سال 2020 میں خصوصاََ وادیٔ گلوان جھڑپ کے بعد سے دونوں فریقین کے مابین بڑھتے ہوئےتناؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے،بھارت اور چین کے درمیان حالیہ سرحدی معاہدہ ایک اہم سفارتی پیش رفت ہے۔ مشرقی لداخ میں شروع ہونے والی فوجی کشمکش(اسٹینڈ آف) کو حل کرنے کے لئے برسوں کی بات چیت کے بعد طے پانے والا یہ معاہدہ دونوں ایشیائی طاقتوں کے مابین دوطرفہ تعلقات کا پیچیدہ مگراہم واضح ثبوت ہے اور لگتا ہے کہ اس نے تعلقات کی کشیدگی کو کسی حد تک کم کیا ہے۔ دونوں ممالک نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) سے مکمل طور پر دستبرداری اور معمول و امن کی بحالی کے لئے کور کمانڈر سطح کی ملاقاتوں کے 21 ادوار کا اہتمام کیا۔ یہ معاہدہ متنازع سرحد پر گشت کی بحالی کی اجازت دیتا ہے ، جس سے دونوں ریاستوں کو طےشدہ شرائط پر قائم رہنے کو یقینی بناتے ہوئے اپنے علاقائی دعوؤں کو اجاگر کرنے میں مدد ملتی ہے۔
اگرچہ بھارت، چین اور پاکستان کے درمیان سہ پہلو محرکات پیچیدہ رہے ہیں، لیکن 2021 میں بھارت پاکستان جنگ بندی نے بھارت کو ایل اے سی پر اپنے اسٹینڈ آف (کشمکش) اور چین کے ساتھ وسیع تر مسابقت پرزیادہ توجہ مرکوز کرنے کا موقع دیا ہے۔اس سرحدی کشمکش (اسٹینڈ آف)کا حل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ چین کے بارے میں بھارت کے خطرے کا تصور خالصتاََ سلامتی کے شمارسے بڑھ کر معاشی تعلقات کی بحالی جیسے دیگر امور پر اور امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات سے بالاتر ہو کر کام کرنے پر مرکوز ہو گیا ہے۔ اگرچہ یہ معاہدہ دو محاذوں پر خطرے بابت بھارت کے خدشات میں کمی لاتا ہے ، لیکن بھارت اور پاکستان کے مابین تناؤ پھربھی برقرار رہے گا۔
معاہدے کی شرائط
اس معاہدے میں دونوں ممالک کے لئے ایل اے سی کے ساتھ تنازع کے مخصوص علاقہ جات سے افواج کے انخلا کی شقیں شامل ہیں تاکہ مزید تصادم کے خدشات کو روکا جا سکے۔ اس میں منظم گشت (پیٹرولنگ)کے انتظامات کا بھی خاکہ پیش کیا گیا ہے ، جس کا مقصد غیر مبّدل صورتحال (اسٹیٹس کو) کو برقرار رکھنا اور ایل اے سی میں کسی بھی یکطرفہ تبدیلی کو روکنا ہے۔ معاہدے میں افواج کے انخلا اور گشت کی سرگرمیوں کی صورتحال کی تصدیق کے لئے مسلسل نگرانی کے نظام کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے،( جس کے ذریعے)مقامی فوجی کمانڈروں سے لے کر سفارتی ذرائع ( ڈیپلومیٹک چینلز) تک مختلف سطحوں پر باضابطہ بات چیت (ڈائیلاگ) کے ذریعے مستقبل میں کسی اختلاف یا تناؤ کو حل کرنے کے لئے ایک بنیادی نظام ( فریم ورک) کا خاکہ تشکیل دیا گیا ہے۔ (یہ معاہدہ) یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ وسیع تر علاقائی تنازع ابھی تک حل طلب ہے اور ان دیرینہ مسائل کو حل کرنے کے لئے سفارتی رابطے جاری رکھنے کے دروازے کھولتا ہے۔
بھارت اور چین کی جانب سے ،جبکہ دونوں ممالک برکس سمٹ (سربراہ اجلاس) میں شرکت کیا ہی چاہتے تھے،اس (معاہدے کے)اعلان کا موقع، (خصوصاََ)قابل ذکر ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ کے درمیان سربراہی اجلاس کی اضافی مصروفیت کے طورپر بعد میں ہونے والی ملاقات نے کشیدگی کو کم کرنے اور بہتر سیاسی اور معاشی تعلقات کی راہ ہموار کرنے کے لئے ان کی سیاسی باہم مطابقت کو عملی جامہ پہنایا۔
