Young Girls Prepare for Exams in Afghanistan
Three young girls in the Bam Sarai village in Bamyan province prepare for exams as part of an effort in which UNICEF and the Government of Afghanistan aim to increase girls’ primary school attendance by 20 percent by the end of 2008.14/Nov/2007. Bamyan, Afghanistan. UN Photo/Shehzad Noorani. www.unmultimedia.org/photo/

طالبان کو حکومت میں آئے دو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے، اور اس دوران انہوں نے افغان خواتین اور لڑکیوں کے قانونی حقوق، آزادیوں اور انسانی حیثیت کا منظم انداز میں خاتمے کا عمل مسلسل جاری رکھا ہوا ہے۔ اپریل ۲۰۲۳ کے آغاز میں، طالبان نے خواتین کو ملک میں موجود اقوام متحدہ کے مشن کے لیے کام کرنے سے روکتے ہوئے افغان حقوق کو مزید محدود کر دیا۔ پابندیاں عائد کرنے کی یہ پالیسی، افغانستان میں پائی جانے والی فوری ضروریات سے نمٹنے کی عالمی برادی کی قابلیت کی راہ میں رکاوٹ ہے اور ملک میں استحکام اور ترقی کی جانب پیش رفت کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہے۔


افغانستان کی ہولناک صورتحال نے خواتین مفکرین، صحافیوں اور ایکٹیوسٹس کو ملک سے فرار پر مجبور کر دیا ہے کیونکہ طالبان کی جانب سے خواتین کی نقل و حرکت، ملازمت اور تعلیم پر قدغنوں نے خواتین کو عملی طور پر ان کے گھروں میں محصور کر دیا ہے۔ عالمی برادری نے طالبان کو رسمی سفارتی طور پر تسلیم کرنے کے عمل کو معطل رکھنے کے ذریعے اسے طالبان کے پالیسی اختیارات پر اثرانداز ہونے کے ذریعے کے طور پر برقرار رکھا ہے۔ طالبان کی اقتدار میں آمد کے دو سال بعد، بڑھتے ہوئے متعصبانہ فرمانِ شاہی اور خواتین پر پابندیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ محض عالمی سطح پر تسلیم کرنے سے گریز کا عمل، خواتین کی قسمت کو تبدیل کرنے اور ایسے پلیٹ فارمز کی تقویت کے لیے کافی نہیں کہ جہاں پر وہ اپنے بنیادی حقوق کا لطف پا سکیں۔


خواتین کے حقوق میں ناقابل یقین حد تک زوال


خواتین کے حقوق کے تحفظ اور ان کی تعلیم اور ملازمت کو شرعی حدود کے اندر فعال کرنے کی یقین دہانیوں کے باوجود، طالبان نے افغان باشندوں کے حقوق کو سلب کرنے کا تیزی سے آغاز کر دیا تھا، اس دوران عائد ہونے والی پابندیوں کا سب سےزیادہ بوجھ خواتین کو برداشت کرنا پڑا۔ خواتین کے حقوق کو منظم طور پر کچلنے کا سلسلہ، یہاں کے حقیقی حکمرانوں کی غالب اور مسلسل خصوصیت ہے، جو انہیں تسلیم کرنے کے فعل کی معطلی اور اسے بطور ہتھیار استعمال کرنے کی بین الاقوامی پالیسی پر سوال کھڑے کرتی ہے۔


طالبان کے کابل پر قابض ہونے سے قبل، شہر میں موجود تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیمی نظام موجود تھا جہاں پر تدریسی عملے کا ۷۰ فیصد خواتین پر مشتمل تھا۔ سول سرونٹ کور کی تقریباً نصف پوزیشنز پر خواتین تعینات تھیں اور شہر میں ۴۰ فیصد ڈاکٹر خواتین تھیں۔ خواتین کو یہ طے کرنے کی قانونی آزادی حاصل تھی کہ وہ کیا زیب تن کرنا چاہتی ہیں اور عوامی مقامات پر آزادی کے ساتھ نقل و حرکت کی آزادی تھی۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے ساتھ، ان کی آزادیوں کی جگہ سنگین جرمانوں اور قدغنوں نے لے لی جن میں پارکس، جم خانوں اور عوامی حماموں میں جانے پر ممانعت، مخوط تعلیم اور درجہ ششم سے سے آگے کی تعلیم میں رکاوٹوں کے ساتھ ملازمت پر سنگین پابندیاں شامل ہیں۔


