سیاسی فرمان ”اختلافات کو تنازعات میں نہیں بدلنا چاہئے،“ چین اور بھارت کے تعلقات کے ضمن میں تیزی کے ساتھ غیر متعلق ہوتا جا رہا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے بارے میں اختلاف رائے طویل عرصے سے ہی تنازعے کا نکتہ رہا ہے۔ لیکن ۲۰۱۷ میں ڈوکلم میں ۷۳ دن تک جاری رہنے والے تنازعے کے بعد اب سکم اور لداخ میں بھارت اور چینی فوجیوں کے مابین حالیہ رونما ہوئی جھڑپیں قابل توجہ ہیں۔
بھارتی آرمی چیف منوج نروان نے ۱۴ مئی کو انکشاف کیا تھا کہ ۵ مئی کو لداخ میں پینگ یانگ جھیل کے مقام پر اور ۹ مئی کو سکم میں نکولا کے مقام پر بھارتی اور چینی فوجیوں کے مابین ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں ”دونوں فریقوں“ کی جانب سے ”جارحانہ رویہ“ دیکھنے کو ملا جس کے نتیجے میں فوجیوں کو معمولی چوٹیں بھی آئیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ طے شدہ پروٹوکولز کے تحت مقامی کمانڈر کی سطح کے افسران کے مابین مذاکرات کے بعد دونوں فریقوں میں معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ تاہم وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا یہ اعتراف کہ چین نے ایل اے سی کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر فوجی تعینات کئے ہیں جس کے جواب میں بھارت نے اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کیا ہے، یہ تجویز کرتا ہے کہ صورتحال سنجیدہ نوعیت کی ہے۔ مشرقی لداخ کے علاقوں خاص کر وادی گالوان میں مزید بگڑتے ہوئے اس تنازعے نے سرحد کے مغربی علاقے میں تناؤ کو دوبارہ شدید تر کردیا ہے۔
ایل اے سی، بھارت اور چین کے مابین ۱۹۶۲ کی سرحدی جنگ کے بعد سے غیر رسمی سیز فائر کی لکیر ہے جو دہائیوں سے وجہ تنازعہ رہی ہے۔ تاہم ایک ایسے وقت میں کہ جب مقامی سطح پر توجہ کا مرکز چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کی ناقص حکمرانی ہے، ایسے میں چینی فوجیوں کے حالیہ اقدامات کا ایل اے سی کی تکنیکی پیچیدیگیوں سے کم ہی لینا دینا ہے؛ جبکہ صدر شی جن پنگ کی بعد از کووڈ ۱۹ دور میں قومی الحاقی حکمت عملی سے اس کا زیادہ تعلق ہے۔
ایل اے سی پر جاری کھیل
بھارت اور چین کے مابین ایک ایسے وقت میں تنازعے کا پیدا ہونا جب دنیا کووڈ ۱۹ کی وبا کیخلاف لڑائی میں مصروف ہے، فقط دونوں ممالک کے سرحدی تنازعے کی پیچیدہ نوعیت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ چینی نقطہ نگاہ سے، ایل اے سی پر وجہ تناؤ لداخ کے سرحدی علاقوں میں بھارت کی جانب سے سڑک کی تعمیر ہے۔ چینی سرکاری خبررساں ادارے گلوبل ٹائمز نے ایل اے سی کے مقام پر پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے اقدامات کو ”ضروری پیشقدمی“ قرار دیا ہے جو کہ ”بھارت کی جانب سے چینی علاقے میں حالیہ غیر قانونی دفاعی سہولیات کی تعمیر“ کے جواب میں اٹھائے گئے۔ تاہم بھارتی وزارت برائے خارجہ امور نے ایک میڈیا بریفنگ میں زور دیا کہ ”تمام بھارتی سرگرمیاں ایل اے سی کی بھارتی جانب ہیں“ اور ایک بار پھر یقین دہانی کروائی کہ بھارت سرحدی علاقوں میں ”امن و سکون“ برقرار رکھنے کے عزم پر کاربند ہے۔