بھارت کے خطرے کے تصور (تھریٹ پرسیپشن) پر اثرات
اگرچہ یہ امر باعثِ راحت ہے کہ کشیدگی میں اضافہ کرنے اور جانوں کے ضیاع کا سبب بننے والی یہ کشمکش (اسٹینڈ آف) اب کشیدگی میں تخفیف کی طرف بڑھ گئی ہے ، تاہم سابقہ بھارت چین سرحدی تنازعات سےبھارت کے بیجنگ پر عدم اعتماد کی بدولت،معاہدے کی پائیداری سے متعلق شکوک و شبہات موجود ہیں ۔ لہٰذا اس معاہدے کا مطلب یہ نہیں کہ بھارت اور چین تاریخی شکوؤں سے مکمل طور پر آگے بڑھ چکے ہیں، خصوصاََ اس لیے بھی کہ معاہدے کی شرائط سے متعلق تفصیلی عمومی معلومات کی کمی مذاکرات کےاب تک جاری رہنے کا اشارہ دیتی ہے۔
تاہم مجموعی طور پر یہ معاہدہ بھارت کے چین کو خطرہ سمجھنے کے تصور میں تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک مستحکم سرحد وسائل کو (استعمال کے لیے) فارغ کرتی اور معاشی ترقی کو فروغ دیتی ہے۔ چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت 2020 میں 65 بلین امریکی ڈالر سے بڑھ کر 2024 میں 118 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی۔ بھارت صنعتی سامان، برقی آلات (الیکٹرانکس)، مشینری اور دوا سازی (فارماسیوٹیکل) کے لیے چینی درآمدات پر انحصار کرتا ہے، جو باہمی اقتصادی انحصار کو اجاگر کرتا ہے اوران کی براہ راست دشمنی کو پیچیدہ بناتا ہے۔ درحقیقت دونوں ریاستوں نے اس معاہدے کے ذریعے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ تزویراتی خدشات پر عارضی امن کے حصول کے لیے عملی عواقب کو ترجیح دیتے ہیں۔ چین کے لیے اس سے ایل اے سی سے متصل حل طلب تنازع کے ساتھ ساتھ اندرونِ ملک معیشت میں سست روی، کاروبارِ جائیداد میں مشکلات (رئیل اسٹیٹ چیلنجز ) اور چینی مصنوعات پر مغربی پابندیوں سے پیدا ہونے والے معاشی اور سفارتی دباؤ میں کمی آسکتی ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری لا کر چین نئی دہلی کو چینی سرمایہ کاری پر مزید پابندیاں عائد کرنے یا موجودہ پالیسیوں کو (مزید) سخت کرنے سے روکنا چاہتا ہے۔ یہ معاہدہ مغرب کو یہ اشارہ دیتا ہے کہ معاشی معاملات کے سامنے سیاسی اتحاد ( بلاک پولیٹیکس) بھی دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
امریکی عنصر اور سہ پہلو محرکات
امریکہ اور بھارت کے درمیان بڑھتےہوئے تعلقات پر یہ سرحدی معاہدہ اپنےممکنہ اثرات سے متعلق اہم سوالیہ نشان ہے۔2000 کی دہائی کے اوائل سے، خصوصاََ کواڈ اور آئی 2 یو 2 جیسے اقدامات میں بھارت کی شرکت کو مدنظر رکھتے ہوئے، امریکہ اور بھارت کی شراکت داری بڑھتی گئی ہے۔ دفاع، ٹیکنالوجی اور اقتصادی امور میں ان کا تعاون چین کے علاقائی تحکم (اسیرٹیونیس) پر مشترکہ خدشات کی عکاسی کرتا ہے۔ لہٰذا چین کے ساتھ اس معاہدے پر بھارت کی مفاہمت اس بات کی عکاس ہے کہ بھارت اپنی معیشت کو مضبوط بنانے کی خواہش رکھتا ہے، اپنے مضبوط ہمسایہ ملک کو قابو میں رکھنے اور اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے میں خود اعتمادہے اور امریکہ سے آزاد ،خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اگرچہ بھارت نے عندیہ دیا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ کام جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے ، لیکن چین کے ساتھ سرحدی بحران سے اس کا انفرادی طور پر نمٹنا اس کی کثیر الجہتی خارجہ پالیسی رکھنے کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔
اگرچہ امریکہ نے سرحد سے چینی اور بھارتی افواج کے انخلا کی تعریف کی ہے ، تاہم اس نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت چین سرحدی تنازع کو حل کرنے میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے۔ بہر حال، بھارت اور چین کے تعلقات میں بہتری (اور) جنوبی ایشیا میں تنازعات کے خدشے میں کمی آنے سے امریکہ بھی مستفید ہو گا اور واشنگٹن کو دنیا کے دیگر خطوں میں چین کے کردار پر توجہ مرکوز کرنے کی مہلت مل سکے گی۔
پاکستان کی بابت کیا؟
بھارت چین سرحدی معاہدے کے پاکستان پر ملے جلے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ نئی دہلی اور بیجنگ کے درمیان کشیدگی میں کمی خطے میں امن کے ماحول کی راہ ہموار کرتی ہے جو اسلام آباد کے حق میں بہترہے۔ تاہم چین کے ساتھ بھارت کے مذاکرات کی کامیابی پاک بھارت تعلقات میں مماثل بہتری کا اشارہ نہیں دیتی۔ ایل او سی پر اس سے مماثل کسی بھی سرحدی معاہدے کے امکان کی راہ میں کثیر الجہتی اور سختی سے جمی مشکلات (چیلنجز)، جو بنیادی طور پر کشمیر پر علاقائی تنازعات اور سرحد پار دہشت گردی سے متعلق ہیں، بھری پڑی ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے حالیہ دورہ اسلام آباد کے باوجود ان کے دورے کا سروکار دوطرفہ تعلقات سے نہ تھا اور نہ ہی جموں و کشمیر تنازع اور دیگر دیرینہ دوطرفہ مسائل کو حل کرنے کے لیے دانستہ گفت و شنیدکے کوئی اشارے ملے ہیں۔ تزویراتی طور پر بھارت کی جانب سے آئی این ایس ورشا کی تعمیر، مشرقی ساحل پر کے فور بحری صلاحیتوں کی ترویج اور امریکہ کی بحرہند و بحرالکاہل حکمت عملی کے ساتھ اس کا تعاون سرحدی معاہدے سے قطع نظر پاکستان کے تزویراتی خطرے کے تصور (تھریٹ پرسیپشن) کے لیے خدشات پیدا کرتا ہے۔ تاہم، ایل اے سی پر کشیدگی میں کمی چین اور پاکستان کی طرف سے دو محاذوں پر چیلنج سے متعلق بھارت کے خطرے کے تصور (تھریٹ پرسیپشن) کو کم کر سکتی ہے، جو بالواسطہ طور پر ایل او سی پر بحران کے خطرات کو برداشت کرنے کے لئے بھارت کی بڑھتی ہوئی خواہش کی نشاندہی کر سکتی ہے۔
آخر میں یہ کہ حالیہ بھارت چین سرحدی معاہدہ مختصر مدت میں ایک مثبت پیش رفت ہے جو کشیدگی میں کمی اور معمول کی گشتی سرگرمیوں کی بحالی کے لئے ایک بنیادی نظام (فریم ورک) فراہم کرتا ہے۔ تاہم امن اور استحکام کے طویل المدتی امکانات بنیادی مسائل کو حل کرنے اور تنازعات کے حل اور تعاون کے لئے پائیدار بنیادی نظام(فریم ورک) کی تشکیل کے لئے مسلسل کوششوں پر انحصار کریں گے۔ دنیا یہ دیکھنے کی منتظر ہے کہ آیا یہ معاہدہ بھارت اور چین کے تعلقات میں ایک نئے دور کا پیش خیمہ ثابت ہوگا یا ایک دیرینہ دشمنی میں محض ایک اور مختصر وقفہ ہوگا۔
Click here to read this article in English.
***
Image 1: Government of India’s Ministry of Defence via X
Image 2: Government of South Africa via Flickr