
پہلگام کے دہشت گرد حملے کے بعد بھارت-پاک (تعلقات میں) ایک نیا تعطل آیا، جس نے مبصرین کو بھارت کی جارحیت اور پاکستان کی جوابی کارروائی کے نتائج کے بارے میں بے چینی سے غوروفکر کرنے پر مجبور کر دیا۔چار روزہ تصادم اور جنگ بندی کے بعد اس بحران کا مطلع کافی حد تک صاف ہو چُکا ہے۔تاہم یہ سوالات باقی ہیں کہ آیا جنگ بندی برقرار رہ سکے گی یا دونوں ایٹمی حریفوں کے درمیان کشیدگی (ایسکیلیشن) کا ایک اور دور رونما ہو گا۔
بھارت اور پاکستان نے صرف گزشتہ چھ سالوں میں دو فوجی بحرانات کا سامنا کیا ہے—2019 اور 2025—جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ تادیبی اقدامات اب روّیاتی اور طرز عمل کے لحاظ سے عام ہوتے جا رہے ہیں، بحران کےہر واقعےمیں ایک زیادہ پرتشدد پیچ دار کشیدگی سامنے آتی ہے۔ایسی صورتِ حال میں بھارت-پاکستان بحران کی معاملت داری کا قریب سے مطالعہ کرنا نہایت اہم ہے اور اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ بھارت اور پاکستان کس طرح کشیدگی میں کمی لاتے ہیں، کیونکہ کشیدگی میں تخفیف والے مرحلے میں ہی مستقبل کے بحران کی جڑیں دفن ہوتی ہیں۔
بھارت-پاکستان بحرانی معاملت داری کےطرزِعمل میں بحران میں تخفیف کا عمل ایک ایسا فعل ہے، جسے میں ” عزم کا تضاد” (ریزولو پیراڈوکس) کہتا ہوں۔بحران کے واقعات میں عموماً مخالفین کی طرف سے عزم کا مظاہرہ ناگزیر ہوتا ہے تاکہ اپنے حریف کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا جا سکے۔ عزم ریاستوں کے لئے ایک منطقی حکمت عملی ہے جو اپنی انفرادی کامیابیوں کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ چاہتی ہیں کہ دوسرے فریق کو نقصان پہنچے۔یہ بحران کے مذاکرات میں مرکزی پہیلی پیش کرتا ہے: جب دونوں فریقین عزم کا اظہارکریں، ہر فریق اپنے گروہ کی فتح کا دعویٰ کرے اور مخالف فریق کو پسپا سمجھے تو کشیدگی میں کمی کیسے ہو پائے گی؟ یہ ” عزم کا تضاد” ہے جہاں بحران میں برتری پانے کو ہدف بناتی حکمت عملیاں کشیدگی میں اضافہ بھی کردیتی ہیں جبکہ بحران کے خاتمے کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔جنوبی ایشیا میں عزم کا تضاد فطری طور پر غیر مستحکم اور ایک خطرناک محرک ہے، جو خطے کو جوہری جنگ کے خطرے میں ڈال رہا ہے۔
بھارت اور پاکستان نے صرف گزشتہ چھ سالوں میں دو فوجی بحرانات کا سامنا کیا ہے—2019 اور 2025—جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ تادیبی اقدامات اب روّیاتی اور طرز عمل کے لحاظ سے عام ہوتے جا رہے ہیں، بحران کےہر واقعےمیں ایک زیادہ پرتشدد پیچ دار کشیدگی سامنے آتی ہے
عزم کا تضاد اور یکطرفہ فتوحات
