بر سرِ موقعٔ انتخابات: جنوبی ایشیا میں جمہوریت کی صورتحال کا جائزہ
بنگلہ دیش میں منعقد حالیہ انتخابات سے ثابت ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں جمہوریت ایک خوفناک تیرگی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ علاقہ ایک ایسے خطّے کے طور پر ابھر رہا ہے جہاں طاقتور حکومتیں سیاسی مخالفت کو کچلتی اور شہری آزادیوں کو دباتی ہیں۔ اب جبکہ بھارت اور پاکستان بھی انتخابی گہما گہمی میں حصہ لے رہے ہیں، تین جنوبی ایشیائی ممالک میں جمہوریت کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور علاقائی خوشحالی کے لئے سرحد پار اس کے وسیع تر مضمرات کا جائزہ لینے کے لئے سال ۲۰۲۴ ایک مناسب موقع کے طور پر اُبھرتا ہے۔
بھارت: جمہوریت سے انحراف کا معاملہ
بھارت کی لبرل جمہوریت دباؤ میں ہے کیونکہ ایک طاقتور ایگزیکٹو عدلیہ اور دیگر آزاد اداروں کو کمزور بنا دیتاہے۔ بھارت کے ماضی کے تجربات سے علم ہوتا ہے کہ آزاد ادارے شاذ و نادر ہی کسی طاقتور منتظمِ اعلیٰ کے حملے سہہ پائے ہیں، بالخصوص یہ تب دیکھا گیا جب ہندوستانی سپریم کورٹ نے ۱۹۷۵ سے ۱۹۷۷ تک ایمرجنسی کے دوران بنیادی حقوق کو معطل کردیا تھا۔ اگرچہ بھارتی عدلیہ اور میڈیا نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ریاستی ہدایات پر عمل کیا ہے، لیکن یہ قیاس غلط ہوگا کہ بھارتی ادارے محض انتقامی کارروائیوں سے خوفزدہ ہو کر زیرِ دست ہوگئے ہیں۔ حقیقت میں بھارتی اشرافیہ کا ایک بڑا حصّہ جو اداروں کے بست و کُشاد کاحامل ہے، بی جے پی کی نظریاتی حکومت کا حامی ہے، جو بھارت کے بارے میں ایک ایسا ویژن رکھتا ہے جو اس کے بانی نظریات سے یکسر متصادم ہے۔
متناقضانہ طور پر بی جے پی کے مطلق العنان رجحان کو بے پناہ عوامی مقبولیت حاصل ہے۔ایک حالیہ سروے کے مطابق زیادہ تر بھارتی جمہوری طرزِ حکومت کی نسبت آہنی گرفت رکھنے والے رہنما کو ترجیح دیتے ہیں۔ بِلا اشتباہ پارٹی کو اپنے ناقدین سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے پر بہت کم مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مغرب کے برعکس جہاں تعلیم یافتہ متوسط طبقہ بائیں بازو کی لبرل پارٹیوں کی بھرپور حمایت کرتا ہے، بھارت میں ڈیموگرافی (مردم نگاری) دائیں بازو کی بی جے پی کے لیے بطور بنیادی ستون کام کرتی ہے اور پارٹی کے نظریاتی منصوبے کی پشت پناہی کرتی ہے۔ علاوہ ازیں بی جے پی نے، جسے روایتی طور پر اونچی ذات کی شمالی بھارتی پارٹی کے طور پر جاناجاتا ہے، دیگر پسماندہ ذاتوں جیسے او بی سی، دلتوں اور مختلف قبائل کے گروپوں کو شامل کرنے کے لئے اپنی سماجی حمایت میں اضافہ کیا ہے، اور خود کو ایک تنظیمی بہیمہ میں تبدیل کرنے کے لئے علاقے میں اپنی پہچان کو بھی بڑھایا ہے۔
اگرچہ کمزور اپوزیشن بی جے پی کے ایجنڈے کو چیلنج کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائی، تاہم ۲۰۱۹ میں اراضی اور زرعی اصلاحات اور سیٹیزن شپ (ترمیمی) ایکٹ مسائل جیسے کئی دائیں بازو کی پالیسیوں کی راہ میں منظم عوامی اجتماعات نے رکاوٹ ڈالی ہے۔ بی جے پی پارلیمنٹ کے ذریعے دباؤ ڈال کر کامیابی پا تو سکتی ہے، لیکن مقامی ماحول میں سماجی تنازعات میں اب بھی دم خم باقی ہے۔ لیکن جمہوریت کے تحفظ کے لیے صرف بھارت کے آئینی چیک اینڈ بیلنس پر انحصار کرنا بے وقوفی ہے۔ اگرچہ آئندہ عام انتخابات کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ اس کے نتائج پہلے سے طے شدہ ہیں اور اس سے طاقت کو مزید استحکام حاصل ہو گا، پھر بھی اگر ان کے مفادات پر زد آئی تو روایتی سیاسی روش سے ہٹ کر کام کرنے والے سماجی گروپ ایک فصیل کے طور پر اُبھریں گے۔
پاکستان: فوجی بالادستی کا راج
