دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت، عالمی سیاست میں ایک دلچسپ کردار کے طور پر ابھرا ہے۔ وزیر اعظم جواہر لعل نہرو سے نریندر مودی تک، لبرل جمہوریت سے دائیں بازو کی ہندو قوم پرستی کی جانب یہ سفر بھارت کی پچھلی چند دہائیوں میں ہونے والی تبدیلیوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ نظریات اور قومی مزاج میں یہ بتدریج تبدیلی نئی دہلی کی خارجہ پالیسی سے جھلکتی ہے – خاص کر اسرائیل کے ہمراہ اس کے بدلتے تعلقات سے۔ ۱۹۴۷ میں اپنی آزادی کے وقت سے، بھارت نے غیر جانبداری کی پالیسی کی پیروی کی ہے اور فلسطین کے مسئلے پر آواز اٹھائی ہے۔ اس کے باوجود، اسرائیل اور بھارت کے درمیان موجودہ تعلقات اس تاریخ سے انحراف کا پتہ دیتے ہیں – بھارت نے ۷ اکتوبر کو حماس کے حملوں کے بعد سے اسرائیل کی کھلے دل سے حمایت کی ہے اور حتیٰ کہ وہ اقوام متحدہ میں انسانی بنیادوں پر عارضی جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی قرارداد سے بھی غیرحاضر رہا۔
بھارت اسرائیل تعلقات
فلسطین کے لیے بھارتی حمایت کی جڑیں نوآبادیاتی نظام کے خلاف مشترکہ نقطۂ نگاہ اور ایک ایسی ریاست کے بطور ہونے والے مشترکہ تجربے میں پیوست تھیں کہ جو مذہبی بنیادوں پر دو حصوں میں تقسیم ہوئی تھی۔ بھارت ایک ایسی ریاست کی نمایاں مثال تھا کہ جس نے صدیوں تک برطانوی نوآبادیاتی راج کے خلاف لڑائی کی تھی، اور بھارت فلسطین کو ایسی ہی ایک ریاست کے طور پر دیکھتا تھا کہ جو خود کو ان ملتے جلتے حالات میں گھرا ہوا پاتی تھی۔ تاہم برصغیر کی مذہبی خطوط پر تقسیم نے پڑوسی ممالک کے ہمراہ تناؤ پیدا کیا۔ پاکستان میں ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی، ملک بھر میں جرائم اور مشرقی محاذ پر چین سے وابستہ خطرے نے بھارت کو اپنی خارجہ پالیسی کے ازسرنو تجزیے پر مجبور کیا جو کہ ایک طرح سے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے مفادات سے جا ملتی تھی۔ اس اتحاد کے پس پشت ایک بنیادی محرک بھارت اور اسرائیل کا دہشت گردی کے خلاف موقف تھا، جس میں ۲۰۰۸ میں ممبئی پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کہ جن میں سینکڑوں جانیں ضائع ہوئی تھیں، کے بعد تیزی آئی تھی۔
صرف دوست ہی نہیں بلکہ گرو بھی
نئی دہلی نے تل ابیب کے ہمراہ تعلق کو محض برقرار ہی نہیں رکھا ہے؛ بلکہ اس نے مذہبی قوم پرستی کو فروغ دینے کے لیے اسرائیل کی بصیرت کے حصول کی تگ و دو میں اسے ایک گرو کا مقام بھی دیا ہے، مذہبی قوم پرستی ایسا ماڈل ہے جس پر اسرائیل میں بخوبی عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ ۲۰۱۶ میں، اڑی میں کیے گئے عسکریت پسندوں کے حملے جس میں ۱۹ بھارتی فوجی مارے گئے تھے، اس پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر پر بھارت کی سرجیکل اسٹرائیکس کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ اس کارروائی کے لیے اسرائیل کی جانب سے حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔ حتیٰ کہ اس واقعے سے بہت پہلے، ۱۹۹۹ کی کارگل جنگ کے دوران، اسرائیل کے جاسوس ڈرونز، مارٹر گولوں، اور تیکینی مشوروں نے بھارت کی فتح میں مدد دینے میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ مزید برآں، بھارت پڑوسی اقوام کی جانب سے ممکنہ حملوں سے تحفظ کے معاملے میں اسرائیل کے طریقۂ جات میں خاص دلچسپی رکھتا ہے کیونکہ بھارت کے اپنے سلامتی کے خدشات اس کے جوہری پڑوسیوں سے پھوٹتے ہیں۔
