اگرچہ چین کے پاکستان کے ساتھ گہرے ہوتے تعلقات نے بھارت میں خطرے کی گھنٹی بجائی ہے تاہم یہ تعلقات علاقائی استحکام کے تناظر میں بالکل بھی خطرناک نہیں ہیں۔در حقیقت چین اس خطے میں بحرانی کیفیات کو کم کرنے میں سب سے بہترین پوزیشن رکھتا ہے چونکہ اس کے بیک وقت پاکستان کے ساتھ دوستانہ اور بھارت کے ساتھ گہرے معاشی روابط استوار ہیں۔اصل میں چین نے خطے میں موجود معاشی مفادات کی وجہ سے محض پاکستان کو سپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک متوازن پوزیشن اختیار کر لی ہے۔
پاک چین ابھرتے تعلقات نے بھارتی خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔ان خدشات میں خاطر خواہ اضافہ چین کے پاکستان کو آبی سکیورٹی کےلئے دو بحری جہاز دینے اور ۲۰۱۵ میں دو (چینی ساختہ) جوہری آبدوزوں کا کراچی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کے بعد دیکھنے میں آیا۔مزید برآں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے چینی صدر ژی جن پنگ کے ساتھ پاک-چین-اقتصادی-راہداری (سی پیک) کا پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر سے گزرنے پر تحفظات کا اظہار کیا۔اسی طرح جیشِ محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر پر اقوامِ متحدہ سے پابندیاں لگوانے کی بھارتی کوششوں کو چین نے بعض تکنیکی بنیادوں پر روک (ویٹو) رکھا ہے۔
نتیجتاً اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خطے میں تزویراتی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔جہاں چین پاکستان کی سکیورٹی میں اضافہ کر رہا ہے وہیں وہ بھارت -امریکہ دفاعی معاہدے سے بھی خائف نظر آتا ہے۔ تاہم چین کا علاقائی بحران میں کردار اچھی طرح سمجھا اور ماپا جا سکتا ہے۔
بھارت کی طرف سے ممکنہ سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر ۱۹۶۰ کی دہائی میں چین کا پاکستان کی طرف قدرتی رجحان تھا۔تاہم چین کی جنوبی ایشیائی پالیسی میں تبدیلی ڈنگ ژیاؤ پنگ دور میں ہوئی جب انہوں نے داخلی و خارجی پالیسی کو عالمی باالخصوص سرمایہ دارانی نظام سے ہم آہنگ کیا۔۱۹۹۰ کے عشرے میں معاشی مفادات کی وجہ سے چین نے کشمیر سے متعلق پاکستانی سپورٹ والے نظرئے میں تبدیلی لاتے ہوئے اسکو متوازن بنایا۔
حالیہ دنوں میں بھارت میں ہونے والے پٹھانکوٹ اور اڑی حملوں کے بعد چین نے ایک بار پھر اپنی متوازن پالیسی کو استعمال کیا اور پاکستان کا مکمل حمائتی ہونے کے بجائے جنوبی ایشیا میں کشیدگی میں کمی پر زور دیا۔ بیجنگ نے پٹھانکوٹ پر حملے کی مذمت کی اور کہا کہ حملہ پاک-بھارت تعلقات کو سبوتاژ کرنے کےلئے قصداً کیا گیا ہے جو اس سے پہلے بہتر ہو رہے تھے۔
پاک-چین تعلقات میں ایک اور دلچسپ رجحان تب دیکھا گیا جب پنجاب کے وزیرِ اعلی کے دفتر سے یہ بیان جاری ہوا کہ چین نے کسی بھی بیرونی خطرے کی صورت میں پاکستان کی بھرپور حمائت کا یقین دلایا ہے اور چین پاکستان کی کشمیر پالیسی کو مکمل سپورٹ کرتا ہے۔ تاہم چین نے وضاحتی بیان میں ایسے کسی بھی بیان کی تردید کی اور اس بات کو دوہرایا کہ کشمیر دو طرفہ معاملہ ہے جسے بات چیت اور گفت و شنید سے حل کیا جا سکتا ہے۔پس یہ بات سامنے آئی کہ پاکستانی حمائت کی علی العلان پالیسی کے بجائے چین نے زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دونوں ملکوں کے بیچ مذاکرات پر زور دیا۔
