عسکری گروہوں کو پراکسی جنگ میں استعمال کر کے خارجہ پالیسی مقاصد حاصل کرنا پاکستان کےلئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کثرتِ رائے سے اس بات پر یقین کیا جاتا ہے کہ پاکستان نے پراکسی ہتھیار کو سوویت یونین اور ۹۰ کی دہائی میں کشمیر میں استعمال کیا۔ جہاں ا س پالیسی کی وجہ سے پاکستان نے عالمی تنہائی کا سامنا کیاہے وہیں یہ مسئلہ اب بھی برقرار ہے۔ تاہم حالیہ کچھ اقدامات سے لگتا ہے کہ پاکستان خود کو اس پالیسی اور ان گروہوں کی پشت پناہی سے دور کر رہا ہے۔ شائد یہ خطے میں جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے ہے جس میں پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ اب امریکہ (پراکسی پالیسی پر) مزید صبر کا مظاہرہ نہیں کر پائے گا۔ اسی طرح اپنے دیرینہ دوست چین سے بھی ایسی امید لگانا کہ وہ اس معاملے پر مزید حمائت کرے گا خارج ازامکا ن ہے۔
امریکہ کی پاکستان اور اسکے متبادل آپشنز پر تنقید
اس مہینے ایک پریس کانفرنس میں پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک نیا باب جنم لے رہا ہے۔ انکے خیال کے مطابق اس باب کا مطلب پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات اب اپنے مفادات سامنے رکھ کر طےکرنے کا سوچ رہا ہے ۔اسی تناظر میں سرد مہری دکھانے کےلئے کچھ دن پہلے پاکستان نے امریکہ کے جنوبی اور وسطی ایشیا کےلئے اسسٹنٹ سیکرٹری ایلس ویلز سے کہا کہ وہ اپنے دورہ پاکستان کو ملتوی کردیں۔
ان اقدامات کو صدر ٹرمپ کی پچھلے مہینے کی امریکہ کی افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق تقریر کا ردِ عمل کہا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ کی تقریر جہاں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتی ہے وہیں پاکستان پر عسکری تنظیموں کو پناہ دینے، جو کہ افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج کی طالبان مخالف مہم میں نبرد آزما ہیں ،پر تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا “ہم پاکستان کو کئی بلین ڈالر دیتے رہے اور وہ اس دوران انہی گروہوں کو تحفظ دیتا رہا جو ہمارے خلاف لڑتے ہیں۔ لیکن اب اس کو بدلنا ہو گا وہ بھی جلد سے جلد”۔
کیا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پاکستان کی امریکہ سے متعلق خارجہ پالیسی بدل گئی ہے؟ شائد ایسا ہو، تاہم یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ پاکستان نے خود کو امریکہ سے دور کرنے کی کوشش کی ہو۔ ہم نے اس طرح کی کوششیں ریمنڈ ڈیوس معاملے کے بعد سے دیکھی ہیں ۔ جس میں سی-آئی-اے کے ایک کنٹریکٹر نے لاہور میں دو افراد کا قتل کیا اور اسی سال یعنی ۲۰۱۱میں اسامہ بن لادن کے (ایبٹ آباد)کمپاؤنڈ پر چھاپہ مارا گیا۔
ایک طرف تو پاک-امریکہ تعلقات کو کئی جھٹکوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف اسلام آباد روس اور چین کے قریب ہو رہا ہے۔ گزشتہ برس پاکستان روس اور چین کے سکیورٹی بلاک شنگھائی تعاون تنظیم کا مکمل ممبر بن گیا، روس کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں ہوئیں اور سی-پیک کی صورت میں چین کےساتھ معاشی تعاون کی راہیں کھلیں جس کی وجہ سے پاکستان کی مجموعی جی-ڈی-پی میں دو فیصد ضافہ ہو سکتا ہے۔
اب دیگر متبادل آپشنز کی موجودگی پاکستانی پالیسی سازوں کو زیادہ کارآمد دکھائی دینے لگ گئی ہے چونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی پیروی مسائل سے بھرپور ہے اور اس سے دور ہونا بذاتِ خود کئی مسائل کا حل ہے۔ تاہم پاکستان کا مسئلہ امریکہ سے نہیں بلکہ پراکسی پالیسیوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے ۔
معدوم ہوتی ہوئی بین الاقوامی مدد