اسرائیل کی طرح ہی بھارت بھی داخلی سطح پر مذہبی تقسیم سے جڑی آزمائشوں سے نبردآزما رہتا ہے۔ بھارت میں ۲۰۰ ملین سے زائد مسلمان رہتے ہیں جو اسے جنوبی ایشیا میں پاکستان کے بعد مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی کا حامل اور دنیا میں تیسری بڑی مسلم آبادی کا حامل ملک بناتے ہیں۔ بھارت کی آزادی کے بعد کی تاریخ گو کہ نسلی فسادات کی علامت بننے والے متعدد واقعات سے بھری پڑی ہے، تاہم اس تشدد کو نظام کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا۔ لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کے ۲۰۱۴ میں اقتدار میں آنے اور ایک ہندو قوم پرست ایجنڈے کو نافذ کرنے کے بعد سے، مسلمانوں کے خلاف تعصب میں ہمیشہ کے مقابلے میں اضافہ ہو چکا ہے۔ گریگوری اسٹینٹن جو کہ جینوسائیڈ واچ کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں، آسام کی بھارتی ریاست اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نسل کشی کی “نشانیوں اور کارروائیوں” کو بیان کرتے ہیں۔
بی جے پی حکومت نے ۲۰۱۹ میں شہریت میں ترمیم کا قانون (سی اے اے) نافذ کیا جسے بڑے پیمانے پر بنگلہ دیش اور پاکستان سے آنے والے مہاجرین کو نشانہ بنانے والی آئینی اصلاح کے طور پر دیکھا گیا۔ بین الاقوامی سطح پر مذمت کے باوجود بھی اسرائیل نے ترمیم کو سراہتے ہوئے مبینہ طور پر بھارت کی حمایت کی۔
باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت جبرواستبداد، ٹارگٹ کلنگز اور مسلمانوں کے لیے غیر منصفانہ عدالتی نظام مودی کی قیادت میں بھارت کی روایت بن چکا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح اسرائیل میں یہ معمول کی طرح ہوتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی ۲۰۲۲ کے لیے نو ماہانہ رپورٹس کے مطابق، بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے واقعات میں ۱۴۷ افراد پولیس تحویل میں، ۱۸۸۲ افراد عدالتی تحویل میں اور ۱۱۹ مبینہ طور پر ماورائے عدالت قتل میں، ہلاک ہوئے۔ شاک کی یہ کیفیت اس وقت شدید ہو جاتی ہے جب سیکیورٹی فورسز کو تشدد اور قتل کے الزامات لگنے کے بعد بھی اسی طرح استثنیٰ مل جاتی ہے کہ جس طرح اسرائیل کی دفاعی فورسز فلسطینیوں کے خلاف وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بعد ملتی ہے۔
بین البراعظمی اسلاموفوبیا
ریاست کی منظوری سے روا رکھی جانے والی ان ناانصافیوں کے باوجود، بھارتی ذرائع ابلاغ کے بڑے حصے نے آزادی صحافت میں کمی کی وجہ سے ان واقعات سے نظریں پھیر لینے کا انتخاب کیا ہے۔ حتیٰ کہ بھارت کی فلمی صنعت، بالی وڈ ایسی فلمیں پروڈیوس کرتا ہے جو مسلمانوں کو ‘دہشت گرد’ کے روپ میں دکھاتی ہیں اور یوں اسلاموفوبیا کو فروغ دے رہا ہے۔ ‘کشمیر فائلز’ اور ‘دی کیرالہ اسٹوری’ جیسی فلمز مسلمانوں کو دبانے کے ایجنڈے کو جائز قرار دیتی دکھائی دیتی ہیں۔قوم پرست بیانیے کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے بھارتی سینما کا استعمال اسرائیل کے قوم پرستی کے ایک عام ہتھیار کی نقالی کرتا دکھائی دیتا ہے- اسرائیل کی تیار کردہ ‘فاؤدا’ اور ‘انوسینس آف مسلم’ جیسی موویز کو فلسطینی مسلمانوں اور ان کے پیغمبر محمد کی منفی تصویر کشی پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
