پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف رواں ماہ کے اوائل میں صدر شی جن پنگ اور دیگر اعلیٰ چینی حکام سے ملاقاتوں کے بعد تقریباََ خالی ہاتھ وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ چین نے واضح انضباطِ اوقات ( ٹائم لائن) کے تحت پاکستان میں بڑے منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری کا وعدہ نہیں کیا۔ اس ملاقات کا واحد ظاہری (پبلک) ماحصل دونوں فریقین کے درمیان مفاہمت کی چند یادداشتوں (ایم او یوز) پر دستخط اور چین کی عمومی یقین دہانیاں تھیں۔ اس دورے کے بارے میں مختلف نقطہ نظر موجود ہیں، لیکن یہ یقیناََ پاکستان کی (ان) توقعات پر، کہ چین معاشی بحران کی اس گھڑی میں مدد کرے گا، پورا نہیں اترا ۔ یہ سرد مہری یقینی طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) سے متعلق چین کے جوش و خروش میں کمی کی نشاندہی کرتی ہے، جو حالیہ برسوں میں ایک بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ ادائیگیوں میں تاخیر، سیاسی عدم استحکام اور پاکستان میں سیکیورٹی کے مسائل نے چینی قیادت کو یہ یقین دلایا ہے کہ سرمایہ کاری کے اگلے مرحلے کے لیے اہل ہونے کے لیے ان کے ہمہ وقت دوست کو پالیسی میں نمایاں اصلاح کی ضرورت ہے۔ لہٰذا کسی غیر معمولی اصلاح (تبدیلی) کے بغیر اسلام آباد کو بیجنگ سے اپنی توقعات کو کم رکھنا چاہیے۔
ایک غیر متاثر کن کاروباری رشتہ (ورکنگ ریلیشن شپ)
سی پیک پر ، جس کا افتتاح 2013 میں ہوا تھا، اسلام آباد کے ساتھ بیجنگ کے تجربے نے مستقبل میں ملک میں چینی بنیادی ڈھانچے (انفرا اسٹرکچر) کی سرمایہ کاری پر اعتماد کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے۔سی پیک، جسے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے امتیازی ( فلیگ شپ) منصوبے کے طور پر مشہور کیا گیا، شروع سے ہی غیر متوقع تاخیر کا شکار رہا ہے۔ سی پیک کا پہلا مرحلہ ریکارڈ مدّت میں مکمل ہوا، کیونکہ بیشتر بی آر آئی منصوبوں کی طرح، (اس منصوبے میں بھی) چینی کمپنیوں نے تعمیراتی عمل کی قیادت کی۔ لیکن نام نہاد دوسرا مرحلہ 2019 میں سست ہونا شروع ہوا ، کیونکہ پاکستانی فریق مقرّرہ مدّت (ڈیڈ لائنز) کو پورا نہیں کر پایا۔ اس عمل کو تیز کرنے کے لئے دونوں (فریقین) کے مابین معاہدوں کے باوجود کچھ مہنگے (بڑے) منصوبے نامکمل ہیں۔ تاخیر کا شکار ہونے والے منصوبوں میں تمام صوبوں اور وفاقی دارالحکومت میں چینی طرز کے خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈز) کے ساتھ ساتھ کراچی سے پشاور تک ریلوے لائن (ایم ایل ون) بھی قابل ذکر ہے، جسے چین نے 2017 میں کلیدی (اسٹریٹیجک) منصوبہ قرار دیا تھا۔
پاکستان کی جانب سے تاخیر کا باعث خراب معاشی فیصلہ سازی اور ماحولیاتی عوامل تھے۔ پاکستان میں سلسلۂ آفات نے پہلے سے ہی مشکوک ادائیگی کے انتظامات کو (مزید) التوا کا شکارکردیا۔ ملک کو 2017 سے 2023 تک ادائیگیوں کے توازن (بیلنس آف پیمنٹس) کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑا؛ کوویڈ 19 کی عالمی وبا (پینڈیمک) نے معیشت پرمنفی اثر ڈالا اور سی پیک منصوبوں کو التوا کا شکار کر دیا۔ اور پاکستان کو 2022 میں حالیہ تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔ ملک کی قیادت پہلے ہی پورا کر پانے سےزیادہ کا وعدہ کر چکی تھی، لہذا توانائی پیدا کرنے والی چینی [کمپنیز] (آئی پی پیز) کو کی جانے والی ادائیگیاں متاثر ہوئیں۔ گزشتہ تین سالوں میں چینی آئی پی پیز نے ادائیگیوں میں تاخیر پر اکثر شکایات درج کرائی ہیں۔
