھی ان انتخابات کو “تماشہ” قرار دیا ہے۔ حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ آنے والے انتخابات کے نتائج  کی قانونی حیثیت  کابحران جنم لے گا۔ امکان ہے کہ حکمراں جماعت شہریوں میں بڑھتی ہوئی سیاسی بے چینی کو دبانے کے لئے آمرانہ ہتھکنڈوں کے استعمال میں اضافہ کرے گی اور مرے پر سو درے، معاشی مشکلات ہوں گی۔ سیاسی ناقدین کے خلاف جاری کریک ڈاؤن اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عوامی لیگ کمبوڈیا کی حکومت کی طرح  یک جماعتی ریاست بنانے کے لیے تمام قدآور مخالفین کو ختم کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔


لہٰذا بنگلہ دیش ایک دوراہے پر کھڑا ہے؛ یا تو وہ ۲۰۲۴ء کے انتخابات کے بعد مطلق العنانی (کلوزڈ ایٹوکریسی) کی راہ پر گامزن ہو جائے گا یا پھر بین الاقوامی دباؤ کے سامنے جُھک کر اپنا راستہ بدل لے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ چناؤ بہت سے عوامل میں سے ایک ہے جو خطے میں بنگلہ دیش کے کردار پر اثر و رسوخ  پانےکے لئے امریکہ، روس، چین اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی مسابقت کی نمائندگی کرتا ہے۔


یہ دیکھنا باقی ہے کہ مغربی ممالک، بالخصوص امریکہ انتخابات کے ممکنہ نتائج پر کیا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ امریکہ بنگلہ دیش کے ریڈی میڈ گارمنٹس کی سب سے بڑی سنگل کنٹری مارکیٹ ہے، اور اس کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، امریکی اقدامات کے ملکی صورتحال پر اہم معاشی اور سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔ معیشت کی مزید ابتر ہوتی ہوئی صورتحال، متنازعہ ملکی اور غیر ملکی سیاست اور معاشی تذبذب کا امتزاج بنگلہ دیش کے آنے والے سال کو مزید غیر مستحکم بنا دے گا۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Shahbag Projonmo Square Uprising Demanding Death Penalty of the War Criminals of 1971 via Wikimedia Commons

Image 2: Sheikh Hasina poster via Flickr

Share this:  

Related articles

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے Hindi & Urdu

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف رواں ماہ کے اوائل میں صدر شی جن پنگ اور دیگر اعلیٰ چینی حکام سے ملاقاتوں کے بعد تقریباََ خالی ہاتھ وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ چین نے واضح انضباطِ اوقات ( ٹائم لائن) کے تحت پاکستان میں بڑے منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری کا وعدہ نہیں کیا۔ اس […]

آبدوزیں بحرہند میں ہندوستان کی ابھرتی ہوئی قوت کی کلید ہیں Hindi & Urdu

آبدوزیں بحرہند میں ہندوستان کی ابھرتی ہوئی قوت کی کلید ہیں

شمال مغربی بحر ہند میں سمندری تجارت گزشتہ چھ ماہ…

بی جے پی کے زیرِقیادت گلگت بلتستان پر بھارتی  بیان بازی Hindi & Urdu

بی جے پی کے زیرِقیادت گلگت بلتستان پر بھارتی  بیان بازی

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے زیرِ قیادت بھارتی…