مزید برآں، اسرائیل حماس جنگ کے پس منظر میں، بھارت اور مشرق وسطیٰ بھر کے مسلمانوں کے خلاف نہ صرف دائیں بازو کے اسرائیلی گروپ کی جانب سے بلکہ بھارت میں بی جے پی کے انتہا پسند حمایتیوں کی جانب سے پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے۔ الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارت سے تعلق رکھنے والے دائیں بازو کے درجنوں اکاؤنٹس کی جانب سے سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں جن میں فلسطینیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں عام واٹس ایپ اکاؤنٹس سے شام اور افغان جنگوں کی تشدد آمیز تصاویر اور ویڈیوز ‘مسلم فتنے’ جیسے کیپشنز کے ساتھ پھیلائی گئیں۔ حقائق کی پڑتال کرنے اور مشرقی بھارتی ریاست جھاڑکھنڈ سے تعلق رکھنے والے بھارت نائیک نے کہا کہ “وہ اس بحران کو یہ کہتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف غلط معلومات پھیلانے اور مخالف جماعتوں اور حماس کے دیگر حامیوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں کہ وہ ہندوؤں پر اسی طرح سے حملہ کریں گے، اور انہیں ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔” یہ بھارت اور اسرائیل کے اسلاموفوبک نظاموں میں مفادات کے ارتکاز کا اشارہ دیتا ہے – جو نہ صرف سرکاری سطح پر ہے بلکہ دائیں بازو کے شہریوں میں بھی موجود ہے۔
حاصل کلام
بی بی سی کی ‘انڈیا: دی مودی کوئسچن’ کے نام سے ایک تحقیقاتی ڈاکیومینٹری میں ۲۰۰۲ میں گجرات میں ۲۰۰۰ سے زائد مسلمانوں کے قتل عام کے پس پشت نریندر مودی کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کے بارے میں شواہد پیش کرنے کے باوجود بھی، مغربی اقوام نے بی جے پی حکومت کے خلاف کڑی تنقید سے گریز کیا ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ جہاں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کے سبب وزیراعظم مودی کے داخلے پر تقریباً ایک دہائی تک پابندی رہی، اس نے انہیں مدعو تک کیا۔ اس میں اسی سلوک کی بازگشت سنائی دیتی ہے جو کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ کرتا ہے – آخر کو، بھارت اور اسرائیل دونوں بالترتیب چین اور ایران کے خلاف امریکی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔
بی جے پی کی قیادت میں بھارت کی اسرائیل کے ہمراہ پراسرار مماثلت کے باوجود، ملک کی شاندار تاریخ – جو نوآبادیاتی نظام کے خلاف اس کی جدوجہد اور جمہوریت کے لیے لازوال عزم کا نشان ہے – ناقابل تردید ہے۔ طاقت کے ایک عالمی منبعے کی شکل اختیار کرنے کی صلاحیت کے ساتھ، بھارت اب ایک نازک مرحلے پر ہے، جہاں اسے ایک اہم انتخاب کرنا ہے: کہ آیا ایک متنوع، متحمل مزاج، اور جہوری قوم کے طور پر اپنی حیثیت کو دوبارہ حاصل کرے یا پھر کہ اسرائیل کے لائحۂ عمل کو اختیار کرنے کا خطرہ مول لے جہاں وہ ایک نسل پرست اور مطلق العنان ریاست ہونے کے سبب عالمی شہہ سرخیوں کا بارہا حصہ بنتا رہے گا۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Prime Ministers Narendra Modi and Netanyahu via Flickr.
Image 2: Prime Minister Narendra Modi via Flickr.