دسمبر ۲۰۲۱ میں، طالبان رہنما ہیبت اللہ اخونزادہ نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جو خواتین کے حقوق کے حوالے سے طالبان کے عزم کے ثبوت کا بطور حوالہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس حکم نامے میں خواتین کے بعض حقوق کے تحفظ کے حوالے سے شقیں شامل ہیں جیسا کہ شادی کے لیے خواتین کی رضامندی حاصل کرنا، تنازعے طے کرنے کے لیے بیٹیوں کا تبادلہ نہ کرنا، مہر (دلہن کو منتقل ہونے والی رقم) پر خواتین کے حق کو تسلیم کرنا، اور شرعی بنیادوں پر جائیداد اور وراثت میں ان کے حق کو تسلیم کرنا۔ تاہم یہ حکم نامہ تعلیم اور ملازمت پر خواتین کے حقوق سے نہیں نمٹتا۔ جبکہ انہوں نے ۱۴۰ فرمان اور حکم نامے نافذ کیے ہیں جو لڑکیوں کی تعلیم اور جامعات میں خواتین لیکچرارز پر اضافی پابندیاں متعارف کرواتے ہیں۔


خواتین کے یونیورسٹی جانے اور این جی اوز میں کام کرنے پر گزشتہ ممانعت، ہمراہ اپریل ۲۰۲۳ میں یو این میں ملازمت پر عائد ہونے والی قدغنوں نے طالبان کی یقینی دہانیوں کے حوالے سے عالمی برادری کو مزید مایوس کیا ہے۔ صحت اور تعلیم کی این جی اوز کے لیے استثنیٰ کے باوجود، اس ممانعت کے ناخوشگوار اثرات ہیں۔ ممانعت سے قبل بین الاقوامی این جی اوز کا ۳۰ سے ۴۵ فیصد عملہ اور قومی این جی اوز کا ۵۰ سے ۵۵ فیصد عملہ خواتین پر مشتمل تھا۔ اس قدغن نے لاکھوں کی تعداد میں افغان باشندوں کی بقاء کے لیے ضروری انسانی امداد کی ترسیل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔


ان پالیسیز کے بعد، خواتین پرامن احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں۔ یہ مظاہرے جن کی قیادت خواتین کی جانب سے کی گئی، ان کا آغاز مغربی افغانستان کے صوبے ہیرات سے ہوا اور ستمبر کے اوائل میں یہ دیگر صوبوں تک تیزی سے پھیل گئے۔ طالبان کا ردعمل ابتداء سے ہی تلخ تھا؛ طالبان جتھوں نے مظاہروں کو منتشر کیا، مظاہرین کے ساتھ مار پیٹ کی، اور ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو گرفتار کیا اور ان پر تشدد کیا۔ طالبان قانون نافذ کرنے والے اداروں نے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ایکٹیوسٹس منیزہ صدیقی، پریسہ آزادہ، ندا پروانی اور ژولیا پارسی کو رسمی کارروائیاں پوری کیے بغیر قید کیا؛ ندا اور ژولیا کو حال ہی میں رہا کیا گیا ہے۔


ان اقدامات کے نہ صرف خواتین اور لڑکیوں پر سنگین اور تادیر باقی رہنے والے نتائج ہوں گے بلکہ یہ افغان سماج کے سماجی و اقتصادی تانے بانے کو بھی تار تار کرتے ہیں کیونکہ اس کی نصف آبادی ملک کے مستقبل کے لیے کام کرنے کے مواقع سے محروم ہے۔

