حالیہ برسوں میں، واشنگٹن نے چین کو اپنے “سب سے بڑے تزویراتی حریف” کے طور پر بیان کیا ہے اور بیجنگ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ جارحانہ پالیسی اختیار کی ہے۔ اگرچہ داخلی سطح پر واشنگٹن کے زیادہ جارحانہ موقف کو بڑی حد تک سراہا گیا ہے، تاہم امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتا ہوا تناؤ جنوبی ایشیا میں سلامتی کے شعبے میں کسی المیے کو جنم دے سکتا بے۔ اس مقابلے کے بیچ، واشنگٹن اور بیجنگ کو اس ضمن میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کہ وہ خطے میں پہلے سے موجود رقابتوں کو بڑھاوا نہ دیں۔ اس کے لیے پہلا قدم ہتھیاروں کی دوڑ میں تیزی کو روکنا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے مابین جوہری رقابت دنیا کی خطرناک ترین دشمنیوں میں سے ایک ہے۔ ان کے دوطرفہ تعلقات میں مرکزِ نگاہ ہتھیاروں کی دوڑ، سلامتی کے شعبے میں بے یقینی، استحکام اور عدم استحکام، اور مسلسل مقابلے بازی ہے۔ دونوں کے درمیان رقابت کی جڑیں تو ۱۹۴۷ کی اجلت میں کی گئی تقسیم میں پنہاں ہیں، لیکن ۱۹۹۸ میں دونوں کے کھلم کھلا جوہری قوت بننے کے بعد اس دشمنی میں داؤ پر لگے عوامل میں شدید اضافہ ہوچکا ہے۔ ماضی میں جوہری ہتھیاروں سے لیس ان پڑوسیوں کے درمیان تناؤ میں کمی کے لیے عالمی مداخلت سود مند ثابت ہو چکی ہے۔ تاہم امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتا ہوا مقابلہ اس مہین توازن میں بگاڑ کا خطرہ رکھتا ہے۔
تبدیل ہوتی جغرافیائی سیاسیات
حالیہ برسوں کے دوران، جغرافیائی سیاسی رجحانات کے باہم مخالف بلاکس کی صورت اختیار کر جانے کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے، جہاں ایک جانب امریکہ بھارت جغرافیائی شراکت داری ہے اور مضبوط پاک چین تعلقات دوسری جانب ہیں۔ مقابلے بازی میں کمی لانے والے عناصر میں کمی کے ساتھ ساتھ دونوں عالمی قوتوں اور ان کے جنوبی ایشیائی شراکت داروں کی صف بندی میں گہرائی آ چکی ہے۔ ماضی میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان دہشت گردی کے خلاف تعاون، جبکہ چین و بھارت کے درمیان سرحدی انتظامات نے جغرافیائی سیاسی جھکاؤ کو متوازن کیا تھا۔ تاہم ۲۰۲۱ میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء اور لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے ساتھ ساتھ بھارتی علاقے میں چینی دراندازیوں نے ان چند مشترکہ دلچسپیوں کا خاتمہ کر دیا ہے، جو ماضی میں اس مقابلے کی فضا کو معتدل رکھتی تھیں۔ اس کے بجائے، امریکہ، چین، بھارت اور پاکستان کے درمیان مقابلہ گہرا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
رقابتوں کا یہ پرپیچ سلسل اور خطرات کے بارے میں خدشات پاکستان اور بھارت کے درمیان جوہری رقابت کے لیے خطرناک نتائج کے حامل ہو سکتے ہیں۔ اگر امریکہ اور چین اس خطے کو عظیم طاقتوں کے مابین مقابلے کی نگاہ سے دیکھیں، تو دوسرے پر سبقت لے جانے کے حوالے سے حکمت عملیاں پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلے سے موجود تزویراتی مقابلے میں اضافہ کر سکتی ہیں، خواہ یہ نادانستہ ہی کیوں نا ہو۔ مثال کے طور پر، ہتھیاروں اور دفاعی ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا تبادلہ خطے میں خطرات کے بارے میں خدشات میں اضافہ کر سکتا ہے اور ہتھیاروں کے حصول کی حکمت عملی میں پیش رفت کا باعث ہو سکتا ہے۔
