23 years of Israel India Diplomatic Relations
23 years of Israel India Diplomatic Relations

جولائی میں نریندر مودی اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے بھارتی وزیراعظم بن گئے۔ سفارتی تعلقات کو اس سطح پر لے جانے کی ضرورت ایک عرصہ سے تھی چونکہ اب اسرائیل بھارت کو اسلحہ فراہم کرنے والا تیسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔دونوں ملکوں کے دفاعی تعلقات انسدادِ دہشت گردی، سائبر سکیورٹی، داخلی سکیورٹی، سرحدی انتظام اور خفیہ معلومات کے تبادلے کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ دونوں ملکوں کے خوشگوار ہوتے تعلقات کے دوران بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی کشیدگی اور پاکستان کے ساتھ سرحدی جھڑپوں جیسے چیلنجز سے نمٹنے کےلئے بھارت کو اسرائیلی حکمتِ عملی اپنانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ تاہم اس نقطہء نظر میں کچھ رکاوٹیں حائل ہیں۔ ۷۰ سال سے بحران کا شکار خطے یعنی اسرائیل کی پالیسی کو بھارت کیونکر اپنائے وہ بھی ایک متنازعہ علاقے کو کنٹرول کرنے کےلئے اور جو جوہری جنگ چھڑنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ نہ صرف اسرائیل اپنی حکمتِ عملی میں ناکام رہا ہے بلکہ  اسرائیل-فلسطین اور کشمیر مسئلے میں مماثلت بھی کم ہی ہے۔ اسی لئے بھارت کا اسرائیل کو رول ماڈل کے طور پر دیکھنا کو ئی سمجھدار انتخاب نہیں ہے۔

کشمیر میں بڑھتی کشیدگی

کشمیر میں شہری اور فوجی اموات باعثِ تشویش ہیں۔ ۲۰۰۸ کے بعد ۲۰۱۶ بھارتی فوجیوں کی ہلاکتوں کے لحاظ سے بد ترین سال رہا۔ اموات کی تعداد جو کہ ۲۰۱۵ میں ۳۳ تھی ابتک  بڑھ کر تقریباً دوگنی یعنی ۶۰ تک جا پہنچی ہے۔ گزشتہ برس اڑی حملے میں ہونے والا نقصان دو دہائیوں میں ایک دن میں ہونے والا سب سے بڑا جانی نقصان ثابت ہوا۔ نریندر مودی کی اس حملے کا طاقتور جواب دینے پر تعریف کی گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرحد پار فائرنگ سے کافی پاکستانی  شہری اموات ہوئیں۔ تاہم نہ حکومت اور نہ ہی میڈیا نے یہ سوچا کہ جموں و کشمیر کے حالات دگرگوں کیوں ہوئے۔پاک-بھارت دو طرفہ تعلقات اس نہج پر ہیں کہ بھارت مسئلہ کشمیر کے حل میں پاکستان کو سٹیک ہولڈر ماننے سے بھی گریزاں ہے۔ بھارت کی یہ سوچ ۲۰۱۵ میں واضح ہوئی  جب پاکستان نے اعلیٰ سطحی مذاکرات میں شرکت سے اس لئے انکار کر دیا کہ بھارت مذاکرات کے ایجنڈے میں کشمیر کا مسئلہ لانے سے انکاری تھا۔ بھارت کے مطابق نیشنل سکیورٹی ایڈوائزرز سطحی مذاکرات کا مقصد محض دہشت گردی اور جنگ بندی کی خلاف ورزیوں سے متعلق بات چیت کرنا تھا۔ تا ہم اس ساری صورتحال میں کشمیر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا چونکہ اسی وجہ سے معاملات جامد ہوئے۔

