اسرائیل اور حماس کے درمیان بھیانک تصادم جنوبی اور مغربی ایشیا کے سلامتی ماحول پر اثرات ڈال رہا ہے، خاص کر اسلامی دنیا کے حوالے سے۔ اس جارحانہ صورتحال کے بین بین، متعدد ممالک نے تنازعے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے اسرائیل کے ہمراہ اپنے تعلقات پر اور فلسطین کو تسلیم کرنے کے بارے میں اپنے موقف پر روشنی ڈالی ہے۔ مختلف ممالک کی جانب سے ردعمل کا یہ سلسلہ اسلامی دنیا کے اندر ان کی اپنی متعلقہ حیثیت کی خاکہ سازی کرتا ہے۔ تنازعے پر ردعمل دینے والی تمام ایشیائی حکومتوں میں سے، اسلامی جمہوریہ پاکستان اور امارات اسلامی افغانستان کا نقطۂ نگاہ بالخصوص مناسبت رکھتا ہے۔
دونوں ممالک کے مشرق وسطیٰ میں سلامتی روابط کے پس پشت اور اس معاملے میں فلسطین کے لیے کھلی حمایت کے ضمن میں، مذہبی شناخت ایک اہم فیصلہ کن عنصر رہی ہے۔ بطور واحد مسلم اکثریتی جوہری قوت اور اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کے بانی اراکین میں سے ایک ہونے کے ناطے، پاکستان اسلامی دنیا میں حیات آفریں قائدانہ کردار ادا کرنے کی تاریخ رکھتا ہے۔ ۱۹۸۸ میں، پاکستان نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کیا تھا اور اس کے بعد سے وہ دو ریاستی حل کا مضبوط حمایتی رہا ہے۔ دوسری جانب، طالبان کی قیادت ماضی میں حماس کے ہمراہ بعض نظریاتی روابط کا اشتراک کرتی رہی ہے اور فلسطین کی ریاست کے لیے اپنی حمایت پر استقامت رکھتی ہے۔مشرق وسطیٰ اور خاص کر فلسطین کے ہمراہ پاکستان اور افغانستان کے روابط کے جغرافیائی سیاسی اور سلامتی اثرات کو دیکھتے ہوئے، موجودہ بحران پر اسلام آباد اور کابل کے ردعمل کی جانچ برمحل ہے۔
پاکستان کا ردعمل
پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری شدہ باضابطہ پریس ریلیز وسیع تر اسرائیل فلسطین تنازعے کے دو ریاستی حل کے حوالے سے اسلام آباد کے موقف کے مطابق ہے اور اس میں اقوام متحدہ اور او آئی سی کی متعلقہ قراردادوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ پاکستان نے غزہ کو انسانی بنیادوں پر امداد ارسال کرنے کا بھی عزم کیا ہے۔ تاحال، ۱۰۰ اور ۹۰ ٹن وزن کا حامل دو مرتبہ امدادی سامان ارسال کیا جا چکا ہے جس میں صحت و صفائی کی کٹس، غذائی سامان اور طبی کٹس شامل تھیں۔ مزید برآں، تنازعہ پھیلنے کے بعد سے جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (فضل)، مجلس وحدت المسلمین اور متعدد سول سوسائٹیز و مذہبی گروہ اسلام آباد کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں جلوس نکال چکے ہیں، جن میں اسرائیل کے رویے کو جارحیت قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی گئی اور فلسطینی شہریوں کی حمایت کے لیے مجتمع ہوا گیا۔
پاکستانی عسکری اداروں کی جانب سے فلسطینی عوام کے لیے ردعمل “واضح اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت” پر مبنی رہا ہے۔ علاوہ ازیں، چیف آف آرمی اسٹاف نے پاکستان کے لیے فلسطین کے سفیر احمد جواد رابعی کے ہمراہ ملاقات میں، اسلام آباد کے فلسطین کے حق میں موقف پر روشنی ڈالی اور ۱۹۶۷ سے پہلے کی سرحدی صورتحال کے مطابق فلسطین کی متصل ریاست اور اس کے ساتھ اساتھ القدس الشریف کی بطور دارالحکومت حمایت کی۔ مزید برآں، سی او اے ایس نے “بے تکان ظلم و ستم، انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں اور ریاستی سرپرستی میں مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی” کو تنازعے کی وجہ قرار دیتے ہوئے، اسرائیلی عسکری ردعمل کے فوری محرک – جو کہ اسرائیل پر حماس کا بہیمانہ دہشت گرد حملہ تھا – اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی۔
