
بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں حالیہ موڑ نئی دہلی کی ہمسائیگی میں ہونے والی تبدیلیوں کے سلسلے میں تازہ ترین کڑی ہے جس کا سراغ برصغیر پاک و ہند میں ” پہلے پڑوس” (نیبرہوڈ فرسٹ) کی خارجہ پالیسیوں کے بجائے “پہلے مُلک” (نیشن فرسٹ) کے نئے رجحان سے لگایا جا سکتا ہے۔ پہلے مُلک کی خارجہ پالیسی اندرونِ ملک قوم پرستی پر مبنی ہوتی ہے اور اس کی بنیاد پہلے پڑوس کی پالیسی کے برعکس، جس میں ہمسایہ (ممالک) کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو ترجیح دی جاتی ہے،علی الاعلان علاقے سے ما سِوا (ایکسٹرا ریجنل )تعلقات پرانحصار کرنے پر ہے۔ اگرچہ بھارت اور اس کے کئی ہمسایہ ممالک نے مختلف اوقات میں اپنے ہمسایہ (ممالک)کو ترجیح دینے کے ارادے کا اظہار کیا ہے ، لیکن اس نتیجے کو پانے کے لئے مخصوص پالیسیاں شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
برصغیر میں پہلے مُلک کی پالیسی کی طرف جھکاؤ مختلف مسافتیں طے کر کےآیا۔ (یہ جھکاؤ)بھارت کے لیے 2019 میں مودی کے دوبارہ انتخاب کے ذریعے ،سری لنکا کے لیے2021 میں مالی بحران سے گزر کر، بنگلہ دیش کے لیے جسے دہلی کے کچھ تجزیہ کار ‘رنگین انقلاب‘ (کَلر ریوولوشن) قرار دے رہے ہیں، کے ذریعے (گو کہ علاقے سے ما سِوا [ایکسٹرا ریجنل ] مداخلت کا کوئی ثبوت نہیں ہے) ، نیپال کے لیے ایک نئے سیاسی نظام کی دشواریوں سے گزر کر، افغانستان کے لیے ایک سفاکانہ خانہ جنگی سے گزر کر، میانمار کے لیے ایک فوجی بغاوت اور نتیجتاً ہونے والی خانہ جنگی سے گزر کر اور پاکستان کے لیے مخلوط شہری و فوجی ( ہائبرڈ سول ملٹری) کی خراب فعلیت(ڈس فنکشن)کی ایک مشکل تاریخ سے گزر کر آیا۔اس کی وجہ سے بھارت میں علما نے ایک ایسے خطے میں “جنوبی ایشیا” کی اصطلاح کی افادیت پر سوال اٹھایا ہے جو گہری تقسیم کا شکار ہے۔
نئی دہلی میں جنوبی ایشیا کو طویل عرصے سے بھارتی اثر و رسوخ کے مرکزی دائرۂ کارکے طور پر بیان کیا جاتا رہا ہے، تاہم پہلے پڑوس (نیبر ہوڈ فرسٹ) اور موجودہ پہلے مُلک(نیشن فرسٹ) پالیسیوں کے درمیان خطے بھر میں عدم توازن ایک پریشان کن تزویراتی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگرچہ “جنوبی ایشیا” کی اصطلاح کا خاتمہ ہونے میں ابھی (کچھ) وقت باقی ہے، تاہم یہ آخری دموں پر ہے۔ واشنگٹن میں امریکہ سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک علیحدہ جنوبی ایشیا کی حکمت عملی کو بحال کرے جو خاص برصغیر کے بجائے بحرہند و بحرالکاہل (انڈو پیسیفک) کی ترجیحات سے زیادہ مطابقت رکھتی ہو، (تاکہ) بھارت کے مطابق جنوبی ایشیا کی روایتی تعریف کو مزید زائل کیا جا سکے۔ اگرچہ چین اور امریکہ جیسے علاقے سے ما سِوا (ایکسٹرا ریجنل ) عناصر محتاط انداز میں برصغیر میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں، تاہم بنیادی تضاد خود خطے کے ممالک کے درمیان ہے۔ درحقیقت، خطے کے ممالک کے لیے ہمسائیگی پر مبنی نقطۂ نظر کئی طور سے بَہرہ ورہے۔ جنوبی ایشیا میں پائیدار علاقائی اتحاد کے حصول کے لیے، اقوام کو اپنے ہمسایہ (ممالک) کے ساتھ باہمی مطابقت پذیری اور وسیع پیمانے پر اشتراک (بائے-ان) پر مبنی متعاون نقطہ نظر کے حق میں، جس میں عملیتی معاشی شراکت داری، ادارہ جاتی سیاسی روابط کے ساتھ متوازن ہو، قلیل المُدّتی قوم پرست سیاست کو ترک کرنا ہوگا۔
