روس کے یوکرین پر حملے کے موقع پر وزیراعظم ولادیمیر پوٹن نے اس مداخلت کا جواز پیش کرتے ہوئے بے بنیاد دعویٰ کیا کہ یہ “نازیوں سے پاک” کرنے کی مہم ہے۔ آنے والے مہینوں میں اس جنگ نے دوران بحران اور اپنی رفتار برقرار رکھنے کی خاطر بیانیے کی تعمیر میں غلط معلومات کے کردار یا اس کی موجودگی کے جواز کی جانب ایک بار پھر توجہ مبذول کروائی ہے۔ غلط معلومات کا تصور نیا نہیں اور یہ پروپیگنڈے کے حصے کے طور پر سیاسی و سماجی طور پر اثرانداز ہونے کے لیے طویل عرصے سے ایک چال رہا ہے لیکن ڈیجیٹل انقلاب اور انٹرنیٹ صارفین کی بڑھتی تعداد نے ہر خاص و عام کے “معلومات کے ذریعے متاثر ہونے” کا امکان بے حد بڑھا دیا ہے۔
پاکستان میں داخلی سطح پر گہری پڑتی سماجی تقسیم اور اس کے دشمن ہمسائے کے عدم اعتماد کی تاریخ جیسے عوامل معلومات کو توڑنے مروڑنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں جو پاکستان کی اندرونی و بیرونی کمزوریوں کو ابتر کر سکتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ قوانین جن کا مقصد غلط معلومات اور ” جعلی خبروں” کا مقابلہ کرنا تھا، وہ آخر کار آزادی اظہار کا گلا گھونٹنے کا سبب بنے ہیں اور اپنے مقصد کے برعکس یہ اندرونی سطح پر بحث کے لیے ماحول کو مزید محدود کرنے اور سماجی تقسیم میں اضافے کے ذریعے پاکستان کو مزید کمزور کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ غلط معلومات کے خلاف قوانین اور اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی انسانی حق کے درمیان توازن حاصل کیا جائے اور اسے برقرار رکھا جائے۔ ایک متوازن سوچ کی عدم موجودگی سے غلط معلومات کے بڑھتے رہنے کا امکان ہے نیز یہ داخلی سطح پر مفاہمت کی بڑھتی ہوئی کوششوں اور بھارت سے تعلقات میں بہتری کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
غلط معلومات کا عروج
اقوام متحدہ کے مطابق غلط معلومات میں “ایسی غلط معلومات شامل ہیں جو فرد، ادارے اور مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے دانستہ یا غیردانستہ طور پر تخلیق کی جائیں اور پھیلائی جائیں”۔ غلط معلومات، جہاں اس لحاظ سے غیر مصدقہ معلومات سے ملتی جلتی ہیں کہ یہ غیردانستہ غلطیوں کا احاطہ کرتی ہے، وہیں غلط معلومات کا مقصد “دانستہ طور پر دھوکہ دینا” ہوتا ہے۔ غلط اطلاع تشدد پر اکسا سکتی ہے، بین الریاستی بحران میں اضافہ کر سکتی ہے، انتخابی عمل کو مسخ اور اس پر اثرانداز ہو سکتی ہے یا یہ سازشی نظریات کو فروغ دے سکتی ہے۔
غلط معلومات اور سوشل میڈیا کا استعمال دور جدید کے پاپولسٹ رہنماؤں کے فن خطابت کے ہتھیاروں میں، جن میں جذبات کا استعمال اور جھوٹی خبریں شامل ہیں، اس میں بھی معاون ہو سکتے ہیں۔ دنیا بھر کے پاپولسٹ رہنما جیسا کہ رجب طیب اردگان، نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ کو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر فالو کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) اپنے مطلوبہ سیاسی اہداف کو پورا کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کر چکی ہے اور ابھی بھی بڑے پیمانے پر کر رہی ہے۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران اپنی حکومت کی کارکردگی پر پردہ ڈالنے کے لیے سوشل میڈیا اور سیاسی ریلیوں/ جلسوں میں خان حکومت کے خلاف امریکی مداخلت اور سازش پر مبنی بیانیے کی تعمیر کی موجودہ مہم کسی بھی مقبول رہنما کی جانب سے عوام کو اپنے حق میں متحرک کرنے کے لیے ابلاغ کی تینوں تیکنیکیں استعمال کرنے کی چونکا دینے والی مثال ہے۔
