جنوبی ایشیا میں پائی جانے والی اولین تہذیبوں سے لے کر آج جب کہ دریا سیاسی سرحدوں کی وجہ سے منقسم ہو چکے ہیں، آبی تاریخ ہمیشہ سے ہی پیچیدہ رہی ہے۔ وافر مقدار میں وسائل، ہنگامہ انگریز مشترکہ ماضی اور مشترکہ خطرات لاحق ہونے کے باوجود بھی جنوبی ایشیا دنیا کے سب سے کم انضمام یافتہ خطوں میں سے ایک ہے۔ معاشی سلامتی کے حصول کے لیے، دریاؤں کے کنارے بنیادی طور پر زراعت اور توانائی کے لیے استعمال تو ہوتے رہے ہیں، لیکن خال ہی خال انہیں ایسی ایک جامع اکائی کے طور پر دیکھا گیا ہے کہ خود جس کی اپنی حفاظت کی ضرورت ہو۔
موسمیاتی تبدیلی کے منڈلاتے خطرات، لب آب موجود ممالک کے درمیان پہلے سے موجود تناؤ کو مزید ابتر کرتے ہیں، جو پانی کے مستحکم نظم کے حصول کی ضمن میں نئی آزمائشیں پیش کرتا ہے۔ بارشوں کے تبدیل ہوتے رجحانات، پگھلتے گلیشیئرز اور شدید موسمیاتی واقعات کی بڑھتی ہوئی کثریت بشمول بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے سبب، خطے میں پانی کے وسائل کی دستیابی تیزی کے ساتھ غیر متوقع اور کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ یہ غیر متوقع کیفیت غذائی، توانائی اور صحت کی سلامتی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ترقیاتی اہداف کے لیے خطرہ ہے، اور مشترکہ دریاؤں پر بھروسہ کرنے والے ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید داغدار کر رہی ہے۔
جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان پانی کے انتظام پر اگرچہ معاہدہ جات پہلے سے موجود ہیں، تاہم وہ فرسودہ ہو چکے ہیں اور پانی کے مشترکہ وسائل کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے درپیش خطرات سے نہیں نمٹتے ہیں۔ مزید برآں، ان میں سے زیادہ تر دو طرفہ ہیں جو اس تناظر میں بڑی حد تک غیرموثر ثابت ہو جاتے ہیں کہ بیک وقت متعدد جنوبی ایشیائی ممالک دریاؤں کا اشتراک کرتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کو مزید ابتر کر دیتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کے آبی کناروں کو ۲۰۳۰ تک شدید کمیابیوں کا سامنا ہو سکتا ہے، جو اس کے شمال اور وسطی بھارت کے گنجان آباد خطوں پر اثرانداز ہوں گے، ما سوائے یہ کہ فوری اور مشترکہ اقدامات اٹھائے جائیں۔ بھارت کا تقریباً پانچواں حصہ قحط جیسی کیفیات سے نبردآزما ہے جبکہ حیران کن طور پر اس کے ۷۰ فیصد وسائل آلودہ ہیں۔ نیپال دنیا میں موسمیاتی اعتبار سے چوتھا متاثرترین ملک ہے، جو بار بار آنے والی آفات جیسا کہ سیلاب، گلیشئر سے وجود میں آنے والی جھیلوں کے پھٹنے سے سیلاب اور سالانہ لینڈسلائیڈز سے نبردآزما ہے۔ پاکستان میں موسمی شدت میں اضافے کے ساتھ ساتھ، ۲۰۲۲ میں معمول میں ہونے والی بارشوں کے مقابلے میں ۱۹۰ فیصد سے زیادہ بارشیں ہوئی تھیں جس سے تباہ کن سیلاب آئے تھے۔
