شیخ جراح کے پڑوس میں فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کی کوشش کے بعد اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے مقبوضہ مشرقی یروشلم سمیت مسجد اقصیٰ پر چار حملے کرتے ہوئے اسلام کے مقدس ترین مقامات پر حملوں اور گرفتاریوں میں تیزی لائی ہے۔ اسرائیلی نیم فوجی دستوں نے اسرائیل کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر فلسطینیوں کے ملکیتی کاروباروں پر حملے اور تشدد کو باہم مربوط کرنے کے لئے واٹس ایپ اور ٹیلیگرام کو استعمال کیا۔ ان اشتعال انگیز کاروائیوں کی وجہ مقبوضہ ویسٹ بینک میں اسرائیلی پناہ گزینوں کی فلسطینی شہریوں کے ساتھ کی گئی جھڑپ بنی۔ عسکری جہادی گروپ اور سیاسی جماعت حماس کے یروشلم میں جوابی راکٹ حملوں سے اسرائیل میں ۲ بچوں سمیت۱۲ افراد ہلاک ہوئے۔ اسی دوران اسرائیلی فوج نے غزہ پر فضائی حملوں اور توپ خانے سے گولہ باری کی جس کے نتیجے میں ۶۶ فلسطینی بچوں سمیت کم از کم ۲۴۸ فلسطینی جانبحق اور ۱۹۰۰ سے زیادہ زخمی ہوئے۔
اگرچہ جنگ بندی ۲۱ مئی بروز جمعہ کو نافذ العمل ہو گئی تھی لیکن تنازعہ کی عالمی گونج خاص طور پر رمضان،اسلام کے مقدس مہینہ، کے آخری ہفتے میں ہونے والے واقعات کے تناظر میں واضح رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر بڑھتے ہوئے تشدد کے بارے میں غلط خبریں پھیل گئیں کیونکہ مختلف حکومتیں اور منتخب عہدیدار بیانات جاری کر رہے ہیں اور دنیا بھر ، بشمول جنوبی ایشیا میں مظاہروں اور ان مظاہروں کیخلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔ مسئلہ فلسطین پر ہندوستان اور پاکستان کا عوامی ردعمل اسرائیل فلسطین تنازعہ کے لئے ہر ملک کے انفرادی موقف کے ساتھ ساتھ ان کے حکمران سیاسی جماعتوں کے اہداف کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
پاکستان میں، جہاں وزیر اعظم عمران خان متعدد مواقع پر کشمیر اور فلسطین کے حالات کا موازنہ کر چکے ہیں، وہیں وزیراعظم عمران خان نے مسلم اکثریتی ممالک میں پاکستان کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لئے اس مسئلہ پر بار بار خطاب کیا اور اپنی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی فلسطین کی حمایت کا اعادہ کیا۔ حالیہ برسوں میں، پاکستان اور ترکی نے اپنے باہمی تعلقات میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے، جس میں پورے پاکستان میں (ترکی کے) مقبول ڈرامہ اسٹارز کے ذریعہ خیر سگالی کے سفر جیسے سافٹ پاور کو ترویج دینے والے اقدامات کے علاوہ روایتی دفاعی تعلقات میں ہتھیاروں کی فروخت اور باہمی اسلحہ سازی کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ ان حالات میں یہ ہر گز اچنبھے کی بات نہیں ہے کہ پاکستانی اور ترکی کے سرکاری عہدیداروں نے اسرائیلی حملوں پر تبادلہ خیال کیا ہے اور فلسطین کے لئے عوامی حمایت کی یقین دہانی کی ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ، شاہ محمود قریشی نے جمعرات ۱۳ مئی کو یہ اعلان کیا کہ پاکستان اور ترکی اقوام متحدہ سے فلسطین کے بارے میں ایک اجلاس منعقد کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک مشترکہ طور پر اسلامی تعاون تنظیم کا وزارتی اجلاس بلانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔
