رواں برس اپریل میں ٹوئٹر، کووڈ ۱۹ کی (تاحال جاری) دوسری لہر کے دوران بھارتیوں سے اظہار یکجہتی کرنے والے پاکستانیوں کے پیغامات سے بھر گیا تھا۔ ہمدردی کا یہ اظہار نہ صرف دونوں ممالک کے خودساختہ سائبر جنگجوؤں کے درمیان عموماً رہنے والی قوم پرستی پر مبنی تلخ گفتگو بلکہ انتخابات کے خبط میں مبتلا مودی حکومت کی جانب سے اپنی عوام میں عدم دلچسپی اور بے حسی کے ناگوار اظہار سے بھی یکسر متضاد تھا۔ بڑھتی ہوئی کمیابی کے سبب امرتسر (جو پاکستان سے متصل بھارتی سرحد سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے) سے تعلق رکھنے والے ایک ٹوئٹر صارف نے حیرت کا اظہار کیا کہ شہر کے لیے دور کے فاصلے پر موجود دہلی پرانحصار کے بجائے قریب موجود پاکستان سے آکسیجن کا بندوبست کیوں نہیں کیا جاسکتا۔
اس ٹوئٹ نے جنوبی ایشیا کے بارے میں ایک دھندلائے ہوئے متبادل تصور کی جانب اشارہ کیا جہاں محض قومی سرحدیں ہی شناخت اور تعلق کا واحد پیمانہ نہیں ہیں۔ کٹھن زمینی حقائق کی موجودگی کے باوجود بھی سوشل میڈیا کے ہاتھوں تبدیلی پر مبنی احمقانہ رجعت پسندی کا راستہ روکنا ہمیشہ بہتر ہوتا ہے۔ اس کے باوجود یہ سوال پوچھنے لائق ہے کہ کیا آن لائن رابطے دونوں ممالک کے تعلقات میں کوئی کردار ادا کرتے ہیں۔
دوسرے کو دیکھنا
سیاستدان دہائیوں سے دونوں ممالک کے درمیان عوام کے عوام سے رابطوں کو فروغ دینے کے تصور کو دوہرا رہے ہیں لیکن چند معمولی امید افزاء واقعات کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان سفر مشکل رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں پلوامہ حملے اور بالاکوٹ پر فضائی حملے جیسے واقعات نے دونوں جگہ کی عوام کے درمیان رابطے کا وہ سلسلہ بھی منقطع کردیا جو پہلے ہی معمولی تھا۔
لیکن حکومت کی نگاہوں اور قوم پرستی کے جنون میں مبتلا ذرائع ابلاغ کی چبھتی ہوئی آوازوں سے دور، دونوں ملکوں کے درمیان ایک خاموش رابطہ انٹرنیٹ پر جاری ہے۔ رابطوں کی اس نوعیت میں تنوع ہے- یوٹیوب، ٹوئٹر، فیس بک اور جہاں کہیں بھی پاکستانی اور بھارتی ایک دوسرے کے تبصرے پڑھ سکیں، یہ تقسیم، کھانے، تاریخ ، ادب اور پاپولر کلچر کے بارے میں قصے بیان کرتے ہیں۔ وبا نے اس رجحان کو مزید فروغ دیا ہے؛ گھروں میں مقید، سرحد کے دونوں پار موجود عام افراد نے زوم ”بیٹھک“ کا اہتمام شروع کیا ہے، جو برصغیر میں پرانے زمانے کی چوپال کی جدید شکل ہے جہاں لوگ شاعری پڑھتے اور سمجھتے تھے۔
زیادہ دور نہیں، صرف ایک دہائی قبل تک سماج کے صرف وہ حصے جو شہری، متمول اور خاص کر انگریزی تعلیم یافتہ تھے، محض ان کو ایک دوسرے سے آن لائن بات چیت تک رسائی حاصل تھی۔ بول چال کی شکل میں ہندی اور اردو گوکہ دونوں کو سمجھ آتی تھی، تاہم ان کا رسم الخط مختلف تھا۔ لہذا دونوں ممالک کے زیادہ تر لوگ ”دوسرے“ کو اشرافیہ کے ذریعے سے سمجھتے تھے۔ وہ اشرافیہ جنہیں گریمشی ”روایتی مفکرین“ کا نام دیتا ہے – جس میں دانشور طبقہ، پرنٹ/الیکٹرانک ذرائع ابلاغ اور سب سے بڑھ کے ریاست شامل ہوتی ہے۔
البتہ حال ہی میں چند برس کے دوران دونوں ممالک میں دو اہم تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اول یہ کہ سمارٹ فونز کے پھیلاؤ اور ڈیٹا کی قیمتوں میں کمی سے چھوٹے قصبوں اور دیہی علاقوں کی آبادیوں تک انٹرنیٹ تک رسائی میں اضافہ ہوا ہے۔ دوئم صوتی و بصری مواد، انٹرنیٹ کے ان نئے باسیوں کی بڑی تعداد کے لیے انٹرنیٹ کے استعمال کا بنیادی طریقہ بن گیا ہے۔ اس سے ایک اور زمینی رکاوٹ جو شہریوں کی ایک دوسرے کے ملک تک رسائی محدود بناتی تھی، اس سے بچنے میں مدد ملی ہے یعنی کہ ہندی یا اردو پڑھنے کے لیے ضروری تعلیم۔ یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز پر دونوں جگہ سمجھی جانے والی زبانوں مثلاً پنجابی اور ہندی/اردو میں مواد تیزی سے بڑھا ہے۔ مثال کے طور پر تقسیم کے وقت تشدد اور خسارہ اٹھانے والی نسل کے خاتمے کا ادراک ہونے پر دونوں جانب کے یوٹیوبرز نے اپنے بزرگوں سے ان کی کہانیوں، سفر اور وہ زمینیں جو وہ اپنے پیچھے چھوڑ آئے تھے، اس کے بارے میں انٹرویو کا سلسلہ شروع کیا۔
اس نے لوگوں کی بڑی تعداد جن میں تقسیم کا تجربہ کرنے والے اور ان کی اگلی نسلیں دونوں شامل ہیں، ان کے دلوں کے تار کو چھیڑ دیا۔ حتیٰ کہ بعض یوٹیوبرز نے ۱۹۴۷ میں ہجرت کرنے والوں کی درخواست پر ان کے شہروں اور پرانے محلوں کے ویڈیو ٹورز بھی کروائے ہیں۔ اس طرح پہلی بار بھارتی اور پاکستانیوں نے ایک دوسرے کے شہر، گاؤں اور روزمرہ کی زندگی کو ایک ایسی طرز پر دیکھا جس میں قومی یا سرکاری ذرائع ابلاغ کی مداخلت نہ تھی۔ اسی طرح وہ مقامات جہاں سے لوگ قلبی لگاؤ رکھتے تھے اور تقسیم و سفری پابندیوں کے سبب وہ ناقابل رسائی دکھائی دیتی تھیں جیسا کہ بھارت میں موجود مسلمانوں کی مذہبی درگاہیں اور پاکستان میں ہندو مندر، اب سرحد کے دونوں جانب موجود افراد ان کی ”سیر“ کرسکتے ہیں۔
حسب توقع دونوں جانب موجود افراد میں مسلسل مقبول رہنے والا آن لائن مواد کھانے اور موسیقی کے بارے میں ہوتا ہے۔ ایک ملک کے کھانوں پر مواد بنانے والے چینلز دوسری جانب کے تبصروں سے بھرے رہتے ہیں جس میں لوگ ریڈکلف لکیر کے پار سفر کرنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں۔ اس طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک اور نوجوان طبقے نے ”ری ایکشن ویڈیوز“ بنانا شروع کی ہیں جہاں لوگ مختلف چیزوں کے علاوہ ایک دوسرے کی موسیقی یا اسٹینڈ اپ کامیڈی سنتے ہیں اور اس پر ردعمل دیتے ہیں۔ ان ری ایکشن ویڈیوز کی کامیابی کی ایک بنیادی وجہ ان میں محض دیکھ کے لطف اٹھانے کے عنصر کی موجودگی ہے- یہ بھارتی اور پاکستانیوں کو موقع دیتی ہیں کہ وہ یہ جان سکیں کہ ”دوسرے“ ان کو اور ان کی ثقافت کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بیرون ملک تارکین وطن نے بھی ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے، ثقافتی ملاپ اور اپنے غیر ملکی ماحول میں مذہبی تکثیریت کے زیادہ عادی ان افراد میں بہت سے افراد نے خالصتاً قومی شناخت کے بجائے زیادہ وسیع تر جنوبی ایشیائی شناخت قبول کرلی ہے۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو سیاسی نظریات کی وجہ سے اپنا ملک چھوڑنے اور پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں ۔ انہوں نے اب نئے پلیٹ فارمز شروع کرنے کیلئے سائبر اسپیس کا استعمال کیا ہے جیسا کہ نیا دور، جو کہ ایک ایسی ویب سائٹ ہے جو قومی دھارے میں موجود مواد کو چیلنج کرنے والی خبریں اور رائے فراہم کرتی ہے۔
وہ یوٹیوب دیکھ رہے ہیں۔۔۔ تو کیا ہوا؟
ایک طرف بھارتی اور پاکستانی ایک دوسرے کو دریافت کر رہے ہیں لیکن اسی کے ساتھ ساتھ، انتہاپسندانہ قوم پرستی بدستور غالب ہے۔ الیکٹرانک میڈیا زیادہ جارحانہ قوم پرست بن چکا ہے اور پس پردہ سفارتی ذرائع سے رابطے کی افواہوں کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بدستور غیردوستانہ ہیں۔ یہ سوچنا انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہوگا کہ یوٹیوب کی ویڈیوز کے ذریعے امن آسکتا ہے۔ ”ہائیبرڈ جنگ“ کے خطرات کبھی بھی کم نہیں ہوئے ہیں، اور دونوں جانب موجود منظم ٹرولز کی فوجیں دوسرے کی ناکامیوں پر جشن شروع کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی ہیں۔ اکثر یہ باڑ کے دونوں جانب موجود حکومت کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کی باقاعدہ رضامندی سے ہوتا ہے۔
موجودہ سماجی ڈھانچے اور ان کی امداد کرنے والے روایتی دانشور ایسے مفروضات گھڑ سکتے ہیں ، جو یہ تاثر پیدا کرتے ہیں کہ مستقبل طے شدہ اور ماضی کا ہی عکس ہے۔ ان کے تصور میں تاریخ بیک وقت ‘سیدھے ‘ ایک طے شدہ منزل کی طرف گامزن ہے اور ماضی کو دوہراتی ہوئی ایک گرداب میں بھی پھنسی ہوئی ہے ۔ تاہم متبادل بیانیے اور وہ ان دیکھی قوتیں جو زمینی حقائق کا مقابلہ کرتی ہیں اور انہیں مخالف سمت میں دھکیلتی ہیں، اپنے اثرات ظاہر کرنے سے قبل برسوں تک زیرزمین رہ سکتی ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ بالادستی کی مخالفت کرنے والی ہر قوت لازماً ”فتح یاب“ بھی ہو۔ آن لائن متبادل بیانیہ جو حالیہ برسوں میں پھوٹا ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بالادستی کے مقابلے کی ممکنہ صلاحیت کا حامل ہے۔ (روایتی کے برعکس) فطری دانشور یا دوسرے الفاظ میں عام عوام سے وجود میں آنے والا یہ بیانیہ تاریخ، شناخت، یادداشت اور وابستگی کے بارے میں متبادل بیانیہ فراہم کرتا ہے جو کہ سرحد کے دونوں جانب موجود باقاعدہ سرکاری بیانیے کی مخالفت کرتا ہے۔