بھارت اور پاکستان جیسے ممالک آبادی کی بڑھوتری، غربت اور سطح زمین کی طبعی خصوصیات میں تیزی سے تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں جو پانی اور غذائی ترسیلات کے اضافی تقاضوں کا باعث بن رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں اگر کوئی بھی ملک مہارت کے ساتھ تبدیل ہوتے موسم سے مطابقت اختیار کرنا چاہتا ہے اور انتہائی فتنہ انگیزی کے حامل مشترکہ وسائل سے پیدا ہونے والے تنازعوں سے گریز چاہتا ہے، تو ایسے میں خطے میں موسمیاتی تعاون انتہائی ناگزیر ہے۔ تاہم جہاں پہلے سے موجود معاہدوں کو تازہ ترین کرنے اور مذاکرات میں شامل ہونے کے مواقع موجود ہیں، وہیں سیاسی آمادگی اور داخلی دباؤ رکاوٹوں کے طور پر بدستور موجود رہیں گے۔
دو طرفیت کے مسائل
جنوبی ایشیا میں پانی کی سلامتی نمایاں تبدیلیوں کے عمل سے گزری ہے، جو پڑوسیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی بےاعتمادی اور بڑی سطح پر پھیلے ہوئی داخلی سیاسی عدم استحکام سے مامور ہے۔ موسمیاتی تعاون پر موجودہ دو طرفہ فریم ورکس بھی ان جغرافیائی سیاسی اور داخلی تبدیلیوں سے محفوظ نہیں ہیں، جو معاونت یافتہ علاقائی مذاکرات کی ضرورت پر زور ڈالتے ہیں۔
موجودہ علاقائی معاہدہ جات نوعیت کے اعتبار سے دو طرفہ ہیں جو اشتراک کے لائحہ عمل یا توانائی کے استعمال اور ذخیرے پر مرکوز ہیں۔ تاہم یہ معاہدے اکثر متنازعہ ہیں، جو غیرمساوی اصولوں سے مامور ہیں اور دریاؤں کی دیرپا صحت سے نمٹنے میں ناکام ہیں۔ مثال کے طور پر سندھ طاس معاہدہ (آئی ڈبلیو ٹی)، جس کا اولین مقصد پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے کی روک تھام کے لیے لائحہ عمل کے طور پر کام کرنا تھا بدستور متنازعہ ہے۔ بھارت نے ۲۰۲۳ میں ۶۴ سال پرانے معاہدے کو تبدیل کرنے کے لیے پاکستان کو نوٹس دیا تھا، جس سے ضرورت کی بنیاد پر مبنی ایک ایسے نقطۂ نگاہ کو اختیار کرنے کا ایک موقع ملتا ہے جو ماحولیاتی اثرات اور مستقبل کے خطرات پر غور کرتا ہے لیکن اس محاذ پر معمولی تحریک دیکھنے کو ملی ہے۔ مزید برآں چین اور افغانستان کا آئی ڈبلیو ٹی سے اخراج، دو ایسے لب آب ممالک کو نظرانداز کرتا ہے جو سندھ طاس کا اشتراک کرتے ہیں۔
دونوں جانب سے بڑھتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ، دریا وسیع تر سیاسی رنجشوں میں ایک ہتھیار کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں ، اور نئی دہلی اور اسلام آباد نے پانی کے استعمال کے معاملے پر وقفہ وار اشتعال انگزیز بیانات دے چکے ہیں۔ کشمیر میں ۲۰۱۲ میں، پاکستانی عسکریت پسندوں کی جانب سے بھارت کی جانب سے آئی ڈبلیو ٹی کی مبینہ خلاف ورزی کے ردعمل میں سیلاب سے بچاؤ کی کوشش کرنے والے انجینیئرز کو نشانہ بنانے اور ۲۰۱۹ کے پلوامہ حملے کے بعد بھارت کی جانب سے دریائے سندھ کا رخ پھیرنے کی تجویز پانی سے متعلقہ تنازعوں کی غیر مستحکم نوعیت پر روشنی ڈالتی ہے۔
جنوبی ایشیا کو پانی کے انتظام کے معاملے پر فوری طور پر ایک ایسا انضمام یافتہ نقطہ نظر اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو موسم سے متعلقہ تبدیلیوں اور مستقبل میں پیش آنے والے غیر یقینی موسمیاتی تبدیلیوں پر گرفت رکھتا ہو۔ سیاسی نقطہ نگاہ کا موجودہ نظام محض پیش رفت میں رکاوٹ قائم کرتا ہے جہاں آبی چکر میں تبدیلیاں اور بڑھتی ہوئی آبادی مستقل عنصر کے طور پر موجود ہیں۔ ایک ترمیم شدہ آئی ڈبلیو ٹی ان بڑھتے ہوئے تقاضوں سے نمٹ سکتا ہے اور آبی چکر پر موسمیاتی تبدیلی سے رونما ہوتے اثرات میں تخفیف کر سکتا ہے۔
