Click here to read this article in English
پاک بھارت اعتماد سازی کے اقدامات: باہمی خدشات کا حل
By: Sitara Noor
پاک بھارت باہمی تعلقات میں تسلسل کا ایک واحد عنصر حالات کی غیر یقینی نوعیت ہے۔ اس کی وجہ حل طلب سرحدی تنازعات، جارحانہ عسکری رجھان، اور دونوں ملکوں کے مابین دیگر نازک معاملات ہیں جو کسی بھی وقت بگڑسکتے ہیں۔ مسلسل بے یقینی کے باوجود، ایسے لگتا ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں دونوں ممالک نے حالات میں کشیدگی پیدا ہونے کے باوجود دو طرفہ معاملات کو کسی حد تک آگے بڑھاتے رہنا سیکھ لیا ہے۔ تاہم، جنوبی ایشیا میں سٹریٹیجک مقابلہ ہمیشہ ایک حقیقت رہے گا، چنانچہ دونوں ملکوں کے درمیان ان معاملات میں اعتماد بڑھانے کے ضرورت ہے جو دونوں ممالک کے لۓ یکساں خطرہ پیدا کرتے ہیں، جیسا کے “سائبر سپیس” اور ایٹمی دہشت گردی۔
جب ۱۹۹۸کے ایٹمی تجربات کے بعد دونوں بھارت اور پاکستان “نیوکلیر کلب” کا حصہ بن گۓ تو پاک بھارت تعلقات مزید غیر یقینی کا شکار ہو ۓ۔ اگرچہ گزشتہ ۱۸ سالوں میں “ڈیٹرنس” کی وجہ سے خطّے میں کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی، لیکن اس عرصہ میں دونوں ملکوں کو مختلف بحرانوں اور ایٹمی خطرات کا سامنا رہا ہے۔ دونوں ملکوں میں غلط تصوّرات اور متضاد بیان بازی کی وجہ سےبدلتے ہوۓ ایٹمی رویّے ابھی بہت غیر مستحکم ہیں۔
ماضی میں عسکری اور سیاسی اعتماد سازی کے اقدامات نے پاک بھارت تعلقات میں ایک مثبت کردار ادا کیا ہے۔ مگر حال ہی میں اعتماد سازی کے حوالے سے بھارت کے رویے میں تبدیلی آئی ہے جس کی وجہ سے اس سارے عمل کے بیکار ہو جانے کا خدشہ ہے۔ بھارت کے بدلتے ہوۓ رویّے کی وجہ سے پاکستان میں بھی اعتماد سازی کی طرف عدم دلچسپی پیدا ہو رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ ماضی میں اعتماد سازی کی کوششیں برصغیر میں پیدا ہوتے ہوۓ بحرانوں کو مکمل طور پر روکنے میں ناکام رہیں، مگر ان اقدامات کی وجہ سے سرحد پار روابط اور شفافیت میں بہتری آئی ہے جس کی وجہ سے غیر ارادی کشیدگی پیدا ہونے کے امکانات میں کمی ہوئی۔ مثلاً ۱۹۹۸ میں پاکستان اور بھارت نے ایٹمی تنصیبات اور سہولیات کے خلاف حملوں کی حرمت پرایک معاہدے پر دستخط کئے۔اس معاہدے کے تحت ہر سال دونوں ملک ایک دوسرے کو اپنی ایٹمی تنصیبات کی فہرستیں فراہم کرتے ہیں۔ باوجود سیاسی اور عسکری بحرانوں کے، یہ تبادلہ ۱۹۹۸ سے باقاعدگی سے چلا آ رہا ہے ۔ اعتماد سازی کی ایک اور کامیاب مثال کا تعلق میزائل ٹیسٹوں سے ہے؛ ۲۰۰۶ میں کۓ ہوۓ ایک معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت کوئی بھی میزائل ٹیسٹ کرنے سے پہلےدوسرے ملک کو پیشگی اطلاع دے دیتے ہیں۔