پاکستان کے انتخابات کا انعقاد ۸ فروری کو ہوا اور بظاہر ملک سیاسی تاریخ کی ایک جانی پہچانی راہ گزر پر رواں دواں ہے۔ کوئی بھی سویلین رہنما یا جماعت فوج کی خاموش آشیرباد کے بغیر پاکستان میں بر سرِ اقتدار نہیں رہ سکتے، جیسا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے معاملے میں دیکھا گیا۔راولپنڈی کی حمایت سے محروم ہونے اور خراب گورننس ریکارڈ رکھنے کے باوجود، خان پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول سیاست دان ہیں، جس سے فوج کو بہت مایوسی ہوئی ہے۔ اقتدار سے بے دخلی کے بعد وہ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف جیسے سیاست دانوں میں شامل ہو گئے جنہیں پہلے جرنیلوں کی سرپرستی حاصل تھی اور فوج سے جھگڑنے کے بعد انہیں دھتکار دیا گیا۔ ۲۰۲۴ میں فوج کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ عمران خان کو وزیر اعظم کی حیثیت سے کوئی دوسری اننگز نہ ملے اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اس وقت تک قطع و برید کی جائے جب تک کہ محض اُن کی ہاں میں ہاں ملانے والے نہ رہ جائیں۔
فوج کی جانب سے سویلین قیادت سے معانقہ جمہوری اقدار سے کسی حقیقی وابستگی کا نتیجہ ہونے کے بجائے تقریباََ ہمیشہ ہی تدبیراتی حکمت عملی پر مبنی ہوتا ہے ۔ فوج اب بر سرِ عام اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے خلاف ہے اور سازگار انتخابی نتائج حاصل کرنے کے لئے پسِ پردہ کام کرنے کو ترجیح دیتی ہے اور ایک سیاسی دھڑے کو دوسرے کے خلاف استعمال کرتی ہے۔ مزید برآں پاکستان کے سیاسی طبقے میں ادارہ جاتی یکجہتی اور معاشرتی تغیرِ کُلی لانے کی سوچ کا فقدان ہے۔
پاکستانی سیاست میں فوج کی مستحکم پوزیشن کے پیشِ نظر، یہ انتخابات جمہوریت کو پائیدار بنانے میں کوئی بامعنی کردار ادا نہیں کریں گے۔ بظاہر یہ انتخابات فوج کی جانب سے نواز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے پر بحال کرنے اور ان کی واپسی کو عوامی رضامندی کی چمک دمک فراہم کرنے کی حکمت عملی دکھائی دیتے ہیں۔ ایسی بد حالی میں پاکستان کی ناقص جمہوریت اقتدار اور سرپرستی کی ریولونگ چیئر کے سوا کچھ نہیں۔
بنگلہ دیش: ایک قوم، ایک جماعت
بنگلہ دیش تیزی سے ڈی فیکٹو یک جماعتی ریاست میں تبدیل ہو گیا ہے جس میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کا شخصی کَلٹ بڑھتاجا رہاہے۔ یہ گروہ بڑی حد تک اب تک تاریخ کے تانے بانوں میں اُلجھا ہوا ہے: بنگلہ دیش کی آزادی حاصل کرنے والےان کے والد اور بنگلہ دیش کے پہلے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمٰن کے عظیم کارنامے سے مسلسل فیض کشید کیا جا رہا ہے۔ اندرون و بیرون ملک ان کے ناقدین اب انہیں ایک ایسی شخصیت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو پولیس، میڈیا اور عدلیہ پر حکم چلاتی ہیں۔
پاکستان کے برعکس ان کی حکومت نے گزشتہ برسوں کے دوران بنگلہ دیش کی اقتصادی ترقی کی بدولت کسی حد تک پرفارمنس لیجیٹیمیسی ( کارکردگی کا جواز) حاصل کی ہے۔ تاہم یہ خیر سگالی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ ترقی کے معجزے کی اس کہانی نے اپنا جادو کھو دیا ہے کیونکہ ملک گارمنٹ سیکٹر پر ضرورت سے زیادہ انحصار کرتا چلا جا رہا ہے اور اپنی برآمدات کو متنوع بنانے میں ناکام ہے۔ بڑھتی ہوئی افراط زر اور گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر نے ان کی حکومت کے خلاف عوام کی بیزاری میں اضافہ کیا ہے۔ بِلا اشتباہ بنگلہ دیش کے معاشی ستارے حکومتی جبر میں اضافے کے ساتھ ساتھ مدھم پڑتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے ہزاروں اراکین اور کارکنان کو جیلوں میں ڈالا گیا جن کا مطالبہ تھا کہ حسینہ واجد استعفیٰ دیں اور اقتدار نگران حکومت کے حوالے کریں۔