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا ایک انٹرویو کے دوران کیا گیا تبصرہ تنازعے کے بارے میں پاکستان کے دو سطحی فہم کی منظرکشی کرتا ہے۔ اولاً، وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعے کی نوعیت ایک جابر اور مظلوم کے درمیان تنازعے کی سی ہے۔ ثانیاً، پاکستان میں فلسطین کو کشمیر کے مساوی قرار دینے اور اسلامی دنیا میں ‘بنیادی پرستی’ کے پس پشت ایک بنیادی عنصر کے طور پر تسلیم کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ وزیراعظم کاکڑ نے اس بارے میں بھی روشنی ڈالی کہ فلسطین کی حمایت کے معاملے میں پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
تاہم دیگر ایشیائی اسلامی ممالک جیسا کہ ملائیشیا اور انڈونیشیا کے موازنے میں، پاکستان کا موجودہ ردعمل زیادہ نپا تلا ہے اور حماس کے خلاف اسرائیل کی عسکری کارروائیوں کے لیے زیادہ نرم لہجے کی عکاسی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، ملائیشین وزیر اعظم انور ابراہیم اسرائیل کے خلاف شدید ناقد رہے ہیں، اور تشدد کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
اس کے مقابلے میں، تنازعے پر پاکستان کے ابتدائی ردعمل میں زیادہ نپا تلا لہجہ اختیار کیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ اسرائیل کے خلاف پاکستان کی طویل عرصے سے جاری مخالفت کا تسلسل ہے، تاہم موجودہ ردعمل نرمی رکھتا ہے کیونکہ یہ فلسطین کے بارے میں جناح کے خواب پر مبنی تاریخی وژن اور سابقہ حکومتوں کی جانب سے مسئلے کو دی گئی اہمیت سے عاری ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت عرب دنیا اور او آئی سی کی نقاد تھی اور اس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے دباؤ کو مسترد کیا تھا۔ اسرائیل کے لیے مغربی حمایت کی پیچیدیگیاں، حکومت کی جانب سے سخت تر موقف اختیار کرنے کی راہ میں ممکنہ رکاوٹ ہو سکتے ہیں۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی جانب سے معاشی بیل آؤٹ اور واشنگٹن کی معاشی امداد کے ساتھ ساتھ، اسلام آباد میں موجود سیاسی قیادت مغرب کے ساتھ خوشگوار تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے نرم تر لہجہ اختیار کرنے کی ممکنہ خواہاں ہو سکتی ہے۔
عالمی رائے دہی کے معاملے میں فلسطینی حمایت پاکستان کی ایک اساس رہی ہے۔ اگرچہ عرب ریاستوں اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے اور مفاہمت اسرائیل کو تسلیم کرنے کے سوال پر نظرثانی کے ضمن میں اسلام آباد کے لیے ایک موقع ہو سکتے تھے، تاہم جاری تنازعہ صورتحال کے معمول پر آنے کے کسی بھی امکان کو معدوم کر دیتا ہے۔ رائے عامہ کے فلسطین کے حق میں ہموار ہونے کے باوجود، پاکستان کی جانب سے قدرے نرم لب و لہجہ، اسلامی دنیا اور مغرب کے ہمراہ ملک کے روابط میں پائے جانے والے تناؤ پر روشنی ڈالتا ہے۔
افغانستان کا ردعمل
