
اس وقت جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ جنوری 2025 میں دوبارہ عہدہ سنبھالنے کی تیاری میں ہیں، اسلام آباد میں امریکہ کے ساتھ تعلقات کے مستقبل کے بارے میں گہری غیر یقینی پائی جاتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے پرجوش حامیوں میں ٹرمپ کی جیت سے اس امید کی تجدید ہوئی ہے کہ ٹرمپ کی دوسری انتظامیہ موجودہ پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈال سکتی ہے کہ وہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کو رہا کرے، جنہیں ٹرمپ نے اپنا “عظیم دوست” (گریٹ فرینڈ) قرار دیا ہے۔ تاہم دیگر عوامل کے علاوہ، ٹرمپ کے بیان کردہ ارادوں اور (اُٹھائے گئے)اقدامات کے درمیان ماضی کے تضادات نے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کے بارے میں غیر یقینی کو بڑھاوا دیا ہے۔ مثلاً 2016 کی انتخابی مہم میں، ٹرمپ نے اسامہ بن لادن کے قتل میں مدد کرنے والے مبینہ خفیہ سی آئی اے کارکن ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی یقینی بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے اس وعدے کو پورا کرنے کے لیےاسلام آباد کو کبھی آمادہ نہیں کیا۔
واشنگٹن کی جنوبی ایشیا سے متعلقہ حساب داری میں خصوصاً امریکہ کے افغانستان سے استخلاص (ڈس اینٹینگیلمنٹ) ،چین کے ساتھ طاقت کی زبردست مسابقت اور بھارت کے ساتھ تزویراتی شراکت داری کی بڑھتی ہوئی مضبوطی کے بعد پاکستان کی اہمیت میں نمایاں کمی کی حقیقت کی سنگینی اسلام آباد میں سرکاری حلقوں پرغالب نظر آتی ہے۔اس کے علاوہ ٹرمپ کی جانب سے گلوبل وارمنگ (عالمی حدّت) کو ـ’سَکَیم‘ (فریب) قرار دینا، اپنے گزشتہ دور حکومت میں پاکستان کو دی جانے والی معاشی اور فوجی امداد میں کٹوتی کرنا اور پاکستان کو بطور دہشت گردوں کی ‘محفوظ پناہ گاہ‘ کی رائے رکھنا،واشنگٹن کے ساتھ مضبوط اور پُرجوش دو طرفہ تعلقات کے لیے اسلام آباد کی امیدوں کو مزید کمزور کرتا ہے۔
امریکہ کی خارجہ پالیسی میں اسلام آباد کی گھٹتی ہوئی اہمیت، خصوصاً جبکہ واشنگٹن کومشرق وسطیٰ اور یورپ کی جنگوں نےالجھا رکھا ہےاور بحرہند و بحرالکاہل میں (واشنگٹن) چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کو ترجیح دے رہا ہے، ٹرمپ کی قیادت امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کے لیے کسی مثبت پہلوکا عندیہ نہیں دیتی۔
:ماضی و حال میں ٹرمپ کے لیے پاکستان کی اہمیت
ٹرمپ نے اپنی پہلی انتظامیہ میں اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ہی پاکستان کو دی جانے والی 1.3 بلین امریکی ڈالر کی سیکیورٹی امداد میں کٹوتی کر دی تھی۔ اس کمی نے دونوں ممالک کے درمیان اختصاصی سلامتی (سیکیورٹی) پر مرکوز تعلقات پر ضرر رساں اثرات مرتب کیے۔ درمیانی برسوں میں اسلام آباد کا تزویراتی مقام مزید گِر گیا ہے۔ امریکہ کی سلامتی حساب داری اور ترجیحات مشرق وسطیٰ، یوکرین اور تائیوان جیسے دیگر کنفلیکٹ زونز ( تنازعات والے علاقوں) کی طرف منتقل ہو چکی ہیں اور پاکستان کو غیر ترجیحی بنا دیا گیا ہے۔ نتیجتاً اپنے نئے عہدِ حکومت میں، ٹرمپ پاکستان کے ساتھ زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کر سکتے ہیں اور اسلام آباد کی فوجی امداد کو مزید محدود کر سکتے ہیں۔ ٹرمپ خاص طور پر پاک افغان خطے کے لئے انسداد دہشت گردی کی امداد میں مزید کمی کر سکتے ہیں۔
