Climate-1

جنوبی ایشیا میں شدید موسمی واقعات کابڑھتا ہوا  تعدّد، آب و ہوا کے  تغیرات کے سامنے خطے کی کمزوری کو اجاگر کرتا ہے، جو بڑے پیمانے پر علاقائی نقل مکانی پرنمایاں طور پر اثر انداز ہوتاہے۔ پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے محض ۲۰۲۲ میں  ۷ ملین سے زائد افراد کو بے گھر کر دیا تھا جبکہ ۲۰۱۸ کی ورلڈ بینک کی ایک تحقیق کی پیش گوئی ہے کہ موسمیاتی لحاظ سے حساس پالیسیوں کی کمیابی  کے باعث  ۲۰۵۰ تک جنوبی ایشیا میں تقریبا ۴۰ ملین افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔۲۰۲۰ کی ایک تحقیق میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ۲۰۵۰ تک خطے میں موسمی تغیرات کے باعث بے گھر ہونے والے  افراد کی تعداد بڑھ کر ۶۳ ملین تک پہنچ سکتی ہے۔اگرچہ جنوبی ایشیا کی آب و ہوا کی شدّت و تغیرات کے باعث  ہونے والی  زیادہ تر نقل مکانی اندرونی ہے، تجربی تحقیق نے آب و ہوا سے متعلقہ  خدشات کے ردِّ عمل میں آبادی کی  سرحد پارنقل و حرکت میں اضافے  کو نمایاں کیاہے۔مثلاََ، اکثر  اور زیادہ شدید  نوعیت  کے سیلاب آنے اور زمین میں نمکیات کے دخول (سیلینٹی  انگریشن) کے سبب زمینوں اور معاش کے نقصان کو  بنگلہ دیش سے ہندوستان نقل مکانی  کے اہم عوامل  کے طور پر دیکھا گیا ہے۔

ہندوستان، خطے میں ایک اہم کھلاڑی  کی  حیثیت سےاور  تغیرِآب و ہوا کے سبب بے گھر افراد کے لئے ایک اہم منزل ِ مقصود کے، جنوبی ایشیا کے منفرد سیاق و سباق کے تناظر میں تغیرِ آب و ہوا کے باعث  ہونے والی نقل مکانی کے  ایک موزوں اور واثق  پیراڈائم پر زور دے سکتا ہے۔سوئٹزرلینڈ اور ناروے کی حکومتوں کی جانب سے شروع کیے گئے ۲۰۱۲ کے نانسین انیشی ایٹو کی طرز پر دیگر اسٹیک ہولڈرز کی فعال شمولیت کے ساتھ، ریاست کے زیرِ قیادت مشاورتی فورم متعدد امور پر علاقائی معیارات کو فروغ دینے اور ہم آہنگ کرنے میں مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ ان میں تغیرِ آب و ہوا کے سبب بے گھر ہونے والے افراد کے داخلے اور قیام کے لئے بہترین طریقۂ کار، انسان دوست  طریقہ کار کا استعمال،  تغیرِ آب و ہوا کے  تحت نقل و حرکت سے نمٹنے کے لئے مالی اعانت کو متحرک کرنا، بے گھر ہونے والے افراد کے لئے طویل مدتی حل، اورنقل مکانی بوجہِ تغیرِ  آب و ہوا کے ہنگامی حالات کے لئے منصوبہ بندی شامل ہیں۔