قریشی نے سعودی عرب کے وزیر خارجہ، شہزادہ فیصل بن فرحان السعود کو بھی غزہ پر حملوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کرنے کے لیئے دعوت دی اور اس بات پر زور دیا کہ وزیر اعظم عمران خان اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے گذشتہ ہفتے کے سعودی عرب اور پاکستان کے اس بیان کی تصدیق کریں کہ اسرائیل 1967 سے پہلے کی سرحدوں تک واپس جائے۔ اگرچہ سعودی عرب نے باضابطہ طور پر ریاست اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے، لیکن سعودیہ اور اسرائیل نے حالیہ برسوں میں متعدد مشترکہ خدشات پر خاموشی سے تعاون بھی کیا ہے۔ پاک سعودی خراب ہوتے ہوئے تعلقات کی افواہوں اور شیخ جراح سے فلسطینیوں کے انخلاء پر عرب لیگ کی طرف سے آج تک کے ردعمل کی روشنی میں، یہ بات شاید بالکل بھی حیرت انگیز نہیں کہ وزیر اعظم خان نے پاکستان اور ترکی کے تعاون کو عوامی سطح پر اجاگر کرنے کے لیئے اس مسئلے کے استعمال کا انتخاب کیا۔ فلسطین میں ہونے والے ظلم نے عمران خان اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کو ایک بار پھر موقع دیا ہے کہ اپنے مشترکہ نقطہ نظر اور ملتی جلتی ”اسلامی اقدار“ پر زور دے سکیں؛ اپنے عوام اور مسلم اکثریتی ممالک میں بسنے والے لوگوں کے لئے، جو شائد اسرائیل اور فلسطین تنازعہ میں اپنی حکومتوں کے کردار سے متاثر نہیں ہوسکے ہیں۔
دریں اثنا، بھارت نے فلسطین کے مسئلہ پر زیادہ غصہ کا مظاہرہ کیا۔ تاریخی طور پر بھارت نہرو کے نو آبادیاتی اور استعماری نظام کی مخالفت کے فلسفے اور غیر وابستہ ممالک کی تحریک کی سربراہی کا دعویدار تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ کم از کم عوامی طور پر، ہندوستان کو فلسطین کے حق میں ایک سخت پوزیشن لینا پڑی۔ تاہم، منافقانہ طور پر ہندوستان نے نہ صرف اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات میں گرم جوشی بڑھتی ہی گئی۔
سنہ ۱۹۹۲ میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات مکمل معمول پر لانے کے بعد دونوں ممالک نے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے تجارتی تعلقات اور خاص طور پر دفاعی تعلقات سے فائدہ اٹھایا۔ ۲۰۰۴ میں ہندوستان نے اسرائیلی فالکن کے پہلے سے خبردار کرنے والے کنٹرول سسٹم کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کیے ۔ یہ وہی سسٹم ہے جسے اسرائیل نے شروع میں چین کو فروخت کرنے کی بھی کوشش کی تھی لیکن امریکہ نے معاہدے کی راہ میں رخنہ ڈال کر معاملہ ختم کروا دیا تھا۔ ۲۰۲۰ میں بھارت نے اسرائیل کی فوجی ٹیکنالوجی کا بڑا خریدار ہونے کی حیثیت سے ہندوستان کی صلاحیت کو مضبوط کرنے کے لیئے دو اور فالکن سسٹم حاصل کیے جبکہ اسرائیل روس کے بعد ہندوستان کو دفاعی سامان فراہم کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔
دفاعی تعاون سے ہٹ کر وزیر اعظم نریندرا مودی کی برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اپنے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لئے ہندتوا کے نظریہ پر انحصار کرتی ہے جو قومیت پرستی کا ایک برانڈ ہے اور یہ نظریہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دائیں بازو کے صیہونی زائینسٹ نظریہ کے ساتھ بہت نظریاتی مماثلت رکھتا ہے۔ نیتن یاہو اور ان کی جماعت، لیکوڈ ، اسرائیل کو مذہبی طور پر یہودی ریاست کے طور پر تصور کرتی ہے جو کہ ڈیوڈ بین گوریان جیسے صہیونیوں کے زیادہ سیکولر جھکاؤ سے ہٹنے کے مترادف ہے۔ جس طرح نیتن یاھو نے عربوں کو ایک بیرونی خطرہ کے طور پر پیش کرنے اور عرب “غیروں” پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے میزرائی اور اشکنازی یہودیوں کے مابین تاریخی تفریق مٹانے کی کوشش کی ہے بالکل اسی طرح مودی بھی ہندوؤں کے درمیان ذات پات ، طبقاتی اورجغرافیائی تقسیم کو ختم کر کے ایک واحد اور مستحکم ہندو شناخت کا تصور دے رہا ہے جس میں ہندو قوم پرستوں کو مسلمان “غیروں” کے مقابلے میں اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ ہندو اکثریت برصغیر کے مسلمانوں کو غیر ملکی تصور کرتی ہے۔
عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے اپنے ٹویٹر پلیٹ فارم کو فلسطین کی حمایت کے لئے کھل کر استعمال کیا ہے ، لیکن اس کے بر عکس آج تک نہ تو مودی اور نہ ہی بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جےشنکر نے اسرائیل میں ایک ہندوستانی شہری کی حماس کے ایک مبینہ راکٹ حملے میں موت واقع ہونے کے باوجود بھی اس تنازعہ پر کوئی ایک بیان بھی نہیں دیا ہے۔ بالآخر ہندوستانی بیان دینے کا یہ کردار اقوام متحدہ میں ہندوستانی سفیر ، ٹی ایس تیرمیرتی کو ملا جنہوں نے ایک ہندوستانی شہری کی موت پر افسوس کا اظہار کیا اور سلامتی کونسل کے اجلاسوں میں متعدد بیانات دیئے۔ اگرچہ تیرمیرتی نے تمام فریقوں کی طرف سے ہونیوالے تشدد پر تنقید کی ہے اور فلسطینی اتھارٹی کو ہندوستان کی جانب سے جاری انسانی ہمدردی کا اعادہ کیاہے لیکن انہوں نے اس تنازعہ کو احتیاط سے دو مساوی فریقوں کے مابین ایک جنگ قرار دیا ہے۔ سفیر نے مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کی بے دخلی کے دستاویزی ثبوت یافتہ عمل کو “ممکنہ بے دخلیاں” قرار دیا اور غزہ پر اسرائیلی حملوں کو طویل عرصے سے جاری نظریاتی پالیسیوں کے تسلسل کے بجائے محض انتقامی کارروائی قرار دیا۔ ہندوستان نے غزہ پر حملوں کے دوران ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کے لئے یو این ایچ آر سی کی قرارداد سے پرہیز کرنے کے حق میں بھی ووٹ دیا جبکہ بھارتی پولیس نے مقبوضہ کشمیر میں فلسطینیوں کے حامی گرافیٹی آرٹسٹوں اور مظاہرین کو گرفتار کیا۔ تیرمیرتھی کے عوامی تبصرے اور بھارتی حکومت کے اقوام متحدہ میں اقدامات دونوں ہی بھارت کے اسرائیل کی طرف ہر میدان میں بڑھتے ہوئے جھکاؤ کی طرف اشارہ کناں ہیں اور دونوں ریاستوں کے مابین دفاعی تعاون اور اسرائیل اور ہندوستان میں غالب پارٹیوں کی آپسی ہم آہنگی پر بھی دلالت کرتے ہیں۔
پاکستان کا فلسطین کے حق میں مضبوط ردعمل اور اس مسئلہ کے بارے میں ہندوستان کا نسبتاً خاموش رد عمل عالمی سطح پر دونوں ملکوں کی اپنی حیثیت کے ساتھ ساتھ ان کے داخلی خدشات کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ جہاں عمران خان فلسطین کے لئے اپنے ذاتی اور ریاستِ پاکستان کی حمایت کے عزم مصمم کی تصدیق کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مضبوط ہوتے ہوئے اتحادی ترکی کے ساتھ ، پاکستان کی عوامی سفارتکاری کو جاری رکھتے ہوئے کامیابی حاصل کر رہے ہیں، وہیں نریندر مودی اسرائیل کے حمایت میں اس مسئلے سے درگزر کرتے ہوئے دوسرے امور کو اجاگر کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور مجموعی طور پر ہندوستانی ریاست اور ہندو قوم پرست بی جے پی دونوں کا جھکاؤ اسرائیل کی جانب واضح ہے۔
***
Click here to read an earlier version of this article in English.
Image 1: Wikimedia Commons
Image 2: Avi Ohayon via Flickr