تاحال بین الاقوامی ردعمل


طالبان کی جانب سے خواتین کے حقوق پر شدید کریک ڈاؤن نے عالمی سطح پر مذمت کو وجود بخشا ہے۔ اقوام متحدہ، یورپ اور امریکہ نے طالبان کو تسلیم کرنے کے عمل کو اقوام متحدہ کی جانب سے وضع شدہ انسانی حقوق کے اصولوں کی پیروی سمیت خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی بحالی اور ایک جامع حکومت کے قیام سے مشروط کیا ہے۔ گو کہ طالبان کو کسی بھی ملک یا بین الاقوامی ادارے کی جانب سے رسمی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے تاہم چند حکومتوں جیسا کہ چین نے ۲۰۲۳ میں طالبان کی ریاستی کونسل کو درحقیقت تسلیم کیا تھا۔


مغربی اقوام نے نئی حکومت کو تنہا کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں جن میں ترقیاتی معاونت میں کمی، اثاثے منجمد کرنا اور پابندیاں عائد کرنا شامل ہے۔ یہ اقدامات جب طالبان کی اپنی بدانتظامی سے ملے تو افغان معیشت کے لیے ایک نمایاں زوال کا باعث بنے اور چند مہینوں کے اندر اس میں ۲۰ فیصد سکڑاؤ آ گیا۔


اقتدار میں دو سال سے زائد وقت گزارنے کے باوجود بھی طالبان قیادت میں سے کوئی بھی فرد اس آنے والے طوفان کی علامتوں اور عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کا عمل رکے ہونے کے نتائج سے اس حد تک پریشان نہیں دکھائی دیتا کہ اپنی بندشوں پر مبنی پالیسیز کو واپس لے سکے۔ ایسے میں عالمی برادری، خاص کر امریکہ کو آنے والے سال کے دوران، محض تسلیم کرنے کا عمل ملتوی کرنے کے فیصلے سے آگے بڑھنا ہو گا۔ طالبان کے حوالے سے عالمی برداری کے ردعمل کے ضمن میں ایک معاون کار کے طور پر اقوام متحدہ کے کردار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اقوام کو چاہیئے کہ طالبان اراکین پر اضافی پابندیاں عائد کرتے ہوئے اور ان کے سفر پر استثنیٰ کا خاتمہ کرتے ہوئے، آپس کے تعاون کے ساتھ احتساب کے لیے حکمت عملیاں نافذ کریں۔ ۲۰۲۳ میں خواتین کے حقوق پر مزید قدغنیں طالبان کو سفارتی طور پر تسلیم نہ کرنے کی عدم موثریت کو ظاہر کرتا ہے، لہذا یورپ، امریکہ اور اقوام متحدہ کو زیادہ تیر بہدف نقطۂ نگاہ اختیار کرنے پر غور کرنا چاہیئے جو طالبان کو خواتین کے حوالے سے پالیسیز میں تبدیلیاں لانے کی ترغیب دلا سکے۔

کیا تسلیم کرنا ایک موثر ہتھیار ہے؟


اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس تسلیم کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ طالبان کو انسانی حقوق برقرار رکھنے اور نظام حکومت کی زیادہ جامع شکل اختیار کرنے کے لیے “یہ واحد دستیاب ہتھیار ہے۔” وہ طالبان پر دباؤ ڈالنے کے لیے اقوام متحدہ کے تمام اراکین پر یکساں موقف اختیار کرنے کی وکالت کرتے ہیں تاکہ طالبان پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالا جاسکے۔ زیادہ تر بین الاقوامی حکومتوں نے طالبان کو رسمی طور پر جائز تسلیم کرنے سے گریز کے لیے اپنے الفاظ کے چناؤ میں احتیاط برتی ہے، اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ان کا حوالہ دینے کے لیے “حقیقی حکومت” یا “عبوری حکومت” کی اصطلاح استعمال کی ہے۔


تاریخی لحاظ سے کسی حکومت کو تسلیم کرنے کا معیار اس کا “موثر اختیار” رہا ہے، جس سے مراد مناسب طور پر قائم گورننگ باڈی ہوتی ہے۔ یہ فرض کرنا عین منطقی ہے کہ تسلیم کرنے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے کیونکہ ریاستیں طالبان کی مستقل موجودگی کے امکان کی تخمینہ کاری کر رہی ہیں، بالخصوص ایسے میں کہ جب وہ اقتدار میں ماورائے قانون طریقے سے آئے ہیں۔ مزید یہ کہ اگرچہ طالبان کے پاس کابل سمیت زیادہ تر افغانستان پر عسکری اختیار موجود ہے، یہ اختیار نسبتاً مختصر وقت سے قائم ہے۔ طاقت کے استعمال کے ذریعے اجارہ داری سے ہٹ کر، طالبان انتظامیہ، تعلیم سے لے کر معاشی نمو کی فراہمی تک، نظام حکومت کے کلیدی شعبوں میں ناکام ہے۔


