ریاستہائے متحدہ امریکہ ، 20 ویں صدی کے وسط سے ،جنوبی ایشیا کے مدارکو ڈھالنے والی ایک اہم بیرونی طاقت رہا ہے۔ گزشتہ دہائی میں خطے میں امریکی پالیسی کی ترجیح پاک بھارت جنگ کے خدشات، کشمیر کے مسائل اور جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے اندیشوں سے نکل کر چین کے فوجی اور معاشی اثر و رسوخ کو پیچھے دھکیلنے اور بحرہند و بحرالکاہل (کے خطے) میں طاقت کے سازگار توازن کو برقرار رکھنے تک منتقل ہوگئی ہے۔
جنوبی ایشیا کے حوالے سے بائیڈن انتظامیہ کا طرزِ نظر (اپروچ) ٹرمپ کی صدارت میں شروع کیے گئے علاقائی اقدامات کو جاری رکھنا اور بڑھانا تھا۔ ان کی قیادت نے جنوبی ایشیا کے بارے میں امریکی پالیسی، جو بحرہند و بحرالکاہل کی حکمت عملی (انڈو-پیسیفک اسٹریٹیجی) میں مشمول ہے، کو دو بنیادی طریقوں سے متاثر کیا ہے: پہلا، اس سے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بڑے پیمانے پر تنزلی آئی ہے اور دوسرا، اس نے بھارت کے ساتھ تزویراتی شراکت داری (اسٹریٹیجک پارٹنر شپ)کو مزید مستحکم کیا ہے۔ جیسے جیسے جنوبی ایشیا بڑی طاقتوں کے لئے ایک اہم تزویراتی اکھاڑےکی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، توقع ہے کہ بائیڈن کے جانشین کی طرف سے امریکی علاقائی پالیسی کے اس بنیادی خیالیہ کو وسیع پیمانے پر جاری رکھا جائے گا۔
امریکہ کی پاکستان کے ساتھ ناچاقی
دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں پاکستان ایک اہم شراکت دار تھا، لیکن جب سے صدر جو بائیڈن نے اپنے عرصۂ حکومت (ٹرم)کے سب سے اہم خارجہ پالیسی کے فیصلوں میں سے ایک میں، افغانستان میں تقریباََ دو دہائیوں سے جاری جنگ کا خاتمہ کیا، امریکہ اور پاکستان کے تعلقات انحطاط پذیر ہو گئے ہیں۔ ماضی میں خوشگوار رہنے والےتعلقات اس وقت کشیدہ ہو گئے جب واشنگٹن نے اسلام آباد پر طالبان کی حمایت کرنے اور انہیں پاکستان میں پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام عائد کیا ۔ مزید برآں، جیسے جیسے چین اور روس جیسی بڑی طاقتوں کے ساتھ مسابقت میں اضافہ ہوا، پاکستان اور افغانستان کی امریکی تزویراتی مفادات کے تحفظ کے مقامات کے طور پر اہمیت کم پڑتی گئی۔ لہٰذا خطے سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان کے ساتھ تعلقات کا دائرہ محدود ہو گیا اور افغانستان میں واشنگٹن کی محدود ـ’’ اوور دی ہورائزن‘‘ (دور دست) انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے گرد گھومتارہا جو زمین پرکام کرنے والے اہلکاروں کے بجائے سیٹلائٹ ٹیکنالوجی اور فضائی طاقت پر انحصار کرتی ہیں۔
بائیڈن نے اپنی صدارت کے پہلے تین سالوں میں پاکستان کی قیادت کے ساتھ کوئی رابطہ قائم نہ کرنے کا فیصلہ کیا، جو پاکستان کے بارے میں عمومی امریکی بے اعتنائی کی عکاسی کرتا ہے۔ اگرچہ پاکستان 2022 کے سیلاب کے بعد اپنی نئی جغرافیائی و اقتصادی حکمت عملی کے تحت امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانا چاہتا تھا ، لیکن بائیڈن انتظامیہ نے پرانے دفاعی تعلقات کو برقرار رکھنے اور (چند) نامربوط اقدامات (پیس میل انگیجمنٹ) کے علاوہ کچھ بھی قابل ذکر پیش نہیں کیا۔ واشنگٹن کے لیے پاکستان کے گھٹتےہوئے جغرافیائی و سیاسی اثر و رسوخ اور اس کے دیرینہ سیاسی و معاشی بحرانات نے کثیر الجہتی روابط کی دستیاب گنجائش کی ممکنہ طور پرحوصلہ شکنی کی ہے۔