بین الاقوامی قانونی نظام میں تحفظ کے راستے

بین الاقوامی قانونی آلۂ کار براہ راست ان لوگوں کی نقل و حرکت کو، جو تغیرِ آب و ہوا سے متعلقہ  نقصانات کے بعد یا اس کی توقع میں سرحدیں پار کرتے ہیں، براہِ راست حل نہیں کرتے۔ اقوام متحدہ کا ۱۹۵۱ کا پناہ گزینوں کی حیثیت سے متعلقہ کنونشن، جسے اس کے ۱۹۶۷ کے پروٹوکول کے ساتھ ملا کر پڑھا جاتا ہے، صرف ان لوگوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے جو “حقائق پر مبنی ظلم و ستم کے خوف” کے ان پانچ عوامل میں سے کسی پر پورا اُترتے ہیں: نسل، مذہب، قومیت، سیاسی رائے، یا کسی خاص سماجی گروہ کی رکنیت۔  مزید برآں، یہ تعریف اپنے آبائی ملک سے باہر کے افراد کے تحفظ کے دائرہ کار کو محدود  کرتی ہے، جو اپنے ہی ملک کی حکومت سے تحفظ حاصل کرنے سے قاصر ہیں یا لینے پر  تیار نہیں ہیں۔ تغیرِ آب و ہوا کے متعلقہ اثرات کی وجہ سے بے گھر ہونے والے بہت سے اندرونِ ملک بے گھر افراد (آئی ڈی پیز) کے تحفظ کے آلہِ کار  کے تحت تسلیم کیے جانے کے اہل نہیں ہیں، بشمول ۲۰۰۹ کے تاریخی کمپالا کنونشن کے جو پہلا براعظمی معاہدہ ہے جس کا مقصد آئی ڈی پیز کا تحفظ اور ان کی امداد ہے۔ علاوہ ازیں، بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت “کمپلیمنٹری پروٹیکشن” کا طریقۂ کار بھی ان لوگوں کو تحفظ کی ٹھوس ضمانت فراہم نہیں کرتا جو روایتی پناہ گزین کی  تعریف پر پورا اترنے میں ناکام رہتے ہیں۔

تاہم، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کا ۲۰۲۰ کا فیصلہ ایونے ٹیشیوٹا بمقابلہ  نیوزی لینڈ نے مستقبل کی قانونی ترقی اور پالیسی اصلاحات کے دروازے کھول دیے۔کمیٹی نے تسلیم کیا کہ  تغیرِ آب و ہوا درحقیقت کسی شخص کی زندگی کے حق سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے – جس میں عدم واپسی کے اصول کو لاگو کیا جاتا ہے – جو ایسی جگہ پر جلاوطنی سے تحفظ فراہم کرتا ہے جہاں پناہ گزین کو “حقیقی خطرہ” لاحق ہو یا اس کی زندگی اور آزادی  کو نقصان کا خدشہ ہو۔لہٰذا اس فیصلے سے ٹیشیوٹا کو ان کے آبائی ملک کیریباتی  کی جانب بے دخلی سے تحفظ  کا امکان پیدا ہو گیا، جہاں سمندر کی سطح میں اضافے نے استدلالی طور پر ایک ‘ناقابل دفاع اور پرتشدد ماحول’ پیدا کر دیا تھا۔

تغیرِ آب و ہوا کے سبب  حرکت پذیری کے لئے  علاقائی اتفاق رائے کو فروغ دینے کے لئےایک تکثیری نقطہ نظر

قانونی طور پر،  یہ چیلنج  تغیرِ  آب و ہوا کے سبب نقل مکانی کو کسی خاص واقعے کی واحد وجہ کے طور پر الگ کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک طرف تو  یہ اخلاقی بےقاعدگی  کے خدشات کو جنم دیتا ہے – مثلاََ ،تغیرِ آب و ہوا سے بے گھر ہونے والے افراد کے تحفظ اور وسائل کی کمی یا معاشی عدم تحفظ جیسے خطرات سے بھاگنے والے مجبور تارکین وطن کے تحفظ کے درمیان عقلیت پسندانہ رویہ اختیار کرنے میں دشواری۔ دوسری طرف، نقل مکانی سے منسوب یہ واحد وجہ تغیرِ  آب و ہوا کے سبب حرکت پذیری  کی پیچیدگی اور سیاق و سباق کے تغیر کو بھی نظر انداز کرتی ہے۔موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بین الحکومتی پینل نے ۲۰۱۸ میں “گلوبل وارمنگ ۱.۵ ڈگری سینٹی گریڈ” کے موضوع پر اپنی خصوصی رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے لوگوں کی نقل مکانی کے پیچھے موجود سماجی، معاشی اور ماحولیاتی عوامل پیچیدہ اور متنوع ہیں۔ لہذا، اس کو نمایاں آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات سے منسوب کرنا ایک چیلنج ہے۔ مزید برآں، ۲۰۱۸ کی ایک تحقیق  کا نقطۂ عروج  اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے لیے پناہ گزینوں کے قانون پر مبنی بین الاقوامی تحفظ کے نظام کو مضبوط بنانے کے لیے سفارشات کا ایک مجموعہ تھا، جس میں  ــ’’نیکسس ڈائنیمیکس‘‘ کے کردار کو تسلیم کیا گیا،ایک ایسا سیاق و سباق  جس میں پہلے سے موجود تنازعے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سماجی کمزوریاں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو بڑھا سکتی ہیں، یا اس کے برعکس۔