عموماً بحران کی کشیدگی میں تخفیف اس وقت ہوتی ہے جب ایک فریق بڑھتی ہوئی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے دوسرے فریق کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرتاہے یا دونوں فریقین باہمی مصالحت اور جوابی مراعات کے بعد تناؤ میں کمی پر رضامند ہو جائیں۔تاہم ایک تیسری ممکنہ صورت ہے، جس میں دونوں جانبین یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے مخالف پر غالب آ گئے ہیں، اس امر سے قطعِ نظر کہ دوسرے فریق کی کیا سوچ ہے۔اس بحران کے مذاکراتی منظر نامے میں دونوں جانبین خود کو ‘فتح’ کا حامل سمجھتے ہیں، یقین رکھتے ہیں کہ انہوں نے مخالف کو پیچھے ہٹنے یا وسعت دینے کی حکمت عملی کو بھاری قیمت جان کر (اس کا) دوبارہ جائزہ لینے پر مجبور کر دیا ہے۔
فتح پانے‘‘ کا بیان صرف خارجی دشمن کے لیے ہی نہیں بلکہ داخلی عوام کی تسلی و تشفی کے لیے اور ایک ریاست’’ کی بطور ایک پُرعزم فریق جو اپنے حریف کے غلبہ پانے کے عزائم کا بھرپور مقابلہ کر سکتی ہے، کی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے بھی ہے۔اس طرح عزم کا تضاد اس وقت سامنے آتا ہے جب فتح پانے کی حکمت عملی کی جستجو کسی بحران کے واقعے کو شدید تر اور مزیدغیر مستحکم بنا دیتی ہے، جبکہ اسی دوران حریفوں کو پیچھے ہٹنے کا موقع فراہم کرتی ہے جب وہ اپنے مخالف پر کافی حد تک قابو پا لینے کا یقین کر لیں۔
بھارت-پاکستان بحرانی معاملت داری: 2019 اور 2025
سال2019 اور 2025 کے بھارت-پاک بحرانات کا مطالعہ عزم کے مظاہرے، جو دونوں بحرانات میں کشیدگی میں اضافے اور تخفیف کا سبب بنا، سےمتعلق اہم اسباق پیش کرتا ہے۔
سال2019 میں پلوامہ میں خودکش حملے کے بعد، جس کی ذمہ داری جیشِ محمد (جے ای ایم) نے لی (اور جس میں) 40 بھارتی پیراملٹری افسران ہلاک ہوئے، بھارت نے ایک مبینہ جے ای ایم کے زیرِ انتظام مدرسے کے خلاف سرجیکل ایئر اسٹرائیک کا حکم دیا۔اس حملے میں، جو پاکستانی دارالحکومت سے تقریباً 160 کلومیٹر دور کیا گیا، 250–300 افراد کے ہلاک ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔پاکستانی حکام کا ابتدائی ردعمل یہ تھا کہ وہ بھارت کے اس دعوے کی تردید کریں کہ ایک مذہبی مدرسے کو نشانہ بنایا گیا ہے جس کے نتیجے میں سینکڑوں اموات ہوئی ہیں، جس نے 2016 کےاُڑی بحران میں ان کے روّیے کی یاد دلائی۔
تاہم اُڑی کے برعکس بالاکوٹ (خیبر پختونخوا کے صوبے میں) میں بھارتی فضائی حملے کے جغرافیائی محل وقوع کے باعث پاکستانی عوام اشتعال میں آ گئی کیونکہ (اس حملے کو) ایسے لیاگیا جیسے بھارت نے کشمیر سے باہر حملہ کر کے حد عبور کر لی ہو۔مشتعل صحافیوں نے اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے سوال کیا کہ پاکستان نے حملہ کرنے والےبھارتی جنگی طیاروں کو کیوں نہیں گرایا۔بھارتی علاقائی دراندازی پرعوامی ناراضگی میں اضافے کے جواب میں پاکستانی فضائیہ نے لائن آف کنٹرول کے پار جوابی حملے کیے۔نتیجتاً ایک معمولی فوجی تصادم ہوا جس میں ایک بھارتی طیارہ گرایا گیااور پائلٹ کو پاکستان نے قیدی بنا لیا۔ (ورتھمان) کو واپس نہ کرنے کی صورت میں بھارت کی میزائل حملے کی پاکستان کو مبینہ دھمکی کے بعدپاکستان نے ونگ کمانڈر ابھی نندن ورتھمان کو بحفاظت حوالۂ بھارت کیا، جس کے بعدتناؤ میں کمی آئی۔