امریکہ اور چین، دونوں کو چاہیئے کہ وہ بھارت اور پاکستان کو ہتھیاروں سے لیس کرنے سے بطور عظیم قوت خود کو حاصل ہونے والے فوائد کا موازنہ، خطے میں استحکام سے وابستہ اپنے مشترکہ مفادات سے کریں۔ ان بڑی قوتوں کی سہولت کاری سے جنوبی ایشیا میں لگنے والے ہتھیاروں کے ڈھیر پہلے ہی جوہری جنگ کے دہانے پر موجود اس خطے کو غیر متوازن بنا چکے ہیں۔ عالمی قوتوں کی جانب سے غور و خوض کے علاوہ خود پاکستان اور بھارت کو بھی ان باہم متصادم عالمی قوتوں کے ساتھ اپنے سلامتی اہداف کو نتھی کرنے کی قیمت کو پہچاننا چاہیئے۔ اس ارتقاء پذیر تزویراتی اشکال کے بیچ، تمام فریقین کو اپنی خودمختاری، ترقی اور جغرافیائی استحکام کو ترجیح دینی چاہیئے۔
ہر موسم کے دوست: پاک چین تعلقات
امریکہ اور چین دونوں کے اپنے اپنے جنوبی ایشیائی دفاعی شراکت داروں کے ہمراہ طویل عرصے سے تزویراتی تعلقات ہیں۔ ۱۹۶۲ کی چین بھارت جنگ کے نتیجے میں بپھرے بیجنگ کی پاکستان کے ہمراہ شراکت داری، چین کی خارجہ پالیسی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تاریخ کے ہر موڑ پر، چین بھارتی خطرے کو ختم کرنے کے لیے پاکستان کا رخ کرتا رہا ہے۔ آج بھی، بیجنگ نے پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو تقویت دینے اور بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ بھارتی صلاحیتوں کی اثراندازی ختم کرنے لائق ساز و سامان کی پاکستان کو فراہمی کے ذریعے، چین نئی دہلی کے خلاف دو رخی جنگ کے خطرے کو مزید تقویت دیتا ہے۔
پاک چین دفاعی تعلقات کو آگے بڑھانے میں، بھارتی عنصر مرکزی کردار کی حیثیت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ۲۰۰۳ میں بیجنگ اور اسلام آباد نے دوطرفہ تعاون کی سمت کے بارے میں ایک مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے تھے جس نے دفاعی تعاون میں مزید اضافہ کیا تھا۔ اس کے بعد سے، چین نے پاکستان کو J-10CE، الخالد ٹینکس اور چینی ساختہ مین بیٹل ٹینک VT-4 کی پہلی کھیپ کے ذریعے عسکری معاونت فراہم کی ہے۔ مزید برآں، ان چینی منتقلیوں میں حریف بھارت کی صلاحیتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جیسا کہ اسلام آباد کی J10C جیٹس کی حالیہ خریداری بھارتی رافیلز کا مقابلہ کرتی ہے اور جے ایف ۱۷ تھنڈر لڑاکا طیاروں نے فضائی میدانوں میں بھارت کے خلاف رکاوٹیں کھڑی کرنے میں پاکستان کی مدد کی ہے اور امریکی ایف ۱۶ طیاروں پر پاکستانی انحصار کی جگہ لی ہے۔ چین اور پاکستان کے مابین بھارت کے ایس ۴۰۰ میزائل ڈیفینس سسٹم کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ہائپرسونک میزائل کی فراہمی پر بھی مذاکرات جاری ہیں۔