عام طور پر وہ نظام جو قانونی حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیے جاتے، وہ دیگر ریاستوں کی داخلی عدالتوں کو استعمال کرنے، ریاست کے ملکیتی بیرون ملک اثاثوں پر حقِ ملکیت جتانے، اپنے ملک کے بیرون ملک موجود سفارت خانوں پر اختیار پانے یا ان دیگر متعدد مراعات کے فوائد کا لطف پانے سے محروم رہتے ہیں جو اس صورت میں قابل رسائی ہو سکتے تھے کہ اگر یہ قانونی وجود کے طور پر تسلیم کیے جاتے۔ تاحال، بین الاقوامی برادری کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ اس مراعت کو روک کے رکھا جائے تاکہ طالبان کو خواتین کے حقوق کے حوالے سے پالیسی میں اصلاحات لانے پر غور کرنے کے لیے ترغیب دلائی جائے۔


دیگر زور دینے والے ہتھیاروں کے بغیر، رسمی طور پر تسلیم کرنے سے باز رہنا عالمی برادری کو محدود برتری دیتا ہے۔ اگرچہ یہ محدود برتری کچھ نہ ہونے سے بہتر ہے، لیکن گزشتہ دو سالوں نے ظاہر کیا ہے کہ اس پالیسی کو ۲۰۲۴ میں بھی جاری رکھنا افغان خواتین کے حقوق کو بحال نہیں کر سکتا۔ حتیٰ کہ امریکی صدر جوبائیڈن بھی طالبان کی جانب سے شناخت نہ ملنے کے سبب اپنے رویے میں تبدیلی لانے کے امکان کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کر چکے ہیں۔ مزید براں اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اب متعدد ریاستیں خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے طالبان پر بھروسہ کرتی ہیں، علاقائی اور اسی طرح مغربی ممالک نے بھی شناخت کرنے کے عمل کو طویل مدت کے لیے روکنے کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے۔


فی الوقت طالبان عملی طور پر شناخت پانے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور پڑوسی ممالک کے ہمراہ اقتصادی سرگرمیوں میں شامل ہوتے ہیں، بین الاقوامی میٹنگز میں شرکت کرتے ہیں جیسا کہ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ فورم، کابل میں یورپی اور چینی سفراء کی میزبانی کرتے ہیں اور دوحہ میں امریکی حکام کے ہمراہ ملاقاتیں کرتے ہیں۔ کسی بھی ملک نے علی الاعلان طالبان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا عزم نہیں کیا ہے اور امریکہ نے ان کے خلاف مزاحمتی گروہوں کی معاونت کرنے سے سختی سے انکار کیا ہے۔ اس عملی شناخت کے باوجود بھی، طالبان خواتین کے حقوق کے معاملے پر اپنے موقف میں زیادہ سختی لے آئے ہیں۔ یہ تجویز کرتا ہے کہ رسمی طور پر شناخت کرنا طالبان کے موقف میں نمایاں تبدیلی نہیں لا سکتا اور بلکہ اسے الٹا مزید ٹھوس بنا سکتا ہے۔ چونکہ وہ پہلے سے ہی غیررسمی شناخت اور اس کے فوائد بٹور رہے ہیں، ایسے میں مکمل طور پر شناخت کرنے کے عمل کو روکنے کے ذریعے ان کے رویے پر اثرانداز ہونے کے امکانات نہیں۔ لہذا، زیادہ جابرانہ اقدامات، جیسا کہ سفارتی سفر پر استثنیٰ کا خاتمہ، اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔

کیا کیا جا سکتا ہے؟


حقیقت یہ ہے کہ طالبان کے پاس افغانستان کا کنٹرول ہے اور وہ افغان خواتین کے اوپر شرعی قوانین کے حوالے سے اپنی تفسیر کو نافذ کرنے کے قابل ہیں۔ عالمی برادری عسکری ذریعے سے طالبان کے خلاف مزاحمت کرنے پر آمادہ نہیں اور تاحال افغانستان میں چھوٹی چھوٹی مزاحمتیں ملکی سطح پر پھیلنے میں ناکام رہی ہیں اور ۲۰۲۴ میں ان کے شورش میں تبدیل ہوتے دکھائی دینے کا امکان نہیں۔ افغان خواتین نے پر امن مظاہروں  کو بہادری کے ساتھ جاری رکھا ہے لیکن افغان مردوں کی بڑے پیمانے پر حمایت کے بغیر آنے والے برس میں بھی ان کے حالات تبدیل ہونے کا امکان نہیں۔


سال ۲۰۲۴ کی جانب دیکھا جائے تو اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کے پاس یہ قابلیت اب بھی موجود ہے کہ وہ دیگر ترغیبات کو استعمال میں لاتے ہوئے طالبان کے ساتھ بات چیت کریں اور ان پر دباؤ ڈالیں، جیسا کہ پابندیاں عائد کرنا، پابندیوں سے نجات دینا، غیر ملکی امداد اور تکنیکی معاونت کی پیشکش کرنا۔ بالخصوص پابندیوں سے ایسے استثنیٰ جو طالبان کو بین الاقوامی میٹنگز کے لیے سفر کرنے کی اجازت دیتے ہیں، ان کا خاتمہ ہونا چاہیئے۔ بین الاقوامی سطح پر سفر کرنے کی آزادی نے طالبان کو جائز ہونے کے فریب میں مبتلا کر رکھا ہے اور سفر کرنے والے حکام کو ذاتی فوائد پہنچائے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ طالبان حکام، بشمول درمیانی سطح کے حکام کو ایسے راستوں سے پابندیوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے کہ جو انہیں علاقائی سطح پر سرحد پار مالی سرگرمیوں میں شامل ہونے سے روک سکیں۔


امریکہ، یورپ اور اقوام متحدہ کے اداروں کو دباؤ ڈالنے کے دیگر ہتھیاروں کے نفاذ پر معاملہ فہمی کے ساتھ تعاون کرنے پر غور کرنا چاہیئے جن میں ترقیاتی معاونت، سفارتی روابط، پابندیوں کا نفاذ یا ان سے چھٹکارا شامل ہیں۔ طالبان قیادت یہ تسلیم کرتی ہے کہ افغانستان میں خدمات عامہ کو برقرار رکھنے اور ریاست کے زمین بوس ہونے سے باز رکھنے کے لیے، انہیں مالی اور تکنیکی معاونت درکار ہو گی۔ یہ معاونت انتظامی قابلیتوں کو بڑھانے اور افغانوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ان کی قابلیت کی تقویتِ نو میں مدد دے گی، اور اس کے ساتھ ہی ساتھ مالی انتظامات، ٹیکنالوجیکل صلاحیتوں اور ضروری خدمات کی فراہمی کے حوالے سے ان کی گنجائش میں بہتری لائے گی۔ اس ضرورت کو پہچانتے ہوئے، عالمی برداری کو چاہیئے کہ وہ خواتین کے حقوق پر پالیسیز میں نرمی کے عوضی طالبان کی انتظامی بیوروکریسی کومالی اور تکنیکی معاونت کی فراہمی پر غور کرے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Afghan girls studying for exams via Flickr.

Image 2: Women in Bagram, Afghanistan via Flickr.

Share this:  

Related articles

पर्वतों से समुद्री तटों तक: गलवान के पश्चात् भारत-चीन प्रतिस्पर्धा Hindi & Urdu
جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ Hindi & Urdu

جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ

ریاستہائے متحدہ امریکہ ، 20 ویں صدی کے وسط سے…

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے Hindi & Urdu

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف رواں ماہ کے اوائل میں صدر شی جن پنگ اور دیگر اعلیٰ چینی حکام سے ملاقاتوں کے بعد تقریباََ خالی ہاتھ وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ چین نے واضح انضباطِ اوقات ( ٹائم لائن) کے تحت پاکستان میں بڑے منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری کا وعدہ نہیں کیا۔ اس […]