جنوبی ایشیا میں پائیدار علاقائی اتحاد کے حصول کے لیے، اقوام کو اپنے ہمسایہ (ممالک) کے ساتھ باہمی مطابقت پذیری اور وسیع پیمانے پر اشتراک (بائے-ان) پر مبنی متعاون نقطہ نظر کے حق میں، جس میں عملیتی معاشی شراکت داری، ادارہ جاتی سیاسی روابط کے ساتھ متوازن ہو، قلیل المُدّتی قوم پرست سیاست کو ترک کرنا ہوگا۔
پہلے پڑوس سے پہلے مُلک تک
بھارت نے خود کو جنوبی ایشیا میں اپنے ہمسایوں کے لئے ترجیحی شراکت دار کے طور پر پیش کیاہے ، ان کی معیشتوں میں بامعنی حصہ ڈالا ہے اور (اس کے پاس)بحران کے وقت اپنے ہمسایہ (ممالک) کی مدد کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ افغان خانہ جنگی کے دوران بھارت نے ہی عام افغانوں کی امنگوں کی حمایت کی۔سری لنکا کے مالیاتی بحران کے دوران، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا چین (کی امداد)سے زیادہ بھارت کی مدد نے سری لنکاکے باشندوں کو بدترین دورسے نکلنے کا موقع دیا۔ نیپال کے زلزلے کے دوران سب سے پہلے ردعمل دینے والوں میں سے ایک بھارت ہی تھا۔ بنگلہ دیش کے حالیہ بحران کے دوران، اس سے قطع نظر کہ کوئی صورتحال کو کس زاویےسے دیکھتا ہے، یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ بھارت کی جانب سے اپنی طویل المدتی شراکت دار شیخ حسینہ کو پناہ فراہم کرنے کو علاقائی تعلقات کے لیے اس کی عہد بستگی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ بسااوقات بھارت کی جانب سے اس کی سیاسی ترجیحات کے حوالے سے جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے کا تاثر پایا جاتا ہے، لیکن بھارت کے تعلقات مجموعی طور پر کافی وسیع رہے ہیں اور جنوبی ایشیا کے ممالک پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
تاہم حالیہ برسوں میں ممالک نے بھارت کے علاوہ بھی(تعلقات کو) متنوع بنانے کی ضرورت محسوس کرنا شروع کردی ہے، جو اپنی پالیسیوں کو ہمسائیگی پر مرکوز رکھنےکے بجائے خطے سے باہر تعلقات کے ذریعے قومی مفادات کے حصول کو ترجیح دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سری لنکا کی بحر ہند کی ترجیحات نے اسے ہمبنٹوٹا بندرگاہ میں مالی سرمایہ کاری کے لیے چین کے ساتھ تزویراتی شراکت داری کرنے پر آمادہ کیا۔ مزید برآں، برصغیر میں علاقے سے ما سِوا (ایکسٹرا ریجنل )عناصر کی ترغیب کے علاوہ، داخلی سیاست کے پیچیدہ باہمی تعامل اور ان ممالک میں معاشی ترقی کی ضرورت نے بھارت مخالف جذبات میں اضافہ کیا ہے۔ اس کی مثال نیپال، بنگلہ دیش اور مالدیپ کے انتخابات سے قبل “انڈیا آؤٹ” کے بیانات سے ملتی ہے۔ تاہم کئی مواقع پر ایسی مہمات زیادہ تر داخلی اور نظریاتی عوامل کا نتیجہ ہوتی ہیں اور مخصوص بھارتی طرز عمل کی بدولت کم ہوتی ہیں۔ مثلاً بنگلہ دیش میں اسکولوں کے نصاب میں تاریخ کا نظر ثانی شدہ نسخہ (ورژن) متعارف کرایا جا رہا ہے۔ نیپال میں علاقائی مسائل اور قومی و مقامی سطح پر ترقیاتی کشیدگی نے بھارت مخالف جذبات کو جنم دیا ہے۔ داخلی انتخابی سیاست میں بھارت مخالف بیان بازی ان ممالک کے علاقائی روابط اور شراکت داری کو بڑھانے کے بیان کردہ اہداف کے خلاف کام کرتی ہے۔
یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ ہمسائیگی میں بھارت کے تئیں نفرت خطے کے ممالک کی جانب سے اپنے فائدے کو بڑھانے کے لیے علاقائی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ تاہم بھارتی خارجہ پالیسی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ خطے کو ہم آہنگ سازی کی طرف لے جانے کی ذمہ داری نئی دہلی پر عائد ہوتی ہے اور اس کے بنیادی قومی مفادات برصغیر میں دوستانہ اور مضبوط تعلقات کے متقاضی ہیں۔ ہمسائیگی میں عدم استحکام میں کمی سے نہ صرف ہمسایہ ممالک کو فائدہ پہنچتاہے بلکہ یہ بھارت کے اپنے سیاسی مفاد میں بھی ہے کیونکہ علاقائی قوم پرستی کی وجہ سے تنازعات کے پھیلنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ 2022 میں ورلڈ بینک نے بیان دیا کہ جنوبی ایشیا میں علاقائی تجارت کُل تجارت کا صرف 5 فیصد ہے۔’پہلے مُلک‘کے جذبات پر قابو پانے اور تجارت پر مرکوز (بہتر) ہمسائیگی کے نقطہ نظر سےکسی ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی تیز کرنے میں براہ راست مدد مِل سکتی ہے۔ پہلے پڑوس کی پالیسی ہمسایہ (ممالک) کو امریکہ، چین اور یورپی یونین جیسے علاقے سے ما سِوا (ایکسٹرا ریجنل )کرداروں کے ساتھ زیادہ مؤثر طریقے سے تعلق استوار بھی کرنے دے گی۔

بھارت کی خارجہ پالیسی (کے چند پہلوؤں) پر سخت تنقید جیسے نیپال سے متعلق زیادہ مصلحت آمیز (ڈپلومیٹک) طرزِ عمل کی ضرورت، بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کی قوتوں کے ساتھ روابط، جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون تنظیم (سارک) اور خلیج بنگال انیشی ایٹو فار ملٹی سیکٹرل ٹیکنیکل اینڈ اکنامک کوآپریشن (بمسٹیک) کے ذریعے علاقائی ہم آہنگ سازی کو فروغ دینا، ہمسائیگی میں منصوبوں کی زیادہ مؤثر منتقلی، پاکستان کے ساتھ گفت و شنید کے (ذریعے) روابط، میانمار میں جمہوریت کی حمایت اور چین کو ایک ہوّا سمجھنے سے احتراز برتنے کو نئی دہلی میں خاصی اہمیت دی جاتی ہے۔ بدلے میں بھارت کے ہمسایہ (ممالک) کو علاقائی کثیرالجہتی کی اہمیت کا سنجیدگی سے ازسرنو جائزہ لینا چاہیے، جس میں ہمسایہ ملک کی مددکی جاتی ہے، کیونکہ وہ بھارت کی اقتصادی ترقی، بڑھتی ہوئی (کاروباری) منڈیوں اور اس کے علاقائی روابط سے متعلقہ منصوبوں سے مستفید ہوتے ہیں۔
عملیت اور تعاون کے امکانات