تغیرِ آب و ہوا کے سبب حرکت پذیری کے بارے میں مرکزی دھارے کو  تغیرِ  آب و ہوا سے متعلقہ پناہ گزینوں کے تصور اور، بالخصوص ایسے افراد کو  ایک علیحدہ قانونی وجود کے طور پر تسلیم کرنے کی فکر ہے۔اس سے تغیرِ آب و ہوا کے سبب بے گھر ہونے والے افراد کو اُصولی یا حق کے طور پر تحفظ حاصل کرنے میں مدد ملے گی – جو کہ ان کی طرف سے  عالمی برادری پر واجب الادا ہے۔ اس کے حصول کا ایک ذریعہ قانونی طور پر واجب بین الاقوامی معاہدہ یا کنونشن ہوگا۔ تاہم، ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکنے کی یہ منطق  جوتغیرِ  آب و ہوا کے سبب  بے گھر ہونے والے تمام افراد کو (ان کی نقل مکانی کے انوکھے حالات کو پرکھے بغیر) مخصوص برادریوں کی ضروریات کو مناسب طور پر پورا کرنے میں ناکافی ثابت ہوسکتی ہے۔

اس کے برعکس،  تغیرِآب و ہوا کے سبب حرکت  پذیری کے بارے میں ایک تکثیری نقطہ نظر  یہ تسلیم کرتا ہے کہ مختلف ادارے اور مختلف طرز عمل تغیرِآب و ہوا کے سبب حرکت  پذیری  کے مختلف واقعات سے نمٹنے کے لئے مناسب اور موزوں ہوں گے، اور ان مخصوص اداروں اور طریقوں کو ترقی دینے اور ان میں اصلاحات لانے  کی کوشش کرتا ہے۔ 

مثلاََ، غیر معمولی بارش اور خشک سالی کی وجہ سے اپنے گھروں سے بھاگنے والی کسان برادری مزدوروں کی موسمی نقل مکانی اور آمدنی میں تنوع کی پالیسیوں سے فائدہ اٹھا سکتی ہے، جبکہ سمندر کی سطح میں اضافے کےخطرے سے دوچار ڈیلٹا علاقے کی برادری امیگریشن اور نو آبادکاری کے پروگراموں سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مغربی افریقہ میں  مویشیوں کی سرحد پار منتقلی کے انتظامات (کراس بارڈر ٹرانس ہیومنس ارینجمنٹ)، بشمول علاقائی میکانزم جو چرواہوں اور مویشیوں کی نقل و حرکت کو منظم کرتے ہیں، عام ہیں۔

تکثیری نقطۂ نظر کو اپنانے اور نقل مکانی پر قابو پا کر، اُسے ایک موثر حکمت عملی کے طور پر استعمال کرکے، جنوبی ایشیا ماحولیاتی نقل مکانی سے نمٹنے کے لئے ادارہ جاتی بنیادی ڈھانچے (انفرااسٹرکچر) اور طریقۂ کار کو وضع کرنےکے لیے علاقائی اتفاق رائے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

نئی دہلی کے لیے برتری حاصل کرنے کا موقع

ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق، بنگلہ دیش میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ممکنہ طور پر قانونی اور غیر قانونی طور پر  ہندوستان کی ہمسایہ ریاستوں – خاص طور پر مغربی بنگال، آسام اور تریپورہ – کی طرف مستقل اور عارضی سرحد پار نقل مکانی میں اضافے کا سبب بنیں گے۔ خاص طور پر،  بنگلہ دیش کا سندربن ڈیلٹا، آب و ہوا کے حوالے سے ایک حساس اور اہم  ہاٹ اسپاٹ ہے اور اس کے باشندے نہ صرف غیر رضاکارانہ نقل مکانی کے خطرے سے دوچار ہیں، بلکہ  اسمگلنگ اور جدید غلامی جیسے اس کے ذیلی  اثرات کا بھی شکار ہیں۔ بھارتی ریاستوں اتر پردیش اور بہار کی سرحد سے متصل نیپال کے ترائی میدانی علاقوں میں بار بار آنے والے سیلاب سے مقامی آبادی کی سرحد پار ہندوستان  منتقلی  میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ دستیاب اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ نیپال سے ہندوستان کی طرف “موسمی نقل مکانی” – جو بہت سے نیپالیوں کے روز گار کے لئے اہم ہے – آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے مزید بڑھ سکتی ہے۔ مالدیپ اور سری لنکا دونوں کو سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح سے ماحولیاتی دباؤ کا سامنا ہے اور توقع ہے کہ اس کی وجہ سے آبنائے پالک کے پار ساحلی ریاست تامل ناڈو سمیت ہندوستان کی طرف نقل مکانی میں اضافہ ہوگا۔