صدر ٹرمپ کی تقریر سابقہ امریکی صدور کی تقاریر سے ذیادہ ‘انتباہ’ پر مبنی تھی چونکہ انکے خیال میں پاکستان میں سرگرم عسکری گروہ نہ صرف افغانستان بلکہ اس پورے ‘خطے میں اور اس سے آگے’بھی خطرات کا باعث ہیں ۔ اس نقطہ سے بھارت کے نظریہ کو بھی تقویت ملتی ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ پاکستان کی دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی داراصل اسی(بھارت) کے خلاف ہے۔ مسئلہ صرف حقانی نیٹ ورک کا نہیں ہےکی جو پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور فاٹا میں متحرک ہیں بلکہ مسائل وہ گروپ بھی بناتے ہیں جو بھارت کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں۔اور اسی نقطے کو سامنے رکھ کر بھارتی حکومت اور میڈیا صدر ٹرمپ کے ‘خطے میں اور اس سے آگے’ کے اشارے کی تشریح کرتے ہیں۔
پاکستان کی دہشت گرد گروہوں کی حمائت بھارت اور امریکہ تک محدود نہیں بلکہ حال ہی میں چینی شہر ژیامن میں ‘برکس’اجلاس میں بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا گیا۔ ژیامن اعلامیہ میں پانچ ممبر ممالک(برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ)نے جیشِ محمد،اور لشکرِ طیبہ کی بھارت میں متحرک ہونے اور اعلیٰ سطحی کاروائیوں پر خدشات کا اظہار کیا۔ یہ اعلامیہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے چونکہ اس میں چین شامل ہے جو عموماً ان گروہوں کی مذمت کرنے میں احتیاط کرتا رہا ہے۔ بلاشبہ یہ چین ہی تھا جس نے اقوامِ متحدہ میں دو بار اس قرارد کو ویٹو کر دیا جس میں جیشِ محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو دہشت گروں کی فہرست میں شامل کرنے کا کہا گیا۔
برکس اعلامیہ شائد چین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جانے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق چین نے پاکستان کو متنبہ کر دیا ہے کہ وہ آئندہ ان دہشت گرد گروہوں سے متعلق کسی قرارداد کی مخالفت نہیں کر سکے گا۔
بین الاقوامی برادری کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ حالیہ اشاروں سے لگتا ہے کہ پاکستان نے ان مشکلات کی وسعت کا ندازہ لگا لیا ہے۔ خواجہ آصف نے حال ہی میں کہا ہے کہ پاکستان کو جیشِ محمد،اور لشکرِ طیبہ کے خلاف کاروائیاں کر کے اپنا گھر درست کرنا ہو گا۔ جبکہ دوسری طرف سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے خواجہ آصف کے بیان کو دشمنوں کا بیانیہ قرار دیا۔ دو سیاسی شخصیات کا ایک دوسرے سے مختلف بیان مگر جن کا تعلق ایک پارٹی سے ہے پاکستان میں اس معاملے پر تقسیم کی وضاحت کرتا ہے۔ اکتوبر ۲۰۱۶ میں قومی سلامتی اجلاس کی مجوزہ لیکس سے یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان کے امریکہ میں سفیر اعزاز احمد چوہدری نے خبردار کیا کہ (پاکستان)دہشت گردوں کے خلاف اقدامات کرے ورنہ عالمی تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس واقعہ سے سول-ملٹری تعلقات میں رخنہ بھی ظاہر ہوا چونکہ فوج نے اس خبر کا باہر آنے کوقومی سلامتی کے منافی قرار دیا۔
یہ سیاسی مشکلات بتاتی ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف اقدامات کرنا کتنا مشکل ہے۔ یہ پاکستان کا اصل چیلنج ہے۔ اس پالیسی میں تبدیلی یا پھر کچھ گروہوں کی بدستور پشت پناہی پاکستان کی عالمی تنہائی یا شائد امریکہ کی طرف سے محدود پیمانے پر ‘ٹارگٹڈ حملے’ کا موجب بن سکتی ہے جس کا اشارہ سیکرٹری آف سٹیٹ ریکس ٹیلرسن نے حالیہ پریس کانفرنس میں بھی دیا ہے۔ جیسا کہ خواجہ آصف نے پاکستان کی عسکری گروہوں کی مدد کے حوالے سے کہا ہے “ہمیں اپنا منفی تاثر کوبدلنے کی ضرورت ہے۔ہمیں تاریخ کو ماننا ہوگا اور اپنے آپ کو درست کرنا ہوگا”۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: GovernmentZA via Flickr.
Image 2: USAID Pakistan via Flickr.