۲۰۱۷ کے ڈوکلم تنازعے کی طرح مشرقی لداخ میں فی الوقت جاری تناؤ بھی تعمیراتی سرگرمیوں سے شروع ہوا تھا۔ تاہم ڈوکلم کے مقام پر چین نے بذریعہ سڑک کی تعمیر بھوٹان کے علاقے پر دعوی کرنے کی کوشش کی تھی، بھارت نے سٹیٹس کو کی صورتحال میں یکطرفہ کوششوں کے ذریعے تبدیلی اور سیکیورٹی بنیادوں پر اس کی مخالفت کی تھی۔ جبکہ اس بار مخالفت کرنے والا چین ہے جو سرحد کے بھارتی طرف، بھارت کی جانب سے انفراسٹرکچر کی تعمیر کی مخالفت کررہا ہے۔ چین بھارت سرحدی امور میں پی ایل اے کے غالب کردار میں ۲۰۱۶ کی عکسری اصلاحات اور چینی تنظیم نو کے بعد سے اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کیخلاف سرحدی تنازعے میں، اسی وقت سے جاری چین کی جارحانہ حکمت عملی اس کی ایک مثال ہے۔ لداخ میں موجودہ جارحانہ کردار پی ایل اے کے علاقائی عزائم کی جانب اشارہ کرتے ہیں، جس کیلئے اسے سی سی پی قیادت کی مضبوط حمایت حاصل ہے۔ ایک طرف جہاں ڈوکلم جیسے واقعات ایسے عزائم کا اشارہ دیتے ہیں، وہیں صدر شی جن پنگ کی ۱۹ویں نیشنل کانگریس کیلئے رپورٹ بھی چین کی اپنے پڑوسیوں، خاص کر بھارت کے حوالے سے مستقبل کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس رپورٹ میں انہوں نے ”مضبوط، بہترین تعمیر شدہ اور جدید سرحدی دفاع“ کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
چین بھارت سرحد پر اچانک جھڑپیں معمول بنتی جارہی ہیں کیونکہ ایسے تنازعات کو حل کرنے کیلئے قانونی لائحہ عمل بڑی حد تک غیر موثر ثابت ہوا ہے، جس کی وجہ سے ایل اے سی سرحدی تنازعے کے سب سے متنازعہ پہلو کے طور پر سامنے آرہی ہے۔ مثال کے طور پر ورکنگ میکنزم فار کنسلٹیشن اینڈ کوآرڈینیشن آن انڈیا چائنہ بارڈر افیئرز (ڈبلیو ایم سی سی) کے ۲۰۱۲ میں قیام کے بعد سے اب تک مذاکرات کے ۱۴ دور منعقد ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود حالیہ برسوں میں ۲۰۱۷ کے ڈوکلم واقعے کے علاوہ ۲۰۱۳ اور ۲۰۱۴ میں بھی وقفے وقفے سے تناؤ پیدا ہوتا رہا ہے۔ حتیٰ کہ خصوصی ترجمانوں (ایس آر) کی سطح کی بات چیت کے ۲۲ ادوار کے باوجود بھی دونوں ممالک کے مابین ایل اے سی کے بارے میں باہم متصادم تصور موجود ہے جس کی وجہ دونوں فریقوں کے مابین نقشوں کا تبادلہ نہ ہونا ہے۔ سرحد کے تین حصوں جو مغربی، وسطی اور مشرقی حصے کہلاتے ہیں، ان میں سے محض وسطی علاقے کے نقشے کا بیجنگ اور نئی دہلی کے مابین تبادلہ ہوا ہے جس سے ان کے مابین ایل اے سی کے بارے میں خیالات میں فرق کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
سرحدی مذاکراتی عمل میں ایل اے سی کے حوالے سے وضاحت کلیدی کردار کی حامل ہے تاہم اس ضمن میں قابل ذکر پیش رفت نہیں دیکھی جاسکی ہے کیونکہ سرحد کے تینوں حصوں میں ایل اے سی کا ”تعریفی“ پہلو بدستور موضوع اختلاف ہے۔ بحالی اعتماد کے اقدامات بھی ٹھوس نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایل اے سی کی وضاحت سرحدی حد بندی سے بھی نتھی ہے جس پر دونوں فریقوں کا موقف فی الوقت مبہم ہے جبکہ دونوں جانب سے جاری قوم پرستی کا مقابلہ صورتحال کو مزید پیچیدہ کررہا ہے۔
چینی مدعے کا محرک کیا ہے؟