طالبان ، تنازعے کے بارے میں انسانی حقوق کا احاطہ کرتی سوچ اختیار کرنے کے دعویدار ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی اور مسجد اقصیٰ اور غزہ میں دیگر مساجد کی توہین کی ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے طالبان کے اپنے ریکارڈز کی عالمی سطح پر مذمت کے باوجود، طالبان نے دلیل دی ہے کہ عالمی برادری دوغلا رویہ رکھتی ہے جو افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملات کو تو اٹھاتی ہے لیکن فلسطین کے معاملے میں یکساں رویہ اختیار نہیں کرتی۔ طالبان نے المعمدانی ہسپتال پر حالیہ حملوں کے بعد اور جاری تنازعے میں “اسرائیل کی اعلانیہ مصاحبی” پر عالمی برداری کے “دوغلے رویے” پر اس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ٹوئیٹس کے ایک سلسلے میں افغانستان کی وزارت برائے خارجہ امور نے اسرائیل کے حملوں کا “نسل کشی” کے طور پر حوالہ دیا – جو کہ ہولوکاسٹ کے تاریخی پس منظر میں ایک دقیق معنی کی حامل اصطلاح سمجھی جاتی ہے۔ ٹوئٹس نے اسلامی ممالک اور او آئی سی کی جانب سے تشدد کی روک تھام اور فلسطینیوں کے حقوق کے لیے فعال کردار کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
تنازعے پر طالبان کا ردعمل دو عناصر پر مبنی ہے۔ اولاً، اگست ۲۰۲۱ میں اپنی واپسی کے بعد سے، اس نے قانونی حیثیت حاصل کرنے اور عالمی برادری بالخصوص بین الاقوامی برادری کی جانب سے خود کو تسلیم کروانے کی متعدد کوششیں کی ہیں۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے خدشات اور خواتین کی تعلیم پر پابندی کے سبب افغانستان او آئی سی کا حصہ نہیں ہے۔ لہذا، کابل کا موقف اسے اسلامی دنیا اور ساتھ ہی ساتھ او آئی سی کی جانب سے قانونی حیثیت دلوانے میں مدد کر سکتا ہے۔
ثانیاً، افغانستان کی معیشت و اقتدار کو استحکام بخشنے کی جدوجہد میں، طالبان ایران کے ساتھ تعلقات کو ترتیب دے رہے ہیں جو کہ فلسطین کے مسئلے کا طویل وقت سے حمایتی رہا ہے۔ فروری ۲۰۲۳ میں، ایران نے تہران میں واقع افغان سفارت خانہ طالبان قیادت کو سونپنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مئی ۲۰۲۳ میں، ایران اور افغانستان کے درمیان خواف-ہرات ریلوے لائن کا پہلی بار آزمائشی سفر مکمل ہوا تھا۔ مزید براں، اپریل تا جولائی ۲۰۲۳ کے دوران ایران اور افغانستان کے درمیان ۵۱۲ ملین امریکی ڈالر کی تجارت ہوئی۔ چنانچہ، طالبان کا فلسطین کے مسئلے اور حق خودارادیت کے اس کے حق کے لیے واضح حمایت کرنا، ایران سے جاری اقتصادی اور تزویراتی حمایت کے ضمن میں اس کے لیے اہم ہو جاتا ہے۔
حاصل کلام
پاکستان اور افغانستان دونوں کی جانب سے موجودہ ردعمل بڑی حد تک ماضی میں ان کے اسرائیل اور فلطسطین کے بارے میں نقطۂ نگاہ اور اس حیثیت سے مطابقت رکھتے ہیں جو کہ دونوں ممالک اسلامی دنیا میں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ موجودہ تنازعہ اسرائیل اور پاکستان کے مابین تعلقات کے معمول پر آنے کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہنے دیتا۔ تاہم فلسطینیوں کے لیے پاکستانیوں کے دلوں میں انتہائی گہرائی میں موجود جذبات نیز مغرب کے ہمراہ تعلقات کو متوازن بنانے کی پاکستان کی ضرورت، اس تنازعے کے حوالے سے اسلام آباد کے بیانیے کو پیچیدہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ کابل میں طالبان قیادت کے لیے خود کو تسلیم کروانے اور اسلامی دنیا میں قانونی حیثیت پانے کی جدوجہد اس کے نقطۂ نگاہ کو طے کرنے اور اسرائیل کے خلاف جارحانہ رویے کو جاری رکھے گی۔مزید برآں افغانستان کی تہران سے قربت اور اس پر انحصار کابل کو فلسطین کی واضح حمایت پر مجبور کرے گا۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Pro-Palestine Rally via Montecruz Foto.
Image 2: Pro-Palestine Rally via Flickr.