Facebook-India-Ad

دسمبر کے اواخر میں، ایک ہندو پنڈت نرسنگھ آنند سرسوتی نے بھارتی شہر ہریدوار میں ہندو انتہا پسند رہنماؤں کی ایک کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس کی ویڈیوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقررین نے کھلے عام بھارت کی مسلم اقلیت کی نسل کشی کا مطالبہ کیا جبکہ بھارت کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے حکام شرکاء میں شامل تھے۔

 سرسوتی جیسے انتہا پسند کو اتنے بڑے پیمانے پر کیسے پذیرائی ملی؟ اس کا ایک ہی جواب ہے: فیس بک۔ سرسوتی کی ویڈیوز جن میں وہ مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ کر رہے ہیں انہیں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر لاکھوں کی تعداد میں لوگ دیکھ چکے ہیں۔ سرسوتی کی بڑھتی ہوئی شہرت اور ہریدوار کانفرنس بھارتی صحافی عارفہ خانم شیروانی کے اس تبصرے کا موجب بنی کہ ”ایک بھارتی مسلم کے طور پر میں نے خود کو کبھی اس قدر غیر محفوظ اور الگ تھلگ محسوس نہیں کیا جتنا کہ آج کر رہی ہوں۔“ ۲۰۲۱ کے موسم خزاں میں فیس بک، جو اب میٹا بن چکا ہے، کے بارے میں لیک شدہ دستاویز اور خفیہ رازوں  سے پردہ اٹھانے والے فرانسس ہاگن کی گواہی نے اُس امر  کی تصدیق کی جسے بھارت میں نفرت انگیز بیانیے اور تشدد کا نشانہ بننے والے پہلے سے ہی جانتے ہیں: فیس بک بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی کے ہندو قوم پرست حامیوں کی جانب سے پھیلائی گئی غلط معلومات اور اکسانے کی کوششوں کو جانتے بوجھتے نظر انداز کر رہا ہے۔

بھارت میں اندازاً ۳۴۰ ملین فیس بک صارفین ہیں جو امریکہ کی کل آبادی سے زیادہ ہیں، یوں کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ بھارتی افراد فیس بک پر ہیں۔ اس کے باوجود بھی ہاگنز کے انکشافات سے یہ منکشف ہوا کہ بھارت میں نفرت انگیز بیانیے اور غلط معلومات سے نمٹنے کی جانب توجہ اور وسائل کی دستیابی حیران کن حد تک کم ہے۔ ہاگنز اور خفیہ رازوں سے پردہ اٹھانے والے دیگر افراد  نے مزید یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ کیسے فیس بک انڈیا میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف غلط معلومات اور نفرت انگیز بیانیئے کے پھیلاؤ کی اجازت دیتا ہے جو اکثر فیس بک کی دنیا سے باہر تشدد کا باعث بنتا ہے۔

ہندو قوم پرستوں نے سوشل میڈیا کو کیسے مسلح کیا

نریندر مودی کی ۲۰۱۴ میں کامیابی اور ۲۰۱۹ میں ان کا دوبارہ انتخاب بڑی حد تک بی جے پی کے سوشل میڈیا کے شاطرانہ استعمال کی مرہون منت ہے۔ رضاکاروں کا ایک وسیع نیٹ ورک بی جے پی کے نام نہاد آئی ٹی سیل کے لیے کام کرتا ہے جو فیس بک، واٹس ایپ اور ٹوئٹر کے لیے غلط معلومات اور سازشی تھیوریاں تیار کرتا ہے۔ ۲۰۱۸ میں مودی کے دوبارہ انتخاب سے قبل بی جے پی کے صدر اور موجودہ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ان رضاکاروں کے سامنے شیخی بگھارتے ہوئے کہا تھا کہ ”پیغامات خواہ سچے ہوں یا جھوٹے، کھٹے ہوں یا میٹھے ہم انہیں وائرل کرنے کا سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں۔“ شاہ نے مزید کہا تھا کہ ”یہ سوشل میڈیا ہی ہے کہ جس کے ذریعے ہمیں ریاست اور قومی سطح پر حکومت قائم کرنی ہے۔“