ڈیجیٹل میڈیا اور غلط معلومات کا “ریاستی پالیسی کے کاٹ دار ہتھیار” کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ۲۰۱۴ میں کرائیمیا پر قبضہ کے دوران کریملن نے روسی سماج سے بڑے پیمانے پر حمایت حاصل کرنے اور بیرون روس سماجوں میں ابہام پیدا کرنے لیے غلط معلومات کا تزویراتی طور پر استعمال کیا تھا۔ اسی طرح چین، ایران اور وینزویلا بھی عالمی سطح پر آمرانہ مفادات کو فروغ دینے کے لیے غلط معلومات کی مختلف حکمت عملیاں اور حربے استعمال کر چکے ہیں۔
پاکستان کی اندرونی و بیرونی کمزوریاں
غلط معلومات پاکستان کے لیے اندرونی و بیرونی دونوں طرح کے بحرانوں میں ایک کمزوری کی حیثیت رکھتی ہیں۔ غلط معلومات یا غیر مصدقہ معلومات کے ضمن میں ریاست کا کردار پاکستان کے لیے نیا تصور ہرگز نہیں ہے۔ ۱۶ دسمبر، ۱۹۷۱ کو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا کہ ”مقامی کمانڈروں کے مابین ایک معاہدے کے بعد مشرقی پاکستان میں سیز فائر ہو چکا ہے۔” جبکہ اسی وقت بی بی سی یہ خبر دے رہا تھا کہ پاکستانی فوج نے بھارتی سپاہیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ بیرون ملک سے غلط معلومات پھیلانے کی کوششوں کے خلاف بھی پاکستان کی کمزوری نئی نہیں ہے۔ ۱۹۸۰ کی افغان جنگ کے دوران اس وقت کے سویت یونین نے غلط معلومات پھیلانے کے ضمن میں کئی اقدامات کیے جن کا مقصد پاک امریکہ اتحاد کو متاثر کرنا تھا، جو خطے میں پاکستان کی ساکھ پر سوال اٹھاتے تھے اور جن کا ہدف ملک میں داخلی سطح پر بے چینی پیدا کرنا تھا۔ مثال کے طور پر حکومت پاکستان کی پالیسیوں کی مذمت میں پرچے تقسیم کیے گئے جو مبینہ طور پر پاکستانی فوج کے اندر موجود ایک سرکش گروہ کی جانب سے تحریر کیے گئے تھے، مقامی ذرائع ابلاغ کو ایسی خبریں فراہم کی گئیں جن کے مطابق پاکستانی افواج افغانستان کی سیاست میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے تنازعے کو استعمال کر رہی تھی۔
سوشل میڈیا کے دور میں پاکستان کو داخلی سطح پر ریاستی سرپرستی میں شروع کی گئی غلط معلومات کی مہمات کا تجربہ ہوا۔ ۲۰۱۸ میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو ان کے اس موقف پر تنقید و تذلیل کا سامنا ہوا جس میں انہوں نے ”اپنے گھر کی صفائی“ کرنے اور وہ اقدامات اٹھانے کا کہا تھا جو آخرکار پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( فیٹف) کے تحت اٹھانا پڑے۔ شریف کے خلاف غلط معلومات کی یہ مہم الٹی پڑ گئی اور یہ ان اسباب میں شامل تھی کہ جو پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ میں شامل کروانے کا سبب بنے۔۲۰۱۹ میں ٹوئٹر اور فیس بک نے ایسے ہزاروں اکاؤنٹس بند کیے جن کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے چلائے جاتے تھے، ان میں وہ ہینڈلز بھی شامل تھے جن کا مقصد سرحد پار دشمن کو نشانہ بنانا تھا جبکہ دیگر سیاسی حریف اور اختلاف رائے رکھنے والے شہریوں کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہمات چلاتے تھے۔