بی این پی کی جانب سے ۷ جنوری کو ہونے والے انتخابات کابائیکاٹ حسینہ واجد کے لیے کم تر ووٹر ٹرن آؤٹ کے ساتھ، مسلسل چوتھی ٹرم کے لیے منتخب ہو جانے کا ضامن بنا۔ حزب اختلاف ان کی حکومت کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے سڑکوں پر نکل رہی ہے۔ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی نہ بنانے پر بین الاقوامی تنقید سے بچتے ہوئے، حسینہ واجد کے لیے فوری اور اہم چیلنج ان کی حکومت کو مسلسل چوتھی ٹرم کے آغاز پر داخلی خلفشار کا سامنا ہے۔
ماحاصل : علاقائی مضمرات
جنوبی ایشیا میں جمہوریت کی ابتر ہوتی ہوئی حالت کے بڑے مضمرات ہیں۔ سب سے پہلے، جنوبی ایشیا کے سب ممالک ایک آوے کے برتن ہیں؛ کسی بھی ایک ملک میں جبر اور تشدد میں اضافہ، بالخصوص اگر اقلیتوں کے خلاف ہو، تو اس کا ذیلی ردِعمل کہیں اور بھی ظاہر ہوگا۔ کئی مثالوں میں سے ایک مثال بنگلہ دیش میں ہندو مخالف تشدد کی ہے، جس کے ردِعمل میں ۲۰۲۱ میں تریپورہ میں مسلم کمیونٹی کے خلاف انتقامی تشدد کیا گیا۔ ایک ملک میں نسلی قومیت پرست اور مذہبی بنیاد پرست طاقتیں سرحد پار اپنے ہم منصبوں کو مدد فراہم کرتی ہیں اور مزید پولرائزیشن (تقطیب) کو جنم دیتی ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی آمریت جنوبی ایشیائی علاقائیت کے لیے سازگار نہیں ہو گی۔ تحقیقی ادب استدلال پیش کرتاہے کہ جمہوریتیں دوسرے ممالک کے خلاف جارحیت شروع کرنے کا کم امکان رکھتی ہیں اور بین الریاستی تعاون کو فروغ دینے کا زیادہ امکان رکھتی ہیں، جس سے مشترکہ خوشحالی کی گنجائش میں اضافہ ہوتا ہے۔ جمہوریت علاقائی حکمرانی کے لئے بہتر اصولوں پر مبنی نظام بنانے میں بھی مدد کرتی ہے۔
تیسرا، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے مشرقی ایشیائی ممالک کے برعکس، جو ۱۹۸۰ کی دہائی کے اواخر میں جمہوریت کی طرف منتقل ہونے سے پہلے امیر ہو گئے تھے، مطلق العنانیت جنوبی ایشیا میں طویل معاشی ترقی کو آگے بڑھانے کا امکان نہیں رکھتی۔ جنوبی ایشیا میں جمہوریت اور معاشی ترقی کے درمیان تعلقات کے تاریخی شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ “جمہوریت کا خطے میں معاشی ترقی پر مثبت اور اعداد و شمار کے لحاظ سے اہم اثر پڑتا ہے۔ــ‘‘ دنیا کے سب سے کم مربوط خطوں میں سے ایک کی حیثیت سے، اگر آمریت کی طرف سفرجاری رہا تو جنوبی ایشیا باہمی مفادکے تجارتی مواقع سے محروم رہے گا۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کی بڑھتی ہوئی جابر ریاست کے لیے نہ صرف تشدد پر اجارہ داری قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا، بلکہ اہم معاشی ترقی کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے میں بھی دقت ہو گی۔
کئی صورتوں میں جنوبی ایشیا دنیا بھر میں جمہوریتوں کی بدحالی کا ایک عالمِ صغیر ہے۔ آئی ڈی ای اے کی گلوبل اسٹیٹ آف ڈیموکریسی ۲۰۲۳ کی رپورٹ کے مطابق، آدھے ممالک نے گزشتہ پانچ سالوں میں جمہوریت کے کم از کم ایک مظہر میں ابتری دیکھی ہے۔ دریں اثنا ۲۰۲۴ کو تاریخ کے سب سے بڑے انتخابی سال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جس میں ۶۰ سے زیادہ ممالک میں انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے۔ جنوبی ایشیا، جو دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی ہے، میں ہونے والی تبدیلیاں جمہوریت کے مستقبل پر اپنا نشاں چھوڑیں گی۔ اب جبکہ قریباََ ایک بلین رائے دہندگان انتخابات میں حصہ لینے کی تیاری کر رہے ہیں، اس سال کے واقعات اس بات کا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں جمہوریت کے ساتھ تجربے کو نئی زندگی ملے گی یا اخیر زوال ملے گا۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Attari-Wagah India-Pakistan Border via Wikimedia Commons
Image 2: Imran Khan via Wikimedia Commons