تعلقات کو وسعت دینے میں واشنگٹن کی ہچکچاہٹ نے نادانستہ طور پر اسلام آباد کے بیجنگ کی طرف مسلسل جھکاؤ کو تیز ترکر دیا۔ کسی اچنبھے کے بغیر، چائنا انڈیکس 2022 کے مطابق چین سے سب سے زیادہ اثر پذیرہونے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان سرفہرست ہے۔
بھارت کے ساتھ تزویراتی ہم ربطی اور ہم آہنگی
افغانستان سے امریکی انخلا اس فہم پر مبنی تھا کہ اکیسویں صدی کو ڈھالنے کی تزویراتی مسابقت ہندوکش کے ناہموار پہاڑوں میں نہیں، بلکہ بحرہند و بحرالکاہل کے متلاطم سمندروں میں جیتی یا ہاری جائے گی۔ واشنگٹن کے لیے جنوبی ایشیا بیجنگ کے ساتھ تزویراتی مسابقت کے لیے اکھاڑےکے طور پر ابھرا ہے۔ ان نئے جغرافیائی و سیاسی حقائق سے مطابقت پانے کے لیے بائیڈن انتظامیہ اپنے پیشروؤں کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات میں تیزی لائی، جس میں بھارت کو پاکستان پر فوقیت دینے کو واشنگٹن کی علاقائی پالیسی کا اساسی حصہ ٹھہرایا گیا۔
بھارتی پالیسی ساز طویل عرصے سے اپنے ملک کو جنوبی ایشیا میں قابلِ تسلیم رہنما بنانے کی خواہش رکھتے رہے ہیں- جس خیال (خواہش) کی خطے کی چھوٹی طاقتوں نے شدید مخالفت کی ہے اور (اب)اس نظریے کو بائیڈن انتظامیہ کی صورت میں ایک مضبوط اتحادی مل گیا ہے۔
ہرچند امریکہ نے پاکستان کو اپنی بحرہند و بحرالکاہل کی حکمت عملی سے خارج کررکھا ہے تاہم اس نے بھارت کو جنوبی ایشیا میں سب سے اہم شراکت دار قرار دیا ہے۔ بھارت اور امریکہ نے غیر ضروری اور جبری چینی اثر و رسوخ کے خلاف خطے کے ممالک کی حمایت میں ایکا کرکے کام کیا ہے۔ مثلاََ نئی دہلی اور واشنگٹن نے سری لنکا کا چین پر انحصار کم کرنے کی سعی کی اور (سری لنکا کے) قرضوں کی تنظیم نو کے لیے مربوط کوششیں کیں۔ واشنگٹن نے کولمبو کی اقتصادی پریشانیوں کو سہارنے میں نئی دہلی کے قائدانہ کردار کا خیرمقدم کیا۔ بحران کے عروج پر بھارت نے سری لنکا کو خوراک اور مالی امداد کے طور پر تقریباََ 4 بلین ڈالر فراہم کیے۔ بھارت کی امداد کے بعد امریکہ نے پیروی کی اور 270 ملین ڈالر پیش کیے۔ بھارت میں سری لنکا کے نمائندے (اینوائے)نے سرِ عام تسلیم کیا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے کے لئے ملک (سری لنکا) کے لیےبھارتی معاشی امداد ناگزیر تھی۔ واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان تعاون کی ایک اور مثال بھارت کا 2020 میں مالدیپ کے امریکہ کے ساتھ دفاعی تعاون کے معاہدے پر دستخط کرنے کا خیرمقدم تھا۔ ماضی کے برعکس جب بھارت بحر ہند کے چھوٹے ممالک اور امریکہ کے درمیان سیکورٹی شراکت داری کی مخالفت کرتا تھا ، (اب بھارت) بحر ہند میں واشنگٹن کی موجودگی کو اپنے تزویراتی مفادات کے موافق سمجھتا ہے۔