اندرون ملک سیاسی عدم استحکام
دوسرا اہم مسئلہ پا کستان میں سیاسی عدم استحکام ہے جو اسلام آباد کی اپیلوں پر بیجنگ کے سرد ردعمل کا موجب ہے۔ جب سے سی پیک منصوبہ شروع ہوا ہے، چینی حکام اور کاروباری برادری نے احتجاج، شورش اور غیر یقینی صورتحال کی دلدل میں دھنسے ہوئے پاکستان میں چار حکومتوں کے ساتھ معاملت کی ہے ۔ حکومت کے خلاف مظاہروں نے 2014 میں چینی صدر شی جن پنگ کا دورہ پاکستان ملتوی کر دیا تھا اور اسلام آباد کو چار ماہ تک مفلوج کر رکھاتھا۔ چینی قیادت نے انفرااسٹرکچر منصوبوں میں بدعنوانی کے متعدد الزامات، صوبائی اثر و رسوخ کے لیے سیاسی کشمش، اشرافی اختلافات (اِیلیٹ فریکشن) اور سی پیک سے متعلقہ پاکستان کے اپنے اندیشوں کے بارے میں عوامی تنازعات کا بھی مشاہدہ کیا ہے، جس میں یہ اندیشہ بھی شامل ہے کہ پاکستانیوں کو (سی پیک کے) معاشی فوائد حاصل نہیں ہو رہے ہیں۔
یہ سیاسی عدم استحکام اور اندرونی کشمکش، دفتر شاہی کی پیچیدگیوں ( بیوروکریٹک کنفیوژن) اور نااہلی کو بدتر بنادیتی ہیں، جس نے چین کے بنیادی ڈھانچے (انفرا اسٹرکچر) کی سرمایہ کاری پر پیش رفت کو تاخیر کا شکار کردیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت نے سی پیک منصوبوں پر عملدرآمد کرنےکے ذمہ دار اداروں کو تین بار تبدیل کیا۔ یہ ذمہ داری وزیر اعظم سیکریٹریٹ سے وزارت منصوبہ بندی کو منتقل کی گئی اور بالآخر سرمایہ کاری بورڈ (بی او آئی) کو سونپی گئی۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے عہد میں یہ (ذمہ داری) دوبارہ وزارتِ منصوبہ بندی کو دی گئی اور آخر کار ایک سبکدوش تین ستارہ جرنیل کی سربراہی میں نو تشکیل شدہ سی پیک اتھارٹی کی صورت میں اسے ایک گھر مل گیا۔ ہر گردش نئے چہرے، نئی پالیسیاں اور کام کرنے کے نئے انداز لے کر آئی۔ تاہم ان تبدیلیوں کا سی پیک کی ترقی پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑا۔ وعدے ایفانہ ہوسکے اور بہت سے جملے جیسا کہ “ون ونڈو آپریشن” – جو ایک ایسی جگہ کا اشارہ دیتا ہے جہاں متعلقہ فریقین (اسٹیک ہولڈرز) تمام ضروری دستاویزات (ایک چھت تِلے) جمع کرانے جاسکیں ، اور ـ’’ریولونگ اکاؤنٹس‘‘ جو چینی سرمایہ کاروں کو خودکار ادائیگیوں کے غماز ہوں- محض جملے ہی رہے۔ ادائیگی کے انتظامات اب بھی کمزور ہیں اور بعض اوقات وزیر اعظم کے دفتر کو مداخلت کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
سیکیورٹی مسائل کے باعث چینی خدشات میں اضافہ
دوسرا عنصر، جو ممکنہ طور پر چینی سرمایہ کاروں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہو سکتاہے، پاکستان کا غیر مستحکم سیکیورٹی ماحول اور چینی کارکنان کو نشانہ بنانے والے بڑھتے ہوئے عسکریت پسند حملے ہیں۔ اگست 2021 اور جون 2023 میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں میں 73 فیصد اضافہ ہوا اور ہلاکتوں کی مجموعی تعداد میں 138 فیصد اضافہ ہوا۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے دو نوں صوبوں نے، جن میں اوّل الذکر چین اور پاکستان کو ملانے کی کڑی ہے اور آخرالذکر سی پیک کے تاج، گوادر کی بندرگاہ کاگھر ہے، گزشتہ 22 ماہ کے دوران حملوں میں 92 فیصد اور 81 فیصد اضافہ دیکھا۔