بھارت کے خلاف سرحد پر چینی اقدامات کی وجہ داخلی دبائو دکھائی دیتی ہے۔ سرحد پر جاری تناؤ کا محرک چین کے اہم ترین سالانہ سیاسی مشاورتی اجلاسوں سے پہلے پیش آیا اور ان اجلاسوں میں بھی موضوع بحث بنا۔ ان اجلاسوں میں نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) اور چائنیز پیپلز کنسلٹیٹو کانفرنس (سی پی سی سی) شامل ہیں۔ ان دونوں فورمز پر سی سی پی کا ہدف وبا سے نمٹنے کے سرکاری طریقے کار کے سبب چینی عوام میں پیدا ہونے والے عدم اطمینان سے نمٹنا نیز عالمی امور میں چین کے مستقبل کے کردار کی حمایت میں طاقتور قومی جذبات پیدا کرنا تھا۔ یہ وبا اگرچہ صدر شی جو کہ سی سی پی نیز سینٹرل ملٹری کمیشن کے سربراہ بھی ہیں، ان کیلئے کسی بڑی سیاسی آزمائش کا باعث دکھائی نہیں دیتی ہے۔ البتہ ممکنہ معاشی نتائج نیز عالمی منظرنامے پر چینی قد کاٹھ میں کمی بیجنگ کو تشویش میں مبتلا کرچکی ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کی سربراہی میں عالمی سطح پر بیجنگ کی سخت مذمت نے چین میں بے چینی پیدا کردی ہے۔ بیجنگ مضبوط حیثیت کے ساتھ معاملات طے کرنے کا عادی رہا ہے تاہم وہ اس امر سے باخبر ہے کہ کروناوائرس کی وبا کے باعث دنیا بھر میں اس کیخلاف منفی جذبات اس کی ساکھ پر اثرانداز ہوئے ہیں۔ یوں، ”۲۰۲۰ دو سیشنز“ کے تناظر میں صدر شی اپنے ”طاقتورشخص“ کے تصور کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ بعد از کووڈ ۱۹ چینی معیشت کی بحالی پر زور دینا چاہیں گے۔
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو سی سی پی کا حمایت یافتہ چینی ذرائع ابلاغ وبا کے بعد چین کو لاحق معاشی پریشانیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش میں اس تنازعے میں بھارت کو جارح فریق کے طور پر پیش کررہا ہے۔ مزید براں بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعے کی تخلیق نہ صرف عالمی توجہ تقسیم کرنا ممکن بناتی ہے بلکہ یہ چین کی دیگر جارحانہ سرگرمیوں جیسا کہ ہانگ کانگ کا قانون برائے قومی سلامتی نیز تائیوان، بحر جنوبی چین اور بحر مشرقی ہند کے قریب فوجی مشقیں وغیرہ سے بھی توجہ ہٹانے میں مدد دیتی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کے ساتھ سرحدی تناؤ محض توجہ بانٹنے کی ہی ایک چال نہیں بلکہ یہ عالمی ادارہ صحت میں نئی دہلی کو ورلڈ ہیلتھ اسمبلی میں تائیوان کی قرارداد کی حمایت سے باز رہنے کیلئے دباؤ میں لانے کی سفارتی چال بھی ہے۔ نئی دہلی نے حال ہی میں ادارے کی قیادت سنبھالی ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ قومی مغالطوں سے توجہ ہٹانے کیلئے بیرون ملک جارحیت چین کیلئے نئی نہیں ہے۔ ۱۹۶۲ کی چین بھارت جنگ نے مائوزے تنگ کو یہ موقع فراہم کیا تھا کہ وہ اپنی گریٹ لیپ فارورڈ پالیسی کی ناکامی اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والے قحط سے توجہ ہٹا سکیں۔ علاوہ ازیں بعض کی رائے میں، ویتنام کیخلاف ۱۹۷۹ کی چینی جنگ کا کسی حد تک یہ مقصد بھی تھا کہ ڈینگ ژائوپنگ کو کوریج دی جاسکے۔ اس وقت ڈینگ ژائوپنگ کے بحالی منصوبے سے قبل کی خراب معاشی حالت کی وجہ سے چینی عوام میں بڑھتی ہوئی عدم اطمینان کی کیفیت پائی جاتی تھی۔
