تاحال، بھارت اور پاکستان کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات غیر متاثرکن رہے ہیں، بلخصوص وہ اقدامات جن کے ذریعےباہمی تنازعات کو حل کرنے کی راہ ڈھونڈی جا سکتی ہے۔ اعتماد سازی کے اقدامات ، یا “کانفڈنس بلڈنگ میژرز” وہ اقدامات ہوتے ہیں جو دو مُمالک باہمی مشاورت کے بعد اس مقصد کے لئے اُٹھاتے ہیں کہ کبھی اِن کے درمیان کشیدگی حادثتاَ جنگ ، خاصکر جوہری جنگ کی صورت اختیار نہ کر لے۔ خطّے کے بدلتے ہوۓ سٹریٹیجک ماحول کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ بات چیت پچھلی ایک دہایئ سے تعطل میں ہے۔ اس سٹریٹیجک ماحول میں امن مذاکرات کو کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔اِن رکاوٹوں کو عبورکرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ بھارت اور پاکستان کے اندر موجود تمام اسٹیک ہولڈر وں کے درمیان اِن اعتماد سازی کے اقدامات کےوسیع تر مقاصد کے بارے میں اِتفاقِ راۓ پیدا کی جاۓ۔ اِس اندرونی اِتفاق کے بغیر پاک بھارت امن مذاکرات اور اعتماد سازی کے اقدامات حقیقت بننے سے قاصر رہیں گے۔
ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ آئندہ امن مذاکرات ماضی کے نقش وقدم پر چلیں گے ، البتّہ ماضی ایسے کئی بیش قیمت سبق فراہم کرتا ہے جن کے زریعے دونوں مُمالک مستقبل میں ایک بہتر راہ نکال سکتے ہیں۔ ۱۹۹۹ میں لاہور میں کئے جانے والے پاک بھارت معاہدے، اور اس کے زریعے ہونے والی جامع بات چیت، یا “کمپوزٹ ڈائلاگ” کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کے پرامن حل کے لئے کافی امید پیدا ہوئی۔ مگر اس کے بعد آنے والے دس سال میں سٹریٹیجک حالات کافی تبدیل ہو گئے، اور اِس تبدیلی کا دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے وقوع، نوعیت، اور نتائج پر گہرا ا ثر پڑا۔
جوہری ٹیسٹوں کے بعد ۱۹۹۸ میں دونوں ممالک کے درمیان ایک حد تک توازن پیدا ہوا اور اس کے ساتھ ہی ان دو جوہری ممالک کے بیچ کشیدگی کم کرنے کے لئے عسکری اور سیاسی مسائل کو فوری طور پر حل کرنے کی اہمیت اُبھری. خطّے میں جوہری ہتھیاروں کے تعارف سے یہ بات واضح ہو گئی کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان مسائل کا حل اب فوجی طاقت کے ذریعے مًمکن نہیں۔جس طریقہ سے کارگل کی جنگ کو مزید پھیلنے سے روکا گیا،اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اب دونوں ملکوں کے درمیان کھلی جنگ انتہائ مشکل ہے۔
یہ تصویر بدلنے لگی ۲۰۰۷-۲۰۰۶ تک کیونکہ بھارت اور پاکستان کی معاشی ترقّی اور فوجی جدیدیت مختلف سمتوں میں چلنے لگی۔ اوپر سے امریکہ نے اس خطّے میں بھارت کو چین کے مقابل کھڑا کرنے کی پالیسی اپنائی۔اس کے نتیجے میں بھارت خود کو بہت اہم محسوس کرنے لگا، اور پاکستان کے ساتھ غیر برابری کا رویہ اپنایا۔اس کی مثال اس بات سے ظاہر ہے کہ بھارت اب مسئلہِ کشمیر پر بات کرنے کے بجائےپاکستان سے مبیّنہ طور پر امداد حاصل کرنے والے دہشتگردوں کے مسئلے پر زور دیتا ہے۔اس کے علاوہ، پاکستان کو درپیش ملک بھر دہشت گردی کے مسئلہ میں بھارت کا ممکنہ ہاتھ بھی بھارت کی جابرانہ روِش کی علامت ہے۔آج خطّے کے سٹریٹیجک توازن کا جھکاؤ بھارت کی جانب ہے، جس کی وجہ سے بھارت پاکستان کے ساتھ عسکری اور سیاسی معاملات میں غیر مساوری رویہ اختیار کرتا ہے۔ بظاہربھارت کے لئے پاک بھارت امن سے ہونے والے فائدے کم ہو چکے ہیں۔ بھارت اب خود کو ایک عظیم ریاست تصور کرتا ہے، اور اسی بِنا پر بھارت نے غیر ریاستی عناصر، یا “نان سٹیٹ ایکڑرز” کے مسئلہ کے لئے”کولڈ سٹارٹ” جیسا غیر دانشمندانہ حل مرتب کیا- اس کی وجہ سے پاکستان کا “نیوکلئر ڈیڑرنس” پر انحصار مزید بڑھ گیا۔