ریاستی سطح پر پھیلائی گئی غلط معلومات کے سبب داخلی کمزوری کے علاوہ بھی پاکستان غلط معلومات پر مبنی مہمات کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ اس کی بڑی مثال ڈس انفو لیب کی وہ رپورٹ ہے جو بین الاقوامی برادری اور سول سوسائٹی میں پاکستان کیخلاف لابی کرنے کے لیے بھارت کے ایک ۱۵ سال پرانے غلط معلومات کے نیٹ ورک سے پردہ اٹھاتی ہے۔ اس کی ایک اور مثال تحریک لبیک پاکستان کے اپریل ۲۰۲۱ میں دھرنے کے دوران ٹوئٹر کے ٹرینڈز کا ایک تجزیہ ہے جس سے ظاہر ہوا کہ سول وار ان پاک (#CivilWarinPak) نامی ہیش ٹیگ کے ہمراہ ۶۱ فیصد ٹوئٹس اور لائیکس بھارت سے ہوئے جن میں متعدد جعلی اکاؤنٹس تھے جنہوں نے اس ہیش ٹیگ کو استعمال کرتے ہوئے کل ۸۴،۰۰۰ ٹوئٹس، ری ٹوئٹس اور ریپلائی کیے تھے۔ جن دس بڑے شہروں میں یہ ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ میں تھا ان میں سے سات شہر بھارت کے تھے۔ ایسی صورتحال کے رائے عامہ کے علاوہ بحران کے وقت ریاستی رویہ پر بھی اثرات ہوتے ہیں، ۲۰۱۹ کے پلوامہ بالاکوٹ بحران کے دوران متعدد “تدوین شدہ اور غلط لیبل” کی حامل تصاویر اور ویڈیوز پھیلی تھیں جو پاکستان کے خلاف “جوابی عسکری کارروائی کے مطالبے میں شدت” کا باعث بنی تھیں۔ دور جدید کے مقبول رہنماؤں کی سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر مقبولیت اور اس کا استعمال، قوم پرستی کے لیے حمایت پیدا کرنے اور جوابی کارروائی کے عوامی مطالبے کو ڈھالنے کے لیے سوشل نیٹ ورکس کے استعمال کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔ شہرت اور سوشل میڈیا کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہونے کے باوجود، پاک بھارت بحران میں غلط معلومات کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ دونوں کے درمیان تعلقات کی جذباتی کیفیت توڑ مروڑ کے معلومات پیش کرنے کے خطرات کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔
پاکستان اور بالعموم پورے جنوبی ایشیا میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے استعمال میں بھرپور اضافے کی وجہ سے پاکستانی عوام کے ریاست اور غیرملکی عناصر کی مدد سے پھیلائی گئی غلط معلومات سے کمزور پڑنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ۴۹ .۸ فیصد اور بھارت میں ۵۳.۹ فیصد لوگوں کو انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے (پاکستان میں جنوری ۲۰۲۲ اور بھارت میں دسمبر ۲۰۲۱ کے اعداد و شمار کے مطابق)۔ جنوری ۲۰۲۲ تک پاکستان میں فیس بک ۲۳.۹ فیصد لوگوں کو دستیاب تھا جبکہ ۳۴.۹ فیصد لوگوں کو بھارت میں دستیاب تھا۔ مارچ ۲۰۲۲ کے اعداد و شمار کے مطابق سوشل میڈیا کے معاملے میں فیس بک صارفین کی تعداد سب سے زیادہ ہے (۶۵.۸۵ فیصد)، جس کے بعد ٹوئٹر (۲۰.۵۶ فیصد) اور یوٹیوب کے (۹.۷۱ فیصد) صارفین ہیں۔ سوشل میڈیا کے استعمال میں اضافے کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کے حوالے سے شعور کی کمی نیز حقائق کی پڑتال اور غلط معلومات کے مقابلے کی روایت کا نہ ہونا بذات خود ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔
غلط معلومات کا مقابلہ اور اظہار رائے کی آزادی کو خطرات
حقائق کو توڑنے مروڑنے سے لاحق خطرات اور عدم تحفظات سے نمٹنے کے لیے ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ اظہار رائے کی آزادی کو تحفظ فراہم کرے۔ یہ ذمہ داریوں کا وہ شعبہ ہے جہاں پاکستان کو دشواریوں کا سامنا ہے۔ اس ذمہ داری کو بھرپور طریقے سے نبھانے کے لیے یورپیئن کنوینشن برائے انسانی حقوق نے غلط معلومات کے مقابلے کے اقدامات کے لیے تین بنیادی شرائط رکھی ہیں۔ ۱: تقریر پر پابندیاں غیر مبہم اور واضح طور پر قانون میں درج کی جائیں گی۔ ۲: ان اقدامات کا مقصد بنیادی اقدار کی حفاظت ہونا چاہئیے۔۳: یہ اقدامات “ایک جمہوری معاشرے میں ضروری” ہونے چاہییں اور کسی بھی خاص وقت اور پیرائے میں غلط معلومات سے لاحق خطرات کے تناسب سے ہونے چاہییں۔ آزادی صحافت اور اطلاعات کے حوالے سے قانون سازی میں موجود سقم کی درستگی کے لیے وعدوں کے باوجود پاکستان میں ماضی کی حکومتوں کے اقدامات اس طریقہ کار پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں۔
پاکستان میں قانونی اقدامات اظہار رائے کی آزادی یقینی بنانے اور غلط معلومات کے مقابلے دونوں کے ہی خلاف ناکافی ثابت ہوئے ہیں۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل ۱۹ آزادی صحافت کے علاوہ ہر شہری کو “تقریر و اظہار کی آزادی” دیتا ہے۔ تاہم یہ ضمانتیں انٹرنیشنل کنویننٹ برائے شہری و سیاسی حقوق (آئی سی سی پی آر) کے تحت اظہار رائے کی آزادی کے لیے طے کردہ حدود و قیود کے پیمانے پر پورا نہ اترنے کی صورت میں قابل پابندی ہوں گی، پاکستان اس معاہدے کا ایک فریق ہے۔ ترمیم ۱۹ اے کی شکل میں معلومات تک رسائی کے حق کے حوالے سے ۲۰۱۰ میں آئین میں کیے گئے اضافے کا ملک بھر میں اطلاق نہیں کیا گیا ہے۔
آن لائن اظہار رائے کی آزادی کے ضمن میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ (۱۹۹۶) قومی سلامتی خدشات کے مطابق معلومات کو سنسر اور بلاک کرنے کے عمل میں متحرک کردار ادا کرتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے ۲۰۱۶ کے بارے میں اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کرتے ہوئے ہزاروں فحش مواد کی حامل ویب سائٹس کو بلاک کرنے اور سوشل میڈیا کے ناجائز استعمال میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔ مزید براں سیاسی بدامنی اور مذہبی جلوسوں کے موقع پر سیکیورٹی خدشات کے سبب انٹرنیٹ اور موبائل سروس کی بندش عام رواج ہے۔ ۲۰۱۶ میں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ ( پیکا) نے پی ٹی اے کے اختیارات میں اضافہ کرتے ہوئے اسے معلومات تک رسائی روکنے کا اختیار دے دیا، اس قانون کو سیاسی مخالفین پر حملہ نیز قومی سلامتی سمیت عوامی دلچسپی کے امور پر بحث کو روکنے کی ایک کوشش کے طور پر تنقید کا سامنا رہا ہے۔ ۲۰۱۷ میں حکومت نے ایک تشہیری مہم کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد عوام کو یہ آگاہ کرنا تھا کہ وہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے استعمال میں محتاط رویہ اختیار کریں نیز انہیں قانون کے تحت سزاؤں سے خبردار کیا گیا تھا۔ خاص کر صحافیوں کی کثیر تعداد اور مخالفین کی آوازوں کو پیکا کے تحت نشانہ بنایا گیا ہے۔