چینی قیادت پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے فکرمند ہے، جس میں وہ حق بجانب ہے۔ ایک (تحقیقی)مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ 2004 سے 2010 تک پاکستان میں چینی شہریوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گردی کے آٹھ واقعات رونماہوئے جبکہ 2011 کے بعد سے چینی شہریوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کی تعداد بڑھ کر 25 ہوگئی۔ ان حملوں کی شدت اور جغرافیائی پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان نے سی پیک اور پاکستان میں موجود چینی کارکنان کے تحفظ کے لیے دو خصوصی سیکیورٹی ڈویژنز اور ایک نیول ٹاسک فورس قائم کی تاہم یہ اضافہ اس (اقدام) کے بعد بھی ہوا۔ دیگر حالیہ حملوں کے علاوہ، 24 مارچ کو کے پی کے ضلع شانگلہ میں پانچ چینی کارکنان کو ہلاک کرنے والے حملے نے صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف کو چینی حکام کو ان کےشہریوں کے تحفظ اور سلامتی کی انفرادی طور پریقین دہانی کرانے پر آمادہ کیا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے حالیہ پاک چین مشترکہ اعلامیے میں بھی اس نکتے پر زور دیا گیا ہے۔
چین نے بالاعلان عندیہ دیا ہے کہ وہ سی پیک کو افغانستان اور ایران تک پھیلانا چاہتا ہے، تاہم چین کے علاوہ اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ پاکستان کے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے یہ (امر) پیچیدہ بن جاتاہے۔ 2024 میں پاکستان نے افغانستان اور ایران دونوں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ کیا۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ تناؤ خاص طور پر زیادہ ہے۔
یہ رجحان چینی سرمایہ کاروں کو پریشان کرنے کا موجب بنے گا۔ سی پیک کی تعمیر میں چینی سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے فوائد اس وقت تک بہت کم حاصل ہوں گے جب تک پاکستان کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات خراب رہیں گے کیونکہ اس طرح کی سرحدی کشیدگی تجارت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور ممکنہ رابطے کے منصوبوں میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے۔ چینی قیادت کی ایک اور ممکنہ تشویش یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اسلامک اسٹیٹ خراسان صوبے (آئی ایس کے پی) کے خطرے پر قابو پانے کے لیے طالبان کی حمایت کے بغیر، پاکستان میں چینی اہلکاروں اور منصوبوں کو دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چین کی جانب سے 2023 میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کے باوجود اب تک بہت کم بہتری آئی ہے۔
کیا پاکستان سی پیک کو بچا سکتا ہے؟