اسرائیل بحثیت رول ماڈل اور اس کے اثرات

دی قوئنٹ کے ایک رپورٹر نے یکم مئی کو  لائن آف کنٹرول پر دو بھارتی فوجیوں کے سر قلم کیے جانے پر دفاعی تجزیہ کار آجائی شکلا سے پوچھا کہ اسی طرح کی صورت حال میں اسرائیل کا ردِعمل کیا ہوتا۔ جواب میں ریٹائرڈ کرنل نے اسرائیلی اور بھارتی  مسائل کی مختلف کیفیات کو بیان کیا۔ اسرائیل خطے کی سب سے مظبوط فوجی طاقت ہے اور اسکے مخالفین خاصے کمزور ہیں  جبکہ غیر ریاستی عناصر ہمسائے میں پائے جاتے ہیں۔ دوسری جانب بھارت کا معاملہ مختلف ہے اور یہاں تنازعہ دو جوہری طاقت سے لیس ریاستوں کے مابین ہے۔ شکلا کا مزید کہنا تھا کہ ” جونہی بھارت پاکستان پر دباؤ بڑھائے گا ساتھ ہی جوہری خطرہ بھی سنگین ہو جائے گا جو کہ کھیل کو یکسر تبدیل کر دے گا”۔ اسرائیل کی فوجی طاقت اور معاشی برتری اسے اپنے ہمسایوں میں ممتاز بناتی ہے۔ تاہم بھارت اپنے ہمسائے میں موجود دو طاقتوں چین اور پاکستان کے ساتھ دشمنی پالنے کا متحمل نہیں ہو سکتا وہ بھی اس وقت جب چین اور پاکستان کے آپس میں گہرے معاشی اور سفارتی تعلقات ہیں۔

اسرائیل کی ہمسری کرنے کی خواہش ایک اور مضمون سے بھی عیاں ہوتی ہے جسکا عنوان تھا “تل اببیب سے وزیراعظم نریندر مودی  کو پیغام”۔ یہ مضمون پچھلے مہینے انڈین ایکسپریس اخبار میں شائع ہوا۔ مصنف جوکہ انسٹیٹوٹ آف پیس اینڈ کنفلکٹ سٹڈیز میں سینئر فیلو ہیں، کا کہنا تھا کہ بھارت کو بھی اسرائیل کی طرح  “مار اور پیار” کی حکمتِ عملی اپنانی چاہئے  تا کہ دہشت گردی اور متنازعہ علاقے کشمیر میں حالات کو قابو کیا جا سکے۔ تاہم اگر اسرائیل اپنی اُس پالیسی میں کامیاب ہوا ہوتا تو اسے ۲۰۱۴ میں فلسطین کے ساتھ پچاس روزہ جنگ میں جانے کی ضرورت نہ پیش آتی۔ اس جنگ کا آغاز تین اسرائیلی نوجوانوں کی مقبوضہ  مغربی کنارے میں قتل ہونے کے بعد ہوا تھا  جسکے نتیجے میں ۴۹۰ فلسطینی  بچے اور ۶۴ اسرائیلی فوجی بھی جان سے گئے۔

مستقبل میں کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کےلئے مستقل طور پر  کوئی خاطر خواہ پیش بندی نہیں کی جا سکی ہے۔ اگر بھارت کی یہ خواہش ہے کہ مسئلے کا مستقل اور دیرپا حل تلاش کیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ خطے میں امن بھی قائم کیا جائے تو اسرائیل کو رول ماڈل بنانا کوئی اچھا آغاز نہ ہو گا۔ کشمیر میں ۷۰۰۰۰ بھارتی فوجیوں کا تعینات ہونا اس خطے کو دنیا کا سب سے بڑا  فوجی علاقہ بناتا ہے۔ ہر آٹھویں کشمیری کےلئے ایک بھارتی فوجی تعینات ہے۔اسکے علاوہ  متنازعہ حیثیت اور پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی بھی کشمیر کو فلسطین-اسرائیل معاملے سے الگ کرتا ہے۔ اسکے برعکس سری لنکن فوج کا  تامل ٹائیگرز کو  بزورِ طاقت کچل دینا اپنے پڑوس میں  بھارت کےلئے ایک کامیاب تر  مثال ہے  مگراس  مثال کو مشعلِ راہ بنانا  بھارت میں، خاصکر  قدامت پرست ہندو طبقہ میں ثقافتی اور اخلاقی لحاظ سے سخت ناگوار تصور کیا جائے گا ۔ اس لیے اسرائیل سے مختلف مگرانتہائی احتیاط کے ساتھ بنائی گئی حکمتِ عملی  اپنا نا ہی شائد بھارت  کےلئے سود مند  ثابت ہو گا۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Embassy of Israel, India

Image 2: Kashmir Global via Flickr

 

Share this:  

Related articles

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟ Hindi & Urdu

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟

ایران اور پاکستان کے درمیان حالیہ جیسے کو تیسا حملے …

پاکستان کا بعد از انتخابات ماحول: ماہرین کا ردعمل Hindi & Urdu

پاکستان کا بعد از انتخابات ماحول: ماہرین کا ردعمل

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے…