پاکستانی سپریم کورٹ نے ۲۸ جولائی کو ایک طویل تفتیش کے بعد وزیراعظم نواز شریف اور انکے خاندان کو نااہل قرار دے دیا ۔ اس فیصلے کی وجہ پانامہ لیکس ۲۰۱۶ میں رونما ہونے والااثاثوں میں عدم تناسب تھا۔عدالت نے اپنے انتہائی سخت فیصلے میں نہ صرف نواز شریف کو وزیراعظم کے عہدے سے سبکدوش کردیا بلکہ احتساب کے قومی ادارے نیب کو نواز شریف اور انکے خاندان کے خلاف بد عنوانی کے کیسز کھولنے کا حکم بھی دے ڈالا۔ اگرچہ شریف خاندان کیس کے دوران اپنے دفاع میں کمزور دلائل پیش کر سکا تاہم عدالت کے حتمی فیصلے کو وسیع انظر نہ ہونے کے باعث زبردست تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ نااہلی کے فیصلے میں فوج کی مداخلت کے حوالے سے بھی کافی بحث و تمہید جاری ہے۔ چونکہ اگلے عام انتخابات سر پر ہیں تو اس لئے ملک کی سیاسی فضاء کافی پر جوش ہو چکی ہے۔ نواز شریف نے نا اہلی کے بعد ریلیوں کے ذریعے عوامی طاقت کا زبردست مظاہرہ کیا اور یہ باور کرایا کہ انکی نا اہلی در حقیقت رائے دہندگان کے ووٹ کی توہین ہے۔
پاکستان کی سیاسی قیادت کی ایک بڑی تعداد تقریباً ریٹائرمنٹ کے قریب ہے اس لئے آئندہ عام انتخابات ملک میں جمہوری نظام کےلئے بہترین موقع فراہم کرتے ہیں۔ اگلے انتخابات یہ امر واضح کریں گے کہ آیا عوام صحیح جمہوری راستے پر چلتی ہے یا ماضی کی طرح غیر سیاسی لوگوں کو اداروں اور روایات کو پامال کرنے کا سامان مہیا کرتی ہے۔ جب تک منجھے ہوئے سیاستدان اپنی غلطیوں سے سبق حاصل نہیں کریں گے، جیسا کہ فوج کے اقتدار میں کردار کو چیلنج کرنا اور اثر پزیر گورننس لاگو نہ کرنا ، پاکستان صحیح اور اصل جمہوریت کے راستے پر رواں نہیں ہو سکتا۔
پاکستان میں۱۹۷۰ اور ۱۹۸۰ کی دہائی میں سیاسی بساط پر نمودار ہونے والے رہنما بظاہر اپنے کیرئیر کا آخری انتخاب لڑنے جا رہے ہیں۔ ملک کی تقریباً تمام بڑی جماعتیں بشمول پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی قیادت کی ڈوریاں اگلی نسل کو منتقل کرنے کو تیار ہیں۔ دیگر علاقائی جماعتیں جیسے خیبر پختونخواہ سے عوامی نیشنل پارٹی، سندھ سے متحدہ قومی موومنٹ اور پنجاب سے پاکستان مسلم لیگ-ق بھی کچھ اسی طرح کی تبدیلی سے گزر رہی ہیں۔
پاکستان کی سابقہ سیاسی قیادت کو فوج اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے دفاع، قومی سکیورٹی، خارجہ پالیسی اور معیشت کے معاملات میں فیصلہ سازی میں کئی پابندیوں کا سامنا رہا ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اپنی برتری سیاستدانوں کے بیچ پھوٹ ڈال کر اور دیگر اداروں جیسے عدلیہ میں دخل اندازی کر کے یا پھر مارشل لاء لگا کر قائم کیے رکھی ہے۔ پاکستان کی سابقہ سیاسی لاٹ فوج کے اس کردار کو چیلنج کرنے سے قاصر رہی ہے۔ سیاستدانوں کی بد عنوانی، طاقت کی لالچ اور سیاسی مواقع سے فائدہ اٹھانا کچھ ایسی وجوہات ہیں جنکی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کو کمزور (اور ماتحت) حکومتیں بنانے کا موقع ملتا ہے۔
تاہم حالیہ کچھ عرصہ سے تجربہ کار سیاستدانوں نے یہ جان لیا ہے کہ ان کے بیچ غلط فہمیوں سے دراصل محض غیر آئینی طاقتیں ہی مفید ہوتی ہیں اور جس سے جمہوریت کے پہلے سے کمزور نظام میں مزید خلل برپا ہو جاتا ہے۔ اقتدار سے نکالے جانے کے بعد سے نواز شریف ایک ایسا ہی بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں وہ بالواسطہ فوج کی وسیع طاقت کوٹارگٹ کر رہے ہیں۔ اپنی تقریروں میں انہوں نے سیاسی قوتوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے بیچ وسیع ہوتی خلیج کو نمایاں کیا ہے۔ فوج کی سیاسی نظام میں دخل اندازی سے متعلق ملک کی باقی بڑی اور علاقائی سیاسی جماعتوں کی تقریباً ایسی ہی شکایات ہیں تاہم بدقسمتی سے ایسا جانچنے میں خاصی دیر کر دی گئی ہے۔
ابھرتی ہوئی سیاسی قیادت کےلئے موقع
سیاسی بساط کے پرانے کھلاڑیوں کے جانے کے بعد،اگلے عام انتخابات ایک بڑی تبدیلی دیکھیں گے جب ملک میں ایک نئی سیاسی قیادت جنم لے رہی ہو گی۔جہاں زیادہ تر قیادت کو خاندانی سیاست ورثے میں ملے گی، ملک کی تیزی سے بڑھتی مڈل کلاس ، تیز تر شہریکرن اور نوجوانوں کی خاصی تعداد روائتی سیاسی نظام (جو کہ رجعت پسندی، فرقہ واریت، صوبائیت اور اقربا پروری پر مشتمل ہے) کےلئے چیلنجز برپا کرے گی۔
پاکستان میں اگرچہ کچھ ادوار میں سویلین حکومتیں اقتدار میں رہیں تاہم ملک میں حقیقی جمہوریت کبھی نہیں رہی۔ خاندانی سیاست اور کمزور جمہوری نظام آج بھی جاری و ساری ہے۔ دوسری طرف ملک کی سیاسی جماعتوں نے شائد ہی کبھی قبائلی نظام کو چیلنج کیا ہو ۔
آگے بڑھنے کا راستہ
پاکستان کی ۶۵ فیصد سے زائد آبادی ۳۰ سال سے کم عمر لوگوں پر مشتمل ہے۔ ۹۰ فیصد سے زائد نوجوان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ملک غلط سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ ملک کی نوجوان نسل قبائلی یا نسلی وفاداریوں سے بالاتر ہے اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور معاشی عدم استحکام سے پریشان ہے۔
یہ چیز آنے والی نوجوان سیاسی قیادت کےلئے بیک وقت نعمت اور زحمت کا باعث ہے۔ جب تک ملک کی سیاسی قیادت اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر صحیح معنوں میں ملکی بہتری کےلئے اقدامات نہیں کرتی تب تک نہ تو ملک میں جمہوریت قائم ہو سکتی ہے اور نہ ہی فوج کے جمہوری نظام میں اثرورسوخ کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی ایک راستہ ہے کہ جس سے سیاسی قیادت فوج کے کردار کے آگے سینہ سپر ہو سکتی ہے تو وہ ہے بہتر اور موثر گورننس۔ آپس میں لڑنے کی بجائے کہ جس سے غیر جمہوری طاقتوں اور دیگر اداروں کو جگہ ملتی ہے، موجودہ اور آنے والی سیاسی طاقتوں کو جمہوریت کو چلتے رہنے دینا چاہئیے۔
ملک کو صحیح جمہوری راستے پر چلانے کےلئے سیاسی قیادت کو بدعنوانی اور بیوروکریسی کو قابلِ احتساب بنانے کےلئے نہ صرف موثر قانون سازی کرنی ہو گی بلکہ ایسے قوانین میں بھی اصلاحات لانی ہوں گی جن کے باعث معاشرے میں تشدد، مذہبی دقیا نوسی اور عسکریت پسندی کو جگہ ملی ہے ۔
جب تک ملک کی موجودہ اور آنے والی سیاسی قیادت پر اثر گورننس، شہریوں کی شمولیت، اور حقیقی جمہوریت کا قیام عمل میں نہیں لاتی، پاکستان پر غیر آئینی طاقتوں کی حکمرانی براقرار رہے گی چاہے جس قسم کی (نئی و پرانی) سیاسی قیادت بھی سامنے آتی ہے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: bm1632 via Flickr (cropped)
Image 2: Aamir Qureshi-AFP via Getty Images