مزید برآں، پاکستان کی جوہری صلاحیتوں کو بڑھانے میں بھی چین مدد کر رہا ہے، جس کے تحت امکان ہے کہ آئندہ پانچ برسوں میں ۲۰۰ جوہری میزائل اس میں شامل کیے جائیں گے۔ مارچ ۲۰۲۲ میں اپنی یوم دفاع کی نمائش میں پاکستان نے چین سے حاصل ہونے والے طویل فاصلے تک مار کرنے والے جوہری میزائلز، جدید ترین ریڈار سسٹمز اور لڑاکا طیاروں کی نمائش کی تھی۔ یہ نمائش، بھارت کی جانب سے جوہری صلاحیتوں کے حامل براہموس میزائل کو پاکستانی حدود کے اندر غلطی سے داغنے کے محض چند دن بعد منعقد ہوئی تھی۔ بیجنگ پاکستان کو بھارتی صلاحیتوں کے ہم پلہ کرنے کے لیے مسلح کر رہا ہے، یوں چین اپنی جنوبی ایشیائی حکمت عملی کو آگے بڑھا رہا ہے، تاہم اس سے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ تیز تر ہونے کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔
چین امریکہ مقابلہ ان حرکیات کو تیز تر کر سکتا ہے۔ چین نے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ بھارت آکس معاہدے کے تحت جوہری طاقت سے لیس آبدوزیں حاصل کر سکتا ہے اور اس نے کواڈ اور اس کے تحت ۲۰۲۰ مالابار فوجی مشقوں پر بھی اپنے اندیشوں کا اظہار کیا ہے۔ یہ پیش رفت خطرات کے بارے میں بیجنگ کے خدشات کو مزید بڑھاتی ہیں اور پاکستان کو مزید مسلح کرنے کی جانب دھکیل سکتی ہیں۔ اسی طرح، پاکستان میں دوہرے استعمال کی صلاحیت کی حامل چینی سرمایہ کاری، بحر ہند میں چین کے کردار کے بارے میں بھارتی اور امریکی خدشات میں اضافے کرتی ہیں۔ پاکستانی بحری صلاحیتوں میں حالیہ چینی سرمایہ کاری سے، انڈوپیسیفک میں ایک مخالف بحریہ کی موجودگی اور ممکنہ مقابلے کے بارے میں خدشات گہرے ہوئے ہیں۔ گوکہ امریکہ اور چین نے علاقائی حکمت عملیوں کے ضمن میں اپنے درمیان دو طرفہ مقابلے کے حوالے سے کوئی بیانات جاری نہیں کیے، لیکن اس کے اثرات پاکستان اور بھارت کو زیادہ وسیع پیمانے پر عسکری صلاحیتوں سے لیس ہونے کی جانب ترغیب دلا سکتے ہیں۔
تزویراتی شراکت دار: امریکہ بھارت دفاعی تعلقات
پاک چین تعلقات میں گہرائی، امریکہ بھارت بندھن کی عکاس ہے۔ چینی عروج کو کمزور کرنے کے لیے واشنگٹن کی حکمت عملی میں بھارت مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ انڈوپیسیفک میں مشترکہ دلچسپیوں کے ہاتھوں مجبور امریکہ بھارت کو بحر ہند کے خطے میں “مشترکہ سلامتی کے ضامن” کے طور پر دیکھتا ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران، بھارت نے اپنی تزویراتی موجودگی میں وسعت لاتے ہوئے اور خطے میں اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کرتے ہوئے اس کردار میں قدم رکھا ہے۔ واشنگٹن نے خود کو متمنی شراکت دار ثابت کیا ہے۔
گزشتہ دہائی کے دوران بھارت کے لیے امریکی ہتھیاروں کی فروخت میں انتہائی اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ پانچ برس کے دوران، بھارت کی دفاعی درآمدات میں امریکہ کا حصہ ۱۴ فیصد رہا۔ اسی اثناء میں امریکی دفاعی کارپورپیشنز مقامی سطح پر اسلحے کی پیداوار اور دفاعی ٹیکنالوجی کی صلاحیتوں کی تیاری کے لیے براہ راست بھارتی حکومت کے ساتھ رابطوں میں ہیں۔ امریکہ اور بھارت نے اپنے تزویراتی نظریوں کے بارے میں مشترکہ بیان بھی جاری کیے ہیں اور بھارت کو نیٹو اتحادیوں کے برابر لا کھڑا کرنے کے لیے، تزویراتی سلامتی تعلقات میں مزید اضافے کے لیے معاہدوں پر دستخط بھی کیے ہیں۔