ان معاہدوں میں سے بہت سے تبدیل ہوتی حقیقتوں سے مطابقت اختیار کرنے میں ناکام رہے ہیں اور بارہا ان حقیقتوں سے انحراف کرتے قومی مفادات کی بھینٹ چرھتے رہتے ہیں۔ بھارت اور نیپال کے پس منظر میں دیکھا جائے تو تو معاہدوں پر دستخط اور متعدد یادداشتوں (ایم او یوز) کے باوجود بھی پانی کے وسائل پر اشتراک کے معاملے پر عدم اطمیان بدستور موجود ہے ۔ نیپال نے بھارت پر بلند و بالا سڑکوں، بیراجوں اور دیگر ایسے بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر کا الزام عائد کیا ہے جنہوں نے پانی کے بہاؤ کو متاثر کیا ہے اور سیلابوں کا باعث بنا ہے جبکہ بھارتی ریاستوں نے بہار اور اترپردیش میں سیلاب کا باعث بننے والی تعمیراتی سرگرمیوں اور اپنے خطے میں سیلاب سے مناسب تحفظ کرنے لائق منصوبے تیار نہ کرنے کے لیے نیپال کو موردالزام ٹھہرایا ہے۔
پانی کے معاملے پر دیکھا جائے تو خطے میں بھارت اور نیپال کے درمیان ابلاغ کے لیے بہترین ذرائع موجود ہیں۔ تاہم بعض معاہدہ جات جیسا کہ کوسی معاہدہ (۱۹۵۴)، گندک معاہدہ (۱۹۵۹) اور مہاکلی ٹریٹی (۱۹۹۶) کو نیپال کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ یہ منصفانہ قرار نہیں دیے جا سکتے ہیں اور یہ بھارت کی جانب سے نافذ کیے گئے ہیں، جو دونوں ممالک کے درمیان اعتماد ڈگمگانے کا باعث بنا ہے۔ ان معاہدوں کا بامعنی نفاذ دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کے معاملے پر ابلاغ کے لیے راہیں استوار کر سکتا ہے۔
بسا اوقات داخلی سیاسی عدم اتفاقات بھی ریاستوں کے مابین معاہدوں میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان طویل عرصے التواء کا شکار تیستا آبی معاہدہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ کیسے داخلی سیاست بین الاقوامی معاہدوں کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔ بیراجوں اور پن بجلی کے پلانٹس سمیت انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور پانی کی دستیابی اور بڑھتے درجہ حرارت نے ایک ایسے دریا کے بہاؤ کو کم کر دیا ہے کہ جو کبھی تندی و تیزی رکھتا تھا۔ مغربی بنگال کی حکومت نے مرکزی حکومت، بھارت کی دیگر ریاستوں اور بنگلہ دیش پر غیرموزوں اوقات پر بیراجوں سے پانی چھوڑنے کا الزام عائد کیا ہے اور ایک انتخابی مسئلے کے طور پر اسے پیش کیا ہے۔اس معاملے کے سیاست کی نظر ہو جانے کا نتیجہ مغربی بنگال کی جانب سے ایک ایسے معاہدے پر دستخط کی راہ میں رکاوٹ بننے کی صورت میں نکلا ہے کہ جو دونوں ممالک کے درمیان پانی کی موثر تقسیم کا معاہدہ ہو سکتا تھا۔
مستقبل کے لیے لائحہ عمل: بین السرحدی سفارت کاری