بھارت کے لیےایک پاکستانی مدرسہ،جو عسکریت پسندوں کا گڑھ تھا، پر ٹارگٹڈ سرجیکل فضائی حملے اور میزائل حملوں کی دھمکیاں جنہوں نے پاکستان کو بھارتی پائلٹ کی واپسی پر مجبور کیا، انہیں ایک “فتح” کے طور پر دیکھا گیا۔پاکستان کے لئے بھارتی طیارے کومار گرانا اور بھارتی پائلٹ کی گرفتاری کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا گیا، جو اس کے عزم اور بڑے حریف کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔اندورنِ ملک وزیر اعظم نریندر مودی کا “قتل کی رات” کا حوالہ بھارتی کارروائیوں کوپاکستان کے لیے سد بندی کےایک مضبوط پیغام کے طور پر پیش کرنے کی کوشش تھی، جس کے نتیجے میں ونگ کمانڈر ورتھمان کی محفوظ واپسی ہوئی۔پاکستان میں کمانڈر ورتھمان جب وہ پاکستانی قید میں تھے،کا یہ تبصرہ کہ “چائے شاندار ہے” وائرل ہوگیا، اس جملے کے ایک مشہور انٹر نیٹ میم بننے کے ساتھ ہی اس نے ایک اخلاقی فتح کا تصور قائم کیا اورقومی فخر کا احساس بھی پیدا کیا۔آخرکار بھارت اور پاکستان دونوں نے واقعات پر اپنی اپنی تعبیروں کا استعمال کرتے ہوئے پلوامہ-بالاکوٹ بحران میں فتح کا دعویٰ کیا، ہر فریق نے یہ جانا کہ انھوں نے ملکی حلقوں کو مطمئین کرتے اور اعلیٰ عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔
پلوامہ-بالاکوٹ بحران کی نسبت 2025 پہلگام بحران کو منفرد بنانے والی بات یہ ہے کہ پہلے تو یہ 5 اگست 2019 کے بعد بھارتی زیر انتظام کشمیر کی تبدیل شدہ سیاسی حیثیت کے بعد وقوع پذیر ہوا۔اس واقعے کے نتیجے میں بھارت-پاکستان تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہو گئے (اور) سفارتی روابط، تجارت اور عوامی سفارتکاری میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔دوسرا، بحران کا آغاز بھارتی شہریوں کو نشانہ بنانے کے نتیجے میں ہوا، نہ کہ فوجی اہلکاروں کو، جیسا کہ پلوامہ-بالاکوٹ بحران میں سامنے آیا۔تاہم بھارتی حکومت کا غصہ واضح تھا کیونکہ اس حملے نے دہلی کے کشمیری علاقے میں معمول کی صورتحال کے دعوے کو غلط ثابت کر دیا۔تیسرا، اعلیٰ جنگی ٹیکنالوجی کا استعمال بشمول میزائل، ڈرونز اور سائبر جنگ کے ذریعے ایک دوسرے کے فوجی اڈوں اور آبادی کے مراکز پر حملے،یہ 1965 اور 1971 کی جنگوں کے بعد پہلی براہ راست جھڑپ تھی، جس نے اس بحران کو قریباً جنگ کی صورتحال کے طور پر درجہ بند کیا۔
دونوں ریاستوں کے ایک دوسرے کے فوجی انفرا اسٹرکچر کو نقصان پہنچانے میں کامیابی کے دعووں کے ساتھ ساتھ 10 مئی کو پہلے کس نے ہمت ہاری سے متعلق جانبدارانہ اور متضاد بیانات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ صرف عزم کے مظاہرے اور جیت کے جانبدارانہ موقف کی بدولت ہی دونوں ریاستیں کشیدگی میں تخفیف لا سکیں ہیں۔
