چین اور پاکستان کے درمیان طویل عرصے سے قریبی تعلقات رہے ہیں، جنہیں اکثر “آہنی دوستی” کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ تاہم پاکستان اور چین کے مابین تاریخی قریبی تعلقات کو اس وقت بڑھتے ہوئے سیکیورٹی (سلامتی)خطرات کی وجہ سے کافی دباؤ کا سامنا ہے۔ حالیہ برسوں میں، اندرونِ پاکستان ، خصوصاََ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) سے وابستہ چینی شہریوں اور بنیادی انفرا اسٹرکچر (ڈھانچے) پر حملوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس نے پاکستان کو ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے کیونکہ چین مزید مضبوط حفاظتی اقدامات کے لئے اپنی توقعات کے بارے میں آواز بلند کرنے میں بڑھتا جا رہاہے۔ پاکستان کی جانب سے سیکیورٹی بڑھانے کی کوششوں کے باوجود، تشدد کی متواترلہر اسلام آباد کی چینی مفادات کے تحفظ کی اہلیت پر سوالات اٹھاتی ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بری طرح متاثر ہوسکتے ہیں۔ اگر پاکستان چینی شہریوں کا تحفظ کرنے میں ناکام رہا تو تعلقات اس حد تک خراب ہو سکتے ہیں کہ اسلام آباد کواپنے واحد اہم اتحادی کھونے کا خدشہ ہے۔
سی پیک کے لیے بڑھتا ہوا خطرہ
چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات کا سنگِ بنیاد چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) ہے، جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا ایک اہم اقدام ہے، جس کی مالیت لگ بھگ 60 بلین امریکی ڈالر ہے اور (جس میں) اب تک قریباََ 25 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری ہو چُکی ہے۔ 2013 میں اپنے آغاز سے سی پیک مختلف انفراسٹرکچر منصوبوں بشمول شاہراہوں (ہائی ویز)، پاور پلانٹس اور تزویراتی (اہمیت کے حامل)گوادر پورٹ کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، جو کہ پاکستان کے لیے اہم اقتصادی مقسوم (ڈیویڈنڈ)کی اُمید ہے۔
اقتصادی ترقی کے وعدوں کے باوجود سی پیک نے پاکستان کو سیکیورٹی کی نئی مشکلات سے بھی دوچار کیا ہے۔ چینی شہری مختلف دہشت گرد اور باغی گروہوں کے حملوں کا اکثر نشانہ بنتے رہے ہیں۔ 26 مارچ کو شانگلہ میں چینی انجینئرز پر حملہ، 2021 میں داسو بس حملہ جس میں 9 چینی انجینئرز ہلاک ہوئے اور 2022 میں کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ پر حملہ جیسے اہم ( ہائی پروفائل ) واقعات نے پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں کے عدمِ تحفظ کی نشاندہی کی ہے۔ ان واقعات نے نہ صرف منصوبوں میں خلل ڈالا بلکہ چین کو پاکستان میں اپنی شمولیت اور حفاظت کے درجے پر نظر ثانی کرنے پر بھی مجبور کیا ہے
چینی شہریوں اور پاکستان میں ان کے مفادات کو بنیادی طور پر بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کی طرف سے نشانہ بنایا جاتا ہے ، جبکہ پاکستانی طالبان (ان کے لئے)ایک ثانوی خطرہ ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) جیسے گروہ ، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ چینی، خطے کی مقامی آبادی کو فائدہ پہنچائے بغیر ،مقامی وسائل کا استحصال کرتے ہیں، سی پیک منصوبوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ بی ایل اے نے دو بار چین کو متنبہ کیا کہ وہ بلوچستان چھوڑ دے ورنہ حملوں میں اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دریں اثنا تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے بھی چینی مفادات کو نشانہ بنایا ہے۔ تاہم، اس کا محرک ممکنہ طور پر پاکستانی ریاست کے خلاف اس کی نظریاتی مخالفت سے اخذ کیا گیا ہے۔ ٹی ٹی پی پاکستان کو ایک “بے دین ریاست” سمجھتی ہے اور اس (پاکستان) کے اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جنگ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ پاکستان مختلف ایجنڈوں کے حامل ان دہشت گرد گروہوں کےگُوناگُوں خطرات کو ختم کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے ، جس سے اس کا قریبی اتحادی برہم ہے۔
چین کی پاکستان سے بڑھتی ہوئی مایوسی