تاہم عالمی سطح پر سیکورٹی خطرات کی نوعیت تبدیل ہو رہی ہے اور ان تبدیلیوں کا اثر جنوبی ایشیا پر بھی براہ راست پڑتا ہے۔ اگرچہ جنوبی ایشیا میں “سٹریٹیجک” مقابلہ مستقل برقرار ہے، تاہم “سٹریٹیجک” استحکام کے لۓ باہمی اعتماد اور روابط قائم کرنا ضروری ہے۔ “سائبر سپیس” ایک ایسا معاملہ ہے جہاں باہمی تعاون پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اگر”سائبر سپیس” کے امور میں بھارت اور پاکستان شفافیت اپنایں تو غیر ارادی حادثات سے بچاؤ کیا جا سکتا ہے۔ اگر دونوں ملک سرکاری سطح پر ایک دوسرے سے عہد کریں کے وہ کمپیوٹرز اور انٹرنیٹ کے ذریعے ایک دوسرے کی تنصیبات پر حملہ نہیں کریں گے تو دونوں ریاستوں کے درمیان اعتماد سازی کو فروغ حاصل ہو گا۔ ایٹمی تنصیبات اور سہولیات کے خلاف حملوں کی حرمت پر معاہدے کے تحت دونوں ملک ایک دوسرے کی ایٹمی سہولیات پر حملے کی ممانعت پہلے ہی قبول کر چکے ہیں، مگر اس معاہدے میں حملے کی نوعیت کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔ اس معاہدے میں کھلے الفاظ میں “سائبر” حملوں پر پابندی کو شامل کرنا چاہۓ، اور اس معاہدے کے دائرہ کار میں ان اداروں کوبھی شامل کرنا چاہۓ جو اس وقت “ایٹمی کمپلکس” کا حصّہ نہیں ہیں، جیسا کہ جوہری کمانڈ اور کنٹرول کے نظام۔ اس میں شامل اہم کمپپیوٹرز اور “ارلی وارننگ سسٹمز” ہیں، یعنی وہ دفاعی تنصیبات جو دشمن کے حملے کی صورت میں ملک کی فوج کو فوری اطلاع دے دیتی ہیں، تا کہ حملے کو ناکام بنایا جا سکے۔
ایک اور ابھرتا ہوا خطرہ ایٹمی دہشت گردی کا ہے۔ اس معاملے میں پاکستان کیونکہ عالمی سطح پر مرکزِ توجہ رہا ہے، جس کی بنا پر اس کی جوہری سیکورٹی کو مسلسل طور پر بہتر سے بہتر بنایا گیا ہے۔ پاکستان کی بہترین جوہری سیکورٹی کو عالمی سطح پر بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ تاہم بھارت کی جوہری سکورٹی تسلی بخش نہ ہونے کے باوجود عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ نہیں بنی۔ ایسے دوہرے معیار کی وجہ سے ممکنہ خطرات کو جھٹلانے سے خطّے میں ڈیٹرنس کا استحکام کمزور ہو گا۔ ایک ملک سے چوری ہوا ایٹمی مواد اگر دوسرے ملک میں استعمال ہوا تو اس سے ایک بڑا بحران شروع ہو سکتا ہے۔ ایسی چوری یا حادثے کو غلط فہمی سے ایٹمی حملہ سمجھا جا سکتا ہے۔ ایسے میں بات چیت اور تعاون کرنے کے کھلے راستوں کا موجود ہونا نہایت اہم ہے تاکہ ایسے چوری کے واققات کے بعد الزام تراشی کے بجاۓ جلد تحقیق کی جا سکے۔ ایسے باہمی تعاون کے اقدامات سرحدوں سے شروع کۓ جا سکتے ہیں تاکہ ایٹمی اور تابکاری مواد کی اسمگلنگ کو روکا جا سکے۔ اور اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آۓ تو دونوں ممالک ایک دوسرے کوفوری مطلع کریں تاکہ بین السرحدی اثرات کے پیش نظر مشترکہ کاروائ جلد از جلد شروع کی جا سکے۔
اعتماد سازی کے اقدامات برقرار تب رہتے ہیں جب ممالک برابری اور باہمی طور پر ان کی کامیابی چاہتے ہوں، اور یہ اقدامات ان ممالک کی قومی سلامتی پر مبنی پوزیشنوں کو چیلنج نہ کریں۔ بظاہر بھارت اس وقت ایٹمی سیکورٹی سے مطعلقہ اعتماد سازی کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ مستقبل میں جوہری دہشت گردی جیسے حساس مسائل پر تعاون خاصا مشکل ہے۔ تاہم عالمی سطح پر ابھرتے ہوۓ ایٹمی سیکورٹی خطرات اور انردونی دہشت گردی کے خدشات کی نظر میں یہ بھارت کے اپنے مفاد میں ہو گا کہ وہ باہمی انحصار کے راستے تلاش کرے تاکہ دونوں ملک ان اہم امور پر تعاون کر سکیں۔