اضطراب میں امید کی تلاش
قبل اس کے کہ ہم اس کو سماج کے دو حصوں کے درمیان نظریاتی لڑائی کے طور پر دیکھیں، یہ یاد رکھنا اہم ہوگا کہ ریاستوں کے غالب بیانیے اور عوام کے ابھرتے ہوئے بیانیے دونوں بیک وقت ایک ہی فرد میں ناخوشگوار طور پر یکجا ہوسکتے ہیں اور اکثر ہوتے بھی ہیں۔ تاہم سائبر یکجہتی کے اثرات مختصر الفاظ میں بھی ”اضطراب“ کی کیفیت پیدا کر رہے ہیں۔ سرکاری بیانیے کو اس کی جگہ سے ہلانے کے ذریعے یہ رابطے، اکثریت کے اور محدود پیمانوں پر مبنی خیالات جو کہ اکثر دونوں معاشروں میں پائے جاتے ہیں، ان کے اثرات کو جانچنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ، یہ آن لائن رابطہ زیادہ براہ راست سیاسی اثرات کا باعث بھی بنا ہے۔ اس کی ایک عمدہ مثال بھارت میں سرمایہ دارانہ زرعی اصلاحات کے خلاف کسانوں کی حالیہ (اور تاحال جاری) احتجاجی تحریک ہے۔ احتجاج کے دوران، پاکستانیوں نے اپنے بھارتی کسان بھائیوں اور بہنوں سے اظہاریکجہتی کے لیے سائبراسپیس کا سہارا لیا۔ یہ ہمدردی میں لپٹے اس جشن سے مختلف تھا جس کا بارہا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ احساس سے معمور خالصتاً ذاتی حیثیت میں اظہار یکجہتی تھا۔ سب سے بڑھ کے اس سے یہ ظاہر ہوا کہ دونوں سماج بیزار کن حد تک دوہرائے جانے والے بیانیے سے کس قدر زیادہ کے قابل ہیں۔
اکثریہ کہا جاتا ہے کہ یہ نہرو کی ۱۹۵۵ میں ماسکو میں کی گئی تقریر تھی جس نے گوربا چوف کو جمہوری طرز پر سیاست سمجھنے کی جانب راغب کیا اور جو آخرکار خوداحتسابی کی تحریک پر منتج ہوئی تھی۔ باوجودیکہ گورباچوف نے نہرو کی تقریر سنی تھی، تب بھی ایسی بہت سی راہیں ممکن ہوسکتی تھیں جو کسی دوسرے انجام کی جانب لے جاتیں۔ ہوسکتا تھا کہ وہ جنرل سیکرٹری منتخب نہ ہوئے ہوتے اور کون جانے کہ ان کے خلاف تختہ الٹنے کی سازش کامیاب ہوجاتی۔ لیکن منطق کا دوسرا رخ یہ ہے کہ گورباچوف کے ذہن میں سیاست کے متبادل تصور(جوکہ تقریر کا نتیجہ تھا) کی عدم موجودگی میں ایسی کوئی راہ نہ بچتی جو ۱۹۸۰ کی دہائی کے واقعات تک لے کے جاتی، خواہ ان کی زندگی کی راہیں وہیں ہوتیں جو کہ تھیں۔ اور اسی میں، خواہ روس ہو یا جنوبی ایشیا امید اور خیالات دونوں کے لیے غیر یقینی موجود ہے۔
***
Editor’s Note: A version of this piece originally appeared on 9DashLine and has been republished with permission from the editors.
Click here to read this article in English.
Image 1: Shankar S via Flickr
Image 2: Bloomberg via Getty Images