حالیہ برسوں میں پاکستان کے ساتھ چین کی مایوسی زیادہ واضح اور شدیدہو گئی ہے، جس کی نشاندہی پسِ پردہ سفارتی دباؤ سے ہٹ کر سیکورٹی اقدامات میں اضافے کے اعلانیہ مطالبات سے ہوتی ہے۔ چینی شہریوں پر بار بار حملوں کے بعد، چین نے مزید موزوں ترتحفظ کے مطالبے میں اضافہ کیا ہے، یہاں تک کہ اگر پاکستان تحفظ کی ضمانت نہیں دے سکا تو نجی سیکیورٹی اداروں (فرمز)کو استعمال کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ پاکستان نے چینی شہریوں کے تحفظ کو بہتر بنانے کا وعدہ کیا ہے لیکن ان توقعات پر پورا اترنے کی اس کی صلاحیت اب تک مایوس کن رہی ہے۔ اس سال کے اوائل میں شانگلہ میں چینی شہریوں پر حملے کے بعد چین نے دو منصوبوں کو عارضی طور پر روک دیا تھا اور پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ یہ تعطل چین کے عدم اطمینان کاایک نادر مظاہرہ تھا اور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سیکیورٹی خدشات وسیع تر اقتصادی تعاون کو کس طرح متاثر کرسکتے ہیں۔ یہ بحران حال ہی میں اس وقت عروج پر پہنچ گیا جب پاکستان میں چینی سفیر نے ایک سیمینار میں دہشت گردوں کو چینی شہریوں پر حملہ کرنے سے روکنے میں پاکستان کی ناکامی کے بارے میں اعلانیہ شدید الفاظ میں تبصرہ کیا۔ یہ بیان اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس سے چند روز قبل کراچی میں چینی انجینئرز کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد حملے کے بعد سامنے آیا ۔ جواباََ پاکستان کے دفتر خارجہ نے (اس الزام کو) قبول کرنے سے انکار کیا۔
پاکستان نے تشدد کے جواب میں دو نئی فوجی اور انسداد دہشت گردی مہمات (اقدامات) کا اعلان کیا ہے۔ پہلا آپریشن عزمِ استحکام ہے، جو ایک نئی فوجی مہم ہے جس کا اعلان حکومت نے جون 2024 میں افغانستان سے اُبھرنے والی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کیا تھا۔ اس مہم کا اعلان وزیر اعظم شہبازشریف اور پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل منیر کے دورۂ چین کے محض چند روزبعد کیا گیا تھا۔ 2021 میں امریکی انخلا کے بعد سے، افغانستان میں ٹی ٹی پی سمیت متعدد عسکریت پسند گروہ دوبارہ زور پکڑتے دکھائی دیتے ہیں، جو سرحد پار محفوظ پناہ گاہ پاتے ہیں۔ پاکستان نے بارہا افغانستان میں طالبان حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کو حملہ گیری کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے سے روکے۔
لیکن افغان طالبان کو پاکستان میں دہشت گردی روکنے کے لیے کہنا شاید کام نہ کر پائےکیونکہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ دوسری مہم حال ہی میں اعلان کردہ، بلوچستان پر مرکوز”جامع فوجی آپریشن” ہے جس کا مقصد “پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی مہم کی تجدیدِ نو” کرنا ہے۔ اگرچہ آپریشن کی تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئی ہیں ، لیکن بی ایل اے اور دیگر گروہوں کی طرف سے عسکریت پسندی کے خطرے کا مقابلہ کرنے کی کسی بھی فوجی مہم کو عمل کاری (آپریٹنگ ) کے لیے پیچیدہ حالات کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے متنوع محرکات (مقابل) ہوں گے۔
ان اور دیگر جاری سیکورٹی مہمات ( آپریشنز) کو سرانجام دینے کی کوشش میں، پاکستانی سیکورٹی فورسز حد سے زیادہ زیرِ بار ہیں اور متعدد کرداروں کی طرف سے متنوع خطرات سے نمٹنے کے لئے محدود عمل کاری( آپریشنل) کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اگرچہ بیجنگ مشترکہ سیکیورٹی مہمات اور انسداد دہشت گردی کی مشقوں کے ذریعے چینی حمایت سےپاکستانی افواج کی مدد کرنا چاہتا ہے، لیکن اس طرزِ عمل سے مزید چینی اہلکاروں کی شمولیت کا خدشہ ہے، جو خود بھی عسکریت پسندوں کا ہدف بن سکتے ہیں۔
پاک چین کشیدگی کے خطرات
سی پیک کے ذریعے چین کی سرمایہ کاری نے 155،000 سے زیادہ ملازمتیں پیدا کر کے اور پسماندہ علاقوں میں انتہائی ضروری انفرا اسٹرکچر فراہم کر کے پاکستان کی معیشت کو سہارا دیا ہے۔ تاہم، ان منصوبوں سے وابستہ سیکیورٹی خطرات اور چینی شہریوں کے تحفظ میں ناکامی پر پاکستان کے ساتھ چین کی مایوسی اسے اپنی سرمایہ کاری پر نظر ثانی کرنے یا مستقبل کے معاہدوں پر سخت شرائط عائد کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ معاشی عدم استحکام اور قرضوں کے شدید بحران سے دوچار پاکستان کے لیے چینی سرمایہ کاری میں کسی بھی قسم کی کمی ایک بڑا دھچکا ہوگی، جس سے موجودہ مشکلات میں اضافہ ہوگا اور ترقی کے مواقع محدود ہو جائیں گے۔ مزید برآں، سی پیک منصوبوں میں تاخیر یا منسوخی سے ، پاکستان کی ساکھ کو بطور ایک محفوظ مقام برائے غیر ملکی سرمایہ کاری کے، مزید نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے، جو دیگر بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرے گا۔پاکستان نے حال ہی میں سخت محنت کی تاہم اپنے مالی بحران کو کم کرنے کے لئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے سرمایہ کاری حاصل کرنے میں آخرکار ناکام رہا۔