  پناہ گزین کنونشن (۱۹۵۱) یا اس کے ۱۹۶۷ کے پروٹوکول پر ملک کے دستخط کرنے سے مسلسل انکار کی روشنی میں، ہندوستانی حکومت کی پناہ گزین پالیسی ایڈہاک ایگزیکٹو فیصلوں اور عدالتی فیصلوں کے امتزاج پر مشتمل ہے۔ بین الاقوامی اتفاق رائے کی کمی کے باعث، ہندوستان کے پاس تغیرِ  آب و ہوا کے تارکین وطن کے لئے جنوبی ایشیا کی پالیسی نظام میں تحفظ  کی کمی کو دُور  کرنے کا ایک نادر موقع موجود ہے۔ اسے تغیرِ آب و ہوا کے سبب بے گھر ہونے والے افراد کے تحفظ کے لئے ایک انکلوسو (سب کو شامل کرنے والا) فریم ورک کے لیے  تگ و دو کرتے ہوئے، ادارہ جاتی اصلاحات اور عمدگی سے طے شدہ گورننس معیارات کے ذریعے ایسا کرنا چاہئے۔ ہندوستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ خطے میں کثیر الجہتی گفت و شنید کا آغاز کرنے میں قائدانہ کردار ادا کرے تاکہ اس طرح کی گورننس  کے سسٹم  کو فروغ دیا جاسکے۔ اس میں ضرورت پر مبنی حل جیسے انسانی ہمدردی پر مبنی ویزے، منصوبہ بندی کے تحت منتقلی، اور نو آبادکاری کے پروگراموں کو ادارہ جاتی شکل دینا شامل ہوسکتا ہے۔اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ  نقل و حرکت کے اُبھرتے ہوئے ضابطۂ کار اور ریاستی صلاحیتوں کے منصفانہ جائزے کے ڈیٹا کی بنیاد پر بوجھ بانٹنے کے انتظامات  ممکنہ طور پر ایک ایسے خطے میں ماحولیاتی امن کی تعمیر کا باعث بن سکتے ہیں جو  ماحولیاتی طور پر دیگر ممالک کے ساتھ جڑا ہوا ہے لیکن جغرافیائی۔سیاسی طور پر اندرونی قومیت کے رجحانات کے ساتھ ریاستوں میں منقسم ہے۔

بین الاقوامی اتفاق رائے کی کمی کے باعث، ہندوستان کے پاس تغیرِ  آب و ہوا کے تارکین وطن کے لئے جنوبی ایشیا کی پالیسی نظام میں تحفظ  کی کمی کو دُور کرنے کا ایک نادرموقع موجود ہے۔ تاہم عملی طور پر، تغیرِ آب و ہوا کے سبب نقل مکانی جیسے معاملات پر تعاون کو اکثر جغرافیائی۔سیاسی  اور روایتی سلامتی کی ترجیحات کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ 

جنوبی ایشیا میں  غیر ملکیوں  کے خلاف بڑھتے ہوئے جذبات اور بھارت کے ۲۰۱۹ کے سیٹیزن امینڈمنٹ ایکٹ (شہریت کا  ترمیمی قانون) جیسے متنازعہ قومی قوانین کے پس منظر میں، یہ سمجھنا دانشمندانہ ہے کہ تغیرِ آب و ہوا کے سبب حرکت پذیری پر علاقائی فریم ورک کی کامیابی کا انحصار جزوی طور پر اس کی بے گھر افراد کے تحفظ کی اپنی ذمہ داریوں کو خطہ کی ترجیحات کے ساتھ متوازن کرنے کی صلاحیت پر ہو گا۔ یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ اگرچہ اس وقت کوئی بھی تعمیری قدم اٹھانے کی سیاسی خواہش کا فقدان ہے، تاہم ہندوستان جیسے ممالک کی سیاسی قیادت واجب الادا ذمہ داریوں کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھاتی نظر آتی ہے۔

لہٰذا صرف خطے بھر میں ہونے والی بات چیت ہی جنوبی ایشیا کو موسمیاتی تبدیلی اور نقل مکانی کے مسئلے کو مؤثر طریقے سے حل کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Mohammad Shajahan/Anadolu Agency via Getty Images

Image 2: Noah Seelam/AFP via Getty Images

Share this:  

Related articles