چین کا پاک-بھارت کشیدگی میں کمی لانے پر زور دینے کی بڑی وجہ معاشی مفادات ہیں۔ ۵۲ارب ڈالر کا سی-پیک منصوبہ چین کے ون-بیلٹ-ون-روڈ منصوبے کا حصہ ہے جسکا مقصد ایشیا کو معاشی و تجارتی طور پر یورپ سے ملانا ہے۔
علاقائی کشیدگیاں سی-پیک کے راستے میں فصیل کی مانند ہیں چونکہ یہ خطے کے اُس استحکام کو متاثر کرتی ہیں جو سرمایہ کاری اور تجارتی منافع کےلیے ناگزیر ہوتا ہے۔سادہ لفطوں میں کہا جا سکتا ہے کہ پاک-بھارت کشیدگی اس راہداری کے ممکنہ معاشی فوائد کی راہ میں رکاوٹ ہے۔چین کےلئے سب سے ناگزیر چیز یہ ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کو ذمہ دار ریاست کی طرح رہنے اور مشترکہ مسائل کو گفت و شنید سے حل کرنے پر قائل کرے۔
جیسے پاکستان اور چین مستقبل کے معاشی فوائد سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں ویسے ہی چین نے بھارت کے ساتھ بھی معاشی نوعیت کی شراکت داری کی ہے اور ۲۰۱۴ میں چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بن کر ابھرا ہے۔بھارت اور چین کی دو طرفہ تجارت سنہء ۲۰۰۰میں محض ۳ بلین ڈالر تھی جو ۲۰۱۶ میں بڑھ کر ۷۰.۸ بلین ڈالر تک جا پہنچی۔تزویراتی پالیسیوں میں اختلافات ہونے کے باوجود معاشی انضمام سے چین کا ہاتھ خطے میں دیگر ملکوں کی نسبت اوپر ہی رہتا ہے۔
جیسے جیسے سی-پیک آگے بڑھ رہا ہے چین بھی سفارتی کھیل انتہائی احتیاط سے کھیل رہا ہے اور اس نے بھارت کو یقین دہانی کروائی ہے کہ سی-پیک منصوبہ اس کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی اس سے کشمیر کے معاملے پر چینی موقف میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا کی حالیہ کچھ رپورٹس میں یہ بتایا گیا ہے کہ چین گلگت بلتستان کو پاکستان کے قومی دھارے میں شامل کیے جانے کا خواہاں ہے۔چین کے نقطہ نظر سے وہ کسی ایسے علاقے میں سرمایہ کاری سے گریز کرے گا جو پاکستان اور بھارت کے بیچ پہلے سے ہی متنازع ہو۔ پاکستان کےلئے گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا مطلب اپنے روائتی پوائنٹ، یعنی گلگت بلتستان ایک متنازع علاقہ ہے جسکا براہ راست تعلق کشمیر معاملے سے ہے، سے ہٹنا ہو گا۔ یہ چیز بھارت کو اپنے زیرِانتظام کشمیر کو بھی پاکستان جیسا قدم اٹھانے کی طرف لے جائے گا۔ مختصراً چین کا گلگت بلتستان سے متعلق سٹینڈ پاکستانی پالیسی سازوں کےلئے کسی چیلنج سے کم نہیں اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ وہ چینی سکیورٹی مسائل کو کیسے حل کرتے ہیں۔
سی-پیک منصوبوں کے ابھرنے سے پاک بھارت تجارت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور چین کی جنوبی ایشیائی پالیسی محض تزویراتی نقاط پر نہیں بلکہ معاشی و تجارتی معاملات سے منسلک رہے گی۔ چین کا معاشی طور پر پاکستان اور بھارت کے ساتھ رابطہ چین کو خطے میں مصروف رکھے گااور اسکی ترجیحات جنوبی ایشیا میں کشیدگی میں کمی لانا اور مسائل کو حل کرنا ہو گیں۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Flickr, Narendra Modi (cropped)
Image 2: Getty Images, Andalou Agency