بھارتی محتاط ردعمل
ڈوکلم تنازعے کے بعد بھارت، وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں زیادہ مضبوط اور قوم پرست ملک کے طور پر ابھرا ہے جو نہ تو چینی ڈراوے میں آتا ہے اور نہ ہی اس کے چینی دباؤ میں آنے کا امکان ہے۔ مودی کے قومی منصوبے جیسا کہ بھارت مالہ روڈ بلڈنگ سکیم نے سرحدی علاقوں کی اہمیت پر خصوصی زور دیا ہے۔ نئی دہلی، شمال مشرقی بھارت میں انڈوپیسیفک منصوبے کی صورت میں جاپان سے تعاون کے ذریعے چین کیخلاف توازن قائم کررہا ہے۔ یوں، نئی دہلی نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ چین بھارت سرحد پر عسکری صلاحیتوں میں اضافے کی ضرورت اور اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کیلئے علاقائی و بین الاقوامی شراکت داریاں قائم کرنے کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔ بھارت کا یہ ٹھوس نقطہ نگاہ، موجودہ تنازعے اور وبا کے باعث ملنے والے مواقعوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے حکومتی لائحہ عمل کے ذریعے پہلے ہی واضح ہوچکا ہے۔ بھارت کی جانب سے موجودہ تنازعے میں بڑی تعداد میں فوجی تعیناتی کا مقصد اگرچہ چینی عسکری دباؤ کا مقابلہ کرنا ہے، تاہم امریکہ کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات اور بعد از کووڈ ۱۹ کی دنیا کی تشکیل کیلئے انڈوپیسفک خطے کے دیگر ممالک سے روابط سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چین کیخلاف بطور طاقت بھارتی قد کاٹھ میں اضافہ ہورہا ہے۔
تاہم امکان ہے کہ بھارت چین کے ساتھ موجودہ تنازعے کی شدت میں اضافے میں محتاط رہے گا۔ اس وقت ملک میں کووڈ ۱۹ کے مریضوں کی تعداد ۲ لاکھ سے تجاوز کرنے کے سبب بھارت دنیا کے ۱۰ متاثرہ ترین ممالک کی فہرست میں ہے نیز (کورونا کے باعث) نقل مکانی کرنے والوں کا بحران جو عالمی میڈیا میں جگہ بنانے کے باعث بھارتی حکومت کیلئے باعث تنقید بنا ہے؛ ان حالات میں سرحدوں کی صورتحال نئی دہلی کی استقامت کیلئے ایک امتحان ہوسکتی ہے اور ممکنہ طور پر بھارت معاملے کو طے کرنے کیلئے سفارتی حل تلاش کرسکتا ہے۔ یہ اقدام اس صورت میں موثر ہوسکتا ہے جب بیجنگ بھی اپنی موجودہ معاشی صورتحال کے پیش نظر کشیدگی ختم کرنے کا خواہاں ہو۔ تناؤ کے خاتمے کیلئے اعلیٰ سطحی افسران کے مابین ایک ملاقات ۶ جون کو طے شدہ ہے اور امید ہے کہ صورتحال کے جائزے اور حل کی تلاش کیلئے بالآخر خصوصی ترجمانوں کے مابین خصوصی پروٹوکولز (ڈبلیو ایم سی سی) کی روشنی میں مذاکرات کی ہی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
چین بھارت تعلقات، وبا کے خاتمے کے بعد بھی پیچیدہ رہنے کا امکان ہے اور سرحدی تنازعات بدستور اس کا خاصہ رہیں گے۔ اس کے باوجود، جب تک یہ سرحدی تنازعات دو طرفہ رہتے ہیں اور اس میں چین کا ”سدابہار“ شراکت دار پاکستان مداخلت نہیں کرتا یا عالمی سطح پر بیجنگ مخالف قوس کی حوصلہ افزائی کرنے والا امریکہ ثالثی نہیں کرتا، تب تک چین بھارت سرحدی تنازعے کے خطرناک سطح تک پہنچنے کے امکانات نہیں ہیں۔
***
.Click here to read this article in English
Image 1: Ashok Boghani via Flickr
Image 2: AFP via Getty Images