جہاں واشنگٹن، چین کے حوالے سے عظیم طاقتوں کے مقابلے کے ضمن میں اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے بھارتی دفاعی صلاحیتوں کو توانا کرنے کا ہدف رکھتا ہے، وہیں چین سے مقابلے کے لیے بھارت کے پاس اپنی بھی وجوہات ہیں۔ بھارت چین کو طویل عرصے سے ایک خطرے کے طور پر دیکھتا ہے تاہم بھارت اور چین کے درمیان سرحدی جھڑپوں کے شدت پکڑنے کے بعد سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے۔ چین، لداخ کے متنازعہ علاقے سے دیرپا لا تعلقی سے اب انکاری ہے، اور تزویراتی اعتبار سے حساس نوعیت کے میدانی علاقے دیپسانگ میں لائٹ ملٹری انفرااسٹرکچر تعمیر کر رہا ہے۔ بحر ہند میں چینی بحریہ کی موجودگی سے بھی بھارتی بے چینی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ حرکیات نئی دہلی کو امریکہ سے سلامتی اور دفاع کی اضافی صلاحیتوں کے حصول کی جانب ترغیب دلا سکتی ہیں، جس سے خطے میں عسکریت پسندی زور پکڑ سکتی ہے۔
مستقبل سے کیا توقع رکھی جائے
عظیم طاقتوں کے بیچ کھیلے جانے والے جغرافیائی سیاسیات کے کھیل میں، نہ تو بھارت اور نہ ہی پاکستان مہرہ بننا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے عظیم طاقتوں کے درمیان رقابت اور اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والی دھڑے بازی کی سیاست میں شمولیت سے ہچکچاہٹ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ “ہم آخری دم تک اس کے خلاف مزاحمت کریں گے۔“ بھارت نے بھی امریکہ کے ساتھ بے حد قریبی تعلق قائم کرنے پر اپنے تحفظات اور تزویراتی خودمختاری کی اپنی تاریخی پوزیشن کے ذریعے متوازن تعاون کی جانب اشارہ کیا تھا۔
پاک بھارت دشمنی، محض امریکہ چین تزویراتی دشمنی کی بدولت یا صرف اسی کی وجہ سے نہیں بڑھ رہی ہے۔ تاہم امریکہ اور چین کے درمیان مقابلہ، بھارت اور پاکستان کی ایک دوسرے کے خلاف صلاحیتوں کو استعمال میں لاتے ہوئے ہتھیاروں کی ذخیرہ اندوزی میں تیزی لایا ہے۔ یہ چین، پاکستان کے درمیان اور امریکہ، بھارت کے درمیان موجودہ دفاعی شراکت داریوں کو خطے میں سلامتی کی گوناگوں کیفیت کے ضمن میں زیادہ خطرناک بنا دیتا ہے۔ اس کے بجائے، دونوں عظیم قوتوں کو جنوبی ایشیا اور انڈوپیسیفک خطے میں دفاعی تعاون پر مبنی ایک پالیسی اپنانی چاہیئے تاکہ مستقبل میں ممکنہ پاکستان بھارت یا چین بھارت مسلح تنازعے سے بچا جا سکے۔ شدت اختیار کرتے تناؤ کے بیچ یہ اگرچہ مشکل ہو گا تاہم امریکہ کا پاکستان کو ایف-۱۶ طیاروں کے حصے فراہم کرنے کا حالیہ فیصلہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ بھارت اور چین تجارت اور اقتصادیات کے ضمن میں اس جیسے ملتے جلتے تعاون کا اہتمام کر سکتے ہیں۔ تاہم مختلف شعبوں میں یہ ہم آہنگی اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکے گی جب تک خطرے کے بارے میں خدشات میں کمی واقع نہ ہو اور اپنے فائدے کی خاطر دوسروں کو نقصان پہنچانے کی پالیسیوں کو پس پشت نہ ڈالا جائے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Agni-II Missile via Wikimedia Commons
Image 2: IRBM of Pakistan via Wikimedia Commons