ہم اس مخصوص بحران میں عزم کے تضاد کو کس طرح شمار کرسکتے ہیں؟ بھارت اور پاکستان کی متعلقہ فتوحات کیا ہیں؟ اور بھارت و پاکستان کشیدگی میں تخفیف کیسے لائے؟ اعلیٰ جنگی ٹیکنالوجی کا استعمال اور فوجی کارروائیوں کے بڑھتے ہوئے جغرافیائی دائرے کے باعث، دشمن کو پسپا کرنے کے لیے ایک حکمت عملی کے طور پر عزم پر ڈٹے رہنا ہی تھا جس نے اس بحران میں کشیدگی کی شدت کے پیمانے کا تعین کیا۔ نئی دہلی کو یقین ہے کہ اس نے آپریشن سندور کے ذریعے ایک ‘نیا معمول‘ قائم کر لیا ہے جس میں یہ پاکستان سے منسلک کسی بھی داخلی دہشت گرد حملے کا جواب ملک (پاکستان) میں دہشت گردی کے انفرا اسٹرکچر کو نشانہ بنا کر دے گا۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ آپریشن بنیانُ َّمرصوص ملک کی فوجی تاریخ میں ایک “اہم باب” ہے، کیونکہ اس نے بھارت کی بڑھتی ہوئی جارحیت کا مقابلہ کرنے میں اپنی مضبوط فوجی تیاری کو ظاہر کیا۔دونوں ریاستوں کے ایک دوسرے کے فوجی انفرا اسٹرکچرکو نقصان پہنچانے میں کامیابی کے دعووں کے ساتھ ساتھ 10 مئی کو پہلے کس نے ہمت ہاری سے متعلق جانبدارانہ اور متضاد بیانات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ صرف عزم کے مظاہرے اور جیت کے جانبدارانہ موقف کی بدولت ہی دونوں ریاستیں کشیدگی میں تخفیف لا سکیں ہیں۔
مستقبل میں جنوبی ایشیا کااستحکام
پالیسی سازوں کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پچھلی دہائی یا اس سے زیادہ (عرصے) کے دوران بھارت-پاکستان کے بحرانات میں نظر آنے والا “عزم کا تضاد” جوہری حدِآغاز (نیوکئیر تھریش ہولڈ) پر معاملت داری کے طریقوں پر کس طور اثر انداز ہوتا ہے۔ یہاں بحران کا خاتمہ باہمی مصالحت یا مراعات کا نتیجہ نہیں ہے، جیسا کہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان کیوبن میزائل بحران کے دوران دیکھا گیا۔بلکہ یہ کشیدگی کے اگلے درجے پر پہنچنے کی صلاحیت ہے ، بغیر اہم سفارتی یا عسکری نقصانات کے، جسے پھر کسی بھی فریق کی جانب سے ایک داخلی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور کشیدگی میں کمی کا سبب بنتا ہے۔
بھارت-پاکستان بحرانی معاملت داری کے رویوں میں اعلیٰ عزم کی تزویراتی منطق کی بالادستی کا مطلب یہ بھی ہے کہ کشیدگی میں تخفیف کا مرحلہ بنیادی طور پر غیر مستحکم ہے کیونکہ ہم اس بات کا یقین نہیں پاسکتے کہ بحران کے اگلے واقعے میں ہر فریق داخلی فتح کے مرحلہ پر کب پہنچے گا۔جوکچھ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ مستقبل کے بحران کی جڑیں موجودہ بحران کے کشیدگی کی تخفیف کے مرحلے میں چھپی ہوئی ہیں، کیونکہ اگلی بار دونوں جانبین سیڑھی کے اسی قدم سے آغاز کریں گے۔اس لیے ضروری ہے کہ بحران کے آغاز کے تجزیے کے ساتھ ساتھ بحران کے خاتمے کا بھی برابر جائزہ لیا جائے۔ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی روایتی خواہش سے متاثر ہو کر جب کہ مواصلات کے ذرائع بند ہیں، غلط معلومات اور افواہیں جنگ کی دھند کو مزید گہرا کر چکی ہیں، جس کی بدولت دونوں ریاستیں سنگین غلط فہمیوں کا شکار ہو سکتی ہیں جن کے سبب مستقبل میں مہلک نتائج کے امکانات ہیں۔
***
This article is a translation. Click here to read the original article in English.
Image 1: Image via K.M. Chaudary – AP
Image 2: Image via Defense Visual Information Distribution Service