واشنگٹن کی جنوبی ایشیا سے متعلقہ حساب داری میں خصوصاً امریکہ کے افغانستان سے استخلاص (ڈس اینٹینگیلمنٹ) ،چین کے ساتھ طاقت کی زبردست مسابقت اور بھارت کے ساتھ تزویراتی شراکت داری کی بڑھتی ہوئی مضبوطی کے بعد پاکستان کی اہمیت میں نمایاں کمی کی حقیقت کی سنگینی اسلام آباد میں سرکاری حلقوں پرغالب نظر آتی ہے۔
ترجیحات میں یہ عدم توازن اسلام آباد میں پالیسی سازوں کو پریشان کر سکتا ہے۔ افغانستان میں انسانی بحران، عالمی دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی، منشیات، چھوٹے ہتھیاروں کی اسمگلنگ اور بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کی پاکستان میں نقل مکانی کے باعث افغانستان پاکستان کے لیے بنیادی تشویش کا امر ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت غیر ملکی انسانی ہمدردی (کے تحت) امداد کے ذریعے قائم ہے اور امریکہ ملک کا سب سے بڑا معطی (ڈونر) ہے۔ اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سےامریکہ نے انسانی ہمدردی اور ترقیاتی امداد کی مد میں 3.2 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کی رقم ادا کی ہے۔ چونکہ ٹرمپ طالبان کے بارے میں سخت موقف اختیار کر سکتے ہیں، اس لیے پاکستان کو افغانستان میں انسانی ہمدردی (کے تحت) امداد پر ممکنہ امریکی پابندی کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔ ایسی کسی پابندی کا مطلب یہ ہوگا کہ اسلام آباد کو ان کثیر الجہتی بحرانوں سے خود ہی نمٹنا ہوگا۔

ٹرمپ کے دورِ حکومت (میں)امریکہ، چین اور پاکستان کی مثلث
ٹرمپ کی آنے والی کابینہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کا امتحان لے گی کیونکہ اس میں ممکنہ طور پربہت سے ایسے حکام شامل ہوں گے جو چین کے عروج (کی راہ) میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں اور جوبیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کو خطرہ قرار دیتے ہیں۔ اس رویے کی بہترین مثال ٹرمپ کی جانب سے مارکو روبیو کو وزیر خارجہ اور مائیک والٹز کو قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر منتخب کرنا ہے۔ روبیو اس وقت بیجنگ کی جانب سے پابندیوں کی زد میں ہے جس سے ممکنہ طور پر امریکہ اور چین کے باہمی تعلقات پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کااس صورتحال سے نمٹنا خاصا دشوار ہے۔ پاکستان کے اہم پالیسی ساز چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو ایک اقتصادی محافظت (لائف لائن )کے طور پر دیکھتے ہیں، اور اندرون ملک پرتشدد انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے میں اسلام آباد کے لیے امریکی امداد بہت اہمیت کی حامل ہے۔
چین کے بارے میں ٹرمپ کا جارحانہ رویہ پاکستان کے معاشی استحکام پردیگر اطوار سےبھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں سے پاکستان ناقابل برداشت قرضوں سے دوچار ہے اور اپنے پہلے دور حکومت میں ٹرمپ انتظامیہ نےمدد ( ریلیف) کے لیے (دیئے جانے والے) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے استعمال پر اعتراض کیا تھا کیونکہ پاکستان کا زیادہ تر قرضہ سی پیک منصوبوں کی سرمایہ کاری (فنانسنگ) پر خرچ ہوا تھا۔ رواں سال ستمبر میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 7 بلین امریکی ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی منظوری دی تھی جو بتدریج مرحلہ وار جاری کیا جا رہاہے۔ اگر آنے والی ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے بارے میں آئی ایم ایف کی معاشی پالیسیوں پر اسی طرح کا معاندانہ موقف اختیار کیا تو اسلام آباد کو اپنے قرضوں سے نمٹنے کے لئے جدوجہد جاری رکھنا پڑسکتا ہے۔ مارکو روبیو، جان ریٹکلف اور مائیک والٹز سمیت چین کے بارے میں نسبتاً سخت موقف رکھنے والے عہدیداروں کی ممکنہ موجودگی پاکستان کے سی پیک کے مفادات پر منفی اثرات مرتب کرنے کاایک اہم خطرہ پیش کرتی ہے،کیونکہ اسلام آباد آئی ایم ایف اور بیجنگ دونوں پر اپنے انحصار کو توازن میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔
مجموعی طور پر جہاں اسلام آباد نے سبکدوش ہونے والے صدر بائیڈن کے زیرِ قیادت واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے سخت محنت کی، وہیں ٹرمپ کا دوبارہ منتخب ہونا ایک بار پھر پاکستان کو ایک غیر یقینی تزویراتی مقام پر پہنچا دےگا۔
چین کے حوالے سے سخت رویہ بھارت اور امریکہ کے درمیان قریبی تعلقات کا باعث بھی بن سکتا ہے جس کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑے گا۔ رواں سال کے اوائل میں روبیو نے امریکی کانگریس میں ایک تجویز پیش کی تھی جس کا مقصد بھارت کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا اور بھارت کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی چھان بین کرنا تھا۔ اگر آنے والی ٹرمپ انتظامیہ اس موقف پر قائم رہتی ہے تو اس سےپاکستان پر مزید دباؤ پڑے گا کہ وہ یہ ثابت کرے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مناسب اقدامات کر رہا ہے۔ اگرچہ پاکستان نے 2022 میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی اضافی نگرانی والے ممالک کی فہرست سے نکلنے کے لئے دہشت گردی کی مالی اعانت کی روک تھام میں خاطر خواہ پیش رفت کا مظاہرہ کیا، تاہم بھارتی حکام کا الزام ہے کہ پاکستان بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستانی حکام ان دعوؤں کی تردید کرتے ہیں۔
مجموعی طور پر جہاں اسلام آباد نے سبکدوش ہونے والے صدر بائیڈن کے زیرِ قیادت واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے سخت محنت کی، وہیں ٹرمپ کا دوبارہ منتخب ہونا ایک بار پھر پاکستان کو ایک غیر یقینی تزویراتی مقام پر پہنچا دےگا۔ پاکستان کو مشرق وسطیٰ اور یوکرین میں امریکی ترجیحات کا مقابلہ کرنا ہوگا اور چین اور امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن کرنا ہوگا۔ خاص طور پر پاکستان کو امریکہ کو انسداد دہشت گردی میں اس کے ساتھ تعاون کرنے پر قائل کرنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ انسداد دہشت گردی کی امداد اسلام آباد کے لیے خاص طور پر اہم ہے کیونکہ وہ حالیہ برسوں میں سی پیک منصوبوں اور ان پر کام کرنے والے چینی اہلکاروں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے جس کی وجہ سے ممکنہ طور پر بیجنگ امریکہ کی انسداد دہشت گردی کی حمایت کے خلا کو چینی فوجیوں کے ساتھ پُر کرنے کی کوشش کرے گا۔ اگرچہ وہ ٹرمپ کے ساتھ اعتماد قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے ، تاہم اسلام آباد چین کو کھونے کا متحمل نہیں ہوسکتا ، کیونکہ پاکستان کا بیجنگ پر بہت زیادہ معاشی انحصار ہے۔ ایسے میں پاکستان کو امریکہ اور چین کے درمیان پھونک پھونک کر قدم دھرنے ہوں گے تاکہ اس کی سلامتی اور معاشی ضروریات بیک وقت پوری ہوتی رہیں۔
***
This is a translation. Please click here to read the original article in English.
Image 1: Trump White House via Flickr
Image 2: U.S. Department of State via Wikimedia Commons