عمران خان کی حکومت نے غلط معلومات اور جھوٹی خبروں کی روک تھام کے نام پر آزادی اظہار پر قدغنوں کو مزید بڑھاتے ہوئے پیکا میں ترامیم کیں اور جھوٹی خبر پھیلانے یا کسی فرد یا ریاستی ادارے کو آن لائن بدنام کرنے کے جرم کو ناقابل ضمانت جرم قرار دے ڈالا جبکہ جرم ثابت ہونے پر سزا کو بڑھاتے ہوئے پانچ برس کر دیا گیا۔ فروری ۲۰۲۲ میں ایک صدارتی آرڈیننس نے کسی بھی شخص کو ٹوئٹر اور فیس بک پر پوسٹ کی گئی کسی بھی برائے نام جھوٹی خبر کیخلاف شکایت درج کروانے کی اجازت دے ڈالی۔ سیاسی مخالفین اور اسی طرح سول سوسائٹی نے پیکا کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی سلب کرنے پر اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ علاوہ ازیں خان حکومت نے ٹیلی ویژن، فلم، ریڈیو اور ڈیجیٹل میڈیا کو ایک ریگولیٹر کے تحت لانے کی غرض سے پاکستان میڈیا ڈیولیپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے قیام کا خفیہ منصوبہ بنایا جبکہ حکومتی نگرانی میں چلنے والے ادارے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ( پیمرا) کو لامتناہی اختیارات دیے۔ پیکا اور پی ایم ڈی اے قوانین جو بہت سوں کی نگاہوں میں جابرانہ اقدامات ہیں، غلط معلومات کے خاتمے اور اظہار رائے کے فروغ کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کسی بھی کوشش کا دم گھوٹ رہے ہیں۔
۲۰۱۸ میں پیمرا نے سترہ ٹی وی چینلز کو جھوٹی خبر نشر کرنے پر نوٹس جاری کیے تھے۔ حال ہی میں بڑے چینلز میں سے ایک اے آر وائی نیوز کو پیمرا کی جانب سے عمران خان کے بارے میں ایک “جھوٹی/ غیرمصدقہ خبر” نشر کرنے پر شوکاز نوٹس موصول ہوا جس میں انہوں نے اپنی حکومت گرانے کی سازش کا پتہ دینے والی ایک کیبل کا دعویٰ کیا تھا۔ پی ٹی آئی کی گزشتہ حکومت نے بھی جھوٹی خبروں اور غلط معلومات کا صفایا کرنے کے لیے ایک آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ ( @FakeNews_Buster) شروع کیا تھا، تاہم میڈیا سے وابستہ حلقوں نے سیاسی مخالفین اور اختلافی آواز رکھنے والوں کے خلاف اس کے ممکنہ ناجائز استعمال پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ جہاں پاکستان نے غلط معلومات اور جھوٹی خبروں کیخلاف کوششوں کا اشارہ دیا ہے وہیں ذرائع ابلاغ کی تمام اقسام پر تن تنہا پیمرا کی نگرانی اور غلط اطلاعات کے خلاف حکومتی اقدامات پر پائی جانے والی بد اعتمادی ایسی کوششوں کی نفی کرتے ہیں۔ ان اقدامات کے نتیجے میں آزادی صحافت کی فہرست میں پاکستان سال ۲۰۲۱ کے لیے اپنی درجہ بندی جو کہ ۱۴۵ ویں نمبر پر تھی، اس سے گر کے ۲۰۲۲ میں ۱۵۷ ویں نمبر پر آگیا ہے جبکہ فریڈم آن نیٹ انڈیکس ۲۰۲۱ میں پاکستان کو ۲۵ نمبر ملے ہیں۔