شاہ نے واٹس ایپ (جو فیس بک کی ملکیت ہے) کا خصوصی تذکرہ کیا اور کہا کہ بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں بی جے پی روزانہ ۳۲ لاکھ لوگوں کو میسج بھیجتی ہے۔ اسی طرح ریاست بہار میں ۲۰۲۰ کے انتخابات سے قبل بی جے پی نے ۷۲ ہزار واٹس ایپ گروپس تشکیل دیے تھے۔ بی جے پی کا آئی ٹی سیل اس معاملے میں تنہا نہیں ہے؛ دیگر سینکڑوں ہندو قوم پرست گروہ ان مثالوں کی پیروی کرتے ہیں اور اپنے فیس بک اور واٹس ایپ گروپس میں اس نفرت انگیز بیانیے کو پھیلاتے ہیں۔ حتیٰ کہ وزیراعظم مودی ٹوئٹرپر ایسے کئی اکاؤنٹس کو فالو کر چکے ہیں جنہوں نے اقلیتوں کے بارے میں نفرت انگیز بیانیہ پھیلایا۔

اعلیٰ قیادت کی خاموشی

ہاگن فیس بک کے پہلے ملازم نہیں کہ جنہوں نے  بھارت میں غلط معلومات اور نفرت انگیز بیانیے کے پھیلاؤ کو اہم معاملے کے طور پر اٹھایا ہو۔ جیسا کہ ہاگن کی جانب سے جاری کی گئی دستاویزات کے مجموعے سے ظاہر ہوا کہ ۲۰۱۹ میں ایک فیس بک محقق نے کیرالہ، بھارت میں تجرباتی طور پر ایک صارف تخلیق کیا اور بعد ازاں یہ رپورٹ کیا کہ ”اس تجرباتی صارف کی نیوز فیڈ کے جائزے کے نتیجے میں  گزشتہ تین ہفتوں کے دوران اتنے مردہ افراد کی تصاویر دیکھ چکا ہوں جتنا کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھے۔“ فیس بک محققین نے قبل ازیں بھارت قوم پرست گروہ بجرنگ دل کو ایک خطرناک تنظیم قرار دینے اور اسے پلیٹ فارم پر بین کرنے کی تجویز بھی دی تھی۔ تاہم جیسا کہ وال اسٹریٹ جرنل نے ۲۰۲۰ میں رپورٹ کیا کہ فیس بک نے کاروباری امکانات اور عملے کے تحفظ کے پیش نظر اس گروہ کو خطرناک تنظیم قرار نہیں دیا تھا۔

بدقسمتی سے ان معلومات پر عمل درآمد کی کوششوں کو فیس بک کی قیادت کی جانب سے بارہا پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ مئی ۲۰۱۹ میں بھارتی صحافیوں نے ایک کتاب ”ریئل فیس آف فیس بک ان انڈیا“ میں فیس بک کی بھارتی قیادت اور بی جے پی کے درمیان تشویش ناک گٹھ جوڑ کی جانب اشارہ کیا تھا۔ اس اعلیٰ سطحی گٹھ جوڑ میں شیوناتھ ٹھکرال شامل ہیں جنہوں نے ۲۰۱۴ میں مودی کی ڈیجیٹل حکمت عملی کی نگرانی کی تھی اور اب وہ بھارت میں  واٹس ایپ کے پبلک پالیسی ڈائریکٹر ہیں۔ جب بھارت کی قانون ساز اسمبلی نے ۲۰۲۰ کے اوائل میں ٹھکرال سے مسلمانوں کے خلاف تشدد پر اکسانے میں فیس بک کے کردار پر سوالات کیے تو انہوں نے کئی سوالوں کے جواب دینے سے انکار کردیا اور دلیل دی کہ جواب نہ دینا ان کا حق ہے۔ ایک اور ایگزیکٹو انکھی داس نے فیس بک پر غلط معلومات اور نفرت انگیز بیانات پھیلانے والے بی جے پی سیاست دانوں کو بین کرنے کی اندرونی کوششوں کی مخالفت کی۔  فیس بک نے ان الزامات کی تردید کی کہ اس نے بی جے پی کی حمایت کی ہے اور داس نے وال سٹریٹ جرنل کی جانب سے بے نقاب کیے جانے پر اکتوبر ۲۰۲۰ میں کمپنی چھوڑ دی۔