اگرچہ مشکل حالات میں (بھی کیا جانے والا) وزیر اعظم شہبازشریف کا دورہ چین اس منصوبے کے لئے ان کی وابستگی کو ظاہر کرتا ہے ، تاہم چین کے ساتھ اپنے تعلقات سے متعلقہ پاکستان کی توقعات کی محدودیت بھی واضح ہے۔ وزیراعظم سیکریٹریٹ کے بیانات اور پالیسی فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی قیادت کو ان مشکلات ( چیلنجز) کا احساس ہے۔ بہرحال گزشتہ چھ ماہ کے دوران بیجنگ کی طرف سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ کاروباری سرگرمیوں، سیاسی استحکام اور مناسب حفاظتی اقدامات کو زیادہ کار گزار بنائے بغیر کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا۔
اسلام آباد نے اس امر کے اظہار کی کوشش کی ہے کہ وہ (ان) تینوں پہلوؤں کو بہتر بنانے کے لئے کام کر رہا ہے تا کہ وہ بیجنگ تک یہ پیغام پہنچا سکے کہ سی پیک (پاکستان کے لیے)ایک ترجیح ہے۔ اقتصادی محاذ پر پاکستانی حکومت نے وزیر اعظم کے دورہ چین سے قبل چینی توانائی کمپنیوں کو اربوں روپے جاری کیے۔ 21 جون کو چینی حکومت نے مخلوط حکومت کو اشارہ دیا کہ وہ سی پیک کی خاطر دیگر سیاسی فریقین (اسٹیک ہولڈرز )کے ساتھ مل کر کام کر سکتی ہے اور مشترکہ مشاورتی میکانزم (جوائنٹ کنسلٹیٹیو میکانزم) کا تیسرا دور طلب کر سکتی ہے جو چین کی کمیونسٹ پارٹی (سی پی سی) اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کا فورم ہے۔ اجلاس میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندگان نے شرکت کی جہاں انہوں نے پاک چین دوطرفہ تعاون اور سی پیک کے حوالے سے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ سلامتی کے محاذ پر پاکستان کی اپیکس کمیٹی، جس میں سویلین اور فوجی قیادت شامل ہے، نے 22 جون کو ملک بھر میں انسداد دہشت گردی آپریشن “عزمِ استحکام” شروع کرنے کا فیصلہ کیا ۔ بِلا تعجب، پاکستان نے اس اقدام کا اعلان وزیر اعظم کے دورہ چین اور سی پی سی کے ایک رکن کے دورہ پاکستان کے بعد کیا۔
اسلام آباد بیجنگ کے ساتھ پیغام رسانی (کے ضمن ) میں سب کچھ ٹھیک کر رہا ہے تاہم پاکستان کی سویلین اور فوجی قیادت کو پالیسی میں، طویل المدتی اہداف کو مدّنظر رکھتے ہوئے، اصلاحات کو لاگو کرنا ہوگا۔ پاکستان پہلے ہی نامکمل یا مسلسل تاخیر کا شکار منصوبوں اور اقدامات کاغیر متاثر کن ماضی رکھتا ہے۔ مرکزی دھارے کے تمام سیاسی کرداروں کے حمایت یافتہ معاشی معاہدے (چارٹر آف اکونومی)، عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف صفر رواداری، پڑوسی ریاستوں بشمول بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے، جو اس کی سرحدوں پر امن کو یقینی بناتا ہے اور اسلام آباد کو اپنے محدود وسائل کو تعمیری شعبوں کی طرف منتقل کرنے میں مدد کرتا ہے، اور طویل المدتی منصوبہ بندی اور عہد ایفا کرنےکے لئے ضروری سیاسی استحکام کے بغیر، آنے والے سالوں میں بیجنگ کی طرف سے کسی بھی قابل ذکر (اقدام ) کا امکان نہیں ہے۔تب تک چین اور پاکستان کے اقتصادی تعلقات کا انحصار جس امر پر ہوگا اُسے بہترین طور پر ’’عارضی انتظامات‘‘ (میک شفٹ ایرینجمنٹ) کہا جا سکتا ہے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Road built through CPEC, Wikimedia Commons
Image 2: Prime Minister Shehbaz Sharif meets with President Xi Jinping on June 7, MoFA