بھارت اور امریکہ اپنے دوطرفہ تعلقات کو بڑھا کر جامع عالمی تزویراتی شراکت داری (کمپری ہینسیو گلوبل اسٹریٹیجک پارٹنر شپ) ، بڑھتے ہوئے دفاعی تعلقات اور تجارت وسرمایہ کاری کے روابط کو مزید مستحکم کرنے تک لے گئے۔ ایک تاریخی معاہدے میں ، امریکہ – بھارت اقدام برائے اہم اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی[ انیشی ایٹو آن کریٹیکل اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجی] (آئی سی ای ٹی)ایک اہم قدم تھا جو مصنوعی ذہانت ، سیمی کنڈکٹرز اور بائیو ٹیکنالوجی جیسی جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعاون کو فروغ دینے کے لئے وضع کیا گیا تھا۔ واشنگٹن نے بھارت کی فوجی صلاحیتوں کو تقویت دینے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے اور دونوں فریق بحر ہند کی بحری سلامتی کو بہتر بنانے کے لئے باقاعدگی سے بحری مشقیں بھی کرتے ہیں۔ایک مضبوط اسٹرکچرل لوجک کو قوّی تر کرنے والی چین کے ساتھ مشترکہ دشمنی نے واشنگٹن میں اس نکتے کو راسخ کیا ہے کہ اقتصادی اور عسکری طور پر ماہر بھارت اس (امریکہ) کے مفاد میں ہے۔
جنوبی ایشیا میں امریکہ کا مستقبل
تاریخی طور پر پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں سلامتی کے مسائل حاوی رہے ہیں اور اقتصادی شراکت داری تزویراتی مفادات کے تابع رہی ہے۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیاسلامتی پر مبنی نقطہ نظر سے جامع تر تعلقات کی جانب منتقلی کامیاب ہوسکتی ہے (یا نہیں)۔
خصوصاََ اب جب کہ چین اور بھارت کے حوالے سے ان کے (مابین) بنیادی تزویراتی اختلافات ہیں، معاشی تعلقات کو کافی حد تک بہتر بنانا ایک بڑی مشکل (چیلنج ) ہوگی۔
پاکستان کو بھارت سے متعلق معاملات پر امریکہ سے کوئی تزویراتی رعایت ملنے کا بھی امکان نہیں ہے۔ مثلاََ نئی دہلی کی جانب سے کشمیر سے نمٹنے کے طریقہ کار پر معمولی سرزنش کی گئی، لیکن واشنگٹن نے بھارت کے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ اس مسئلے کو کسی تیسرے فریق کی شمولیت کے بغیر پاکستان کے ساتھ دوطرفہ طور پر حل کیا جانا چاہیے۔ مزید برآں، اگرچہ امریکہ پاکستان کو ایف-16 طیاروں سمیت فوجی پیکجز کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن اس نے اسلام آباد میں پالیسی سازوں کی خواہشات کے برعکس بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات کو مستحکم کیا ہے۔
بھارت اور امریکہ کے درمیان مستقبل میں کچھ علاقائی امور پر اختلافات کی توقع کی جا سکتی ہے۔ مثلاََ میانمار میں دونوں ممالک کی پالیسیاں مختلف ہو سکتی ہیں۔ واشنگٹن، خصوصاََ ایک ڈیموکریٹک صدر کے تحت، باغی قوّتوں (فورسز) کی حمایت میں اضافہ کر سکتا ہے، جبکہ امکان ہے کہ بھارت جنتا کی حمایت جاری رکھے گا۔ تاہم اس امر کو یقینی بنانے کے لئے کہ جنوبی ایشیا چین کے اثر و رسوخ کا حصہ نہ بنے،تزویراتی ہم آہنگی ممکنہ طور پر دیگر اختلافات کو نظر انداز کرے گی اور واشنگٹن میں اقتدار میں آنے والے سیاسی نظام سے قطع نظر ، اس امرکو یقینی بنائے گی کہ (ان کا) رشتہ اثر انداز نہ ہو۔