پاکستان میں دس سال سےجاری عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان کے معاشی اور سکیورٹی نظام پر کافی دباؤ ہے۔ لہٰذا بھارت سے تعلقات میں بہتری پاکستان کے فوری مفاد میں ہے۔ اس کے باوجود یہ توقع کرنا غلط ہو گا کہ پاکستان کشمیر کے معاملے میں کوئی بنیادی رعایت کرے گا، یا اس مسئلہ کو اوّلین ترجیح نہ دینے پر راضی ہو جائے گا، کیونکہ کشمیر پاکستان کے ساتھ نہ صرف تاریخی اور سٹریٹیجک، بلکہ نظریاتی لحاظ سے بھی منسلک ہے۔
پچھلے دس سالوں میں پاک بھارت امن مذاکرات سے کوئی خاطرخواہ نتائج سامنے نہں آئے۔جس طرح ۱۹۹۹ میں کارگل کے بعد پاک بھارت امن مذاکرات کا عمل پاکستان کے اندر اتفاقِ رائے نہ ہونے کی وجہ سے رک گیا، اسی طرح موجودہ بھارتی متضاد پالیسی غیر مفید ہے، جس کے تحت ایک طرف تو پاکستان سے مذاکرات، مگردوسری جانب روایتی ڈیڑرنس کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دونون ممالک کے اندر مختلف اداروں، ان کی قیادت اور دیگر رہنماؤں کے بیچ اس بات پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ پاک بھارت امن قائم کرنے کا عمل کیسا ہونا چاہئے۔ دونوں ملکوں کے اندر اس بات پر کھلی گفتگو ہی دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد بڑھانے کا ایک اہم ترین قدم ہو گا۔ ایسا اندرونی اتفاقِ رائے قائم کرنے پر پاکستان میں کسی حد تک کام جاری ہے۔ پہلے جنرل کیانی اور پھر جنرل شریف کے دور میں دہشت گردی اور اس کے حل کے بارے میں پاکستان میں ایک کھلی اور جامع قومی بحث شروع ہو چکی ہے۔
اس کے برعکس مودی سرکار کی پاکستان کی جانب پالیسی تضادات کا شکار ہے۔ بھارتی رہنماؤں کو چاہئے کہ مسئلہِ کشمیر کی نوعیت پر ایک اندرونی مکالمہ شروع کریں اور سوچیں کہ اس مسئلہ کا جلد حل کس طرح بھارت کے اپنے مفاد میں ہے، نہ کہ اندرونی دباؤ میں آ کر مذاکرات کو منسوخ کر دیں۔ بھارت میں ایسی کھلی اندرونی بحث سے پاکستان کا بھی بھارتی اخلاصِ نیّت پر اعتماد بڑھے گا۔ اس کے علاوہ بھارتی فوج کی نظریاتی اور صلاحیتی جدیدیت یا “ماڈرنائزیشن” کے عمل کا بنیادی سٹریٹیجک مقصد پاکستان کے ساتھ پر امن تعلقات قائم کرنا ہونا چاہئے۔
محض سیاسی اشارات اور حکومتی حمایت سے امن مذاکرات مظبوط نہیں ہونگے، جب تک کے بھارت اور پاکستان کے اندر کے تمام اسٹیک ہولڈرز ایک صفحے پر نہ ہوں۔ کشمیر اور دہشت گردی پر ایسا وسیع اندرونی مکالمہ ایک مفید عمل ہو گا۔ اس مکالمے کو بھارت اور پاکستان کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات کی کوششوں کے ساتھ لے کر چلا جا سکتا ہے۔
***
Editor’s Note: Click here to read this article in English
Image 1: Visual News- Getty Images News, Getty
Image 2: Aamir Qureshi-AFP, Getty