سال ۲۰۲۳ کے بھوٹان بھارت سیلاب کی پیشنگوئی اسکیم کے علاوہ، لمحۂ موجود میں پانی کی تقسیم پر ایسی کوئی ٹریٹیز اور معاہدہ جات موجود نہیں کہ جو موسمیاتی حقائق کو اپنے اندر ضم کرتے ہوں۔ اگرچہ جنوبی ایشیاء کے تمام آٹھوں ممالک معاہدہ پیرس کے دستخط کنندگان ہیں اور قومی سطح پر تعین شدہ خدمات (این ڈی سیز) رکھتے ہیں، تاہم یہ عہد و پیماں بنیادی طور پر اخراج میں تخفیف اور صاف ستھری توانائی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
پانی اور موسم کے درمیان پیچیدہ تعلق کو سمجھنے کی ضمن میں ایک خلا موجود ہے کیونکہ بین السرحدی دریاؤں پر معاہدے موسمیاتی زاویہ نگاہ سے عاری ہیں۔ جغرافیائی محاذ آرائی یا قومی اقتصادی ترقی کے ایک عنصر کے طور پر پانی کے استعمال سے قطع نظر کرتے ہوئے اسے ماحولیاتی سالمیت، موسمیاتی لچک، انسانی بہبود اور سماجی معاشی ترقی کے لیے ایک ناگزیر ذریعے کے طور پر شناخت کرنا انتہائی ضروری ہے۔
ماحولیاتی اور انسانی سلامتی پر توجہ دیتی تحقیق کے ذریعے زیادہ موثر علاقائی نقطہ نگاہ پر زور دینے والے ماہرین کی جانب سے دہائیوں سے جاری وکالت، بین الاقوامی تجربات سے سیکھنے اور جامع علاقائی میکنزمز کے باوجود بھی مقامی داخلی سیاست، جغرافیائی سیاسی تناؤ اور سیاسی آمادگی کی کمی کے سبب چیلنجز بدستور موجود ہیں۔ حتیٰ کہ جس وقت آمادگی موجود رہی ہے، تب بھی وسیع تر سلامتی معاملات اکثر زیادہ مضبوط کردار ادا کرتے ہیں۔ کمیونٹی سطح پر چند کامیاب پیش رفتوں جیسا کہ بھارت نیپال سرحد پر موجود دیہاتوں کے درمیان پیشگی خبردار کرنے کے نظام یا بھارت، چین، بنگلہ دیش اور بھوٹان کے بیچ برہم پترا مذاکرات اور گلیشیئر پگھلنے کے معاملے پر بھارت اور چین کے درمیان مشترکہ کوششوں کے باوجود بھی سرحد پار اعتماد سازی کے سلسلے کو وسیع کرنا اور فروغ دینا مشکل ثابت ہوا ہے۔
امیدافزاء طور پر موسمیاتی تبدیلی پر توجہ مرکوز کرنے والی ایسی پیش رفتیں جو پانی کی تقسیم کے معاملے میں دخل اندازی نہیں کرتیں، جیسا کہ کھٹمنڈو سے تعلق رکھنے والی بین الحکومتی تنظیم انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ (آئی سی آئی ایم او ڈی) کو کچھ کامیابی دیکھنے کو ملی ہے۔ وہ عوام کی عوام سے سفارت کاری پر زور دیتے ہیں اور اعدادوشمار کی بنیاد پر موسمیاتی مسائل پر کھلے عام بحث کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔
موسم پر مذاکرات، جنوبی ایشیا کو پانی کے انضمام یافتہ انتظام جو کہ اکثر ایک جذبات سے مامور اور پیچیدہ معاملہ رہا ہے، پر گفتگو کرنے کی جانب ایک راستہ مہیا کر سکتا ہے۔ ایک باہم پیوست، معاون اور منصفانہ خطے کے لیے فوری توجہ کی متقاضی ان آزمائشوں سے نمٹنے کے لیے معاونت یافتہ حکمت عملیاں نیز دوطرفہ کی جگہ علاقائی سطح پر پانی کا نظم درکار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خطے کے حوالے سے ہم اپنے تصور میں وسعت لائیں تاکہ ممکنات کو دیکھا جا سکے نہ محض اسے کہ جو فوری طور پر درپیش ہے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Indus River via Wikimedia Commons
Image 2: Karnali River, Nepal via Flickr