اگرچہ جنوبی ایشیا ہیرس یا ٹرمپ انتظامیہ کے تحت امریکی پالیسی کے وسیع تسلسل کی توقع کر سکتا ہے ، لیکن کچھ معاملات پر ان کا نقطہ نظر مختلف ہوگا۔ ہیرس انتظامیہ ،اگر اس میں ڈیموکریٹک پارٹی کے زیادہ ترقی پسند دھڑے کا عملہ ہو، (کی جانب سے) خارجہ پالیسی کی اقدار کے طور پر جمہوریت اور انسانی حقوق پر زور دینے کا زیادہ امکان ہے ، جس کی وجہ سے اختلاف رائے کو روکنے یا مذہبی اکثریت پسندی کا مظاہرہ کرنے پرخطے کے ممالک کوکبھی کبھار تنقید کا سامنا کرناپڑ سکتاہے۔ مجبوری میں انتخاب کرنے کی صورت میں تزویراتی مفادات ممکنہ طور پر کسی بھی نظریاتی یا اقدار پر مبنی اختلافات پر غالب ہوں گے۔ ٹرمپ کی صدارت خطے میں آمریت اور امتیازی سلوک سے متعلقہ کسی بھی تشویش کو کم کر دے گی۔ ہیرس بھی تزویراتی اہداف کے حصول کے لئے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے پر راغب ہوں گے۔ ٹرمپ نے اس سے قبل ممالک کے ساتھ معاملت میں زیادہ تر لین دین کے طرزِ نظر کا مظاہرہ کیا ہے اور کثیر الفریقی کے بارے میں ان کی عمومی تحقیر کے ساتھ، وہ (مزید) شراکت داروں کو شامل کرنے کی طرف کم مائل ہوں گے۔
دوسری طاقتوں کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کے بھارت اور پاکستان پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ مثلاََ ٹرمپ ایران پرمزید سخت پابندیاں عائد کر سکتے ہیں اور تہران کے ساتھ معاملت کرنے پر (دوسرے) ممالک کو ثانوی پابندیوں کی دھمکی دے سکتے ہیں۔ یہ بھارت اور پاکستان دونوں کے لئے ایک نقطۂ اختلاف ثابت ہوسکتا ہے ، جنہیں ایران کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو برقرار رکھنے میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ٹرمپ ہیرس کے مقابلے میں تجارت کے حوالے سے زیرو-سم (ایک کا فائدہ، دوسرے کا نقصان) کا طرزِنظر بڑھ کراختیار کریں گے اور جغرافیائی وسیاسی طور پر دوست ممالک کی برآمدات پر زیادہ محصولات عائد کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ مثلاََ ٹرمپ پہلے بھی بھارت کو دوطرفہ ٹیکس عائد کرنےکی دھمکی دے چکے ہیں، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ان کے پہلے دور حکومت کی طرح بھارت کے ساتھ تجارتی تناؤ بڑھ سکتا ہے۔ ٹرمپ پاکستان پر یہ دباؤ بھی ڈال سکتے ہیں کہ وہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو جیسے چینی زیر قیادت اقدامات کے ساتھ اپنے معاملت کو محدود کرے۔
امریکہ اور چین کے درمیان، 1970 کی دہائی میں، تعلقات کی کشیدگی ختم ہونےکے بعد سے ایشیا نے دونوں ممالک کے درمیان ساز گار تعاون کا مشاہدہ کیا ہے۔ تاہم گزشتہ ایک دہائی کے دوران، دونوں ممالک زیادہ جغرافیائی و سیاسی اور جغرافیائی واقتصادی اثر و رسوخ پانے میں ایک دوسرے کوزد پہنچا کر بھی برتری حاصل کرنے کی کوشش کر تے رہے ہیں۔ اگرچہ سرد جنگ (کولڈ وار) کے دوران جنوبی ایشیا (کا کردار)اکثر امریکہ (کی نسبت) معمولی تھا ، تاہم یہ خطہ واشنگٹن سے زیادہ پائیدار معاملت کی توقع کرسکتا ہے کیونکہ یہ بیجنگ کے ساتھ گریٹ پاور کمپیٹیشن (مقدِرَت کی عظیم مسابقت) کے دور کا آغاز کر رہا ہے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: MEAphotogallery via Flickr
Image 2: U.S. Department of Defense via Flickr