خطے بھر میں پہلے پڑوس کی مضبوط پالیسی کی حمایت کے لیے بھارت اور اس کے ہمسایہ (ممالک) کو ادارہ جاتی اور سیاسی مذاکرات کے ساتھ 5 سالہ واضح عملی منصوبوں (ایکشن پلانز) پر گفت و شنید کرنے کی ضرورت ہے۔گو کہ اعلیٰ سطح پر سیاسی مذاکرات بھارت اور بنگلہ دیش کے لیے نگراں حکومت کی حیثیت کے باعث،بھارت اور پاکستان کے لیے دیرینہ تنازعات کے سبب(اور)بھارت اور افغانستان کے لیے طالبان حکومت کے باعث پیچیدہ ہوسکتے ہیں، تاہم ایسے عملی اقدامات (موجود) ہیں جو باہمی مشاورت کے بعد عوام سے عوام تک (پیپل ٹو پیپل )کی سطح پر اٹھائے جانے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ اس میں دوطرفہ تجارت کی بحالی، ویزا کی مدرّج منظوری اور روابط کے اقدامات شامل ہیں۔ بھارت اور یہ ہمسایہ ممالک دونوں ہی داخلی قوم پرستی میں اضافے کی وجہ سے اس طرح کے اقدامات کے خلاف مزاحم رہے ہیں۔
بنگلہ دیش اور نیپال چونکہ زیادہ لین دین کے طرزِ عمل کو ترجیح دیتے ہیں ، لہٰذا بھارت کو ان ممالک کو باہمی گفت و شنید (کے ذریعے طے شُدہ) اور باہمی طور پر مفید معاہدوں کی پیش کش کرنی چاہیئے۔تاہم تزویراتی مسائل، جیسا کہ اقلیتوں کے حقوق، پانی کی تقسیم، سرحدی سلامتی اور بعض گروہوں کی نمائندگی ایسے مسائل ہیں جن سے حساس اور اعلٰی سطحی سیاسی شوارع(چینلز )، جیسا کہ سکریٹری خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر کی سطح پر،کے ذریعے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً بنگلہ دیش میں سرکاری حکام امریکہ اور چین کے ساتھ اعلانیہ خیر سگالی کا مظاہرہ کرنے کے مقابلے میں سیاسی اور عوامی دائرۂ کارمیں بھارت کے ساتھ تعلقات پر بات کرنے میں زیادہ محتاط رہے ہیں۔مثلاً جو بائیڈن نے محمد یونس کے ساتھ اپنی ملاقات میں دونوں حکومتوں کے درمیان مزید روابط کا خیر مقدم کیا اور بنگلہ دیش کی اپنے نئے اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیےامریکہ کی حمایت جاری رکھنے کی پیش کش کی۔ جبکہ بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل واکر الزمان کا کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات ’دو اور لو‘پر مبنی ہیں جبکہ چین بنگلہ دیش کی ترقی میں ‘شراکت دار’ ہے۔ نیپالی وزیر اعظم کے پی اولی نے روایت کو توڑتے ہوئے اپنے پہلے دورے کے لیے بھارت کے بجائے چین کا انتخاب کیا۔ بھارت اور اس کے ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی سے جنوبی ایشیا پر مرکوز سفارتکاری کی اہمیت کو دوبارہ مرکزیت دینے میں مدد مل سکتی ہے۔
علاقائی تعاون پر وسعتِ نظر سے عاری قومی مفادات کو ترجیح دینے کے حالیہ رجحان نے ہم آہنگ سازی کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالی ہے ، جبکہ داخلی عدم استحکام کی وجہ سے تعاملی قلیل المدتی پالیسیوں نے ان انقسام کو مزید گہرا کیا ہے۔
مزید برآں، بھارت کو امریکہ، یورپ، چین اور روس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ علاقے سے ما سِوا (ایکسٹرا ریجنل)اثر و رسوخ ، جو بھارتی مفادات کے لیے نقصان دہ ہے،سے بچا جا سکے۔ ان بڑی طاقتوں کے ساتھ دوطرفہ ضابطۂ کار(میکانزم) میں اضافے کے ذریعے اس (مقصد) کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے توتعلقات میں سرد مہری میں حالیہ کمی، روابط میں اضافے کے امکانات کی نشاندہی کرتی ہے۔ ماضی میں چین خطے میں بھارت کی قیادت کو تسلیم کرتے ہوئے جنوبی ایشیا میں بھارت چین پلس ماڈل (کی تجویز) پیش کر چکا ہے۔ چین نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں بھارت کی شرکت اور 2018 میں اس وضع (فارمیٹ)کے تحت بھارت اور چین کی جانب سے مشترکہ طور پر افغان سفارتکاروں کے لیے تربیتی پروگرام کی بھی حمایت کی تھی۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان مسابقت کے عنصر کے باعث چین کے نزدیک ہونےمیں بھارت کے طرزِ عمل میں احتیاط ہوگی ، لیکن چین کی شمولیت میں کمی کی خواہش رکھنا،نئی دہلی کے لئے حقیقت پسندانہ مقصد نہیں ہے۔ بھارت اور چین کو جنوبی ایشیا پر محدود روابط شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
جمہوریت کے فروغ اور انسانی حقوق سے متعلقہ گفت و شنید کے علاوہ پارٹنر شپ فار گلوبل انفراسٹرکچر انیشی ایٹوز اور گلوبل گیٹ وے جیسے عالمی روابط کے (فروغ کے) لیے سرمایہ کاری کے اقدامات (گلوبل کنکٹیویٹی فنڈنگ ) کا فائدہ اٹھانا دہلی کی کامیابی کے لئے اہم ہوگا۔ ان میں دوطرفہ روابط کے بجائے، جو مسائل کا سبب بنتے ہیں، سہ فریقی یا کثیر الجہتی تعاون کے ذریعے اثر انداز ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ دوسری طرف اگرچہ بھارت کو سماجی اور ثقافتی اثر و رسوخ کو ترک کرنے کی ضرورت ہوسکتی ہے کیونکہ ہمسایہ ممالک زیادہ عملی طرزِ عمل کے خواہاں ہیں، تاہم نئی دہلی کی سلامتی کے لئے خطے کے معاملات میں کچھ موجودگی برقرار رکھنا ضروری ہے۔ لہٰذا باہمی ہم آہنگی کے جذبے کے تحت بھارت اقتصادی اور علاقائی ترقی کے مواقع فراہم کرے گا جبکہ ہمسایہ ممالک کو سیاسی استحکام اور محفوظ و سازگار ماحول کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ جنوبی ایشیا کے مستقبل کو ایک تصور کے طور پر محفوظ بنایا جا سکے۔ علاقائی ہم آہنگ سازی کو تمام جنوبی ایشیائی ممالک کی ضروریات اور ضروریات پر (مناسب)ردِ عمل ظاہر کرنے کی بنیاد پر (قائم) کیا جائے، مربوط چیک پوسٹوں کے قیام اور تجارت ونقل و حمل کو آسان بنانے والے معاہدوں کے ذریعے وسیع پیمانے پر اشتراک (بائے ان)کو مستحکم کرنا ہوگا۔ تاہم علاقائی تعلقات کی بحالی کے لیے جنوبی ایشیا کے اندر اور عالمی شراکت داروں ، دونوں کی مدد سے طویل المدتی تزویراتی سوچ کی طرف واپسی کی ضرورت ہے۔ علاقائی تعاون پر وسعتِ نظر سے عاری قومی مفادات کو ترجیح دینے کے حالیہ رجحان نے ہم آہنگ سازی کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالی ہے ، جبکہ داخلی عدم استحکام کی وجہ سے تعاملی قلیل المدتی پالیسیوں نے ان انقسام کو مزید گہرا کیا ہے۔ جنوبی ایشیا میں پائیدار استحکام کے حصول کے لیے ممالک کو قومی ترجیحات اور علاقائی انحصار کی حقیقت کے درمیان نازک توازن بحال کرنا ہوگا اور اجتماعی ترقی کے اصولوں پر (عمل کے لیے) تجدیدِ عہدکرنی ہوگی۔
****
This article is a translation. Click here to read the original article in English.
Image 1: MEAphotogallery via Flickr
Image 2: Indian Ministry of External Affairs via Wikimedia Commons