پاک چین تعلقات میں درپیش مشکلات بیجنگ کو اپنی جنوبی ایشیا کی حکمتِ عملی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر سکتی ہیں۔ اگرچہ چین کاپاکستان کے ساتھ اپنی شراکت داری کو مکمل طور پر ترک کرنے کا امکان نہیں ہے ، تاہم جاری سیکیورٹی مسائل بیجنگ کو اپنے علاقائی تعلقات کو متنوع بنانے پر مجبور کرسکتے ہیں ، ممکنہ طور پر دوسرے ممالک، جو چینی سرمایہ کاری کے لئے زیادہ مستحکم ماحول پیش کر سکیں، (ان) کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔ چین کے ساتھ اپنے پیچیدہ تعلقات کے باوجود، ہندوستان اپنی اقتصادی صلاحیت اور نسبتاََ پُر امن (ماحول)کے پیش نظر سرمایہ کاری کا ایک پرکشش متبادل پیش کرتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ایک ٹھوس تجارتی رابطہ پہلے سے موجود ہے۔ مثال کے طور پر مالی سال 2024 میں بھارت کی چینی درآمدات نے 100 بلین امریکی ڈالر سے تجاوز کیا، جس سے چین دہلی کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن گیا۔ مزید برآں، ہندوستان اور چین نے حال ہی میں سرحدی تناؤ کو نمایاں طور پر کم کرنے کی کوشش کی، جس سے دونوں ممالک قریب آسکتے ہیں اور ہندوستان میں چینی سرمایہ کاری کو فروغ مل سکتا ہے۔ چین افغانستان میں بھی بڑھ چڑھ کر سرمایہ کاری کر رہا ہے اور حال ہی میں (اس نے) مغربی چین اور شمالی افغانستان کو ملانے والی براہ راست ریلوے لائن کا آغاز کیا ہے۔
اس طرح کی از سرِ نو وابستگیاں پاکستان پر سنگین اثرات مرتب کریں گی۔ وہ نہ صرف پاکستان کی معاشی امداد کے آپشنز کو محدود کردیں گی بلکہ اہم معاملات پر چین کی جغرافیائی و سیاسی (جیو پولیٹیکل )پشت پناہی کو بھی کم کرسکتی ہیں۔ دفاع جیسے شعبوں میں چین کی حمایت کو برقرار رکھنا خاص طور پر اہم ہے۔ چین پاکستان کو دفاعی سازوسامان فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کے بیلسٹک میزائل پروگرام سمیت قومی سلامتی کے نہایت ضروری اقدامات کا اہم حامی ہے۔ پاکستان کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) میں افغانستان اور کشمیر، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے پاکستان کا خروج اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں اس کی رکنیت جیسے معاملات پر بھی چین کی حمایت حاصل ہے۔ اس قسم کی حمایت (برقرار رکھنے کے لیے) اسلام آباد کے لیے ناگزیرہے کہ وہ سی پیک کے عملے اور انفرا اسٹرکچر (بنیادی ڈھانچے ) کو درپیش خطرات سے مؤثر انداز میں نمٹے۔
ماحصل
پاکستان کو درپیش سیکیورٹی مشکلات چین کے ساتھ اس کے تعلقات کے لیے ایک سنگین خطرے کو ظاہر کرتی ہیں، ایک ایسی شراکت داری جو پاکستان کی خارجہ اور اقتصادی پالیسی کی بنیاد رہی ہے۔ مختلف دہشت گرد گروہوں کی جانب سے چینی شہریوں کو بار بار نشانہ بنانا پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے موجودہ اقدامات کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگر اسلام آباد بیجنگ کو چینی مفادات کے تحفظ کے لیے اپنے عہد و پیماں اور صلاحیت کی یقین دہانی نہیں کرا سکا تو اس سے سفارتی دراڑ پڑنے کا خطرہ ہے جو چینی سرمایہ کاری کے بہاؤ کو گھٹاسکتا ہے اور پاکستان کے قومی سلامتی کے مفادات کے خلاف تزویراتی از سرِ نو وابستگیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ بیجنگ کے پاکستان کے ساتھ اختلاف کی صورت میں اسلام آباد علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر تنہا رہ جائے گا کیونکہ اس وقت اس (پاکستان) کےامریکہ کے ساتھ اچھے پیشہ وارانہ (ورکنگ) تعلقات نہیں ہیں۔ لامحالہ پاکستان کی (مؤثر) کارروائی کرنے میں ناکامی اس کی تزویراتی (اسٹریٹیجک )اہمیت کے لئے خطرے کی مظہر ہے۔
Click here to read this article in English.
***
Image 1: Pakistan Press Information Department
Image 2: Mazhar Chandio/Anadolu Agency via Getty Images