بی جے پی اور فیس بک کے چوٹی کے ایگزیکٹوز میں روابط سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے بھارت کی پھیلتی ہوئی مارکیٹ میں داخلے کے ساتھ ساتھ سیاسی رنگ اختیار کرنے کو نمایاں کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر فیس بک حکام نے قبل ازیں بی جے پی کے آئی ٹی سیل ممبران کو ان کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کی تربیت دی تھی۔ جیسا کہ خفیہ رازوں سے پردہ اٹھانے والی سوفی زینگ نے خبر دی کہ فیس بک بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ سے منسوب جعلی اکاؤنٹس کو بلاک کرنے میں ناکام رہا ہے جبکہ اس نے حزب اختلاف سے جڑے ایسے اکاؤنٹس کو ختم کر دیا تھا۔ دیگر واقعات میں بی جے پی نے فیس بک اور ٹوئٹر کو ایسی پوسٹس ہٹانے کا حکم دیا تھا جو حکومت پر تنقید کرتی تھیں، ان میں سے بعض واقعات میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے حکم کی تعمیل کی تھی جبکہ دیگر میں انہوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔

حقیقی دنیا میں رونما ہونے والے نتائج

غلط معلومات سے نمٹنے میں فیس بک کی ناکامی کے نتائج بہت تباہ کن رہے ہیں۔ ۲۰۲۰ کے اوائل میں دہلی میں مسلمانوں کیخلاف تشدد اس امر کی ایک مثال ہے کہ کیسے نفرت انگیز بیانیہ اور غلط معلومات براہ راست گروہی تشدد کا باعث بن سکتے ہیں۔ خود فیس بک کی اپنی اندرونی تحقیق پر مبنی دستاویز کے مطابق دہلی فسادات کے آغاز پر نفرت پر مبنی بیانیے میں ۳۰۰ فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا تھا۔ ان فسادات نے ۵۳ افراد کی جان لی تھی جس میں زیادہ تر مسلمان تھے جبکہ  ہزاروں افراد کو عارضی کیمپوں میں پناہ لینا پڑی تھی جہاں بعد ازاں انہیں کووڈ ۱۹ کی وبا نے آن گھیرا تھا۔

اسی طرح ۲۰۲۱ میں  ہندو قوم پرست گروہوں نے مبینہ طور پر شمال مشرقی ریاست تریپورہ میں مساجد اور مسلمانوں کے کاروبار اور گھربار کیخلاف تشدد پر اکسانے کے لیے واٹس ایپ گروپس کا سہارا لیا تھا۔ اس نفرت انگیزی کیخلاف ڈیجیٹل ثبوت دستیاب ہونے کے باوجود تریپورہ پولیس نے اکسانے والوں کیخلاف کوئی اقدام نہیں کیا۔ الٹا انہوں نے مودی کے بنائے ہوئے ظالمانہ یو اے پی اے اینٹی ٹیررازم  لاء کے تحت ۱۰۲ لوگوں کیخلاف مقدمہ درج کیا جس میں سے بہت سے صحافی تھے۔ ان افراد کیخلاف فیس بک اور ٹوئٹر پر محض تشدد کی اطلاعات دینے اور بحیثیت انسان اپنے خدشات کا اظہار کرنے کے سبب ”مذہبی گروہوں کے مابین دشمنی“ پیدا کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ الزام کی زد میں آنے والے ان رپورٹرز میں سے ایک نے فقط (انگریزی میں) تین الفاظ ٹوئٹ کیے تھے کہ ”تریپورہ جل رہا ہے۔“

عملی قدم اٹھانے میں فیس بک کی ناکامی اور حتیٰ کہ ایک آزاد ہیومن رائٹس امپیکٹ اسسیسمنٹ کہ جس کی تشکیل کا حکم بذات خود ادارے نے دیا تھا اسے کچلنے کی کوششیں یہ اشارہ دیتی ہیں کہ کارپوریشن مسئلے سے نمٹنے میں سنجیدہ نہیں اور وہ ذمہ داری اٹھانے سے بچنے کی بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔

ڈیجیٹل نوآبادیات

 مبصرین نے حالیہ برسوں میں ”ڈیجیٹل نوآبادیات“ کی ایک اصطلاح کا استعمال شروع کیا ہے جو ٹیکنالوجی کارپوریشنز جو بڑی حد تک امریکی ہیں، ان کے کھربوں ڈالر اکھٹا کرنے اور عالم جنوب میں کاروبار سے لے کے مزدور تک اور سوشل میڈیا سے لے کے تفریحی سرگرمیوں تک ہر چیز کو اپنے قابو میں لانے کے لیے اضافی طاقت حاصل کرنے کی کیفیت کو بیان کرتی ہے۔ آج بھارت میں فیس بک اور گوگل کے اشتہارات کے مد میں ریونیو مجموعی طور پر بھارت کی ۱۰ چوٹی کی میڈیا فرمز کے مجموعی ریونیو سے بڑھ چکا ہے۔ بھارت کے لاکھوں مسلمانوں، عیسائی، دلت اور دیگر پسے ہوئے طبقوں کی زندگیوں پر منافع، اشتہارات کے ریونیو اور ابھرتی ہوئی منڈیوں تک رسائی کو ترجیح دینے پر مبنی فیس بک کا رویہ نوآبادیات کی اس نئی شکل سے جڑے خطرات کی تصویر ہے۔

بھارت میں فیس بک صارفین کی تعداد میں اضافہ مسلسل جاری ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو غلط معلومات اور نفرت انگیز بیانات کے لیے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔ اگرچہ کبھی کبھار ایسے واقعات بھی دیکھنے کو ملے ہیں کہ جہاں فیس بک نے موجودہ حکومت کو چیلنج کیا، مثلاً واٹس ایپ نے ۲۰۲۱ میں پرائیویسی امور پر حکومت کیخلاف مقدمہ درج کیا تھا تاہم ہاگن کی گواہی اور دیگر واقعات زیادہ گہرائی میں نظام کی سطح پر مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں جو کہ انفرادی سطح کے اقدامات یا بیانات سے حل نہیں ہو سکتے ہیں۔ فیس بک کا انفرادی پیجز یا پوسٹس کے بارے میں شکایات سے نمٹنے کا موجودہ لائحہ عمل بھارت جیسے ملک میں اس کے پلیٹ فارمز پر آنے والے ٹریفک کی بھاری مقدار کے سبب ناکافی ہے۔ مستقبل کے لیے زیادہ موثر راستہ غلط معلومات اور نفرت انگیز بیانیے کے وسیع تر سطح پر پھیلاؤ کی شناخت ہوگا اور  قبل اس کے کہ جارحیت کا مظاہرہ کرنے والے افراد و ادارے وسیع پیمانے پر تشدد پر اکسائیں، انہیں فیس بک سے ہٹانا ہوگا۔

فیس بک کی جانب سے چند بیانات اور اوورسائٹ بورڈ جس کی بھرپور تشہیر کی گئی تھی، کے باوجود ایسا نہیں دکھائی دیتا کہ فیس بک بھارت کے حوالے سے کوئی نمایاں تبدیلیاں لائے گا مبادہ کہ وہ مودی حکومت کو ناراض کر بیٹھے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم بین الاقوامی اور سول سوسائٹی کے گروہ کی جانب سے مسلسل دباؤ نیز امریکی پالیسی سازوں کے اقدامات ہی محض فیس بک کے غلط معلومات کے پھیلاؤ کے مسئلے کو حل کر سکتے ہیں اور بھارت اور دنیا بھر میں جمہوریت کے انحطاط میں اس کے کردار کو ختم کرسکتے ہیں۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: MANJUNATH KIRAN/AFP via Getty Images

Image 2: Narendra Modi via Flickr

Share this:  

Related articles

پاکستان کے سلامتی (سے متعلقہ)مسائل سے چین کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ Hindi & Urdu

پاکستان کے سلامتی (سے متعلقہ)مسائل سے چین کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ

چین اور پاکستان کے درمیان طویل عرصے سے قریبی تعلقات…

पर्वतों से समुद्री तटों तक: गलवान के पश्चात् भारत-चीन प्रतिस्पर्धा Hindi & Urdu
جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ Hindi & Urdu

جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ

ریاستہائے متحدہ امریکہ ، 20 ویں صدی کے وسط سے…