نئی حکومت کی جانب سے موجودہ قوانین کے دوبارہ جائزے کے پس پردہ اہداف میں سے ایک کلیدی ہدف قومی ہم آہنگی و اتحاد پر جھوٹی خبروں کے منفی اثرات پر قابو پانا ہے جو کہ پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی برائے ۲۰۲۲-۲۶ کا ایک ستون ہے۔ تاہم جیسا کہ بعض مفکرین نے محسوس کیا ہے کہ “قومی ہم آہنگی” یا “قومی اتحاد” میں ریاستی سطح پر قوم پرستی کی تعمیر شامل ہوتی ہے جو اظہار رائے کی آزادی سمیت انسانی حقوق کے لیے مہلک ہوسکتی ہے۔ ریاستی سلامتی کی مضبوطی کے لیے کی جانے والی کوششیں اکثر دیگر انسانی حقوق کے تحفظ سے متصادم ہوتی ہیں۔
غلط معلومات سے نمٹنے کے راستے
ریاستوں و تنظیموں خاص کر یورپی یونین نے اطلاعات سے متعلقہ ایسے مواد کے خلاف قانونی اقدامات کا نفاذ کیا ہے جو نقصان پہنچانے کا اندیشہ رکھتے ہوں۔ قانون سازی کے علاوہ غلط معلومات کے اثرات کو کم کرنے کے لیے حقائق کی پڑتال نیز ذرائع ابلاغ کے بارے میں شعور کی بیداری کی شکل میں کئی عملی طریقے اور تیکنیکیں موجود ہیں۔ یہ تیکنیکیں اس سماجی لچک میں اضافے کا باعث ہو گی جو بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ اظہار رائے کی آزادی کی راہ میں مداخلت کیے بغیر غلط معلومات سے جڑے مسائل کی نشاندہی اور ان سے نمٹ سکتی ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کے پھیلاؤ کی بڑھتی ہوئی مقدار کو دیکھتے ہوئے جو کہ غیرمصدقہ اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کے امکانات بڑھاتی ہے، عملی تیکنیکوں کے نفاذ کے ساتھ ساتھ قانونی اصلاحات کو متعارف کروانا اصل ترجیح ہونی چاہئیے۔ مثال کے طور پر اس امر کی فوری ضرورت ہے کہ پاکستان کے آئین کے ترمیم شدہ آرٹیکل ۱۹ کا پورے ملک میں یکساں نفاذ کیا جائے تاکہ یہ آئی سی سی پی آر کے آرٹیکل ۱۹ سے مطابقت اختیار کر سکے اور “مناسب پابندیوں” کے دائرہ کار کو واضح طور پر بیان کر سکے۔ پیکا کے تحت متعارف کروائی گئی کسی بھی پابندی کو تناسب اور ضرورت کے اصولوں کے مطابق بھی جانچا جانا چاہئیے۔ یہ غلط معلومات کی روک تھام کے اقدامات کو یورپیئن کنوینشن برائے انسانی حقوق کی تین شرائط کے مطابق بنائے گا۔ یہاں کلیدی نکتہ اظہار رائے کی آزادی/ معلومات تک رسائی اور غلط معلومات کی روک تھام کے درمیان ایک توازن قائم کرنا ہے۔
عملی اقدامات کے ضمن میں ذرائع ابلاغ کے بارے میں بھرپور آگاہی بشمول حقائق کی جانچ اور جھوٹی خبروں کی شناخت پیدا کرنا اہم ہے۔ یہ دو مرحلوں پر کیا جا سکتا ہے: اول یہ کہ ایسے گیمز تیار کیے جا سکتے ہیں جنہیں کمسن طالب علموں میں ذرائع ابلاغ کا شعور بیدار کرنے کے لیے تعلیمی اداروں کے کمپیوٹر سائنس کے نصاب میں شامل کیا جائے اور دوئم یہ کہ صحافیوں کو آیا براہ راست ریاست یا پھر ان کے ادارے حقائق کی پڑتال کی تربیت فراہم کریں۔ پاکستان کی تقریباً ۳۵ فیصد آبادی ۱۵ برس سے کم عمر جبکہ ۶۴ فیصد آبادی ۳۰ برس سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ذرائع ابلاغ کے بارے میں شعور پیدا کرنے کی کوششیں اپنے اندر مستقبل میں تبدیلی لانے کی بڑے پیمانے پر صلاحیت رکھتی ہیں۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Asim Hafeez/Bloomberg via Getty Images
Image 2: RIZWAN TABASSUM/AFP via Getty Images